Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۵۵

#میدان_حشر
باب نمبر ۱۳
"دوسری صور" (مکافات عمل)
قسط نمبر ۵۵

"حماد....حماد..."
طیات دوڑتی ہوئے اُسکے خون میں لت پت جسم کے پاس پہنچی...
حماد کی سانسیں بے ترتیب چل رہی تھی...

"کوئی اٹھائیں میرا بھائی تڑپ رہا ہے..."
طیات نے حماد کا سر اپنی گود میں رکھا....

"حماد اپنی آنکھیں بند مت کرنا حماد میں ابھی تمہیں ہاسپٹل لے کر جاؤں گی ہمت مت ہارنا میرے بھائی..."
طیات نے حماد کے چہرے سے خون اپنے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے کہا....

"طیات امی کو بولنا اُنکا بیٹا اُن سے بہت بہت پیار کرتا ہے….."
اُسکی سانس اُکھڑنے لگی تھی....
"اقراء...."
٬حماد تُم بولو مت تمہیں اور تکلیف ہوگی..."
طیات نے اُسکے بھیگتے آنکھوں کے کونے صاف کرتے ہوئے کہا....
"اقراء سے کہنا حماد ذاکر نے اُسی سے محبت کی  بے تحاشہ مگر..."
الفاظ ٹوٹنے لگے تھے....
اُسکے سر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا جس طیات ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کر رہی تھی.... ہاتھ اور پاؤں ایک طرف کو مڑ گئے تھے....

"اے بیوٹیفل میں نے کہا تھا نہ لمحے کی دیر نہیں کرونگا...."
حماد ایک گہری سانس لےکر بولا...
طیات نے کرب سے آنکھیں بھینچ لی....
"حماد چُپ ہوجاؤ.."
وُہ اُسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی...
حماد کے ہلتے لبوں پر اُس نے اُسکے منہ پر دھرا اپنا ہاتھ ہٹایا....

"میں وعدے پورے کرتا ہوں میری بہن حماد ذاکر نام ہے....."
اُسے ایک ہچکی آئی..
"نام تو سنا ہوگا.."

اُس نے بمشکل کہا ایک زخمی مسکراہٹ کے ساتھ....
"لَا...
إِلٰهَ إِلَّا....
الله مُحَمَّدٌ..
رَسُول..ُ الله"
اُس نے اپنے آخری الفاظ کہے وُہ وادئ موت میں اُترتا چلا گیا زندگی سے بھرپور پُر نور آنکھوں میں بے نور ہوتے وقت آخری اُبھرنے والی تصویر اُسکی ماں کی تھی اور جان سے پیاری بیوی کی اور پھر اُسکی آنکھیں ہمیشہ کے لیے اندھیری ہوگئی ہے ترتیب آتی سانسوں کی اذیت سے وہ آزاد ہوچلا ایک نئے سفر کی طرف....

"حماد... حماد..."
طیات اُسکے ساکت وجود کو دیکھ کر چلائی....
"حماد مت چُپ ہو حماد میں سُن رہی ہوں حماد بولو... تمہیں خُدا کا واسطہ حماد بولتے رہو..."
طیات اُسکا گال تھپتھپا کر بولی...
جبکہ لوگوں میں سے کسی شخص نے حماد کی آنکھیں بند کی....
"نہیں تُم نہیں جاسکتے...حماد میں امی کو کیا کہوں گی حماد اقراء کو کیا کہوں گی میں حماد اُٹھو..."
طیات اُسکے بےجان جسم کو جھنجوڑ کر بولی....

اس کے بعد کون کون سے افراد آئس کریم پارلر سے نکل کر بهاگتے ہوئے ان تک آئے، بے بی پرام کس نے سنبهالا، کب ریسکیو ٹیم آئی اور حماد کے جسد خاکی کو ہسپتال سے متعلقہ کن ضروری مراحل سے گذار کر کیسے گهر لایا گیا طیات کو اس کی چنداں خبر نہیں ہوئی. بے تحاشا چیخ چیخ کر اس کا دماغ سن ہو گیا تها. ایمبولینس میں ایک نشست پر بیٹهی وہ خالی الذہنی کی کیفیت میں رہ کر سفید چادر میں ڈهکا حماد کا دراز قد سراپا گهورتی رہی. وہ سفید چادر کہ جو اس کے جسم سے لگ کر "خون رنگ" ہو رہی تهی. اردگرد مناظر بہت تیزی سے پیچهے گذرتے رہے اور بالآخر ایمبولینس کی رفتار کم ہوئی.....

            ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
اقراء راحیل کو سوتا چھوڑ کر گھر آگئی....
ابھی وہ گھر کے اندر داخل ہی ہوئی تھی ہال میں رکھا ٹیلی فون بج اُٹھا....
اقراء کا دل نجانے کیوں بیٹھنے لگا تھا....
وُہ وہی چوکھٹ پر رُک گئی....
اقراء نے ناظمہ خاتون کو فون اٹھاتے دیکھا جو نجانے کب سے بج رہا تھا....
"کیا کہہ رہے ہیں آپ..."
اُس نے ناظمہ خاتون کو پہلی بار چیختے سنا تھا....
دوسری طرف کون تھا کیا بول رہا تھا اقراء کو نہیں پتا اُس نے ناظمہ خاتون کی چال میں لغزش محسوس کی چہرے پر ایک سیاہ سایہ آ رُکا تھا....

"امی سنبھالیں"
اقراء سرعت سے آگے بڑھی اور اُنہیں سہارا دیتی بولی...
"امی کیا ہوا کون ہے..."
اقراء نے اُنہیں صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا مگر ناظمہ خاتون نے اپنے ہوش کھو دیے....
"امی اُٹھیں.."
وُہ اُنہیں اٹھانے لگی...
فون اُٹھا کر سُنا...
خبر جو دی گئی تھی اُسکی زندگی کی سب سے بری خبر تھی قلب کی دھڑکنیں روک دینے والی ذہن ماؤف کردینے والی....
"امی اُٹھیں وُہ دیکھیں کیا بكواس کررہا ہے کوئی امی..."
وُہ فون پھینکتی ہوئی بولی....
"امی حماد..."
وُہ ناظمہ خاتون کے بیہوش وجود سے لپٹ کر روتے ہوئے بولی....

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
حماد کی فوتگی کی اطلاع بذریعہ فون ریسکیو ٹیم کی جانب سے ہی دی گئی تهی اور اور ان کی آمد سے قبل اب پورا محلہ اکٹها تها.

حماد کی فوتگی کی اطلاع بذریعہ فون ریسکیو ٹیم کی جانب سے ہی دی گئی تهی اور اور ان کی آمد سے قبل اب پورا محلہ اکٹها تها.
جونہی طیات نے گهر کی دہلیز پر نگاه کی اور وہاں جانے پہچانے چہروں کو ایک دوسرے سے لپٹ کر بلکتے ہوئے دیکها اسے  بهی گویا دوبارہ ہوش آ گیا.
واپس حواسوں میں لوٹ کر اس نے ایمبولینس رکنے سے قبل ہی سرعت سے دروازے کا ہینڈل گهمایا اور سست روی سے دهیرے دهیرے ایک طرف رکتی ایمبولینس سے باہر کود گئی. اس کا سفید دوپٹہ جس میں خون کے دھبے تھے گلے میں لہرا رہا تها. وہ بے شمار روتی ہوئی وہ پوری شدت سے بهاگی اور آگے سے ایک ساتھ اسی طرف لپکتی ہوئی ناظمہ خاتون اور اقراء کے گلے جا لگی.

"مجهے معاف کر دو اقرا میں تمہارا سہاگ اجاڑ لائی ہوں."

اقراء اس کے بازوؤں سے نکل کر نیچے گلی کے پختہ فرش پر جا گری. ناظمہ خاتون اور طیات اس کے ساتھ ساتھ بیٹهی تهیں.

"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وُہ مُجھ سے ملنے آئے تھے ابھی ۴ گھنٹے پہلے ایسے کیسے چلے گئے"
اقراء بڑبڑائی....
"حماد مُجھ سے ناراض تھے مُجھے منانا ہے اُنہیں.... حماد..."
وہ چیخنے لگی تهی.

"میں کیسے جیوں گی آپ کے بنا. خدارا واپس آجائیں میں آپ سے معافی مانگوں گی مُجھے اتنے بڑی سزا مت دیں حماد..
اقراء تڑپتے ہوئے بولی...
"یا اللہ..."
اقرا کی دلدوز پکاروں نے سب کو دہلا دیا. حماد کی والدہ کا سب سے برا حال تها.

"وُہ بول رہا تھا وُہ بس آ رہا ہے...میرا بچہ کہاں ہے"
ناظمہ خاتون نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا....

دو آدمی اب ڈیڈ باڈی  کو اندر لے جا رہے تهے. محلے کی خواتین نے بهی ابتدائی صدمے سے سنبهل کر تیزی سے ان کو تینوں کو اٹهایا اور ساتھ لگائے روتے ہوئے اندر کی جانب بڑهیں.
لاؤنج میں پہنچنے سے قبل ہی اسٹریچر رکھا جا چکا تهی.

جیسے ہی انہوں نے لاؤنج کی دہلیز پار کی حماد کے جسدِ خاکی پر کهڑے  امان اور ایان تیزی سے بهاگ کر طیات کے گلے آ لگے اور اسے ساتھ لگائے دست شفقت پهیرتے ہوئے دلاسے دینے لگے.....
طیات کو خوشی نہیں ہوئی اُن تینوں کو دیکھ کر بھی....
اطلاع ملنے پر یقیناً وہ لوگ ائیرپورٹ سے سیدھا گهر پہنچے تهے. یہی وہ پل تها جب اقرا حماد کی میت پر پہنچی....

"اُٹھیں حماد... آپکو میری قسم. میں مر جاؤں گی حماد میرے ساتھ یوں مت کریں. کوئی ایسے کیسے ساتھ چھوڑ دیتا ہے بهلا؟؟ کوئی یوں بهی لوٹ جاتا ہے؟ ہمیں تو بہت سارا ایک ساتھ جینا تها ناں. آپکو خدا کی قسم..."

اقراء روتی ہوئی حماد کی میت سے کُچھ فاصلے پر بیٹھتی بولی.

"اٹهو حماد... خدارا اٹھ جاؤ. میں ساری عمر اقرا سے نظر نہیں ملا سکوں گی. میرا بچہ... میری جان بچاتے بچاتے تم اپنی جان سے ہار گئے. میں اس احساس سے ہی مر جاؤں گی  یااللہ مجهے میرا بهائی لوٹا دے....."
امان نے بےبسی سے طیات کی طرف دیکھا جو اُس وقت دُنیا سے الگ تھی بِلکُل حماد کی بہن صرف خود کو سنبھالتی ضبط کا مظاہرہ کرتی پھر ٹوٹتی.....

کهلے ہوئے بالوں سے بے پرواہ طیات اقراء کو سینے سے لگائے اسے دلاسہ دینے کی ناکام سے کوشش کرتی....
طیات کا بیٹا اٹهائے روتی ہوئی نمرہ اب خود پر ضبط کرتی ہوئے مسلسل روتے بچے کو ہلا ہلا کر چپ کروانے لگی.

"میرا بچہ میرا حماد چلا گیا میں پھر سے اکیلی رہ گئی وُہ ہی تو تھا میرا واحد میری زندگی کا حاصل..."
ناظمہ خاتون نے میت پر رک کر منہ سے کف گراتے ہوئے کہا اُن سے دیکھا نہیں گیا اُنہوں نے رُخ موڑ لیا....

ہر آنکھ سمندر ہونے لگی. طیات نے پھر سے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناظمہ خاتون کو خود سے لگایا....
"امی دودھ بخش دیں حماد چلا گیا ہے اسے دودھ بخش دیں..."
"میرا حماد طیات"
وُہ مزید تیزی سے اُسے خود سے لگائے ہوئے بولی....
طیات نے ناظمہ خاتون کو ۲ عورتوں کے حوالے کیا اور اقراء کی طرف بڑھی....
طیات نے اقراء کو شانوں سے تهام کر حماد کی میت سے ہٹایا اور جلدی دوبارہ ناظمہ خاتون کو دلاسہ دینا چاہا. اس سے پہلے کہ وہ ان تک جاتی طیات نے دیکها کہ رشتہ دار خواتین کو ہٹاتا ہوا کوئی تیزی سے ناظمہ خاتون کے قریب آیا اور انہیں ساتھ لگا کر خود سے بهینچتا ہوا رونے لگا.
"تائی امی سنبھالیں خود کو.."
طیات نے دیکها کہ انہیں اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں بهر کر ضبط کی حدیں توڑتا وہ شخص بہت  بے قرار ہے.
اس کے انداز میں عجب سا کوئی ملال شامل تها.
وہ انہیں یوں خود سے بهینچے کهڑا تها گویا ان کے سارے غم سمیٹ لے گا.
پهر انہیں تسلی دے کر وہ ہٹا اور طیات کو ترحم بهری نگاہوں سے دیکهتا ہوا بڑھ کر اقرا کے سر پر دست شفقت رکهنے لگا.
مدهم مدهم بول کر وہ اسے کچھ کہہ بهی رہا تها.
اُس سے جهجک کر وہ آہستگی سے ناظمہ خاتون کے پاس کهسک گئی.
طیات کے آنکھیں میں شناسائی کے رنگ اُبھرے تھے...
ایک طائرانہ نگاه پورے حال میں دوڑا کر اس نے جائزہ لیا کہ لاؤنج میں خواتین کا ایک جم غفیر ہے جو لاؤنج کے عین وسط میں اترتی سیڑهیوں سے شروع ہو کر دائیں دیوار میں موجود دیو قامت کهڑکی تک ختم ہو رہا ہے. چیخ و پکار کرتے جانے پہچانے و انجان چہروں کو دیکھ کر اس کا غم پهر سے عود آیا....
اسی نوح و کناں میں کافی وقت بیت گیا.
کبھی طیات ناظمہ خاتون کو سنبھالتی کبھی اقراء کو...
اُسے مضبوط بننا پڑا جبکہ در حقیقت حماد کو اپنی گود میں دم توڑتا دیکھ کر وہ بری طرح سے ہل چُکی تھی....
نمرہ نے بچہ ایان کے حوالے کر کےطیات کو ایک طرف بٹها دیا. ناظمہ خاتون بهی اب ڈولی کے پائے سے سر ٹکائے ہولے ہولے سسکتے ہوئے آہیں بهر بهر کر حماد کے بچپن سے لڑکپن اور پهر جوانی تک کے وقت کو یاد کررہی تھی.....

کچھ سنبهل کر طیات نے دیکها کہ اقرا بالکل سکتے کی سی کیفیت میں آنکهیں بنجران کیے مسلسل حماد کا چہرہ تاک رہی ہے. مرگ والی ساری پیلاہٹیں اس کی گلال رنگت میں آن گهلی تهیں اور اس کے پپڑی زدہ ہونٹوں سے بڑبڑاہٹیں کانپ کانپ کر خراج پاتی تهیں.
میت کو غسل دینے کے لیے اٹها کر وہاں سے لے جایا گیا....
سارے مرد حضرات بھی ساتھ نکل گئے...
طیات ایک بار پهر سے اٹھ کر ناظمہ خاتون کو سنبهالنے لگی کیونکہ اُنکی طبیعت بگڑنے لگی تھی....
اقراء اب بهی اسی حالت میں تهی.
طیات کو لگا کہ صدمہ جهیل جهیل کر وہ سکتے میں آ گئی ہے. خواتین رسماً درود و سلام پڑهنے لگیں اور وہ سب اپنے جذبات پر بمشکل روک لگانے لگیں.
جونہی غسل و کفن کے بعد حماد کی میت کو دوبارہ لاؤنج میں لایا گیا اس کا آخری دیدار کرتے ہوئے پهر سے ہی نالہ و فریاد بلند ہونے لگی.
غسل دینے کے بعد میت کو چهونے سے تو سبهی پرہیز کر رہے تهے....
اقراء اب تک اسی صم بکم حالت میں تهی.

"رو لو اقراء... روتی کیوں نہیں ہو؟؟ وہ جا رہا ہے."
کسی خاتون نے کہا...
"خدا کے لیے یوں چپ نہ رہو. تمہاری چپ مجهے مار ڈالے گی."
طیات نے اشکبار آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"تائی امی چہرہ دیکھ لیں آخری بار اور ہمیں اجازت دیں..."
وُہ ناظمہ خاتون کو خود سے لگائے حماد کے جنازے تک لایا...
ایک آدمی نے چہرے سے دوبارہ کف گرایا....
"میرا بچہ میں کیسے صبر کرونگی کیسے یہ مان لو اب مُجھے میرے بچے کی شکل پھر نہیں دکھے گی..."
ناظمہ خاتون نے اُس سے لپٹتے ہوئے کہا....
"تائی امی صبر کریں...."
وُہ دوبارہ پوری شدت سے اُنہیں خود سے لگاتا ہوا بولا غم سے اُسکا بھی بُرا حال تھا مگر کسی کو تو مضبوط بننا تھا...

"مُجھے دیکھنے دو میرے حماد کو آخری بار مُجھے چومنے دو اُسے مُجھے محسوس کرنے دو میرے بچے کو آخری بار جس کو نو مہینے میں نے اپنی کوکھ میں سینچا میرے جگر کا ٹکڑا..."
ناظمہ خاتون بے قابو ہوکر پھر حماد کی طرف بڑھی...
"تائی امی... تائی امی..."
حماد کو رخصت کریں اُسے تکلیف ہوگی بہت اجازت دیں ہمیں....
وُہ اُنہیں نڈھال چھوڑتا میت کی طرف بڑھ گیا....
بالآخر میت اٹهائی گئی تو طیات نے اقراء باقاعدہ جهنجوڑ ڈالا تها.
کلمہ تکبیر کی صداؤں میں چار مرد میت کو لے کر مرکزی دروازے کی دہلیز تک پہنچے تهے کہ اقرا گویا کسی خیال سے لوٹ آئی....
یکایک اسے شانوں سے تهامے وہ اٹهی اور یہ کہتے ہوئے میت کی جانب بهاگی.

"آں... ہاں میں آنسو سنبهال کر کیا کروں گی طیات. میری آنکهیں تو وہ لے جا رہے ہے. مت جائیں حماد خدا کے لیے... رک جائیں حماد... آپکی اقرا مر جائے گی. کوئی اِنہیں بتائیں میری حالت خدارا وُہ اُٹھ جائیں گے مُجھے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے وُہ..."

اقراء کے حرکت سے ہڑبڑا کر اٹهتی طیات نے اس کی پشت پر بهاگ کر اسے بمشکل دروازے میں پکڑا اور روکنے کی کوشش کرتے ہوئے خود بهی پهوٹ پهوٹ کر رونے لگی.

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro