Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۷۱

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۷۱
باب نمبر ۱۵
"تُو ہی حاصل میرا"

"میں کھو کر پچھتانے والوں کی صف میں کھڑا ہوں میں اِس عشق کی آگ میں جل رہا ہوں میں اِس تکلیف سے نجات چاہتا ہوں..."
اُس کی ہچکیاں بندھنے لگی تھیں..

"دسترس میں اگر محبت ہو تو وُہ صرف محبت ہی رہتی ہے عشق نہیں محبت کو عشق کی صورت اختیار کرنے کے لیے ہجر درکار ہے...
ہجر محبت کا آخری مقام ہے اُس سے آگے عشق کی منزلیں طے کی جاتی ہیں... جُدائی اِنسان کو گنوائے ہوئے اِنسان کی اصل قیمت بتاتی ہے..."
اُن کی آنکھوں میں ایک چمک تھی...
"کہتے ہیں نا...
شرعِ محبت میں عشرتِ منزل حرام شورشِ طوفاں حلال لذتِ ساحل حرام عشق پے بجلی حلال عشق پے حاصل حرام"
دھڑکنیں قلب میں مزید اشتعال آگیا تھا...

"یہ ہجر کا موسم میرے اعصابوں پر بھاری ہے گرم ہوا کے تھپیڑے میری روح کو جھلسا رگ ہیں...میں ٹوٹ چُکا ہوں میں جُھک نہیں سکا مگر میں ٹوٹ گیا..."
راحیل نے آنسوؤں کو حقیقتاً پیتے ہوئے کہا...

"میں پاگل ہوتا جارہا ہوں..."
"عشق اِنسان کو قلندر بو علی کرتا ہے،عشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتا ہے... عشق‘ انسان کو اپنی ہستی بھلا کر اپنے محبوب کی ہستی سے یک جان کر دیتا ہے۔
مسلکِ عشق کے مطابق عاشق کی آنکھوں میں دوسرے خیالات کا درآنا حرام ہے اور اِس حرام پر عمل درآمدکرنا عشق کی موت ہے۔ عشق کی زندگی اُس وقت اور حد تک باقی رہتی ہے جب تک عاشق کو اپنے اِرد گِرد سُنی جانے والی باتوں میں محبوب کا نام اوراُس کے عنوان‘ اُس کے حسن کی خوبیاں ‘ اور اُس کے کمالات کی داستانیں سُنائی دیتی رہتی ہیں.... اور چیزیں ٹوٹ کر بیکار ہوجاتی ہیں مگر اِنسان ٹوٹ کر اور نایاب ہوجاتا ہے کیونکہ دِل ٹوٹنے کے بعد انسان اللہ کے اور قریب ہوجاتا ہے..."
راحیل کا سر سجدے میں جُھکا تھا...
کُچھ لوگوں نے اُس کی حالت دیکھ کر تمسخر اڑایا کُچھ نے افسوس کیا کُچھ کو رحم آیا منٹ منٹ رُک کر دیکھتے ہوئے لوگ بھی آگے بڑھ گئے...
وُہ اُٹھا پھر دوبارہ سجدے میں گیا اُس کی حالت جنونی ہوتی جا رہی تھی...

" اُس کا عشق "عشق الٰہی" تو اِنسان کا جُھکا سر مانگتا ہے  عشق  تو سر ہی مانگے گا عشق پر کربلا کا سایہ ہے..."
راحیل نے تیسری بار سجدہ کیا تھا...

"کیونکہ عشق ہوتا نہیں عشق اُترتا ہے غارِ دل پر کسی وحی کی طرح...تیرے دِل پر بھی وُہ نازل ہو چکا ہے.."
اُنہوں نے سجدے میں گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے راحیل کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے کہا...

"محبت انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کردیتی ہے...انسان ساری حساسیت رکھتے ہوئے بھی بے حس بن جاتا ہے...
بس یاد رہ جاتا ہے تو وہ ایک احساس اور اُس احساس سے جڑا محبوب کا چہرہ...
اس ایک چہرے کی تلاش میں وہ دُنیا کو بھُلا دیتا ہے....."
راحیل نے سجدے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا....

"کتنی مُشکِل ہے نہ محبت مگر اِنسان جو ہر چیز میں آسانی چاہتا ہیں اِس معاملے میں مُشکِل کا انتخاب کرتا ہے...
جبکہ اُسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں وہ تو ہر جگہ ہے بس ایک بار سچے دل سے پکارنے کی دیر ہے..روز اپنی طرف طرف بلاتا ہے وہ اُسکی بلاوے پر لبیک کہنے کی دیر ہے...."
وُہ بھی ترکی بہ ترکی بولے...

"مگر یہاں بات محبت کی نہیں عشق کی ہے میں گنہگار اِس بات کا اعتراف کرتا ہو  مُجھے اُس ماہ نور سے عشق ہے...اور میں اِس عشق کو اپنی طاقت بناؤں گا میں تیرا قرب حاصل کروں گا مُجھے پوری اُمید ہے تُو مُجھے اپنی رحمتوں کے حصار میں لے گا...میرا تن میرا من تیرے قرب کے حاصل کی کوششوں میں صرف راحیل آفتاب آج اپنا آپ چھوڑتا ہے میں تیرا قرب حاصل کروں گا اور تُو ہی مُجھے معاف کرے گا مُجھے اپنا قرب عطا کرے گا..."
اُس نے اذان کی آواز کی پیروی کرتے ہوئے وضو کے لیے اپنے قدم بڑھا دیئے....

   ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ابتدائی تاریخوں کے چاند کی پھانک تھوڑی دیر کے لیے کیکر کی نوکیلی شاخوں کی پھننگ میں اٹکی اور پھر آہستہ آہستہ کاتک کی رات کے خنک اندھیروں میں ڈوب گئی...
آسمان پر ستارے پورے طرح روشن تھے... شام کو دُھل دُھلا کر نکھرا آسمان اب سیاہی مائل ہوگیا تھا...سیاہی کے حوالے سے ستاروں کی چمک زیادہ سی ہوگئی تھی...ہلکی ہلکی خنک ہوا چل رہی تھی...

وُہ سڑک پر پیدل چلا جارہا تھا شال اچھے سے اوڑھی ہوئی تھی....
ایاز کو پاکستان آئے مہینے ہو چُکے تھے مگر وہ ابوبکر کو ڈھونڈنے میں نا کام رہا تھا..
اُسے صرف ابوبکر کا نام پتا تھا کوئی تصویر نہ تھی اور اگر ہوتی تو سالوں پُرانی تصویر بے سود تھی...
مسلسل نا کامیابی اُس کی اُمیدوں کو توڑنے لگی تھی قسمت کی اِس ستم ظریفی پر اُسے شدید غصّہ آتا ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے بھی وُہ ناکام تھا وہ اُسے نہیں ڈھونڈھ پا رہا تھا جسے ڈھونڈنے آیا تھا جس کی طلب اُس کے دن کا چین رات کی نیند فنا کیے ہوئے تھی...
وُہ راحیل کے پاس جانے کی ہمت نہیں کر پارہا تھا وُہ جانا چاہتا تھا مگر ندامت کی بیڑیاں  اُس کے قدم روکے ہوئے تھیں...
ہر طرف صرف نا اُمیدی تھی ہر طرف اُداسی چہار جانب مایوسی تھی ایاز دن بہ دن ڈھلنے لگا تھا اُس کی بوڑھی ہڈیاں اب تھکنے لگی تھی عمر اتنی نہ تھی مگر حالات نے اُسے وقت سے پہلے کئی وقت دکھا دیئے تھے...
تانبے سی رنگت کملا چُکی تھی لمبا قد جُھکا جُھکا معلوم ہوتا تھا...

"یا اللہ میری مدد کر..."
اُس کا دعا گو تھا...

"مُجھے راحیل کے پاس جانا چاہئے وُہ میری مدد کرسکتا ہے شاید وُہ جانتا ہو ابوبکر کہاں ہے..."
ایاز نے بڑی مُشکِل سے بلا آخر فیصلہ کیا...

"مُجھے بس ابوبکر سے ملنا ہے چاہے جیسے  بھی..."
ایاز نے فیصلے کو مزید پختہ کیا....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro