Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۸۵

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۸۵
باب نمبر ۱۶
"حرم"

"عامر یہ تو وہی منارہ ہے نا جسے ہم مسجدِ حرام کا منارہ سمجھے تھے..."
طیات نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا....

جب ابراہیم خلیل روڈ پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ عمرہ کر کے واپس آرہے ہیں، جب کچھ آگے بڑھے تو وہ منارہ نظر آیا جس کو اُن دونوں نے مسجد حرام کا منارہ سمجھا تھا، جب کہ وہ مسجد حرام سے متصل ایک بلند و بالا عمارت کا منارہ تھا جو پورا کا پورا حرمین شریفین کے لئے وقف تھا، خوشی و مسرت، بے بسی و کم مائیگی کے باوجود جرات و جسارت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ مسجد حرام کے باہری حصہ میں داخل ہوئے تو سامنے باب فہد تھا۔

’’مسجد حرام نہایت ہی عالی شان عمارت ہے، جس کے وسط میں خانۂ کعبہ واقع ہے، خانۂ کعبہ کی شمالی دیوار سے کچھ فاصلہ پر ایک نصف دائرہ کی ہلالی شکل کی دیوار ہے،     ا س کے اندر کا حصہ حطیم کہلاتا ہے، اسی کے اندر خانۂ کعبہ کی چھت کی نالی کھلتی ہے، جو میزاب کہلاتی ہے، حطیم اور خانۂ کعبہ کے اردگرد ایک وسیع گول صحن ہے اس کو مطاف کہتے ہیں، اسی میں طواف کیا جاتا ہے، مطاف ہی کے حصہ میں زیر زمین زمزم کا کنواں ہے، جس کے کے لئے پہلے مطاف ہی سے راستہ تھا لیکن پھر تنگی کی بنا پر اس کو زیر زمین کر دیا گیا، مطاف ہی کے حصہ میں مقام ابراہیم ہے، یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی تھی، باب کعبہ کے قریب کے مشرقی کونے پر حجر اسود لگا ہوا ہے، حجر اسود سے باب کعبہ تک کی دیوار کو ملتزم کہتے ہیں۔

نظریں جھکا کر "بسم اللّٰہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، اللّٰہم افتح لی ابواب رحمتک" پڑھ کر مسجد حرام کے اندر داخل ہوئے، اور جب مطاف کے قریب پہنچے تو خانۂ کعبہ نظروں کے سامنے تھا،جسم میں ایک عجیب سے بجلی کوندی تھی دونوں کی آنکھیں خود بخود نم ہونے لگی تھی.....
"یا اللہ تیرا شکر..."
بے اختیار لبوں سے ادا ہوا....
اور دعا زبان پر جاری تھی....

"اللّٰھم زد بیتک ھذا تشریفاً وتعظیماً وتکریماً ومھابۃ،  وزد من شرّفہ وکرّمہ ممن حجّہ او اعتمرہ تشریفاً وتکریماً وبرّاً، اللّٰھم انت السلام ومنک السلام وحینا ربنا بالسلام۔"

ترجمہ:(اے اللہ! اپنے اس پاک اور مبارک گھر کو اور زیادہ عظمت اور برکت دے، ا ور حج و عمرہ کے لئے آنے والے تیرے بندوں میں سے جو تیرے اس گھر کی پوری پوری تعظیم کریں تو ان کے درجے بلند کر اور یہاں کی خاص برکتیں اور رحمتیں ان کو نصیب فرما، اے کعبہ کے رب! دنیا و آخرت کی سب تکلیفوں اور بری حالتوں سے مجھے اپنی پناہ میں رکھ۔ )

طیات  نے فرش پر روتے ہوئے سجدہ کیا نہ آج اُسے عامر نے روکا اُس کی حالت بھی طیات سے مختلف نہ تھی....

دعا سے فراغت کے بعد طواف شروع کیا، دوپہر کا وقت تھا، بھیڑ بھی  تھی، تین  گھنٹے میں طواف مکمل ہوا، دورانِ طواف اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ دعا مانگی جائے لیکن ترتیب ہر ایک کی مختلف ہے، اُن دونوں نے جو ترتیب اختیار کی وہ یہ تھی،
بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد کہہ کر استلام کیا، پھر پہلے دو چکروں میں خدا تعالی کی تعریف بیان کی، تیسرے اور چوتھے میں حضور اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجا، پانچویں اور چھٹے میں خوب خوب دعائیں مانگی، توبہ واستغفار کیا، اور ساتویں میں خاموش رہ کر اللہ کی نعمتوں اور اس کے انعامات پر غور کیا، طواف سے فراغت کے بعد مقام ابراہیم کے پاس جا کر طواف کی دو رکعت نماز ادا کی، پہلی رکعت میں
قل یایھا الکفرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھی،
پھر جی بھر کر آب زمزم پیا، اور  دعا مانگی اللّٰہم انا نسالک علما نافعا ورزقا حلالاواسعاوشفاء من کل داء پھر سعی شروع کی....
دھوپ کی تمازت بڑھ چکی تھی، گرمی شدت اختیار کر چکی تھی،
دھوپ کی شدت اور گرمی نے حضرت بلالؓ اور حضرت خبیبؓ کے واقعات کو ذہن میں تازہ کر دیا، کہ کس طرح انھوں نے اس زمانہ میں مصائب و تکلیفیں جھیل کر دین و ایمان کی حفاظت کی، انہی کی محنتوں اور کوششوں کا ثمرہ و نتیجہ ہے کہ آج اس روئے زمین پر اللہ کے نام لینے والے زندہ ہیں، ورنہ اگر باطل کا بس چلتا تو حق کب کا مٹ چکا ہوتا....

تھک کر وُہ دونوں واپس لوٹے....
"عامر نہا لیں آپ پھر ہم سب کھانا کھائیں گے امی بھی سوگئی ہیں اور بچے بھی میں اُنہیں اٹھاتی ہوں..."
طیات نے عامر کو اُٹھاتے  ہوئے کہا....
"طیات...." عامر نے اُسے پیچھے سے پُکارا....

"جی..."
عامر کُچھ دیر بس اُسے دیکھتا رہا اُس کی آنکھیں بھیگتی گئی..
"کُچھ نہیں..."
طیات کو کُچھ سمجھ نہیں آیا وُہ مسکراتی ہوئی چلی گئی....

مکہ میں قیام کیے اُنہیں چار دن ہوگئے تھے
رات بتا دیا گیا تھا کہ اگلے دن صبح بعد نماز فجر علی الفور مدینہ کے لئے روانگی ہو گی، لہٰذا وہ سب لوگ معمول سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، نماز فجر سے پہلے تیاری مکمل کر لی گئی، چونکہ بتایا گیا تھا کہ بعد نماز فجر علی الفور سفر ہو گا اس لئے  مسجد حرام بھی نہ جا سکے اور قریب ہی کی ایک مسجد بنام مسجد رافعی میں نماز فجر ادا کی، لیکن بس کا انتظار کرتے کرتے سات بج گئے اور سات بجے کے بعد وہ لوگ بس پر سوار ہوئے۔

مکہ سے مدینہ کا فاصلہ تقریباً ساڑھے چار سو، یا پانچ سو کلو میٹر ہے۔ آٹھ بجے کے قریب اصل سفر شروع ہوا، دونوں طرف اب بھی سنگلاخ پہاڑیاں ہیں، اکثر و بیشتر علاقے اب بھی بنجر و بے آب و گیا ہیں، کہیں کہیں آباد بستیاں اور نخلستان بھی ہیں، جدہ سے مکہ آنے کے دوران کئی جگہوں پر پانی وغیرہ تقسیم کئے گئے تھے، اس سفر میں بھی یہ گمان تھا کہ دورانِ سفر مل جائے گا، اس لئے ساتھ کچھ لینے کا اہتمام نہیں کیا گیا،
  جب دن چڑھا، سورج نے اپنا کمال دکھایا، اور دھوپ کی تمازت بڑھی، تو پیاس کی شدت کا احساس ہوا، لیکن پانی ندارد، بس میں ایک ٹنکی تھی، اس سے پانی نکال کر پینا چاہا تو وہ بھی گرم ہو چکا تھا..

"شدید پیاس لگ رہی ہے عامر..."

  "آج سے چودہ سو سال پہلے سفر کرنے والے اُن قافلوں کے پاس کُچھ بھی نہ تھا، دورِ حاضر کی تمام ترقیات وسہولیات کے باوجود اس علاقہ کی یہ حالت ہے تو اس زمانہ میں سفر کتنا دشوار رہا ہو گا، خاص طور سے اللہ کے رسول کا سفرِ ہجرت، جس میں صرف تین آدمی کا قافلہ، ہر لمحہ خوف، لیکن اللہ پر بھروسہ تھا کہ سب کچھ برداشت کیا اور اسی کے نتیجہ میں وہ عالمی انقلاب آیا، اس جیسا انقلاب نہ ماضی میں آیا، نہ مستقبل میں اس کی امید کی جا سکتی ہے..."
ایک بزرگ نے کہا....
بات سیدھا طیات اور عامر کے دِل کو لگی تھی...
وُہ عامر کی طرف دیکھ کر مسکرا دی...
بہرکیف کچھ دیر بعد بس ایک منزل پر رکی۔ وہاں ہوٹل وغیرہ تھا جہاں سے خرید کر پانی پیا ، اس طرح پیاس کو مٹایا ، اُس وقت پانی کی نعمت اور اس کی قدر معلوم ہوئی، طیات نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

ظہر کی نماز مقامِ اکحل کی ایک مسجد میں ادا کی...

’’مسجد نبوی مدینہ منورہ کی سب سے متبرک اور عظیم الشان تاریخی یادگار، اور اسلام میں دوسرے درجہ کی مسجد ہے، حضورﷺ نے اس مسجد میں ایک نماز کی فضیلت ایک ہزار نمازوں کے مساوی بتائی ہے، فرمایا کہ
’’صلوٰۃ فی مسجدی ھذا خیر من الف صلوٰۃ فیما سواہ المسجد الحرام‘‘(مسلم)یہ درمیان شہر میں واقع ہے، اس مسجد کی اولین تعمیر ہجرت کے پہلے سال نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اپنے دست مبارک سے کی، اس کے لیے وہی جگہ معین فرمائی جس جگہ ہجرت کے موقع پر آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔

ہجرت کے ساتویں سال نبی کریمﷺ نے اس مسجد میں کچھ اضافہ فرما کر مربع شکل میں کر دیا، اس کے بعد ۱۷ھ؁ میں حضرت عمرؓ نے اس کی مرمت فرمائی، اور کچھ اضافہ بھی فرمایا، اس وقت تک مسجد کے ستون کھجور کے تنوں کے اور چھت کھجور کے پتوں کی بنائی گئی تھی، ۲۹ھ؁ میں حضرت عثمانؓ نے اس کی ازسرنو تعمیر کروائی اور اس کی دیواریں اور کھمبے پتھر اور چونے کے بنوائے، اور مسجد میں مزید اضافہ کروایا، اس کے بعد خلیفہ اور بادشاہ اپنے اپنے دور میں اضافے اور مرمت کرتے رہے، ۱۲۶۵؁ھ میں سلطان عبدالمجید ثانی نے نئی تعمیر کرائی، پھر ۱۳۵۳؁ھ کے بعد سعودی دور حکومت میں مختلف زمانوں میں اس کی تجدید ہوتی رہی جو ہنوز جاری ہے‘‘۔

رفتہ رفتہ آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک پختہ سڑک پر پہنچ گئے، اس کو عبور کرنے کے بعد مسجد نبوی کے باہری صحن پر پہنچے، جہاں بہت سے لوگ کھڑے اور بیٹھے ہوئے تھے، چاہا کہ مسجد کے اندرونی صحن میں داخل ہو جائیں، لیکن کچھ دیر دروازہ پر کھڑے رہے اور اپنی قسمت پر رشک کرتے  اور خدا کا شکر ادا کرتا رہے....

وُہ لوگ باب بقیع کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ باب بقیع سے قبر مبارک کی زیارت اور صلوٰۃ و سلام سے فراغت کے بعد باہر نکل رہے ، اسی دوران عشاء کی اذان ہو گئی،  اسی جگہ نماز عشاء ادا کی اور کمرے واپس ہوئے، چونکہ پورا دن سفر میں گذرا تھا، اس لئے بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔...

عامر نماز فجر کے بعد جب کمرہ واپس لوٹا تو دیکھا کہ اُن بلڈنگ کے قریب تین چار بسیں کھڑی ہیں، پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ بسیں مقامات مقدسہ کی زیارت کراتی ہیں، طیات اور عامر  بھی ایک بس پرسوارہو گئے،
اس بس میں ہر ایک سے دس ریال لئے جاتے ہیں، بس کا ڈرائیور ایک مصری تھا اور ساتھ میں ایک پاکستانی تھا جو مقامات مقدسہ کا اردو زبان میں تعارف کرارہا تھا،

یہ جنت البقیع ہے پاکستانی نے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے کہا.... (بقیع شریف) اس کا نام بقیع الغرقد بھی ہے، غرقد ایک پودے کو کہتے ہیں جو یہاں بکثرت ہوتا تھا، یہی مدینہ منورہ کا قبرستان ہے، اس کی زیارت مستحب ہے، رسول اللہ ﷺ اس کی زیارت کیا کرتے تھے۔

پھر بہت مسجدیں اور مقامات آئے مسجدِ غمامہ،مسجدِ ابوبکر،مسجدِ عمر،مسجدِ علی....

بس ایک جگہ رکی عامر نے دیکھا ایک گڑھا تھا زمین میں۔۔۔۔
یہ بئر خاتم ہے اُسی قبا میں مسجد سے متصل مغربی جانب وہ کنواں ہے، جہاں حضور اکرم ﷺ نے چند صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی، اور اسی میں حضرت عثمانؓ کے عہد میں حضورﷺ کی وہ انگوٹھی گر گئی تھی، جس سے آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین مہر لگایا کرتے تھے، اس کنویں کا نام بئر اریس بھی ہے، اس کا پانی کھاری تھا، کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن شامل فرمایا جب سے اس کا پانی میٹھا ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ کنواں بعد میں خشک ہو گیا۔

مدینہ سے مکہ واپسی کا دن تھا، دل رنجیدہ، آنکھیں نم دیدہ ہیں، لیکن جدائی اور الوداع کہنے پر مجبور تھا، نماز فجر مسجد نبوی میں ادا کی، دعائیں مانگیں، سامان وغیرہ بس پر رکھا، تقریباً نو بجے سفر شروع ہوا، کچھ دیر بعد ذو الحلیفہ پہنچے۔

یہ مدینہ منورہ سے جنوب کی طرف آنے والے یا جنوب کی طرف سے مدینہ منورہ جانے والے تمام قافلوں کے لئے مدینہ منورہ سے ذرا پہلے ایک منزل ہوتی ہے، اب اس کا نام ابیار علی ہے، مدینہ منورہ سے حج کرنے والوں کی یہ میقات ہے،  احرام کے کپڑے کمرے ہی میں پہن لئے تھے، وہاں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھ کر عمرہ کی نیت کر لی، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے اپنے لاڈلے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اتباع نصیب فرمائی، کہ حضورﷺ بھی اسی مبارک ومقدس مقام سے حج و عمرہ کا احرام ملبوس فرماتے تھے، یہاں سے چل کر ہم لوگ تقریباً عشاء کے وقت مکہ اپنے کمرے پہنچے، پھر عمرہ کے لئے روانہ ہوئے۔

جب وہ لوگ مسجدِ حرام پہنچے تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا، رات کا ایک حصہ گذر چکا تھا پھر بھی مطاف پورا بھرا ہوا تھا، مدینہ جانے سے پہلے اور وہاں سے واپسی کے بعد کا منظر بالکل مختلف تھا، ہر طرف انسانوں کا سمندر تھا، مختلف جماعتیں آ رہی تھیں، عمرہ کر رہی تھیں پھر دوسری جماعتیں آ جاتیں، غرض ایک نہ تھمنے والا سلسلہ تھا،

مکے میں اُن کا دوسرا جمعہ تھا....

صبح چار بجے بیدار ہو کر پہاڑ کے راستہ مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وُہ لوگ  گاڑی گاڑی میں سوار ہو گئے۔

سب سے پہلے وُہ لوگ جبل ثور کے پاس گئے، وہاں پہنچ کر گاڑی سے اترے، پہاڑ کے اوپر ی حصہ میں لوگ جاتے ہوئے نظر آرہے تھے، اسی میں مشہور غار غارِ ثور ہے، غارِ ثور تک پہنچنے کیلئے تین گھنٹے لگتے ہیں، پھر بھی وُہ لوگ محبت و شوق سے چڑھتے ہیں،
منیٰ و عرفات کے پاس سے ہوتے ہوئے جبل نور کے پاس پہنچے۔

تھوڑی دیر بعد چٹان سے اترے اور غار کے اندر گئے، وہاں ایک چھوٹی سی جگہ تھی، جس میں ایک آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، غار کا رخ کعبہ کی طرف ہے اور کعبہ والے حصہ میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے جہاں سے مسجد حرام کے منارے نظر آتے ہیں، عامر نے وہاں رک کر تھوڑی دیر دعائیں کیں اور تصورات کی دنیا میں چودہ سو سال پہلے کا منظر سامنے آ گیا، یہی وہ غار ہے جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا اور سورۂ علق کی....
ابتدائی چند آیتیں عطا کی گئیں،
{ اقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲) اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۴) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۵)}
جن کے ذریعے وحی کے نزول کا آغاز ہوا، اور ۲۳ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا، وحی کا یہ مجموعہ قرآن کریم کہلایا، جو تا قیامت تمام انسانوں کے لئے سامانِ ہدایت قرار پایا۔

وہاں سے نکل کر سیڑھیاں گنتے ہوئے نیچے اترنے لگے، سیڑھیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی،

بروز جمعرات ، معلم کی طرف سے یہ خبر آئی تھی کہ آج رات بعد نماز عشاء منیٰ کے لئے روانگی ہو گی....

عشاء کی نماز کے بعد وہ لوگ تیار ہو گئے، لیکن بس گیارہ بجے کے بعد آئی، بڑی مشکل سے بس پر سوار ہوئے، اور آدھی رات بعد منیٰ اپنے خیموں میں پہونچے، اُن کا خیمہ جمرات سے ڈیڑھ کلو میٹر کی دوری پر شارع سوق العرب پر واقع ہے، وہاں پہنچ کر سبھوں نے آرام کیا۔

’’منیٰ مکہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ ہے، مسجد حرام سے اس کا فاصلہ سڑک کے راستے سے سات کلومیٹر اور پیدل سرنگ سے ۴کلومیٹر ہے، یہ مشعر ہے اور حدود حرم کے اندر ہے، یہیں پر حضرت ابراہیمؑ نے شیطان کو کنکریاں ماریں تھیں، جب وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ بنا تھا، اسی مقام پر حضرت اسماعیلؑ کے بدلہ میں جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح کیا گیا، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے بھی سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے انہی تین مقامات پر کنکریاں ماریں اور جانور ذبح فرمائے، اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے تمام حجاج کرام جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں، اور قربانی کرنے والے قربانی کرتے ہیں، یہیں پر مسجد خیف ہے جس میں بہت سے انبیاء کرام اور خود حضور اکرمﷺ نے نمازیں ادا کی، اسی منیٰ کے ایک پہاڑ کے دامن میں حضرات انصار نے حضورﷺ کے دست مبارک پر بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کی، جس کے نتیجہ میں مدینہ میں اسلام پھیلا‘‘۔

مکہ سے باہر ایک میدان ہے،یہ بہت برکت والی اور پاک جگہ ہے، اﷲ تعالی نے اس جگہ کی قسم بھی کھائی ہے۔ حج کرنے کے دوران یہاں وقوف کرناضروری ہے۔  عرفات کے میدان میں نہ جائیں تو حج قبول نہیں ہوتا۔جبلِ رحمت جو کہ عام طور پر جبلِ عرفات کے نام سے معروف ہے، مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع گرینائٹ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔اسی پہاڑی پر نبی اکرم ﷺنے خطبہ حج الوداع دیاتھا۔ اس کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ حضرت آدم و حوا جنت سے زمین پر بھیجے جانے کے 200سال کے بعد اس مقام پر دوبارہ ملے۔ اس پہاڑکے اردگرد کے میدان کو میدانِ عرفات کہا جاتا ہے۔

وُہ لوگ اب مزدلفہ میں تھے....
’’مزدلفہ منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک وادی ہے، اس کو مشعر حرام بھی کہتے ہیں، یہاں بھی ایک مسجد ہے، حجاج مغرب و عشاء کی نماز یہیں پڑھتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں، منیٰ میں جمرات کو مارنے کے لئے کنکریاں یہیں سے لی جاتی ہیں ‘‘۔

حج ہوچکا تھا اُن کے واپسی کے دن قریب آتے جارہے تھے جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آنا چاہتے تھے مگر....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro