قسط نمبر ۷۳
#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۷۳
ساتواں حصہ
باب نمبر ۱۵
"تُو ہی حاصل میرا"
شام کا وقت تھا عامر طیات اور نزہت خاتون لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے...
موسم کافی خوشگوار تھا...
"آپ دونوں کُچھ دنوں کے لیے گاؤں کیوں نہیں ہو آتے.."
اُنہوں نے اپنی گود میں بیٹھے حماد کو بسکٹ کھلاتے ہوئے کہا...
"میں بھی سوچ رہا ہوں امی مگر صرف ہم دونوں نہیں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گی..."
عامر نے پیار سے کہا...
"گاؤں.."
طیات نے چائے کا کپ نزہت خاتون کی طرف بڑھاتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا...
"ہاں گاؤں نواب شاہ کے ایک گاؤں میں عامر میں زمین لی ہوئی ہے جہاں یہ ہسپتال بنوا رہا ہے اور وہی عامر کے بابا کی حویلی بھی ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں لی تھی..."
نزہت خاتون نے طیات کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا...
"میں نے آج تک گاؤں نہیں دیکھا چلتے ہیں نا ہم سب پلیز..."
طیات خوش ہوکر بولی...
"ٹھیک ہے ڈاکٹر سے پوچھ لیتے ہیں اگر اُنہوں نے آپکو اِس حالت میں سفر کرنے کی اجازت دے دی تو مُجھے کوئی اعتراض نہیں..."
عامر نے رضامندی ظاہر کی....
"پوچھیں نا ڈاکٹر سے ابھی ہم کل صبح ہی چلیں گے پھر..."
طیات ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو تیار تھی...
"میں اور حماد تو اپنے کمرے جارہے ہیں آپ لوگوں کا جو بھی فائنل ہو بتا دیجیے گا.."
وُہ حماد کو گود میں لے کر اُٹھ گئیں...
"ٹھیک ہے امی میں آپکی پیکنگ کردوں گی..."
طیات کا بس نہیں چل رہا ابھی سامان گاڑی میں ڈالے اور عامر سے جانے کی ضد کرے....
"آپ کال تو کریں.."
طیات اب دوبارہ اُس کی سر ہوگئی...
"ارے یار اتنی جلدی بھی کیا ہے کل پوچھ لیں گے..."
عامر نے نخرے دکھاتے ہوئے کہا...
"پلیز عامر میرے لیے..."
طیات اب ایموشنلِ بلیک میلنگ پر اُتر آئی اور وہ جانتی تھی یہ وار خالی نہیں جانا تھا....
"اچھا یار.."
عامر نے فون ملاتے ہوئے کہا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"السلامُ علیکم آپی کیسی ہیں آپ.."
ابوبکر نے اقراء کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"وعلیکم سلام کیپری جیتے رہو تُم کب آئے..."
اقراء ابوبکر کو دیکھ کر خوش ہوگئی تھی....
"بس ابھی آیا..."
ابوبکر نے آرام سے پیر پھیلاتے ہوئے کہا...
"ماریہ بھی آئی ہے..؟"
اقراء نے پوچھا...
"نہیں وُہ اپنی امی کے گھر چلی گئی ہے اور میں یہاں آگیا آپ سے ملنے..."
ابوبکر نے محبت سے کہا...
"آپی کی جان.."
اقراء کو بے اختیار اُس پر پیار آیا...
"تُم راحیل سے ملے ہو.."
کُچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے راحیل کی بابت دریافت کیا...
"نہیں.."
ابوبکر کا چہرہ تن گیا...
"اچھا..."
اقراء نے پُر سوچ انداز میں کہا...
"تُم نے کبھی مُجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ مُجھے کیسے پتا تُم ہی ہمارے کیپری ہو.."
اقراء نے اُس کا انداز نوٹ کرکے بات بدلی....
"آپ اب بتادیں.."
ابوبکر نے مسکرا کر کہا....
"مُجھے یونیورسٹی میں ایک پروجیکٹ ملا تھا اور اُس پروجیکٹ کے لیے مُجھے پرانے اخباروں سے کچھ آرٹیکلز کے کٹ پیس چاہئے تھے جنہیں بڑی مشکلوں سے ڈھونڈا تھا میں نے آسانی سے مِلتا بھی کیسے آخر اُس میں مُجھے میرا کیپری ملنا تھا بس زیادہ کُچھ نہیں اُن میں سے کسی اخبار میں میں نے تمہاری گمشدگی والی خبر بھی پڑھی میں دیے گئے پتے پر گئی بھی تھی مگر مجھے پتا چلا حکیم صاحب اور اُن کی بیوی کا تو اِنتقال ہوگیا اور تمہارا کسی کو کُچھ پتا ہی نہیں تھا.... ویسے کتنا غیر حقیقی سا لگتا ہے یہ سب مگر اللّٰہ کے کھیل ہے یہ سب اور وہی بہتر جانتا ہے..."
اقراء ایک ہی سانس میں سب کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی....
"یہ دیکھو آج تک سنبھال رکھا ہے ۲۵ سال پرانے اخبار کا ٹکڑا..."
اقراء نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا....
اخبار کا ٹکڑا دراز سے نکال کر ابوبکر کے سامنے کیا...
وُہ کُچھ دیر کاغذ کو ہاتھ میں پکڑے بغور دیکھتا رہا پھر ہلکے سے بولا...
آپ دونوں بہت عظیم تھے امی ابو....
وُہ حکیم ریاض اور فرحت کو یاد کرکے بولا کیونکہ اُس کے لیے تو وہی دونوں اُس کے ماں باپ تھے جنہوں نے اسے بہت پیار سے پالا سگوں سے بھی بڑھ کر...
"میری زندگی اتنی پیچیدہ کیوں ہے آپی اتنی مُشکِل..."
اُس کا دِل اب شکوہ کناں تھا...
"اللہ اپنے چہیتے لوگوں کو ہی منتخب کرتا ہے آزمائشوں کے لیے بس ثابت قدم رہنا چاہئے اِنسان کو..."
اقراء نے اُس کی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئی محبت سے چور لہجے میں کہا..
"تُم راحیل کو معاف کردو بچے..."
اقراء نے درخواست کی...
"تُم یہ مت سوچنا میں فرق کر رہی ہوں میرے لیے بیٹا تُم دونوں برابر ہو میرے ہو مگر میں کیا کروں میں اُس کی بھی بہن ہوں اُسے تڑپتا ہوا کیسا دیکھ سکتی ہوں..."
اقراء نے دِل گرفتگی سے کہا...
"آپی مُجھے نہیں لگتا میں اپنے ساتھ بُرا کرنے والوں کو معاف کرسکوں گا میں اِنسان ہوں فرشتہ نہیں اِن سب لوگوں نے مُجھ سے میری زندگی کا وُہ حصہ نوچ کر اُکھاڑ دیا ہے جو کبھی بھی نہیں بھر سکتا وُہ خلا کبھی پُر نہیں ہوسکتی..."
ابوبکر نے قطعیت سے کہا....
اقراء نے آنکھیں بند کرکے کھولی...
"میرا بچہ میں جانتی ہوں بہت تکلیفیں برداشت کی ہے تُم نے مگر معاف کرنا تو اچھی بات ہے اِس طرح نفرت بغض کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مُشکل ہے.."
اقراء نے اُس کا چہرہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے کہا....
"مُجھ سے نہیں ہوگا آپی..."
ابوبکر اقراء کا ہاتھ نرمی سے ہٹا کر باہر چلا گیا...
اقراء نظروں سے اوجھل ہونے تک اُس کی پشت تکتی رہی.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وُہ لوگ ڈاکٹر سے اجازت ملنے بعد صبح ہی منہوڑو گاؤں کے لیے نکل پڑے...
"کتنا مزہ آئے گا نا امی میں تو پہلی بار گاؤں جارہی ہوں پہلی بار دیکھوں گی سب..."
طیات بچوں سے اشتیاق سے بولی..
"کتنی دیر میں پہنچے گے عامر..."
طیات نے چھٹی مرتبہ پوچھ لیا تھا...
"ارے یار آپ کے بار بار پوچھنے سے جلدی تو نہیں آجائے گا نہ.."
عامر اب کی بار جھنجھلا کر بولا....
"بتائیں نا کتنی دور ہے..."
وُہ بھی اُسے تنگ کرنے پر تُلی ہوئی تھی...
نزہت بیگم دونوں کو دیکھ کر بس مسکرا رہی تھیں...
حماد عامر کے پاس آنے کے لیے ہمکنے لگا...
"ارے میرا بیٹا..."
عامر نے اُسے گود میں بٹھا لیا اور ایک ہاتھ سے اُسے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے ڈرائیو کرنے لگا...
حماد بار بار اسٹیئرنگ پر ہاتھ مار مار کر ہارن بجاتا آواز سن کر کھلکھلا کر ہنستا اور تالیاں بجا کر اپنی خوشی جتاتا...
اب وہ عامر کی شرٹ پکڑ کر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا...
"ارے میرے شیر لگ جائے گی..."
عامر نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے کہا...
"پاپا آپ سے بعد میں خوب باتیں کریں گے ابھی آپ مما کے پاس جاؤ..."
عامر نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا...
اُس نے عامر کے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑ لیا....
"ناراض ہوگیا میرا بیٹا..."
عامر نے مسکراتے ہوئے اُسکے ننھے ننھے ہاتھوں سے اپنے بال آزاد کروائے اور حماد کو پیچھے بیٹھی طیات کو دے دیا....
جس پر وُہ رونے لگ گیا...
"آپ کا اور امی کا عاشق ہے یہ تو میرے پاس آتے ہی رونے لگ جاتا ہے..."
طیات نے اُسے زبردستی سلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا....
عامر کے لیے وُہ الفاظ اور وُہ لمحہ لمحہِ فخر تھا....
"لاؤ اِدھر دو میرے شہزادے کو..."
نزہت خاتون نے طیات کے ہاتھوں سے اُسے لے لیا اور واقعی وُہ اُن کی گود میں آکر چُپ ہوگیا اور ہنسی خوشی کھیلنے لگا....
طیات کا دل پُر سکون اور مطمئن تھا....
"لیجئے محترمہ ہم گاؤں کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں..."
طیات کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی....
گاؤں کو جاتا راستہ، نہر کے اوپر سے تھا جس پر سے اُن کی گاڑی گزر رہی ہے۔
گاڑی کچی پکی سڑک سے ہچکولے کھاتے گزر رہی تھی...
لوگوں بھینسیں پال رکھی تھیں، جانوروں کے لیے ایک بڑی سی کُھرلی بنائی ہوئی تھی۔
بھینسوں کے ساتھ ساتھ مرغیاں، بکرے بکری اور کتے بھی ساتھ میں پل رہے تھے۔
کھیتوں کے قریب کھیلتے بچے گاڑی کو دیکھ کر اُس کے پیچھے بھاگنے لگے تھے....
دائیں طرف گاؤں کا پرائمری اسکول سردیوں کا موسم تھا اس لیے کلاسیں باہر دھوپ میں لگی ہوئی تھیں۔
تصنع اور بناوٹ سے پاک ان دیہاتوں میں بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ قدم قدم پر آپ کو شاعری نظر آئے گی جو اوزان کی قید اور لفظی بندشوں سے بالکل آزاد ہے۔
یہاں کی کھلی ہوا میں چلیں پھریں تو اپنے اندر ایک نئی زندگی پائیں ۔
یوں لگتا ہے ہمارے اندر بھی پھیل کر والہانہ وسعت اختیار کر لینے کی قوت موجود ہے،ہم بھی پرندوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں اور ہواؤں کی گنگناہٹ ہمارے لیے بھی کچھ معنی رکھتی ہے جب ابابیلیں خاموش آسمان میں ڈبکیاں لگاتی ہیں اور شام کو چمگادڑیں قطار اندر قطار جنگلوں کی طرف تیرتی ہیں اور گاؤں واپس آنے والے ڈھور ڈنگروں کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگرو بجتے ہیں اور فضا پر ایک دلفریب ناچ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو ہمارا دل بھی کبھی پھیلے گا اور کبھی سکڑے گا۔
طیات نے دیکھا کچے کوٹھے زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ دیواروں پر بڑے بڑے اپلوں کی قطار دور تک تھی۔ مٹی کے یہ گھروندے بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان میں فاصلہ نہیں۔ ایک کوٹھا دوسرے کوٹھے سے ہمکنار ہے، اسی طرح اس کھلے میدان پر ایک اور کھلا میدان بن گیا ہے۔
ان کوٹھوں پر چار پائیاں اوندھی پڑی ہیں۔ گنے کے لمبے لمبے چھلکے جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا، دھوپ اتنی تیز ہے کہ چیل بھی انڈا چھوڑ دے۔
فضا ایک خوابگوں اداسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی کسی چیل کی باریک چیخ ابھرتی ہے اور خاموشی پر ایک خراش سی پیدا کرتی ہوئی ڈوب جاتی....
گاڑی چلتے چلتے ایک حویلی نما گھر کے آگے رکی چوکیدار نے فوراً دروازہ کھول دیا....
وُہ خوبصورت عمارت وقار سے استادہ تھی... چاروں طرف قدرت نے حسن کے خزینے لٹائے تھے...یہ قطعہ زمین قدرت کی صناعی کا شاہکار تھا...
سبزے کا مخملی فرش رنگ برنگے پھول، لہلہاتی بیلیں جھومتے درخت چاروں طرف حُسن ہی حُسن تھا رعنائی ہے رعنائی تھی...
ایسی جگہ میں رہائشی عمارت کی تعمیر کسی حُسن پسند طبع ہی کا انتخاب تھا...
سنہرے ستونوں اور سرخ گنبدوں والی یہ عمارت اِس دلفریب ماحول میں گھری ہوئی کسی حسین البیلہ کی طرف دکھائی دیتی تھی...
کشادہ کمرے، وسیع برآمدے ،خوبصورت گیلریاں نفیس ڈرائنگ روم طویل ڈائننگ روم...
آراستہ پیراستہ اپنے مکینوں کے اعلیٰ ذوق امارت عظمت کی ضامن تھی....
"یہ تو بہت بہت بہت خوبصورت ہے..."
طیات نے حویلی گھومتے ہوئے عامر سے کہا....
عامر تو اُس کے چہرے سے کبھی نہ جدا ہونے والی مسکراہٹ دیکھ دیکھ نہال ہوا جارہا تھا....
"باہر چلیں..."
طیات نے خواہش کی...
عامر مُسلسل اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا....
"عامر..."
طیات نے شرما کر ہاتھ لگا کر اُس کی محویت کو توڑا....
"چلیں..."
اُس نے طیات کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر سینے سے لگالیا...
میدان میں گاؤں کی الہڑ مٹھیارے اپنے روز مرہ کے کھیلوں میں مشغول تھیں....کُچھ کوٹلہ چھپا کھیل رہی تھیں کُچھ لکن میٹی... کُچھ گدا ڈال رہی تھیں کُچھ چھون چھوائی....
وُہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کھیتوں کی طرف آ گئے....
حد نظر تک پھیلے گندم کے سنہری کھیتوں کا سنہرا پن دھوپ کے باعث کچھ اور دلکش ہوگیا تھا۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پوری فضا میں چکرا رہی تھی۔
معتدل سی میٹھی میٹھی پروا گندم کی فصلوں کو چومتی گزر رہی تھی۔
فضاء میں چکراتی چڑیوں کی چہچہار کی آوازیں ہوا کی مدھم سی جلترنگ میں مدغم ہوکر ایک دلفریب سی جھنکار پیدا کر رہی تھیں۔
قریب ہی چلتے رہٹ میں گرتے پانی اور پن چکی کی ایک تواتر سے آتی آواز اس ماحول کا حصہ ہی لگتی تھیں۔
سہ پہر کا وقت تھا۔
جلتے بلتے دن میں اب شام کی نرم سی ٹھنڈک کی چاشنی گھلنے لگی تھی۔
فصل پک کر تیار ہوچکی تھی کچھ دنوں تک کٹائی ہونا تھی۔
سارے میں سنہری خوشوں کی اشتہا انگیز مہک بکھری ہوئی تھی۔
ہوا کے جھونکے کے ساتھ گندم کی سبز بالیاں ہلتی تو ایسے لگتا جیسے اس دُنیا میں آنے کی خوشی میں جھوم رہی ہیں
لالیاںوں اور چڑیوں کے دو جھنڈ شور مچانے میں مصروف تھے
دو بگلے کھالے میں کھڑے پانی میں اپنے لئے ناشتہ تلاش کر رہے تھے
قدموں کی چاپ سُن کر ٹاہلی کے درخت پر بیٹھی چرِبل نے آنکھیں کھول کر ہ دیکھا اور بنا کوئی خطرہ محسوس کیے دوبارہ نیند کی آغوش میں چلی گئی
سُورج کافی بُلندی پر آ چکا تھا...
طیات کھیتوں کے درمیان کھڑی بچوں سے اشتیاق سے چاروں اور گردن گھما گھما کر جیسے اس بات کا یقین کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ واقعی فطرت کے اس حسین منظر کا حصہ بنی ہے۔ فطرت کی سحر انگیزی نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا اور وہ اس فسوں خیز لمحے میں قید اشتیاق سے جھک جھک کر ان سنہری خوشوں کو چھو چھو کر محسوس کر رہی تھی۔
"یہ کیا کر رہی ہیں"
عامر نے مسکراتے ہوئے کہا....
"میں پہلی بار گاؤں آئی ہوں میں نے آج تک ایسا کُچھ بھی نہیں دیکھا بس اِسی لیے..."
وُہ تھوڑی شرمندہ ہوکر بولی اور آنکھیں شرم کے مارے نیچے کر لی...
"ارے ارے...یہ کیا آپ تو...."
عامر نے بات ادُھوری چھوڑ کر اُنگلی سے تھوڑی پکڑ کر چہرہ اونچا کیا....
"ناراض ہوگئی آپ مُجھ سے..."
عامر ہراساں ہوکر بولا....
"ہو سکتی ہوں کیا؟؟؟"
سوال کیا گیا....
"نہیں آپ تو بہت اچھی ہے....اور اگر کبھی ناراض ہو بھی جائے تو بھی اِس طرح نظریں مت جھکائے گا....
مُجھ سے بات مت کیجئے گا....پھر میں آپکو مناؤں گا بہت پیار سے...."
اپنی بیوی کی پیشانی پر بوسہ لیتے ہوئے اُس نے محبت سے چور لہجے میں کہا....
"مُجھے اِس دُنیا میں اپنے ماں باپ اور حماد کے بعد سب سے زیادہ آپ عزیز ہے اور یہ بات آپ جانتی ہیں..."
لہجے میں قطعیت تھی....
"بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں..."
طیات بڑے مان سے بولی....
اُسکا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنے لگی....
کھیتوں کو پیچھے چھوڑ کر وُہ لوگ اب دور تک پھیلے باغ نما حصے کی طرف آگئے....
اُس وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو رنگ برنگے پھول اور اکثر مقامات پر اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ یہاں آنے والوں کا استقبال کرتے نظر آتے تھے۔
ہاتھ کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیا اور اُسے خود سے لگائے عامر آگے بڑھنے لگا.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro