Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۷۰

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۷۰
باب نمبر ۱۵
"تُو ہی حاصل میرا"

چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا

ملتے ھوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا

اے میری گُل زمیں تُجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر، کیا تیرا حال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اُس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہہ کو، خواب و خیال کر دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"السلامُ علیکم مولوی صاحب."
راحیل نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا...

"وعلیکم سلام بیٹا آج اتنے دنوں بعد آئے ہو..."
رزاق صاحب نے شفقت سے کہتے ہوئے اُسے اپنے ساتھ بٹھا لیا...

سنگ مرمر کے ٹھٹھرتے ہوئے فرش پر وُہ بیٹھا ہوا تھا سردی اپنے زوروں پر تھی سال کے آخری ایام چل رہے تھے....

راحیل کا حال ابتر تھا بال بکھرے بکھرے تھے کپڑوں کا رنگ اتنا پھیکا پڑ چکا تھا پہچانا جانا مُشکِل تھا کہ اِن کی اصل رنگت کیا رہی ہوگی بالوں کی کھچڑی حالت تھی کندھے تک  آنے لگے تھے شیو بے ڈھنگے انداز میں بڑھی ہوئی تھی تراش خراش نہ ہونے کی وجہ سے چہرہ پہلی نظر میں ایک مکروہ سا تاثر دیتا تھا....

اُس کے چہرے کی رنگ ہلدی سی  ہوچکی تھی پیلی زرد گویا خون کا ایک ایک قطرہ کسی نے بڑی بے دردی سے نچوڑ لیا ہو....

"کیا حال بنا رکھا ہے ایسے گندے حال میں نماز پڑھوں گے..."
اُنہوں نے ناگوار نگاہ اُس پر ڈالتے ہوئے کہا...

"آپ سے کس نے کہا کہ میں نماز پڑھوں گا..."
انداز اضطرابی تھا....

"پھر یہاں کیا لینے آیا ہے..
وُہ بغور اُس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے....

راحیل کبھی ہاتھوں کو آپس میں ملاتا کبھی انگلیاں چٹخانے لگتا....
اُس نے دونوں ٹانگیں سینے تک کرکے دونوں بازؤں کا حلقہ بنا لیا وُہ خور میں ہی سمٹ گیا تھا اُس کا ہر انداز عجیب سا تھا طرزِ خر
ام میں صرف اور صرف بے چینی تھی...

"میں آج اپنے ہاتھ خون سے رنگنے چلا تھا..."
راحیل نے بات اتنے عام سے انداز میں کہی جیسے کسی کو پھول دینے کی بات کہی ہو...

"کیا..."
رزاق صاحب کی حیرت کے مارے چیخ نکل گئی....اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا..

"مگر کامیاب نہیں ہوسکا..."
تاسف زدہ انداز میں کہا گیا...

مولوی صاحب نے اپنا رُکا ہوا سانس بحال کیا...

"پتا نہیں مُجھے کیا ہوگیا تھا میں کیا چاہتا ہوں مُجھے خود نہیں سمجھ آتا کے اگلے پل میں کیا کر گزروں...جانتا ہوں تو بس اتنا کے وُہ میرے لیے ہے وُہ کیسے کسی اور کے ساتھ کیسے کیسے کیسے...میرے علاوہ کسی کوئی اُسے محویت سے دیکھتا ہے میرے علاوہ کوئی کیسے اُسے ہاتھ لگاتا ہے... یہ سب میرے اختیار تھے وُہ میری تھی...  "
وُہ اپنے بال نوچنے لگ تھا....

"عشق مجازی کا مرید ہے..."
انکے لبوں پر ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی...

"سوال میں ہی جواب ہے..."
وُہ اطمینان سے بولے...
راحیل مزید اُلجھ گیا...

"مُجھے کیوں نہیں مِلتا جواب  میں سراپا سوال بنا رہ جاتا ہوں مُجھے نہیں مِلتا جواب..."
راحیل نے بے چارگی سے کہا...

"تُو خود ہی تو کہتا ہے وُہ تیری تھی..."
کمال کا سکون تھا اُن کے لہجے میں راحیل کو اُس حقیقت سے  روبرو کروا دیا تھا جسے جانتے ہوئے بھی وُہ انجان بنا رہا تھا..
ایک لفظ "تھی" نے اُس کی زندگی کے معنی بدل دیئے تھے...
زندگی کے وقت کا متعین یہ لفظ ہی تو کرتے ہیں کسی بھی بات کے آخر میں لگنے والے یہ لفظ مائکرو سیکنڈز سے بھی زیادہ جلدی زندگی کو بدل دیتے ہیں لمحے میں "ہے" کو "تھا" بنا دیتے ہیں اور سوچوں کو "ہوگا" سے جوڑ دیتے ہیں...

راحیل کو جواب مِل گیا...

"میں اُسے نہیں بھول پا رہا ہوں میں نے خود اُسّے خود سے دور کیا ہے مگر مجھے سکون نہیں آتا وُہ ہوکر بھی نہیں تھی وُہ نا ہو کر بھی ہر جگہ ہے میرے چاروں طرف ہے میں جہاں جاتا ہوں سماعتوں میں اُسکی آواز کی گونج ہوتی ہے بصارت میں اُس ہم وقت اُس کا عکس ہے وُہ مُجھے آوازیں دیتی ہے مُجھے نہیں سمجھ آتا میں کیا کروں..."
راحیل نے متاسفانہ انداز میں کہا...

"عِشق..."
اُنہوں نے ایک لفظ کہا....

"میں جانتا ہوں..."
راحیل نے کڑوے لہجے میں کہا...

"کیا جانتا ہے بتا عشق کیا ہے...؟"
اُنہوں نے سوال کیا....
راحیل کے ہونٹوں کو چُپ لگ گئی...

" عشق‘ رحمتِ ابدی کی طرف سے اولادِ آدم کو عطا کی جانے والی سب سے خفیہ نوازشوں میں سے ایک ہے۔
یہ تقریباَ ہر فرد میں ایک مرکز‘ ایک تخم کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔
مساعدِ شرائط کی حد تک یہ تُ خم درختوں کی طرح شاخیں اورٹہنیاں نکالتا ہے‘ پھولوں کی طرح کھلتا ہے اور پھلوں کی طرح ابتدا اور انتہا کو ایک نقطے پر لا کر حلقہِ تکمیل کو مکمل کرتا... عشق وہ بُراق ہے جو جنابِ حقِ تعالیٰ نے ہمیں جنتِ گم گشتہ کو تلاش کرنے کا راستہ طے کرنے کے لیے عطا کی ہے۔  یہ وہ بُراق ہے جس کے سواروں میں سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہو ا جو راستے ہی میں رہ گیا ہو۔
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس سماوی بُراق کی پیٹھ پر سوارلوگوں کو ”سڑک کے کنارے کنارے“ پیدل چلتے عیاشی اور نشے میں مدہوش لوگوں کا دکھائی دینا بھی بعیدازقیاس نہیں ہے۔
لیکن اس معاملے کا تعلق تمام تر اُن کے اور حق تعالیٰ کے باہمی تعلقات کے معیار سے ہے۔"

"تُو اپنی زبان کو شیریں کر لہجے کو نرم کر یہ تحکمانہ انداز بے لچک رویے، خود سری اُسے ذرا نہیں پسند..."
اُنہوں نے تند و تیز انداز میں کہا...

"میں نہیں جانتا کیا کرنا ہے میں نے ہمیشہ سے
یہ ہی لہجہ رکھا ہے اور میں خود اسے سُننے کا عادی نہیں ہوں..."
اُس نے اپنی کمزوری اُن پر عیاں کی...

"لہجے کی سختی دِل کی سختی سے منسلک ہے اور دِل کی سختی اللہ سے دوری کی دلیل ہے اور جو اللہ کا مقرب نہیں وُہ مخلوق کا مقرب نہیں ہوسکتا..."
وُہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے...
راحیل نے ایک جھرجھری سی لی تھی...

"جب اللہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اُسے خود سے غافل کرکے کسی ایسی چیز کی طلب میں لگا دیتا ہے جو اُس کی قسمت میں نہیں ہوتی... اور اِنسان اُس سراب کو حاصل کرنے کے لیے دُنیا نامی صحرا میں بھاگتا رہتا ہے وُہ جتنا اپنی تئیں میں اُس چیز کے قریب جاتا ہے وُہ چیز اُٹھا کر سو قدم دور رکھ دی جاتی ہے انسان بھاگا بھاگا سو قدم کا فاصلہ طے کرکے پھر وہاں پہنچتا ہے تو وہ چیز مزید دور ہوجاتی ہے اور یہی تو زندگی ہے لا حاصل خواہشوں کے پیچھے بھاگے جانا اِرد گرد سے بیگانہ ہوکر...
پھر جب آدم و حوا کے پیر شل ہونے لگتے ہیں پیروں میں آبلے پڑ چکے ہوتے ہیں مزید بھاگنے کی سکت نہیں رہتی وُہ لوٹ آتا ہے اُس کی طرف... اللہ اکبر..."
اُنہوں نے راحیل کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا....

راحیل کا دِل کسی گہرے سمندر میں ڈوب کر اُبھرا تھا آنکھوں کے کنارے بھیجنے لگے تھے....

"مُجھے راہ خُدا چاہئے وُہ راہ جو اُس دُنیا سے دور ہو اُس دُنیا کے قریب جہاں وُہ ہے مُجھے اُس کا مقرب بننا ہے..."
اُس کے لہجے میں آس تھی جیسے اُسے یقین تھا  کہ مولوی صاحب اس کی ہر ممکنہ طور پر مدد کریں گے....

وُہ دھیمے سے مسکرائے تھے....
"وُہ چاہئے..."
اُنہوں نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اُٹھا کر کہا...

"ہاں..."
راحیل بچوں کی طرح بہلا تھا.....

"اُس کی ذات اِس دُنیا یا اُس دُنیا تک محدود نہیں..."
تسبیح کے دانے متواتر گراتے ہوئے پُر سکون انداز میں کہا گیا....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro