Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۷۵

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۸۵
باب نمبر ۱۶
"حرم"

انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا بہت زیادہ غلبہ رہتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کا ہرزاویہ اس کی ذہنی سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی پرداخت ہوتی ہے اوران جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ذہن کا زاویۂ فکر دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے راحیل آفتاب اِنہی تاریکیوں کا مکین تھا طیات حیدر اُسکی زندگی میں ایک اُمید بن کر آئی ایک روشنی حقیقت کی جس کی وہ تاب نہ لا سکا اُس نے وُہ دریچے ہی بند کردیئے وُہ اکیلا رہ گیا مگر سب گنوا کر اُس نے ایک چیز پائی تھی جس سے وہ ہمیشہ دور رہا تھا...
اُس نے راہِ خُدا پائی تھی اور سفر کے شروعات میں ہی اُسے اپنے کھوئے ہوئے رشتے واپس مل گئے تھے جن رشتوں کے لیے ہمیشہ وُہ اذیت دہندہ رہا تھا اُن رشتوں نے اُسے معاف کرکے سینے سے لگایا تھا اور یہ دن راحیل کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا اُسے اپنی آپی اپنا بھائی واپس مل گیا تھا کبھی جو خواب اُس کی آنکھوں میں تھا پکچر پرفیکٹ فیملی کا وُہ آدھا ادھورا سا ہی مکمل ہوا تھا...

"ابوبکر میری ایک بات مانوں گے..."
اقراء نے ابوبکر  کو مخاطب کیا...

ابوبکر اُسکی طرف متوجہ ہوا....
"ایاز انکل کو بھی معاف کردوں تُم ..."
اقراء نے درخواست کی...

راحیل نے ابوبکر کے چہرے پر تلخی پھیلتی دیکھی....
"کبھی نہیں..."
ابوبکر قطعیت سے بولا....

"اتنے سنگدل نہ بنو جب تُم راحیل کو معاف کرسکتے ہو تو انہیں بھی معاف کردوں بچے ماں باپ سے ضد لگاتے ہیں مگر انہیں سزا دینے کا حق نہیں رکھتے کُچھ نہیں تو  اتنا سوچ لو تم اُن کی وجہ سے ہو..."
اقراء نے  اُسے سمجھانا چاہا...

"مُجھے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی یہ میرا اور اُن کا معاملہ ہے آپی ..."
ابوبکر نے سختی سے کہا...

"وقت لو سوچو ٹھنڈے دماغ سے غلطیاں ہیں اُن کی بہت غلطیاں ہے مگر کس سے غلطی نہیں ہوتی..."
"آپی..."
راحیل نے آنکھوں کے اشارے سے تنبیہ کی کیونکہ وُہ ابوبکر کی ناگواری مسلسل محسوس کر رہا تھا....

"میں چلتا ہوں..."
ابوبکر جانے کے لئے کھڑا ہوگیا...

"ابوبکر.... تُم نے مُجھے سچ میں معاف کردیا ہے نا..."
"ہاں..."
ابوبکر نے ایک لفظی جواب دیا...

"پھر اپنے گھر میں آجاؤ واپس میں اکیلے رہ رہ کر تھک گیا ہوں تنگ آگیا ہوں..."
راحیل نے اُس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا...

ابوبکر کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی....

"یہ نہیں ہوسکتا مُجھ سے..."
اُس نے صاف گوئی سے کہا...

راحیل جانتا تھا ابوبکر نہیں مانے گا...

"تمہارا حق ہے اِس گھر پر ابوبکر  کسی کے لیے نہیں تو اُس اِنسان کے لیے آجاؤ جس نے ساری سچائی جاننے کے بعد بھی تُم سے بے لوث محبت کی وُہ اِنسان جو اِس سب میں تمہاری طرح بِلکُل بے قصور تھا جس کی محبت تُم
سے کبھی کم نہیں ہوئی آفتاب سلمان نے تُم سے بہت محبت کی ہے ابوبکر  اپنی سگی اولادوں سے بھی زیادہ مما کی بیوفائی نے یا اُن جانے کے غم نے اُنہیں  اتنا نڈھال نہیں کیا جتنا تُم سے جدائی اُنہیں زندگی سے دور لے گئی..."
ابوبکر کو اپنے پیروں میں بیڑیاں پڑتی محسوس ہونے لگی....
اور سچ ہی تھا سارے کھیل تماشے میں سب سے زیادہ نقصان اگر کسی کا ہوا تھا تو وہ آفتاب اور وہ ہی تو تھے دونوں میں کوئی خون کا رشتہ نہیں تھا مگر ایک چیز دونوں میں مشترکہ تھی بے غرض محبت کرنے کا جذبہ آفتاب نے محبت کی اپنے کیپری سے اُس کی آنکھوں سے اُسکی معصومیت پر وُہ جان دیتا تھا اُس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں بیتاب رہتی تھیں اُسے گود میں لینے کے لیے بانہیں تڑپتی تھی کان "پاپا" لفظ سُننے کے لیے ترستے تھے آفتاب نے سچ میں محبت کی عشق کیا  ابوبکر سے یہ عشق ہی تو تھا جو اتنی بڑی سچائی جاننے کے بعد بھی اُس نے ابوبکر سے محبت نہ چھوڑی ورنہ تھا وُہ بھی عام سا مرد ہی مگر ابوبکر کے لیے اُس کے دِل میں خاص محبت تھی جو تا عُمر اُس کے ہر احساس پر غالب رہی ہوتے ہیں کُچھ رشتے ایسے بھی جو کہنے کو آپ کے کُچھ نہیں ہوتے مگر پھر بھی زندگی ہوتے ہیں اور جب آفتاب اپنی زندگی سے جدا ہوا ہونٹوں نے مسکرانا چھوڑ دیا،آنکھوں نے سپنے بُننا چھوڑ دیئے وُہ  سانسوں سے موت کی طرف خراماں خراماں ہجرت کرگیا وُہ آفتاب کا "Capri" تھا کیپری مطلب سمندر اُس کی ابوبکر سے محبت بھی سمندر سی گہرائیاں رکھتی تھی بچے سب برابر نہیں ہوتے ماں باپ کے لیے جو کہتے ہیں جھوٹ کہتے ہیں کوئی ایک ایسا ضرور ہوتا ہے جو اُنہیں دوسرے سے بڑھ کر پیارا ہوتا ہے اور آفتاب کو ابوبکر اقراء اور راحیل سے زیادہ پیارا تھا....
ابوبکر کو آفتاب کی محبت یاد نہ تھی پر آنکھوں میں دھندلا سا ایک عکس ضرور تھا اُس کا دل مضطرب ہوا تھا  شدت سے یتیم ہونے کا احساس ہوا تھا تکلیف اتنی تھی جتنی شاید تب بھی نہ ہوئی تھی جب اُس اِنسان کو قبر میں اُتارا تھا جسے وہ اپنا باپ مانتا آیا تھا...
کیونکہ یہ رشتہ تو روح سے جڑا تھا آفتاب کی روح نے بھی شاید سکون پالیا تھا آج....

"میں نے سب کو معاف کردیا مگر کبھی سوچنا یہ اٹھائیس سالہ مرد تئیس سال پُرانی وُہ تاریک رات کبھی نہیں بھولے گا کیونکہ اُس رات کا خوف میری روح کو اب تک  جھنجوڑ دیتا ہے..."
ابوبکر نے راحیل سے گلے ملتے ہوئے کہا...

"پھر بھی میں کوشش کروں گا..."
ابوبکر نے شکست خورہ انداز میں کہا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا....

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

وہاں سے نکل کر ابوبکر گھر نہیں گیا بلکہ سڑکوں پر بے مقصد بائک دوڑاتا جا رہا تھا خود نہیں جانتا تھا اُسے کہاں جانا تھا....
کہاں کسی نے نہیں تھا اُسے مگر حقیقت اُس پر واضح تھی دُنیا نا واقف تھی اُس کی اصلیت سے اگر واقف ہوتی تو کیا بولتی "نا جائز" اور یہ لفظ اُسے تکلیف شدید تکلیف اور بے تحاشہ تکلیف دے رہا تھا وُہ دو ایسے لوگوں کی اولاد تھا جن کے درمیان کوئی جائز تعلق نہ تھا دو لوگوں کی جوانی کا خُمار تھا وہ...
زندگی چاہے اُس پر کتنی بھی مہربان ہوجائے
حقیقت اُس کی زندگی یہی تھی اور یہی رہنی تھی کہ وُہ ایک "نا جائز" تھا....

"میں اتنا بد نصیب کیوں ہوں..."
ابوبکر کے ذہن پر ایک سوال حاوی تھا...

"میری ہر خواہش تشنہ ہی رہی..."
محرومیوں پر وُہ شکوہ کناں تھا ایک سب سے بڑی محرومی تو اُس کی لا حاصل محبت بھی تھی   جب بھی وُہ اُداس ہوتا دُکھی ہوتا طیات سے پوری محبت کی تشنہ کہانی ہونٹوں سے بے اختیار ادا ہونے لگتی...

"سب کو معاف کردو، اُس کی یہ مجبوری تھی، اُس کا یہ گناہ تھا،اُس کا یہ کفارہ تھا. آج بھی کوئی یہ نہیں سوچتا ابوبکر کا بچپن کس کس کو معاف کرے گا کسی نے اُس پانچ سال کے بچے کے بارے میں کبھی کیوں نہیں سوچا کسی کو کیا پتا جنگل کی وُہ ایک رات میری کتنی راتوں کی نیند فنا کرچکی ہے میں ابھی بھی راتوں کو  ڈر جاتا ہوں میری تکلیف کوئی نہیں سمجھ سکتا جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے اور میں تو ہر معاملے میں بدقسمت ہی رہا ہوں میری خواہش ہی کیا تھی ایک محبت  صرف ایک محبت میری نظروں کی پہلی غلطی میرے دِل کی چاہت مُجھے ہر بار اِس محبت کے ہاتھوں رسوائی ہی ملی اُنہوں نے تو مُجھے کبھی شناسا لوگوں کی فہرست میں بھی نہیں گردانا.."
ابوبکر خود کلام تھا اپنے اذیت کو خود دو چند کیے جارہا تھا...
"مگر ابوبکر طیات سے محبت کرنا کبھی نہیں چھوڑ سکتا مر کر بھی نہیں..."
آنکھیں مسلسل دُھندلائی ہوئی  تھیں...

شکستہ قدموں پر چلتا وُہ بلا آخر  گھر آ ہی گیا جہاں ماریہ اُس کی منتظر تھی....

"کہاں تھے میں کتنا پریشان ہوگئی تھی.."
ماریہ نے پانی کا گلاس اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...

ابوبکر نے ہاتھ کے اشارے  سے منع کردیا...
ماریہ کو کُچھ عجیب سا لگا...

"تُم ٹھیک تو ہو نا..."
وُہ فکرمندی سے بولی...

ابوبکر چپ رہا...
"پلیز  مُجھے بتاؤ کیا ہوا ہے..."
ابوبکر اب بھی کُچھ نہ بولا....

ماریہ کو ڈر لگنے لگا اُس کی خاموشی سے...
"ابوبکر کیا ہوا مُجھے تو بتاؤ  میں تمہاری بیوی ہوں..."
ماریہ نے اُسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا...

"میں ایک نا جائز ہوں ایک گندہ خون یہ حقیقت ہے تمہارے شوہر کی..."
ابوبکر اُس پر پھٹ پڑا...

"کیا بول رہے ہو مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہا ابوبکر..."
ماریہ نے نا سمجھی والے انداز میں کہا...
"کسی کو سمجھ نہیں آنی.."
ابوبکر نے سر جھکا لیا...
ماریہ کو کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ابوبکر کو اتنا بکھرا ہوا اتنا ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی...
ماریہ نے کُچھ بھی کہے بغیر اُس کا جُھکا سر اپنے سینے سے لگالیا....
"اے ڈبل بیٹری..."
ماریہ نے نم آنکھوں کے ساتھ مسکرانے کی ناکام کوشش کی..
"رو مت پلیز مُجھے بہت تکلیف ہوتی ہے... تُم کیا ہو کیا نہیں یہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا میری زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ تُم میرے شوہر ہو اور میں تُم سے بہت بہت محبت کرتی ہوں...میں نہیں جانتی تُم کیا بول رہے ہو کیوں بول رہے ہو مگر تُم میرے لیے بہت اہم ہو میرا سب کُچھ تُم ہو..."
ماریہ نے اُس کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا...

"تمہیں مُجھ سے گھن نہیں آئے گی..."
ماریہ نے میکانکی انداز میں گردن کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے کہا...
"تُم نعمت ہو میرے لیے ابوبکر.."
ابوبکر اِس قدر محبت اور اپنائیت پر ایمان لے آیا اُس نے ماریہ کے گرد اپنے بازو پھیلا دیے....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro