قسط نمبر ۵۰
#میدان_حشر
قسط نمبر ۵۰
باب نمبر ۱۲
"دوسری صور"
(نجات)
امان نے اُسے شادی کی مبارک باد دینے کے لیے کال تھی جب ابوبکر نے طیات کے متعلق پوچھا اور اپنی اور راحیل کی ملاقات کا بھی جس میں سے کچھ سنسر کردیا....
کافی اصرار کے بعد امان نے اُسے طیات کی طلاق کے بارے میں بتا دیا.....
اتنا سننا تھا ابوبکر نے فون بند کردیا اُس سے مزید بات نا ہوسکی....
ذہن ماؤف ہوتا جارہا تھا....
"یہ کیسا مذاق ہے میرے ساتھ ہر بار"
ابوبکر نے کرب سے سوچا....
" طیات میری ہوسکتی ہے میں اُسے پا سکتا ہوں..."
ابوبکر نے خودغرض بن کر سوچا....
"ماریہ کی اِس سب میں کیا غلطی.."
اُس نے خود سے سوال کیا....
"مُجھے اُس سے بات کرنی ہوگی مجھے یہ شادی روکنی ہوگی...."
وُہ خودغرضی کی حد پر تھا....
اُس نے موبائل پر ماریہ کا نمبر ملایا....
کافی تاخیر کے بعد کال اُٹھا لی گئی....
"ماریہ میں نکاح سے پہلے آپ سے ایک دفعہ بات کرنا چاہتا ہوں..."
وُہ بغیر سلام کیے بولا....
" جی بولیں"
ماریہ کو سنجیدگی محسوس ہوئی اُسکے لہجے میں...
"میں آپ کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بتانا چاہتا ہوں.."
ابوبکر نے خود کو تیار کیا بولنے کے لیے...
ماریہ کو شادی سے چند گھنٹے پہلے یہ باتیں کسی خطرے کی طرف اشارہ کرتی سنائی دی...
"میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں.."
وُہ بغیر کسی لگی لپٹی کے بولا....
ماریہ نے اُسکے الفاظ بغور سُنیں..
اُسے اپنے اندر کُچھ ٹوٹنے کا احساس ہوا....
"تو شادی سے چند گھنٹے پہلے آپ مُجھے یہ بتا کر مُجھ سے کیا چاہتے ہیں ابوبکر.."
ماریہ ضبط سے بولی....
"میں آپکو بس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا تھا"
وُہ کہنا کُچھ چاہتا تھا مگر وُہ الفاظ ادا نا کرسکا....
"کہ آپ شادی سے انکار کردیں"...
"میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے"
ماریہ نے فون بند کردیا....
دِل اِس انکشاف پر خون کے آنسو بہا رہا تھا وہ دُلہن بننے جارہی تھی اُسکی جس سے اُس نے محبت کی تھی مگر اِس انکشاف نے کہ اُسکی محبت کی محبت کوئی اور ہے...
ماریہ نے خود کو سنبھالا اور فون سوئچ آف کردیا....
"یہی ہے ابوبکر تیری زندگی تو کبھی اُسے نہیں پاسکتا کبھی نہیں..."
ابوبکر نے خود سے کہا....
کُچھ چزیں آپکی کبھی نہیں ہوپاتی کیونکہ وہ ہمارے لیے ہوتی ہی نہیں ہے مگر انسان اُمیدوں سے بندھا ایک ضدی پرندہ ہے جو گھائل بھی اُمیدوں سے ہے اور زندہ بھی اُمیدوں پر ہے..
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"بھائی میں طیات کو بہت چاہتا ہوں میری سگی بہن نہیں ہے وُہ مگر میرا اُس سے الگ ہی رشتہ ہے جسے کسی خونی رشتے کی ضرورت نہیں"
حماد نے سامنے بیٹھے آدمی کو دیکھتے ہوئے کہا...
"تُم مُجھ سے کیا چاہتے ہو حماد یہ بتاؤ..."
حماد مسلسل گھما پھرا کر بات کر رہا تھا جس سے وُہ تنگ آگیا....
" طیات کی عدت پوری ہونے کے بعد آپ اُس سے شادی کرلیں...میں جانتا ہوں بلکہ مُجھے پورا یقین ہے آپ اسے بہت خوش رکھیں گے وہ آپکی سنگت میں اپنی زندگی کے سارے غم بھول جائے گی...بس اُس کا ہاتھ تھام لیجئے گا..."
حماد نے ملتجی انداز میں اُسکی طرف دیکھا....
اُسکے لیے یہ بات کسی شاک سے کم نا تھی وہ بغیر کوئی جواب دیئے روم سے نکل گیا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"ماریہ صدیق ولد صدیق قریشی آپکا نکاح ابوبکر ریاض ولد ریاض عزیز کے ساتھ با اواست 2 لاکھ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کے طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قُبول ہے..."
اگر آج وُہ سچائی سے آشنا نا ہوتی تو یہ وقت اُسکی زندگی کے سب سے حسین وقت تھا....
"اِس شخص کے ساتھ گزارہ کیسے ہوگا.."
اُس نے افسردگی سے سوچا....
پثر مردگی سے کیفیت تھی.....
گھونگٹ کے اندر ہی اُس نے ایک گہری سانس لی اور اقرار کے لیے لبوں کو جنبش دی....
"قبول ہے.."
آنکھوں سے موتی بھی چھلک پڑے.....
"ماریہ صدیق ولد صدیق قریشی آپکا نکاح ابوبکر ریاض ولد ریاض عزیز کے ساتھ با اواست 2 لاکھ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کے طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قُبول ہے..."
دِل چاہا نا کردے مگر محبت کے لیے سب سے پہلے انا کی ہی قُربان کردی جاتی ہے...
"قبول ہے"
وُہ ضبط سے بولی...
"ماریہ صدیق ولد صدیق قریشی آپکا نکاح ابوبکر ریاض ولد ریاض عزیز کے ساتھ با اواست 2 لاکھ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کے طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قُبول ہے..."
"قبول ہے"
" مبارک ہو ماریہ ابوبکر ریاض تُم اُس کی زندگی میں ایک ان چاہی شے بن کر آ گئی...."
خود اذیتی عروج پر تھی....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
جب راحیل ہال میں پہنچا تو ابوبکر سے نکاح کے ایجاب وقبول کروائے جارہے تھے...
اُس نے سب کُچھ سُنا مگر دِماغ بس دو لفظوں پر اٹک گیا....
"ماریہ صدیق"
اُسکی توقع کے بر عکس جو دو الفاظ وُہ سننے کی تڑپ اُسے وہاں کھینچ لائی تھی وہ الفاظ تھے ہی نہیں....
وُہ ہال کے ایک تاریک حصے میں کھڑا تھا تاریکی صرف وجود پر نہیں آج اُسکے اندر بھی چھائی ہوئی تھی....
اُسکا ہر قدم لغزش پا تھا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"راحیل خود کو بدلو تُم پستی میں گرتے جارہے ہو..."
اقراء نے راحیل کو دیکھتے ہوئے کہا جو اُس وقت بھی کسی لڑکی کے ساتھ تھا مالز کی خاک چھانتا....
اُس نے راحیل کو کئی مہینوں بعد دیکھا تھا.... بظا ہر سب ٹھیک تھا کُچھ تھا مگر کُچھ ٹھیک نہیں تھا وُہ جھانک سکتی تھی اُسکے اندر بھلے جتنی دوریاں ہو رشتہ خون کا تھا....
"میرے راستے میں مت آیا کریں... میں جو بھی کروں میری مرضی میری زندگی ہے..."
اہانت آمیز لہجے میں کہتا ہوا وُہ چلا گیا....
اقراء کی آنکھوں میں نمی آگئی....
اُس نے حماد کی اپنی طرف آتا دیکھا تو غیر محسوس انداز میں آنکھیں صاف کی تا کہ وُہ دیکھ نا سکے....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"میں بات کروں امی طیات سے میں اُسے اپنے اور راحیل کے رشتے کے بارے میں بتاؤ گی میں جانتی ہوں اُسکے لیے یہ خوشگوار نہیں ہوگا مگر سامنے ہاتھ جوڑوں گی میرے بھائی کو سنبھال لے مُجھ سے نہیں دیکھی جاتی اُسکی حالت مانتی ہوں راحیل نے غلط کیا ہے مگر ایک موقع ..."
اقراء نے ناظمہ خاتون سے اجازت چاہی...
اُن دونوں نے طیات سے یہ بات چھپائی تھی...
ناظمہ خاتون نے کُچھ سوچ کر اجازت دے دی.....
اتنے میں طیات خود کمرے میں آگئی....
وہ حمل کے آخری مراحل سے گزر رہی تھی جس کا اندازہ جسم کی بھری بھری ساخت سے ہو رہا تھا....
"طیات مُجھے آپ سے بات کرنی ہے..."
اقراء نے طیات سے نرم لہجے میں کہا...
"جی بولیں"
وُہ خود کو سنبھالتی ہوئی بیٹھ کر بولی...
"میں جو آپ سے بات کرنے جارہی ہوں اُسے ٹھنڈے دماغ سے سنیئے گا بلکل تحمل سے.."
اقراء نے اپنی نظریں مکمل اُس پر جماتے ہوئے کہا....
"میں راحیل کی بہن ہوں..."
اپنی دانست میں اقراء نے بم پھوڑا...
طیات کے چہرے سے کُچھ دیر پہلے کا اطمینان رخصت ہوا...
اُس نے اپنا چہرہ سپاٹ بنا لیا....
اقراء نے اُسے سب کچھ بتادیا....
طیات پھر بھی چُپ رہی....
"پھر"
وُہ نیاز بن کر بولی گویا پتھر کی ہو....
"بھابی... میری بات سنیں.."
اقراء نے اپنے اور اُسکے بیچ رشتے سے مخاطب کیا....
"مُجھے بھابھی مت کہو میرا تمہارے بھائی سے کوئی رشتہ نہیں ہے...تُم حماد کی بیوی بن کر آئی ہو مُجھ سے اور کوئی ناطہ مت جوڑنا..."
وُہ پھٹ پڑی اور نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوئی....
"راحیل بے قصور ہے اُس نے بچپن سے..."
اقراء کہتے ہوئے رُکی طیات کے تاثرات پل میں متغیر اور غضبناک ہوئے....
"کس منہ سے اُسے بے قصور کہہ رہی ہو تُم کِس منہ سے... یہی کہنا چاہتی ہو نہ جو اُس نے میرے ساتھ کیا وُہ اُسکی ماں کے کردار کی بے اعتباری تھی میں صرف اِس لیے اُسے معاف کردوں کیونکہ اُسکا بچپن تلخ تھا... میرا کردار ہمیشہ سے اُسکے سامنے تھا.....
اقراء تمہارا بھائی ۳۰ سال کا سوچ سمجھ رکھنے والا پکی ذہنیت کا مرد ہے بچہ نہیں ہے وُہ....
وُہ اپنی جوانی کے نشے میں کسی کی عصمت کو تار تار کرسکتا ہے.....
تب بھی تمہارا بھائی بے قصور ہے بدکردار تو میں ہوں نا وُہ با کردار ہے...."
طیات باقاعدہ چیختے ہوئے بولی تھی...
ناظمہ خاتون نے آٹھ مہینے کے اِس عرصے میں اُسے پہلی بار چیختے سُنا تھا....
"آپ بہت جذباتی ہورہی ہے"
اقراء نے کمزور سا دفاع کیا...
"اقراء تمہیں اچھا لگے یا بُرا تمہارا بھائی یا تُم کیا سوچتے ہیں مُجھے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا....میں نے ہر چیز پر سمجھوتہ کیا ہے مگر کسی کو اجازت نہیں کے میرے کردار پر داغ لگائے....
ہر لڑکی انعم صابر نہیں ہوتی اور نا ہر لڑکی
طیات حیدر...اُس کم ظرف نے مُجھے اور اپنی ماں کو ایک ہی ترازو میں تولہ تو اُسکی گھٹیا سوچ کا پلڑا بھاری نکلا...
مُجھے کُچھ نہیں سمجھنا کُچھ نہیں سننا اب بہت سناٹا ہے میرے اندر گہرا سناٹا سارے احساس رو رو کر ابدی نیند سو چُکے ہیں...."
طیات بولتے بولتے اچانک پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخی....
"طیات"
ناظمہ خاتون نے اُسے سہارا دیا....
"امی کہہ دے اِس سے میں اُس اِنسان کو مرتے دم تک معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں..."
درد مزید بڑھتا جارہا تھا....
ابوبکر اور ماریہ اُس سے ملنے آئے تھے ملازم اُنہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر گئے تھے..
چیخنے کی آواز پر وُہ دونوں چونکے تھے....
" طیات ... طیات"
ناظمہ خاتون اُسے سنبھالتے ہوئے بٹھایا...
اُسکے درد میں تیزی آتی جارہی تھی....
اقراء نے حماد کو کال کی اُسکا سیل آف تھا....
ابوبکر اور ماریہ آواز پر اوپر کی طرف بڑھے طیات کی حالت دیکھ کر سششد رہ گئے....
"میں گاڑی نکالتا ہوں آپ لوگ طیات کو لے کر آئیں "
ابوبکر تیزی سے نیچے بھاگا....
ماریہ اور اقراء طیات کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا ابوبکر نے گاڑی ہاسپٹل کے رستے پر ڈال دی...
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
راحیل اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا...
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی...
نیند کی گولیوں کی تلاش میں اُس نے دراز کھنگالیں ایک کتاب نیچے گری اور مطلوبہ شے بھی....
"میدان حشر"
دو لفظ پڑھ کر اُسے یکدم کُچھ ہوا سارے احساس جاگ اٹھے....
غیر ارادی طور پر اُس نے کتاب کھول کر پڑھنا شروع کی...
کتاب کھولے راحیل جو جو پڑھ رہا تھا اُسکے چہرے کا رنگ بدلتے جا رہے تھے....
۔
میدان حشر دُنیا کے ہر مسلمان کا اِس ایک مقام پر ایمان یعنی آخرت پر ایمان یقیناً ہے جب ہی تو وہ مسلمان ہے...سب ہی جانتے ہیں میدان حشر کیا مقام ہے یہ کہاں ہے....
ایک دن ایسا آئیگا جب یہ خوبصورت سی دُنیا میدان حشر بن جائیگی...
اور ڈرو اُس دن سے...."
راحیل پر لرزہ طاری ہونے لگا تھا...
”میدان حشر کیا ہوگا کیسا ہوگا بہت سے سوال بہت سے منظر ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں..اصل منظر کیا ہوگا کسی کو نہیں پتا ہم بس اندازے لگا سکتے ہیں اُن اشاروں سے جو اللہ نے دیے ہیں ہمیں..."
اُسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد ہوا کا جھونکا داخل ہوتا محسوس ہوا...
پیشانی عرق آلود تھی...
”میدان حشر کی زمین ایسی ہموار ہوگی کہ اس کنارے پر رائی کا دانہ گر جائے تو دوسرے کنارے سے دیکھائی دے اور اس دن زمین تانبے کی ہوگی"
ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے...
اُسے اپنے نیچے موجود زمین یکدم تانبے کی لگنے لگی اور فل سپیڈ میں چل رہے اے سی کے باوجود اُسے لگا سورج اُسکے سر پر آ پہنچا ہے...
جب زمین تانبے کی اور آفتاب (سورج) نہایت تیزی سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا تو اس روز کی حالت پریشانی اور گھبراہٹ کا کیا پوچھنا ۔
شدت گرمی سے بھیجے کھولتے ہوں گے۔ لوگ پسینہ میں ڈوب رہے ہوں گے۔ زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی۔
دل ابل کر گلے کو آجائیں گے پھر باوجود ان مصیبتوں کے کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی ۔ ماں باپ اولاد سے پیچھا چھڑائیں گے۔ غرض کس کس مصیبت کا بیان کیا جائے۔ زندگی بھر کا کیا دھرا سامنے ہوگا۔ اور حساب کتاب لینے والا اللہ واحد قہار۔"
اُسکی زندگی کا نچوڑ اُسکے سامنے تھا کیا سود و زیاں تھا کیا مقصد کیا حاصل....
کتاب کو بند کرکے وہ باہر کی طرف بھاگا دیوانہ وار بہت تیز بارش ہورہی تھی طوفانی بارش مگر وہ بھاگے جا رہا تھا....
مغرب سے نمودار ہونے والے سیاہ بادلوں میں پیچھے کیا ہے کوئی نہیں جانتا تھا کسی کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان سیاہ بادلوں کے پیچھے ایک قیامت کا منظر ہے ایک دم رات کی تاریخی میں ڈوب گیا اور موسلا دار بارش ہونے لگی پھر اچانک ہی گھومنے والی ہوا ؤں نے بارش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک خوف ناک منظر آنکھوں کے سامنے تھا ہر چیز ہوا اور بارش نے ہلا کر رکھ دی ابھی اسی خوف ناک منظر کا نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا کیا واقع ہی آج قیامت برپا ہونے والی ہے انسانی زندگی تو جیسے ساقط ہو کر رہ گئی تھی ہر طرف خوف ہی خوف تھا اچانک ہی مسجدوں میں اذانوں کا سلسلہ جاری ہو گیا رات کو ۹ بجے کا وقت تھا گمان آدھی رات کا ہوتا تھا.....
وہ حقیقتاً ایک انتہائی بھیانک رات تھی...
بادل گرج رہے تھے۔بارش پورے زور وشور سے ہورہی تھی...
گویا طوفان آنے والا تھا سڑکیں بلکل ویران تھی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی بھی تیز بارش سے ہوکر ہلکی ہلکی زمین پر پڑ رہی تھی... اُس طوفان میں کسی آدم زاد کا نامو نشان تک نہیں تھا دور دور تک...
جانور بھی سارے کہی جا چھپے تھے عموماً کراچی میں اتنی تیز بارش نہیں ہوتی مگر نجانے ایسا کیا تھا آسمان بھی آج اشک بہا رہا تھا...
اچانک اس طوفانی بارش میں کہی دور سے ایک ہیولا دوڑتا دکھائی دیا جو جو ہی قریب ہوتا گیا ظاہر ہوتا گیا وہ لگ بھگ کوئی تیس بتیس سال کا نوجوان تھا بدحواسی کے عالم میں بھاگ رہا تھا جیسے کوئی اُسکے پیچھے پڑا ہو کسی سے بھاگنا چاہ رہا ہوں مگر ناکام ہو رہا تھا....
اسے کسی چیز کا خوف نہیں تھا نہ جانے اتنی سخت طوفانی بارش میں وہ کس سے بھاگ رہا تھا کون سا سائبان تلاش کر رہا تھا پناہ لینے کے لیے مگر شاید وقت آ چکا تھا اُسکے رسوا ہونے کا..
نہ جانے کیا غم تھا کیا گھاؤ کیا بوجھ تھا دِل پہ اُسکے اندر بے سکونی تھی جسم لرز رہا تھا وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا ایک آواز تھی جو بار بار اُسکی سماعتوں میں گونج رہی تھی خون کی طرح اُسکے جِسم کے ہر حصے میں سرائیت کر رہی تھی...وہ اِس آواز سے پیچھا چھڑانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا.....
"پہلی ثور پھونکی جا چکی ہے بے چینی تمہارے وجود میں سرائیت کر چُکی ہے ۔
تُم کانپ رہے ہو ابھی سے ابھی تو دو ثور باقی ہے تُم تو ابھی سے مرنے لگے ہو انتظار کرو اگلے عذابوں کا سوچو تب کیا حال ہوگا تمہارا ...ابھی تو بس شروعات ہوئی ہے....
تمہارے وجود...
تمہاری انا....
تمہارے وقار....
تمہاری خود سری...
تمہارے گھمنڈ غرور ....
تمہارے گناہوں....
تمہارے ظلموں... کے اختتام کی بس شروعات ہوئی ہے تمہیں بھی تو پتہ چلے کے اورو پر کیا گزرتی ہے....
اُس نے اپنے کانوں پے ہاتھ رکھ لیا اور بیچ سڑک پے بیٹھتا چلا گیا.....
ابوبکر انتہائی ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا جا رہا تھا طیات کو ہاسپٹل چھوڑ کر وُہ دوبارہ کسی کام سے جارہا تھا....
موسم نے بھی ظُلم ڈھا دیا تھا طوفانی بارش تھی اسٹریٹ لائٹ کی مدھم مدھم سی روشنی میں اُس نے بیچ سڑک میں کسی کو بیٹھا دیکھا...
ابوبکر نے کار کو بریکس لگائے...
وُہ خاصا سنانے کی خاطر گاڑی سے نکل کر اُس تک آیا تھا مگر بیچ سڑک پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر وُہ سچ میں پتھر کا ہوگیا اپنی جگہ بلکل ساکت منجمد...
اُسے یقین نہیں آرہا تھا جو وُہ دیکھ رہا ہے وُہ خواب ہے یہ حقیقت...
"اِس حال میں تو میں نے کبھی بھی نہیں چاہا تھا تمہیں جتنا بڑا رقیب سہی میں تمہارا بے تحاشہ نفرت کرتا ہوں مگر میں نے کبھی بھی یہ نہیں چاہا تھا کے کبھی تمہیں اِس حالت میں
دیکھو"
اُس نے افسوس سے سوچا....
وُہ چھاتا لینے دوبارہ گاڑی کی طرف بھاگا....
ڈیش بورڈ پے رکھا موبائل بج اُٹھا....
"ورلڈ کالنگ"
یہ ماریہ کی کال تھی...
اُس نے سر اندر کیے ہوئے ہی کال ریسیو کی...
دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز اُبھری...
"لڑکا ہوا ہے"
خوشی سے بتایا گیا...
وُہ اور بھی بہت کُچھ بول رہی تھی مگر موبائل پے گرفت ڈھیلی پڑنے کی وجہ سے وُہ نیچے سیٹ پر گر گیا....
"لڑکا ہوا ہے"
آواز تازہ تھی ابھی بھی گونج تھی کانوں میں...
وُہ بھاگ کر فوراً اُس تک آیا...
دوسرا شخص نیم بیہوش ہوچکا تھا....
اُس نے راحیل کو اُٹھا کے گاڑی میں بٹھایا...وُہ اب مُکمل ہوش کھو چکا تھا....
"لڑکا ہوا ہے"
اُسکے کانوں میں دوبارہ اپنی بیوی کی آواز گونجی....
اُس نے ایک افسوس بھری نگاہ اُسکے بیہوش وجود پر ڈالی اور گاڑی فل اسپیڈ میں ڈال دی....
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro