قسط نمبر ۸۱
#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۸۱
باب نمبر ۱۶
"حرم"
دل محو جمال ہو گیا ہے
یا صرف خیال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے
وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مژدہ کہ بحال ہو گیا ہے
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا ہے
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
راحیل کو سکون صرف ایک جگہ ملتا تھا اور سکون کی تلاش میں ہی وُہ مسجد چلا آیا...
مناسب قدم اٹھاتا راحیل آگے بڑھ رہا تھا اور مطلوبہ نشت ملنے پر بیٹھ گیا
آج پھر وہی شخص تھے اور اُن کا بیان مگر اُسے اُن کا بیان یوں محسوس ہوتا جیسا اُسّے اُسکے گناہ باور کروا رہے ہوں وُہ صرف اُسے احساس ندامت کی کھائیوں میں دھکیلنے کے لیے ہی ملے ہیں...
اسپیکر میں ہلکی سی آواز پیدا ہوئی....
بیان دینے والے شخص نے ایک لمبی تمہید کے بعد بولنا شروع کیا...
اور پھر اگلی آواز دل کو چیرتی اُسکے اندر اُترنے لگی....
"قتل اور اُسکی سزا....
قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے...
اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے!
اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔
راحیل اپنا محاسبہ کرنے لگا تھا...
اُس نے قتل کیا نہیں تھا مگر بارہا کوشش ضرور کی تھی قتل کروانا چاہا تھا...
"یہ راز تمہارا علاوہ کسی کو نہیں پتا کے امان کا ایکسیڈنٹ ہوا نہیں تھا..."
بات بہت پُرانی تھی مگر وہ ضمیر کی عدالت میں کھڑا تھا اپنے ہر گناہ کا سامنا کرنا تھا...
"عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اﷲِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ..."
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘
انسانی جان کا قتل مثلِ کفر ہے....
"تُم ہی تھے جس نے ابوبکر کی جان لینے کی کوشش کی تھی..."
کہیں اندر سے آواز آئی تھی....
’’جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے۔ ... یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ... اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لئے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لئے سرگرداں ہو۔‘‘
اِس سے زیادہ سننے کی اُس میں ہمت نہیں تھی...
قتل....قتل....قتل....
نہیں میں قاتل نہیں میں قاتل نہیں ہوں...
وہ ہزدیانی انداز میں چیخ رہا تھا آس پاس بیٹھے لوگوں کو اُسکی حالت پر رحم آنے لگا راحیل اب دیوار سے اپنا سر ٹکرا رہا تھا اپنا جسم نوچ رہا تھا ایک جنونیت سوار ہوگئی تھی اُس پر وہ رو رہا تھا بلک رہا تھا"
مگر کُچھ نہیں کیا جاسکتا تھا....
بس ایک جملہ تھا اُسکی زبان سے رواں...
"نہیں میں قاتل نہیں میں قاتل نہیں ہوں"
"تُم قاتل ہو تُم کُچھ دن پہلے بھی ایک قتل کرنے چلے تھے..."
کوئی تھا اندر جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا...
خود پر جبر کرکے وُہ بیٹھا رہا کب محفل ختم ہوئی کب لوگ گئے راحیل کو اِس کی چنداں خبر نہ ہوئی وُہ تو اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کے معافی مانگنے میں مصرف تھا....
"گھر جا پُتر .."
کسی نے پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا...
راحیل نے سجدے سے اُٹھ کر دیکھا تو وہ وہی تھے جن کے چہرے کو بس دیکھے جانے کا دِل کرتا تھا جنہیں سُننے کو جو چاہتا تھا اجنبی مسیحا....
وُہ کہہ کر رکے نہیں اور راحیل چاہ کر بھی روک نہ سکا....
شفق رنگین آفاق کے کناروں پر سیاہی آہستہ آہستہ اپنے رنگ پھیلا رہی تھی آفتاب پورا دن اپنی کرنیں بکھیرنے کے بعد مغرب کی اوٹ میں جا سونے کو بیتاب سا تھا اُداسی اور شام کی واقفیت پُرانی معلوم ہوتی تھی فضا سوگوار سی تھی دِل کا موسم بھی ناساز سا تھا اُس کی زندگی ایک بند گلی میں آ رکی تھی ایک ایسے دوراہے پر جہاں سے وُہ نا اگر بڑھ پا رہا تھا اور نہ ہی وہ پیچھے جاکر اپنی خطاؤں کو سدھار سکتا تھا راحیل جو لاکھ لاکھ آگے بڑھنے کے خود کو بدلنے کی سعی کرتا زندگی روز اُس کا ایک نیا امتحان لیتی تھی درد سے ناطہ اُس کا اب عُمر بھر کا ہوچکا تھا درد اُس کے دل کی حفاظت تھا اس کا مقدر تھا وہ اسے آہوں اور آنسووں سے سینچتا رہے...
منزل مقصود سے بےخبر انجان سفر اجنبی راستوں پر اُس کی زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی...
سماعتوں میں ایک بچے کے رونے کی آوازیں گردش کر رہی تھیں آنکھوں کی پتلیوں پر ایک منظر ٹہر سا گیا تھا عامر اور اُس کے لخت جگر کا مکمل منظر جو اُس کے لیے سب سے زیادہ ادھورا تھا...
اے سی فل چل رہا تھا مگر گھٹن بڑھنے لگی تھی اُس نے قمیض کے اوپری دو بٹن کھول دیئے تھے سانس لینے میں مُشکل ہونے لگی تھی پیشانی عرق آلود ہونے لگی تھی اُس نے بڑی دقت سے گاڑی کو سائڈ میں روکا تھا اور دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑ لیا اور اسٹیئرنگ پر ٹکا دیا....
"کیا تم واقعی باپ کہلانے لائق ہو...؟"
ضمیر کا سوال کڑا تھا مگر کھرا تھا...
"تُم وہی اِنسان ہو راحیل آفتاب جو اپنی ہی اولاد کو قتل کرنے کی باتیں کرتا تھا اگر خدا تُم سے ناراض ہوکر تُم سے وُہ نعمت واپس نہیں لیتا تو تُم یہ بد فعل کرگزرتے اب کیوں روتے ہو تُم تو چاہتے ہی نہیں تھے تمہاری اولاد اِس دُنیا میں آنکھیں کھولے پھر مان لو تمہاری کوئی اولاد نہیں..."
ضمیر کا شکنجہ بہت بے رحم ہوتا ہے اِنسان جتنا چاہے تڑپے سسکے جتنا زور آزمائی کر لے یہ مرحلہ اِنسان پر ضرور آتا ہے اِنسان اِس سے چاہ کر بھی فرار حاصل نہیں کرسکتا یہ دلدل کی مانند ہوتا ہے جتنا باہر نکلنے کی کوشش کریں گے ندامت اندر کھینچتی جائے گی بشرطیکہ اِنسان با ضمیر ہو مردہ ضمیر لوگوں کے آگے یہ بے رحم شکنجہ بھی بے مول ہے کیونکہ مردہ ضمیر اِنسان سے بڑا بے رحم کوئی نہیں ایک ایسا بے رحم وجود جو اپنی جان کو ایذا پہنچا رہا ہوتا ہے...
راحیل آفتاب کی مثال کُچھ یوں ہی تھی مگر زندگی کی اِس موڑ پر اُسے احساس ہونے لگا تھا وہ بھی با ضمیر ہے ندامت کی ہر گہری کھائی میں گر گر کے بلا آخر وُہ اُٹھنے لگا تھا....
مُجھے اپنی اولاد کو جیتنا ہوگا ساری زندگی میں نے چھیننا سیکھا ہے اب اپنی زندگی کی واحد خوشی کو میں جیتوں گا..."
ایک نئے عزم کے ساتھ اُس نے سوچا....
"شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے اُسکے اندر طمانیت کے سائے گھر کرنے لگے تھے ایک اندھیرے غار میں رُکی اُس کی زندگی میں روشن دریچے کھلنے لگے تھے ہدایت کی روشنی چہار سو ہمیشہ سے ہی تھی مگر اُس کی ذات اب اُس کے حصار میں آئی تھی....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro