Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۹۲

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۹۲
آخری باب
"میدانِ حشر"

"عامر مذاق بہت ہوگیا دیکھیں میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں اور آج مُجھے آپ سے تعریف چاہیے ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی..."
اُس نے نروٹھے پن سے کہتے ہوئے رُخ بھی موڑ لیا.....

امان نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرلیا۔۔۔
وہ کہاں دیکھ سکتا تھا اُسے اِس حال میں...

"عامر اُٹھیں نا عامر...."
طیات نے مان سے کہا اُسے پوری اُمید اور یقین تھا کہ اُس کی ایک پُکار پر لبیک کہنے والا وُہ شخص آج بھی ساری حدیں سارے فاصلے مٹاتا اُٹھ کھڑا ہوگا....
مگر اُس یہ کا مان آج ٹوٹنا تھا ٹوٹ گیا وُہ جس جگہ جاچکا تھا وہاں سے واپسی نا ممکن تھی....

"آپکو میری قسم ہے عامر اُٹھیں پلیز عامر یوں مذاق نہ کریں یوں نہ سوئے بنیں رہیں مُجھ سے لا تعلق نہیں ہوسکتے آپ..."
اپنی کم مائیگی کا احساس اُسے اب ہورہا تھا وہ بے حیثیت تھی اُس شخص کے سامنے کل تک جس کی زیست کا وُہ محور ہوا کرتی تھی...
طیات کی آواذ بلند ہونے لگی تھی..

"میں آخری بار کہہ رہی ہوں عامر پلیز اُٹھ جائیں ورنہ... ورنہ..."
بے بسی اور اذیت کی انتہا تھی وُہ عذر تلاش رہی تھی جس سے دھمکا کر وُہ اُس کے مردہ وجود میں زندگی پھونک دے...

" طیات سنبھالو خود کو میرے بچے..."
امان نے اُسے زبردستی اُٹھا کر کھڑا کیا....

ہر چشم آب تھا ہر دِل دُکھی...

"بھائی آپ بولیں عامر آپکی بہت عزت کرتے ہیں آپکو تو بہت مانتے ہیں آپ کہیں گے تو اُٹھ جائیں گے آپ بولیے نا اِنہیں اٹھتے کیوں نہیں ہیں یہ...."
وُہ امان کے بازؤں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی...
"وُہ جا چکا ہے میری جان...."
"نہیں...نہیں...نہیں...پیچھے ہٹیں آپ..."
طیات نے اسے پیچھے دھکیلا پھر عامر کی طرف بڑھی...

"آپکو اُٹھنا ہوگا عامر آپ نہیں جاسکتے... عامر اُٹھیں پلیز عامر پلیز میں نہیں جی پاؤں گی عامر...."
وُہ اُسکے بے جان وجود کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی جس کو کُچھ خبر نہ تھی مگر روح منوں بوجھ آ گرا تھا....

"میت اُٹھانے کا وقت ہوگیا ہے..."
حاضرین میں سے کسی نے طیات کی سماعتوں
میں گویا صور ہی پھونک دی...

"کہی نہیں جائیں گے اور میت میت کیا لگا رکھا ہے یہ عامر ہیں میرے شوہر میرے عامر..."
اُس نے یقین کرنا چاہا یا دلانا چاہا...

"ایان سنبھالو اسے میرا دِل پھٹ جائے گا۔۔۔"
امان نے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا...
"پاپا..."
حماد آنکھیں ملتا ہوا سیڑھیاں اُترتا ہوا آرہا تھا...

طیات کی آنکھوں میں ایک چمک اُبھری تھی  وُہ بھاگ کر حماد کے پاس پہنچی اور اُسے گود میں اُٹھا لیا اور دوگنی تیزی سے سیڑھیاں اُتر کر ہال کے بیچوں بیچ رکھے جنازے کے پاس رکی....

"اب تو اُٹھنا ہی پڑے گا آپ کو حماد تو آپکی جان ہے نا اُس کی بات نہیں ٹالیں گے آپ میں جانتی ہوں آپ بہت پیار کرتے ہیں حماد اور فاطمہ سے مجھ سے بھی زیادہ یہ اِنہیں پیار کرتے ہیں...."
اُس نے مسکراتے ہوئے سب سے کہا...
"حماد پاپا کو بلاؤ..."
طیات نے حماد کو جنازے کی ڈولی پر جھکاتے ہوئے کہا...

منظر تھا کہ پتھر دِل پگھل گئے کہ بے بسی کی مکمل تصویر تھی منظر روح فرسا کہ ہر روح و رواں دم بخود اور ساکت تھی روحِ رواں تڑپ گئی تھی جھٹ پٹا رہی تھی اور اذیت کا یہ تحفہ عامر کو اُس کی متاع جان نے دیا تھا....

"بولو پاپا..."
اُس کی حالت جنونی تھی...

حماد کی نہ سمجھ کفن کے نیچے کون تھا مگر جس شخص کی بانہوں کی تلاش جس شخص کی گود کی تڑپ اُسے کھینچ لائی تھی اُسے نا پا کر وُہ سارے بندھ توڑتا رو دیا... "بے تحاشہ"

"شش.. شش..پاپا کو بلاؤ وُہ سو رہے ہیں..."
حماد مسلسل رو رہا تھا...
"بلا پاپا کو بلا... بلاتا کیوں نہیں...."
طیات نے اُسے لیے ہی نیچے بیٹھتی گئی...
"بُلا..."
وُہ زور سے چیخی....
یک بیک وہ حماد کے چہرے کو پیٹنے لگی....

"بُلا پاپا کو بُلا۔۔۔"
وُہ اب اپنا سر ڈولی کے کنارے سے پٹخ رہی تھی...
اُس کی آنکھیں بنجران تھی ایک آنسو نہ نکلا تھا...
وُہ ضبط کی حدوں کو چھو رہی تھی...

"نہیں جاسکتے آپ..."
اُس کے پپڑی زدہ ہونٹوں سے بڑبڑاہٹیں تڑپ تڑپ کر خراج پاتی تھی...
اُسکی گود میں چڑھنے کی کوشش کرتا حماد زارو قطار رو رہا تھا ایک معصوم سی پُکار تھی چھوٹی سی تو فریاد تھی اُسے اپنے "پاپا" کے پاس جانا تھا...

امان نے خود کو بروقت سنبھالا اور فوراً حماد کو جا لیا اور نمرہ کو دے دیا پھر طیات کے پاس آیا...

"اُٹھو..."
وُہ زور سے بولا...

"دیکھیں عامر بھائی بھی بول رہیں ہیں اب تو اُٹھ جائیں..."
وُہ دوبارہ بولی اُس کی ہر بات عامر کو اُٹھنے پر  اُکسانے سے شروع ہوکر اُسی پر ختم ہوتی تھی کُچھ رہا ہی تو نہ تھا اب اُس کی زندگی میں وُہ دھنک کی سی حیثیت رکھتا تھا اُس کی زندگی میں وہی زندگی کو بے رنگ جو کرگیا تھا...
مگر اُس کی ہر بات ہر لفظ ہر حرف بے ارتھ تھا...

نزہت بیگم صم بکم تو جوان کی موت نے اُن پر سکتہ طاری کردیا...

" طیات اُٹھو..."
آنسوؤں کا گولہ گلے میں پھنسنے لگا تھا.. 

"اُٹھیں عامر..."
وُہ ہر بار ایک نئی اُمید سے پکارتی ہر بار اُس کی پکار بے نیل مرام  واپس آتی...

"میرے بچے  اُٹھو طیات میری جان جانے دو اُسے..."
امان نے اُسے سینے سے لگانے کی کوشش کی...

"نہیں بھائی نہیں..."
اس پر پھر جُنوں سوار ہونے لگا...
وُہ اُس سے الگ ہو ہو کر حماد کی طرف بڑھتی...
امان کا ہاتھ اُٹھا اور اُس کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا...

"پاگل مت بن ہوش کرو طیات تمہیں پتا بھی ہے تُم کیا کر رہی تھی وُہ تین سال کا معصوم بچہ ہے اور تُم..."
امان نے اس کو سختی سے دبوچ کے اپنے سامنے کیا...

"اِدھر دیکھو طیات میری طرف دیکھو.."
وُہ عامر کے کفن میں ملبوس وجود کو ہی تک رہی تھی اور سر کو مسلسل نفی میں ہلا رہی تھی...

"میری طرف دیکھو..."
امان چیخا۔۔۔
اُس کا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف کیا....

"میری آنکھوں میں دیکھو طیات..."
اور وُہ جانتی تھی اُن آنکھوں میں دیکھنے کا مطلب شکست تھی جو فریب جو بہلاوے خود کو دے رہی تھی وُہ اُن آنکھیں میں دیکھتے ساتھ ہی اپنی موت آپ مر جاتے حقیقت سے فرار چاہتی تھی وُہ مگر حرماں نصیب "طیات حیدر" کا مقدر نجانے کس سیاہی سے لکھا گیا تھا زندگی پر پھر سیاہی چھاگئی تھی...

اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں اُس نے شکست تسلیم کرلی وُہ امان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی...
پھر نہ امان نے کُچھ کہا نا اُس نے...
بہتے آنسوؤں کو امان نے صاف نہیں کیا بس آگے بڑھ کر اُسے اپنی آغوش میں چھپا لیا...

"بھائی..."
طیات نے سختی سے اُسے پکڑ لیا...
امان اُس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا اُس کے پاس وُہ لفظ ہی کہاں تھے جو اُس کے دُکھ کا مداوا اور روح پر لگے زخموں کا مرہم کرتے.....

"میں برباد ہوگئی کتنی حرماں نصیب ہوں میں  کتنی کیوں مُجھے خوشیاں راس نہیں ایسا کیا گناہ ہوا ہے مُجھ سے کہ میرے امتحان ختم ہی نہیں ہوتے..."
وُہ اُس کے سینے سے سختی سے لگی تھی مانو دِل چیر کر اندر جا بیٹھے گی...

وُہ اُس کے سینے پر اپنے ہاتھ برسا رہی تھی الگ ہونے کی ناکام کوشش کرتی امان ہر کوشش کے ساتھ گرفت اور سخت کردیتا....
ہاتھ میں پہنی چوڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر ماربل کے فرش پر دور تک پھیلتی چلی گئیں...

"بھائی میرے ساتھ ہی کیوں..."
وُہ تھک کر اب بلک رہی تھی...

"صبر کرو بیٹا صبر..."
وُہ محض اتنا ہی کہہ سکا...

"چہرہ دیکھ لیں آخری بار سب..."
وہاں موجود ایک آدمی نے با آواز بلند کہا...
لفظ "آخری" پر طیات اور نزہت خاتون اندر تک لرز گئیں تھیں...
کوئی اُس ماں سے پوچھے جسے صبح و شام دیکھنے کی عادت ہوں جس کی بیماری میں رات رات بھر جاگنے میں راحت ہو جسے دیکھ کر زندگی کے لمحے سیکنڈز منٹز گھنٹے مہینے اور سالوں گزارے ہوں کوئی اُس عورت سے پوچھے جسے اپنے بغل میں سوتا دیکھ کر ایک ہمسفر کی راتیں ڈوبتی ہوں جسے
دیکھ کر دن چڑھتا ہو جس کے ساتھ حسین یادیں وابستہ ہو وُہ جو اُس کا لباس ہو جو اُس کا مان ہو جسے دیکھنے کی ضرورت ہو جس سے محبت ہو جس سے عقیدت ہو جس کی محبت کسی کا کُل سرمایہ ہو جو کسی کے بڑھاپے کی لاٹھی ہو وُہ کس دِل سے اُس اِنسان کو "اخری" بار دیکھے....

چہرے سے کف ہٹایا گیا تو جیتے جی اُسے لامتناہی درد تکلیف کا کفن پہنایا گیا اُن آنکھوں نے یہ گناہ بھی کر ہی دیا وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ جس کو دیکھنے سے قبل آنکھوں کی روشنی بجھ جانے کی دعا کی تھی۔ وہ لمحہ بھی زیست نے اس کی جھولی میں ڈال ہی دیا تھا کہ جس کا تصور کرنا بھی اسکے کیے سوہان روح تھا۔
وہ کیسی حرماں نصیب تھی کہ جب حیات کے ہونے کا یقین ہوگیا تو شمع حیات گل کر دی گئی...جب آنکھوں کے کینوس پر اذیت کی سیاہی گری تو تصویر بنتی گئی... وُہ قیامت سی قیامت کی تصویر.....

نزہت خاتون ایک کے بات دوسری دفعہ دیکھ ہی نا پائی ہوش کی دُنیا سے ناطہ توڑ گئیں...
ناظمہ خاتون اُنہیں سنبھالتی نیچے فرش پر بیٹھ گئیں اُن سے بھی کہاں دیکھا جانا تھا یہ منظر....

جن کانوں میں کل تک محبوب کے حُسنِ سماعت کی چاشنی تھی جن سے اُس کی دِل کی ایک ایک دھڑکن کو سُنتا تھا دِل کی پُکار پر لبيك کہتا تھا آج وُہ بھی تو بند تھے....

وہ اپنی بے نور آنکھیں اُس کے بے جان چہرے پر کی ہوئی تھی آنکھوں کے سامنے اُس چہرے پر ٹہری مسکراہٹ تو ہلتے لب بدلتے زاویوں کی تصویر تھی جو خمار آلود آنکھیں اُسے مد ہوش کرنے کی صلاحیت رکھتی جو سیدھی دِل میں اُترتی تھیں اور اندرون سب جان لیتی تھیں جس کی سیاہی کی وہ اسیر تھی جن آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کئی راتیں گزری تھیں وُہ اب "بند" تھیں...

ناک کے وُہ راستے جن سے اُس کی خوشبو اپنے اندر اتارتا تھا اپنا وجود مہکاتا تھا جن سے خراج پاتی حدت وُہ اپنے چہرے پر ابھی بھی محسوس کر رہی تھی... آج وُہ راستے بند تھے....
جن لبوں پر ٹہری مسکراہٹ کی وُہ دیوانی تھی جن کی ہلنے کی جن سے کی جانے والی حرکات و سکنات کو لمحہ بہ لمحہ گنتی تھی جن لبوں پر اُس کو دیکھتے ہی مسکان آجاتی تھی جن لبوں کو اجازت تھی اُس تک آنے کی جن لبوں سے لیا گیا اُس کی پیشانی کا آخری بوسہ اور اُس کی ٹھنڈک ابھی بھی محسوس ہورہی تھی یکطرفہ محبت کی ان گنت نشانیاں جن سے اُس کی روح تک سرشار تھی اُن لبوں کو اب نہ اجازت تھی ہلنے کی محبوب سامنے تھا مگر عامر بے بس ترین تھا وُہ گستاخی کرگیا مسکان نہ لانے کی....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro