قسط نمبر ۸۸
#میدانِ_حشر
آخری باب
"میدانِ حشر"
حصہ اول
" منتظر والوں کے دو وجود ہوتے ہے ایک وُہ جو مقررہ جگہ پر انتظار کرتا ہے.....
دوسرا وُہ جو جسد خاکی سے جدا ہوکر پزیرائی کے لیے بہت دور نکل جاتا ہے جب انتظار کی گھڑیاں دنوں.... مہینوں... سالوں پر پھیل جاتی ہے تُو جسد خاکی سے جدا ہونے والا وجود کبھی واپس نہیں آتا...
اور انتظار کرنے والے کا وجود خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے...."
اُسے رہ رہ کر عامر کے کہے الفاظ یاد آرہے تھے کسی طور چین نہ تھا....
"عامر کیوں ایسی باتیں کرکے گئے آپ نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ کُچھ..."
طیات نے آگے سوچنے سے گریز کیا....
حماد اور فاطمہ دونوں سو رہے تھے وہ جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹے جارہی تھی....
"کال کرلیتی ہوں..."
خود سے کہا....
موبائل اُٹھا کر اُس نے عامر کا نمبر ڈائل کردیا....
بیل بج رہی تھی مگر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا....
"حد کرتے ہیں عامر بھی..."
اُسے عامر پر جی بھر کے غصّہ آیا...
وُہ موبائل رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی...
"ایک تو آپ ٹینشن بہت لیتی ہیں طیات پانی پئیں ٹھنڈا...."
عامر کے کہے الفاظ یاد آئے...
وُہ مُسکرا دی....
"میں سچ میں بہت سوچتی ہوں عامر رستے میں ہوں گے پریشان کرنا ٹھیک نہیں ہوگا..."
خود کو سمجھا ہی لیا....
ایک بار چین کی نیند سوتے حماد اور فاطمہ کو دیکھا اُس کے چہرے اور بے ساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی... نیند میں حماد کا ایک ہاتھ فاطمہ کے اوپر تھا بِلکُل کسی متاع کی طرح اُسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا...
اُس نے باری باری دونوں کے رخساروں کو چُوما...
تکیوں سے ارد گرد حصار بنا کر مطمئن ہوکر کمرے سے باہر آگئی...
نزہت خاتون کے کمرے کا دروازہ کُھلا ہوا تھا وُہ دستک دے کر اندر داخل ہوگئی...
"امی آپ کہی جارہی ہیں..."
طیات نے تیار بیگ دیکھ کر پوچھا...
"ہاں بیٹا رشتے دار میں اِنتقال ہوگیا ہے وہی جارہی ہوں میں نے عامر کو کال کرکے بتادیا آپکو اِس لیے نہیں بتایا مُجھے لگا شاید آپ سو رہی ہوں..."
اُنہوں نے نرمی سے کہا....
"امی میں بھی چلتی ہوں آپکے ساتھ اکیلی کیا کروں گی میں گھر میں..."
"نہیں بیٹا بچوں کو لے کر جانا ٹھیک نہیں ہوگا..."
انہیں نے منع کرتے ہوئے وضاحت بھی دی...
"میں گھر چلی جاتی ہوں پھر بھائی کے پاس جب تک عامر یا آپ نہیں آجاتے..."
طیات نے کُچھ سوچتے ہوئے کہا...
"یہ ٹھیک رہے گا..."
اُنہوں نے رسان سے کہا....
"جاوید..جاوید.."
وُہ ملازم کو آواز دینے لگی...
"جی ماں جی..."
کُچھ ہی دیر میں ملازم دروازے پر آگیا...
"یہ بیگ لے جاکر گاڑی میں رکھ دو اور گاڑی نکالو..."
"جی بہتر.."
وُہ بیگ لے کر چلا گیا...
طیات اُنہیں گیٹ تک چھوڑنے آئی....
"اللہ حافظ امی اپنا بہت خیال رکھیۓ گا..."
"خُدا حافظ بیٹا آپ بھی بچوں کا اور اپنا بہت خیال رکھنا میں کل واپس آجاؤں گی.."
اُنہوں نے طیات کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت سے کہا....
"امی بھی چلی گئیں عامر بھی اب یہ گھر کتنا اجنبی لگ رہا ہے..."
اُس نے واپس ہال میں آتے ہوئے سوچا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
ساکت وجود جنبش کرتی آنکھوں کی پتلیاں کسی مسیحا کی تلاش میں تھی سانس بے ترتیب آرہی تھی سر سے سرخ سیال بہہ رہا تھا جس کی حدت وُہ سر سے کمر تک لکیر کی صورت میں پھیلتے ہوئے اور پیشانی سے چہرے پر آتے ہوئے محسوس کرسکتا تھا....
گردن شاید کام کرنا چھوڑ چُکی تھی وہ چاه کر اُسے حرکت نہیں دے پا رہا تھا....
"یا اللہ..."
اُس کے منہ سے آہ بُلند ہوئی....
موت آنکھوں کے سامنے جب رقص کرتی دکھائی دینے لگتی ہے تو اللہ یاد آ ہی جاتا ہے اِس آس پر کے بخش دیئے جائیں....
گاڑی بری طرح سی متاثر ہوئی تھی سیٹ سے ایک نوکیلی سی چیز اُس کے بائیں پھیپھڑے میں اُتری ہوئی تھی سانس لینا اُس کے لیے اذیت تھی وُہ بے بسی سے نیم بے ہوشی کی حالت میں موت کے انتظار میں جینے کی اذیت سہہ رہا تھا....
"یا اللہ مُجھے معاف کردے مُجھے معاف کردے مُجھے کردے...."
لہو اور آنسوؤں کی آمیزش نے بہہ بہہ کر سیاہ
رنگ اختیار کرلیا تھا خون کی بہتی لکیریں اب جمنے لگی تھی...
اُسے باہر نکالنے کوشش نہیں کی جارہی تھی کیونکہ گاڑی کی حالت ایسی تھی ہی نہیں کے راحیل کو با آسانی نکالا جا سکے...
زور آزمائی سے کام لینے کا مطلب تھا موت....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"ارے بھئی کون ہے آ رہا صبر..."
ایان میچ دیکھ رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی وُہ سخت بھناتے ہوئے اُٹھا....
"صبر نہیں ہے..."
بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا سامنے طیات کو دیکھ کر سارا غصّہ دُھواں ہوگیا....
"آپی آپ..."
اُس نے گود سے فاطمہ اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے بیگ کو لیتے ہوئے کہا...
طیات اندر داخل ہوگئی...
"کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوئی میرے آنے پر..."
طیات نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا....
"کیا بات کرتی ہیں آپی میں تو بہت بہت خوش ہوں شادی کے بعد تو آپ اِدھر کا راستہ ہی بھول گئی ہیں..."
ایان نے پانی کا گلاس آگے کرتے ہوۓ کہا..
"بڑے مہمان نواز ہوگئے ہو..."
طیات نے گلاس لیتے ہوئے کہا...
"کون مہمان ہے یہاں اچھا آپ....ارے آپ تو پُرانی ملازمہ ہیں اِس گھر کی..."
ایان نے بھی مذاق میں کہا....
" عامر بھائی نہیں آئے..."
"نہیں وہ تو کام کے سلسلے میں آج صبح ہی گاؤں گئے ہیں اور امی بھی رشتے دار میں کسی کے یہاں فوتگی ہوگئی ہے تو وہاں گئیں ہیں میں نے سوچا میں اکیلی کیا کروں گی گھر میں تو میں یہاں اپنے بھائیوں کے پاس آگئی .."
طیات برقع اُتارنے لگی...
"بھائی اور نمرہ اب تک سورہے ہیں..."
طیات نے گھڑی کو دیکھا جو صبح کے ۱۱ بجا رہی تھی....
"نمرہ آپی تو اپنے ابو کے گھر گئیں ہوئی ہیں اور بھائی سورہے ہیں آج سنڈے ہے نا کل دوستوں کے ساتھ تھے رات کو ۳ بجے آئے تھے جبکہ مُجھے ۱۱ بجنے پر بھی باتیں سناتے ہیں..."
اطلاع دیتے دیتے وُہ شکوہ بھی کرگیا....
"روتے ہی رہنا تُم بس ہمیشہ..."
طیات نے اُس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا....
"چلو تُم سنبھالو اِن دونوں کو میں بھائی کے لیے اُن کی پسندیدہ حلوہ پوری کا ناشتہ بناتی ہوں..."
"صرف بھائی کے لیے..."
اُس نے منہ بنایا...
"ارے میرا مطلب اپنے بھائیوں کے لیے.."
"پھر ٹھیک ہے.."
ایان نے مسکرا کر کہا....
"آپی جلدی بنائے گا بھوک لگ رہی ہے..."
"جانتی ہوں بے صبرے..."
طیات نے کچن سے ہی آواز لگائی....
زندگی تبدیلیوں کا ہی نام ہے، وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، طور طریقے بدل جاتے ہیں، اور کبھی کبھی اکثر ہم خود بدل جاتے ہیں، یادیں انمول ہوتی ہی یادوں میں ماضی کے گزرے کچھ لمحے صدیاں بن جاتے ہیں، اور وہ صدیاں ماضی کے ان ہی دریچوں میں روشن دیوں کی طرح ہمیشہ جلتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ یہ زندگی کی مسلسل تبدیلیوں کا خوف ہی ہے کہ انسان ان دیوں کو جلائے رکھتا ہے۔
یادوں کا تعلق ماضی سے ہے۔ اس کی جڑیں ہمارے دلوں کی زرخیز مٹی میں پھیلی رہتی ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ہمیں اپنے جال میں جکڑے رہتی ہیں۔ ان ہی کے تانوں بانوں سے ہمارے ماضی کی چادر بنی ہے اور یہی یادیں بچھڑے ہوئے لوگوں کو بلا لاتی ہیں۔ ان میں ماں باپ کے ساتھ گزرا زمانہ ہوتا ہے۔ بہن بھائی کے ساتھ چھیڑ خانی ہوتی ہے دوستوں کے ساتھ گزرے دن ہوتے ہیں....
"لے بھائی تیار ہے تیری حلوہ پوری میں بھائی کو اٹھاتی ہوں..."
طیات نے اُس کے سامنے ٹرے رکھتے ہوئے کہا...
"آپ بھائی کو اُٹھا لیں پھر تینوں اکھٹے کھائیں گے..."
ایان نے فاطمہ کو گُدگُدی کرتے ہوئے کہا....
"ٹھیک ہے.."
وہ کہہ کر اندر کی طرف چلی گئی....
امان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا امان اُسے کمرے میں نہیں دِکھا....
وُہ جانے کے لیے مڑی ہی تھی امان باتھروم سے باہر آتا دکھائی دیا.....
"السلامُ علیکم بھائی..."
"وعلیکم السلام جیتی رہو تُم کب آئی..."
امان نے سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے کہا...
"بس ۳ گھنٹے ہوگئے ہیں اور آپ سو ہی جارہے ہیں بہن آئی ہوئی بیٹھی ہے کوئی قدر ہی نہیں..."
طیات نے اُس کا کندھا تھامے کمرے سے باہر کی طرف بڑھنے لگی....
"گُڑیا اُٹھا دینا تھا نا مُجھے..."
عامر اور نزہت خاتون کے بارے میں بھی بتادیا...
"بہت اچھا کیا جو تُم اِدھر آ گئی میں سوچ ہی رہا تھا تمہیں لے آؤں کافی دنوں سے تُم یہاں آئی ہی نہیں بھولتی جارہی ہو ہمیں..."
امان نے ہال میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"ارے حماد بھی آیا ہے..."
امان نے ٹیبل پر رکھی چیزوں کو اُٹھااُٹھا کر پھینکتے حماد کو گود میں لیا تو وُہ واپس اُن کی طرف بڑھنے لگا...
"ماموں کی جان..."
محبت سے کہا...
"بھائی میں ناشتہ لگاتی ہوں آپکی پسند کا ناشتہ بنایا ہے میں نے..."
"تُم آتے ہی کچن میں گھس گئی کس نے کہا تمہیں یار باہر سے منگوا لیتے..."
امان ناراض ہوا....
"میرے ہوتے ہوئے آپ لوگ باہر کا کھانا کھائیں ایسا ہوسکتا ہے کیا اور میری مرضی میرا گھر ہے آپ سے پوچھا کب کسی نے..."
طیات نے حق سے کہا....
"پاگل..."
امان محض اتنا کہہ کر رہ گیا...
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro