قسط نمبر ۵۶
#میدان_حشر
باب نمبر ۱۳
"دوسری صور" (مکافات عمل)
قسط نمبر ۵۶
"صبر کرو اقراء... تمہارے آنسو میری روح کو زخمی کر دیں گے. دل پر اتنا بوجھ دهر کر میں نہیں جی سکوں گی."
طیات بھی بے صبر ہوچلی ضبط کے سب ہی باندھ ٹوٹ گئے...
زبردستی اسے اپنے ساتھ لپٹاتے وہ اسے اس صبر کی تلقین کرنے لگی جو اسے خود بهی نہیں آ رہا تها. اسی دوران ناظمہ خاتون بهی دو عورتوں کی ڈهارس پا کر شکستگی کی حالت میں ان کے ساتھ آ کر لپٹ گئیں.....
"کیسے صبر کروں طیات؟ مجهے اس شخص پر کبهی صبر نہیں آئے گا. مجهے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رونا ہے."
بلکتے ہوئے اتنا کہہ کر اقراء رکی اور باری باری ان دونوں کو دیکھ کر ایک جهٹکے سے اپنا آپ چهڑواتی دوبارہ میت کے پیچھے لپکی.
بے بسی سے اسے بے تحاشا بهاگتے دیکهتی طیات وہیں دہلیز تهام کر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھ گئی. اس کے اندر اب مزید سکت نہیں رہی تهی.
وہ اپنا آپ چهڑوا کر یوں بے قرار ہو کر بهاگی تهی گویا اسے سب سے چهین لائے گی...
ابوبکر عین اُسی وقت گھر میں داخل ہوا...
وہ یوں حماد کے پیچهے لپک رہی تهی گویا اس کے ساتھ جائے گی.
طویل صحن عبور کرتے ہوئے اس کے پاؤں کیاری کے پاس جا بجا بکهرے کانٹوں پر آئے تو اس کے نازک پاؤں سے خون کی دهاریں پهوٹ پڑیں. لیکن اپنی لال تلیوں کی پرواہ کیے بنا وہ دروازے تک پہنچی تهی کہ اسے بهاگتی ہوئی آتے دیکھ کر وہاں رکے ابوبکر نے اسے دونوں بازوؤں میں دبوچ لیا. قابو آتے ساتھ ہی وہ مچل مچل کر دوبارہ رونے لگی تهی.
"خدا کے لیے اُنہیں روکو ابوبکر... مجهے اُن سے بات کرنی ہے... مجهے کہنا ہے اُن سے کہ یوں مر کر دفن ہوتے وہ مجهے زندہ گاڑ گئے ہے. اُن سے کہو ابوبکر کہ اُن کی اقرا مر گئی ہے..."
"اقراء آپی سنبھالیں خود کو...."
ابوبکر تڑپ گیا تھا....
خودبخود لبوں سے "آپی" ادا ہوئی.....
اور ہانپ ہانپ کر یہاں تک بولتی وہ ابوبکر کے بازوؤں میں جهول گئی. وہ ہوش و حواس سے بیگانی ہو چکی تهی. ابوبکر نے ضبط غم کی شدت میں اسے سہارتے ہوئے ایک جهٹکے اسے دونوں بازوؤں پر اٹهایا اور اندر لے جانے لگا.
ادهر دہلیز سے سر ٹکائے ساری تگ و دو اور کشمکش کو بغور دیکهتی طیات نے اس منظر کی کل جزئیات کا سارا کرب پوری شدت سے جهیلا اور انہیں اندر آتا دیکھ کر آنکهیں موند لیں.
غم و اندوہ کا یہ منظر اب اس کی جان پر بهاری تها...
"میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک تمہارا ساتھ دوں گا تُم میری ذمے داری ہو اور میں رشتے نبھانا جانتا ہوں اگر کبھی تمہارے لیے جان بھی دینی پڑی لمحے بھر کی دیر نہیں کرونگا کیونکہ دعوؤں کی حقیقت کا رنگ دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ وعدے تو ہر کوئی کرتا ہے..."
حماد کی آواز طیات کو اپنے قریب گونجتی سنائی دی...
"رُک جاؤ...."
اب کی بار وُہ بھاگی تھی.....
امان نے اُسے آتے دیکھا وُہ بغیر دوپٹے کے تھی....
"مُجھے آخری بار حماد کا چہرہ دیکھنے دیں..."
وُہ ضبط سے بولی....
میت کو دوبارہ زمین پر رکھا گیا اور چہرہ دکھایا گیا....
طیات نے برستی آنکھوں کے ساتھ اُسکے پُر سکون چہرے کو اپنی آنکھوں میں قید کیا....
"تمھیں آئس کریم پسند ہے بیوٹیفل..."
نہیں پسند نفرت ہے مُجھے وُہ بے خیالی میں بڑبڑائی....
"ہمیشہ اسی طرح ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں میں تمہیں میری چھوٹی سی بہن زندگی سے بھر پور شوخ سے چلبلی سے ہر فکر سے آزاد...."
اسے حماد کے کہے سارے الفاظ یاد آنے لگے...
"میری شوخی آج تُم لے کر جارہے ہو حماد یہ تُم نہیں جارہے میرا ایمان ڈگمگا گیا ہے آج میرے ساتھ ہی اتنا بُرا کیوں کیا گناہ کیا ہے آخر میں نے مُجھ سے جڑا ہر رشتہ مُجھ سے دور ہوجاتا ہے...حماد اُٹھو خُدا کی ذات پر سے میرا یقین مت ڈگمگانے دو وُہ ۷۰ ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے ہر بندے کو پھر کیوں...."
وُہ نڈھال ہوکر زمین پر بیٹھ گئی....
"اُٹھو حماد..."
وُہ چلائی....
" تُم ایسے نہیں جاسکتے میرے بھائی"
وُہ زور زور سے چیختے ہوئی بولی....
"طیات اُٹھو سنبھالو خود کو... "
امان نے اسے بازوں میں بھر کے اٹھاتے ہوئے لوگوں کو آنکھ سے میت اُٹھانے کا اشارہ کیا....
"کہاں لے کر جارہے ہو کہاں...."
وُہ جنازے کی ڈولی کو پکڑ کے بولی...
"یہ سورہا ہے...
یہ سورہا ہے ...
یہ سورہا ہے..."
وُہ آس پاس کھڑے لوگوں کو کو دیکھ کر بولی....
طیات اُس وقت ایک ذہنی مریض سی لگی...
۲ ۳ عورتوں نے آگے بڑھ کر اُسے سنمبھالنے کی ناکام کوشش کی....
مگر وُہ سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی....
عورتوں نے اُسے ہاتھوں سے پکڑ لیا....
وُہ خود کو آزاد کروانے کی سعی کرنے لگی....
مرد حضرات جنازہ لے جا چُکے تھے....
اُس نے جھٹکے سے خود کو اُن کی گرفت سے آزاد کروایا اور باہر بھاگی....
دو عورتیں اُس کے پیچھے بھاگی....
وُہ صدر دروازے تک آئی جہاں سے وہ لوگ نکل رہے تھے وُہ اب دوبارہ سامنے تن کر کھڑی ہوگئی....
دوپٹہ سے ندراد وُہ اُنکے سامنے کھڑی تھی قمیض گردن تک کی تھی....
آگے کی طرف کھڑے ایک شخص نے ناگواری سے اُسے دیکھا اور ہاتھ پکڑ کر اُسے زبردستی اُسے لینے آئی عورتوں کے ہاتھ کیا....
امان نے جلدی اُسکے شانوں پر دوپٹہ پھیلایا....
عورتیں اب طیات کو اندر لےکر چلی گئی مرد جنازہ لے گئے....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"ہوش کریں آپی..."
ابوبکر نے اقراء کو صوفے پر لٹاتے ہوئے کہا...
ماریہ بھی احد کے ساتھ وہاں آچکی تھی...
طیات کو کمرے میں لے جاکر لیٹا دیا تھا وُہ بیہوش ہوچکی تھی...
اقراء کو ہوش آنے لگا حماد کے نام کی صدائیں بلند ہونے لگی تھی....
"ابوبکر وُہ چلے گئے مُجھے اکیلا چھوڑ گئے مار گئے مُجھے..."
اقراء مکمل ہوش میں آتے ہی پھر بے قابو ہونے لگی.....
"صبر کریں"
وُہ بمشکل اُسے روکتے ہوئے بولا....
"نہیں آئے گا کبھی نہیں آئے گا..."
اقراء ابوبکر کے سینے سے لگ گئی وُہ بری طرح سے تڑپ رہی تھی جب لپٹتی کبھی آزاد ہونے کی کوشش کرتی کبھی ہار کر پھر سے ابوبکر کے سینے سے سر ٹکا دیتی....
ابوبکر مسلسل اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتا اُسے دلاسہ دے رہا تھا.....
اتنے میں ڈاکٹر بھی آگئے اُنہوں نے اقراء کو نیند کا انجیکشن دے کر کُچھ وقت کے لیے پُر سکون کردیا.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
تُم ایسے نہیں جاسکتے میرے بھائی"
"کہاں لے کر جارہے ہو کہاں...."
وُہ جنازے کی ڈولی کو پکڑ کے بولی...
"یہ سورہا ہے...
یہ سورہا ہے ...
یہ سورہا ہے..
"نہیں "
اچانک طیات اُٹھ کر بیٹھ گئی...
نجانے رات کا وُہ کون سا پہر تھا...
اُسکا پورا وجود عرق آلود تھا سخت سردی میں بھی...
اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا ....
اپنے حواس بحال کرنے لگی....
ایک نظر دائیں طرف سوتی ننھی جان کو دیکھا....
بے اختیار اُسے اُٹھا کر چومنے لگی بچہ کچی نیند سے اٹھنے کے باعث ہلک پھاڑ کر بلند آواز میں رونے لگا....
اُسے آج پرواہ نہیں تھی وُہ اسکے ہر نقش کو اپنے زخمی ہونٹوں سے چوم رہی تھی....
"حماد....میرا حماد میں تمہیں کہی نہیں جانے دوگی"
ساتھ ساتھ بولنے بھی لگی...
آنسوؤں میں روانی آتی گئی.....
بچے کے رونے کی آواز سُن کر امان کی آنکھ بھی کھل گئی جو کمرے میں صوفے پر ہی تھا.....
"گُڑیا..."
امان نے اُسے خود سے لگا لیا....
"بھائی حماد.."
طیات نے اپنے بچے کی طرف اِشارہ کیا..
"ہاں..."
امان نے اُسکی کسی بات پر کُچھ بھی ردِ عمل دینے کے بجائے بس اُسے خود سے لگائے پُر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا....
"بھائی وُہ کہتا تھا... اپنی زندگی کی آخری سانس تک میرا ساتھ دے گا میں اُس کی ذمے داری اگر میرے لیے اسے جان بھی دینی پڑی لمحے بھر کی دیر نہیں کرے گا....بھائی اُس نے سچ میں لمحے بھر کی دیر نہیں کی اگر اُس نے لمحے بھر کی بھی دیر کی ہوتی تو آج میں یہاں نا ہوتی.... اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے وُہ نا صرف اپنی جان سے گیا بلکہ خود سے جڑے رشتوں کو بھی مار گیا...."
وُہ امان سے الگ ہوکر اُسکی آنکھوں میں دیکھتی بولی....
"گُڑیا صبر کرو میں ہوں تمہارے پاس...."
امان نے اُسکے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا....
"تب ہی تو وہ چلا گیا اُسے پتا تھا آپ آگئے ہیں...مگر وُہ اقراء اور امی سے کیسے بیگانہ ہوگیا..."
طیات نے شکوہ کیا گویا حماد اُسکے سامنے ہو...
"طیات خود کو سنبھالو گی تب ہی تو تُم اُنہیں بھی سنبھال پاؤ گی...."
امان نے اُسے لٹاتے ہوئے کہا....
"میں کبھی اُن دونوں سے نظریں نہیں ملا سکوں گی بھائی کبھی نہیں...."
طیات امان کا ہاتھ پکڑ کر بولی....
"تمہیں آرام کی ضرورت ہے..."
امان نے اُسکے آنکھیں بند کی...."
اور اُسکے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا وُہ پُر سکون ہوتی چلی گئی.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro