Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۹۰

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۹۰
آخری باب
"میدانِ حشر"

نظروں سے اوجھل ہونے پر اُس نے سر گاڑی سے اندر کیا اور پشت سیٹ سے ٹکا دی...
"طیات میں آپکو بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا..."
اُس نے خود سے کہا....

گاڑی سڑک پر دوڑے جارہی تھی پیچھے دھول اُڑاتی....

تقریباً دوپہر ۱ بجے وُہ گاؤں  میں پہنچا تھا جہاں وکیل پہلے سے ہی اُس کا منتظر تھا...

"بہت معذرت سر آپکو یہاں آنا پڑا مگر حالات اب بد سے بدتر ہورہے ہیں اُن لوگوں نے زمین پر قبضہ کرلیا ہے.."

"ایسے کیسے یہ لوگ قبضہ کرسکتے ہیں وہ میرے پاپا کی زمین ہے اور میری مرضی میں اُس پر کُچھ بھی بنواؤں..."
عامر شدید غصے میں تھا....

"سر لوگ اُس زمین پر قبضہ کر کے فیکٹری بنانا چاہتے ہیں آپ پیپرز لے کر آئے ہیں نہ زمین کے..."
وکیل جواد نے سوال کیا۔۔

"ہاں لے کر آیا ہوں..."
عامر نے فائل دیتے ہوئے کہا....

"اب ہم یہ پیپرز کل کورٹ میں جمع کروا کر زمین پر سے اُن کا قبضہ خالی کروا لیں گے..."
جواد نے پیپرز کو دیکھتے ہوئے کہا....

"میں ملنا چاہتا ہوں اُن لوگوں سے..."
عامر نے ہوٹل والے کو چائے لانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا....

"آپ نہیں ملیں عامر وُہ لوگ بہت خطرناک ہیں ہم قانونی کروائی کر کے اُنہیں ہرا دیں گے مگر ابھی آپکا وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں..."
جواد نے اُسے خبردار کیا....

گاؤں سے کُچھ دور کے فاصلے پر عامر کے والد کی ایک وسیع پیمانے پر پھیلی بنجر زمین تھی جس پر عامر نے ہسپتال اور اسکول  بنانے کا سوچا تھا مگر گاؤں کے زمین دار اُس جگہ کو خرید کر اُس پر فیکٹری بنانا چاہتا تھا اور عامر زمین کو بیچنے پر آمادہ نہیں تھا ایک عرصے سے اُن لوگوں کر درمیان زمین کو لے کر بحث رہی عامر کا فیملی کے ساتھ گاؤں آنا بھی اسی معاملے کی ایک کڑی تھی.....

"میں پھر بھی مِلنا چاہوں گا..."
عامر نے بغور جواد کو دیکھتے ہوئے کہا جو گھبرایا ہوا دکھ رہا تھا....

"آپ اِن چیزوں سے دور رہیں  میں یہ سب دیکھ لوں گا..."
وُہ  اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولا...

"ٹھیک ہے میں آج رات یہی رکوں گا اور صبح ہم دونوں ساتھ جاکر کورٹ میں یہ فائل جمع کروائیں گے..."
عامر نے اُس کے آگے سے فائل کھینچ کر اپنی طرف کی....

"سر آپ کیوں ٹینشن لیتے ہیں ..."
"کوئی بات نہیں میری چیز ہے مُجھے ہی دیکھنا ہے آپ بس باقی کی کاروائی مکمل رکھیں...."
اُس کی زیرک نگاہوں نے جواد کی غداری بھانپ لی تھی....

"جی بہتر..."
جواد صرف اتنا ہی کہہ سکا....

"چلیں ٹھیک ہے پھر میں گھر جارہا ہوں کل صبح ملاقات ہوتی ہے..."
عامر کہہ کر اُٹھ گیا...
جواد اُس کے جاتے ہی کسی کو کال ملانے لگا....

اِس سب میں شام ہوگئی وُہ کھیتوں اور زمین سے ہوکر جب حویلی پہنچا تو شدید تھکا ہوا تھا۔۔۔

"رحیم بابا کھانا لگادیں بہت بھوک لگ رہی ہے..."
اُس نے صوفے پر ہی لیٹتے ہوئے کہا....

"بیٹا ایک بات کہوں..."
اُنہوں نے محبت سے کہا...

"جی ضرور بولیں کیا بات ہے..."
عامر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا....

"کیوں آپ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے ہم لوگوں کے بارے میں سوچتے سوچتے کہی آپ کو کچھ ہوگیا تو..."
فکرمندی لہجے میں نمایاں تھی....

"بابا موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں اگر ہم موت کے خوف سے جینا چھوڑ دیں گے تو کیا یہ بزدلی نہیں اور میرے پاپا کا خواب تھا اُس زمین پر ہسپتال بنانا میں اُن کی خواہش ہر صورت پوری کروں گا....پاپا نے ایک عمر اِس مٹی سے لگ کر گزاری ہے وہ اکثر مُجھ سے کہا کرتے تھے  اگر گاؤں میں ہر طرح کی سہولت گم پہنچا دے تو لوگوں کی گاؤں سے شہر کی جانب نقل وحمل کو روکا جا سکتا ہے..."
عامر نے عزم سے کہا.

گاؤں میں صحت جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں اس کے علاوہ روزگار کے مسائل الگ سے ہیں ابھی بھی کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو تی ہے اس کے علاوہ گاؤں سے شہر تک آنے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں ہے کچی سڑکیں ہیں اگر کسی مریض کو شہر تک لے کر آئیں تو پہنچتے پہنچتے وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے....
اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے آبادی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے وسائل کو بھی بڑھانا ہو گا تا کہ دونوں کے درمیان ایک تناسب رہے اور مُجھے اپنے بابا کا خواب پورا کرنا ہے..."
عامر نے رسانیت سے کہا....

"ٹھیک ہے بیٹا جیسی آپکی مرضی میں تو صرف دعائیں ہی کرسکتا ہوں..."
وُہ اُس کو پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے چلے گئے...

"میرے ساتھ آپ بھی تو ہونگی ڈاکٹر طیات عامر..."
اُس نے اپنی آنکھوں میں بسے طیات کی عکس سے کہا...

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"تُم کیا کہہ رہے ہو ابوبکر ایکسیڈنٹ راحیل کا..."
اقراء چیخی تھی....

"آپی خود کو سنبھالیں ریسکیو ٹیم اُنہیں نکالنے کی کوشش کر رہی ہے سب ٹھیک ہوجائے  بس آپ خود کو سنبھالیں..."

"کیسے سنبھالوں میں خود کو میرا بچہ کتنی تکلیف میں ہے ابوبکر..."
اقراء رونے لگی....

ابوبکر نے فون بند کردیا اُس کے پاس وُہ الفاظ نہیں تھے جن سے وُہ اُسے تسلی دے سکتا....

ریسکیو ٹیم اب گاڑی کا اوپری حصہ کاٹ رہی تھی گاڑی ذرا سی بھی ہلتی راحیل کو بائیں طرف اُتری ہوئی اذیت دِل کے قریب اور قریب ہوتی محسوس ہورہی تھی...
بس ایک سوال تھا جو مسلسل اُس کی ذہن میں گردش کر رہا تھا... " کہ وُہ اب تک زندہ کیوں ہے کیوں اُسے نجات نہیں مل رہی  اور کتنی سزا باقی ہے..."

موت آنکھوں کے سامنے تھی مگر شاید موت بھی اُسے اِس قابل نہ سمجھتی تھی کے آ لے....

اُسے مسلسل ۸ گھنٹے ہوچکے تھے درد کرب کی منزلیں طے کرتے ہوئے مگر جب بھی اُسے لگتا یہ انتہا ہے کوئی طاقت پوری قوت سے اُسے ابتداء پر لا پٹختی..."

اذیت کیا تھی کوئی اُس  سے پوچھتا وقت جو راحیل کے لیے ٹہر گیا تھا....

"یہ اذیت نہیں ہے راحیل اذیت وُہ تھی جو ایک معصوم اپنی جان پر سہہ گئی تمہاری ہوس کی اذیت..."
"اذیت وُہ تھی جو تمہاری تہمت نے  کسی کو دی تھی بدکردار لفظ کی اذیت... اُن لفظوں کی اذیت.... تُم ایک بدکردار عورت ہو طیات جسے مردوں کی ہوس ہے.... جسمانی اذیت تو ختم ہو ہی جانی ہے ایک وقت کے بعد مگر لفظوں کی زیادتی اُن کی تباہیاں ساری عمر رہتی ہیں وُہ کتنوں کو بے حساب اذیت دینے والا راحیل آفتاب آج اپنے دام میں آیا تھا....
ذہن وفکرکوجھنجھوڑنے والی یہ دنیابھی کس قدرعجیب ہے!
ہر لمحہ قدرت کی کرشمہ سازیاں میرے سامنے ظہور پذیر
ہیں۔حق تعالیٰ آسمان سے جو چیزبھی نازل فرماتے ہیں
وہ آسمانی نشانی ہے۔جڑی بوٹیاں، سمندر، پہاڑ اور بہار
کی آمدسب کے سب رنگوں کے پیچھے چھپے انورات ہیں۔
اس دنیامیں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت کو
محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتا۔

موت کی حقیقت کاادراک رکھنے والوں کے لیے موت جگہ کی تبدیلی، رخصت اور ایک ایسے جہاں کی سیاحت سے عبارت ہے، ،لیکن جولوگ موت کی حقیقت سے ناواقف ہیں اورانہوں نے اس کاصرف ظاہری خوفناک چہرہ دیکھاہے، ان کے لیے یہی موت جلاد،تختہ دار،اندھے کنویں اورتاریک رستے سے کم نہیں۔

جولوگ موت کودائمی زندگی کاآغازسمجھتے ہیں انہیں جب بھی موت کی بادنسیم کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے جنت کے حسین مناظرگھوم جاتے ہیں....

زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔
موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، سوال قائم کرتا رہا ہے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے ۔ حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔

۱۰ گھنٹوں کی انتھک کوششوں کے بعد اُسے نیم مردہ حالت میں وہاں سے نکال ہی لیا گیا مگر ۱۰ گھنٹوں کی اذیت نے اُسکی ذات پر اتمامِ حجت ثابت ہوئی تھی....

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

طیات سے بات کرکے جیسے ہی اُس نے فون رکھا دروازے پر دستک ہوئی....

"کون ہے..."
عامر نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا....
جواب ندرادر تھا....
دروازہ دوبارہ پیٹا گیا تھا....

"کون ہے..."
عامر نے دوبارہ پوچھا....
مگر کوئی جواب نہیں آیا....
اُس نے لینڈ لائن کا رسیور کان سے لگایا تو وہاں سناٹا چھایا ہوا تھا....

اُسے کافی حد تک سمجھ تو آگیا کہ یہ سب کس نے اور کیوں کیا تھا....

اے سی چل رہا تھا مگر اُس کی پیٹھ عرق آلود تو پیشانی پر بھی قطرے نمایاں تھے...

دِل معمول سے تیز دھڑک رہا تھا خوف اُس کے بھی حواسوں پر چھانے لگا تھا....

دروازے پر اب زور دار دستک ہوئی تھی عامر نے پستول کا رُخ دروازے کی طرف کیا ہوا تھا...

اب دروازہ توڑنے کے لیے پہلی ضرب لگی تھی....
"یا اللہ..."
عامر نے آنکھ بند کرکے ایک گہری سانس لی....

مسلسل دو تین ضرب سے دروازہ ٹوٹ گیا.... واحد پردہ موت اور زندگی کے بیچ.....

"کون ہو تُم؟..."
عامر نے تھوک نگلتے ہوئے کہا حلق اُس کا خُشک ہوچکا تھا....
آنے والے نقاب پوش اِنسان نے عامر کو مزید بولنے کے لیے وقت ہی نہیں دیا یک کے بعد ایک گولی اُس کے سینے میں اتارتا چلا گیا اتارتا چلا گیا...

اُس کی آخری چیخ بھی نہ نکل سکی آواز حلق میں ہو دب گئی....

وُہ دھڑام سے منہ کے بل زمین پر آ گرا....

"عامر زندگی میں نے اگر سب سے زیادہ بھروسہ خُدا کے بعد کسی پر کیا ہے نہ وُہ آپ ہیں آپ نے میرے ہر خدشے کے غلط ثابت کیا ہے آپ نے میری سوچ کو غلط ثابت کیا ہے شاید آپ جیسے لوگ دُنیا میں شاذو نادر ہی ہیں مگر میں خوش نصیب ہوں کو آپ  مُجھے حاصل ہیں.... طیات حیدر صرف آپکی ہے صرف آپکی یہ حق صرف آپکو حاصل ہے..."
عامر کی منہ اور سینے سے خون بہہ رہا تھا آنکھوں  سے حسین لمحوں کی یادیں....

"میں صرف یہاں سکون محسوس کرتی ہوں محفوظ محسوس کرتی ہوں آپکے سینے سے لگ کر میں راحت  پاتی ہوں..."
مارنے والا بڑا بے رحم تھا طیات کے پُر سکون حصار کو چھلنی کرگیا تھا....
"اپنے حصے کا پیار تو لے لیجئے"
لہو لہو  ہوتے لبوں پر اب بھی متاع جان کا لمس تھا....

ماں کا چہرہ آنکھوں کی پتلیوں پر آ ٹہرا اور غائب ہوگیا
دو مسکراتے ہوئے معصوم چہرے اُس کے بچوں کے موت کی  اندھیری وادی میں ڈوبتے ذہن میں اُبھرنے والی آخری تصویر ثابت ہوئی عامر آزاد ہوگیا ہے رشتے سے کسی سے کیے وفا کے وعدوں سے ماں کی محبت سے بچوں کی اُلفت سے وُہ آزاد ہو چلا.....

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے

عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

محبت سے کوئی شکایت ہے، نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے​

یارب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کُشائی دے

شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں، تو رستہ سجھائی دے​

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro