قسط نمبر ۵
#میدان_حشر
قسط نمبر ۵
ابوبکر بستر پر لیٹا ہوا تھا آرام کی غرض سے مگر جو ہی اُس نے اپنی آنکھیں بند کی ایک چہرہ جو پچھلے کتنے دنوں سے اُسکا چین چھینا ہوا تھا دوبارہ اِسکی نظروں کے سامنے آگیا اسے نہیں سمجھ آرہا تھا کے یہ سب کیا ہورہا تھا...
"یہ مُجھے کیا ہوگیا ہے"
وہ خود سے ہمکلام ہوا.....
اپنی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے اُسے ہمیشہ سے صنف مخالف سے توجہ ملی تھی پھر چاہے وہ یونیورسٹی ہو یہ پھر جہاں وہ کام کرتا ہوں...
مگر اِس بار ماجرا الگ تھا پہلی بار کسی صنف مخالف نے اُسّے اپنی طرف متوجہ کیا تھا....
صرف متوجہ نہیں طیات تو اُسکے دماغ پے سوار ہونے لگی تھی....
"میں کیسے ایسا سوچ سکتا ہو وہ میرے دوست کی بہن ہے وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا کتنا بھروسہ کرتا ہے امان مُجھ پر" ابوبکر نے خود کو ملامت کی....
دوسری طرف دِل نے کہا...
"کُچھ غلط نہیں سوچ رہے پسند کرنے کا حق ہر انسان کو ہے تمہیں بھی وہ پسند آگئی ہے...
اِس میں کُچھ غلط نہیں"
دِل دماغ کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا...
دماغ دِل کی رائےسے اتفاق نہیں رکھتا تھا..
دونوں اپنی ضدو پے قائم تھے...
بےچینی کی وجہ سے نیند اُسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی...
"ہاں میں کُچھ غلط نہیں سوچ رہا اس بات کی اجازت تو مجھے دین بھی دیتا ہے پسند کرنا کوئی بری بات نہیں"...
ابوبکر نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگردل اور دماغ کے بیچ چھڑ چُکی جنگ ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی نہ ہی وہ کوئی فیصلہ کر پا رہا تھا....
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
بکس شاپ پے کھڑی وہ اپنی مطلوبہ کتابیں دیکھ رہی تھی...
"اسلام و علیکم.."
شناسا آواز پر اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جازم ریحان کو گود میں اٹھائے کھڑا تھا اور اسے دیکھ کر مُسکرا رہا تھا....
جواباً وہ بھی مسکرائی...
"وعلیکم السلام"
"آپ یہاں کیسے؟"
طیات سے کوئی سوال نہ بن پڑا تو اُس نے بے دھیانی میں پوچھ لیا...
بول ک جب الفاظوں پے غور کیا تو اپنی حماقت کا احساس ہوا اسے....
جازم اُسکی کیفیت کو سمجھ رہا تھا...
وہ میں برگر لینے آیا تھا...جازم نے جان بوجھ کر اُسے چھیڑا...
اُسے شرماتی گھبراتی یہ لڑکی دِل سے اچھی لگی تھی..
"آنٹی میں پاپا کے ساتھ اسٹوری بکس لینے آیا تھا"
ریحان اسکے لیے فرشتہ ثابت ہوا...
اُس نے آگے بڑھ کر ریحان کو پیار کیا....
دکاندار نے اسے بکس کا شاپر دیا... جسے تھام کر وہ بولی...
"اب میں چلتی ہو پھر ملے گے اور ریحان آپ ہمارے گھر کب آؤ گے ؟"
""آنٹی جلدی آؤگا پاپا کے ساتھ"
"میں انتظار کرونگی آپکا "
طیات اُسکے گال پے بوسا دیکر جانے لگی..
"میں آپکو طیات گھر چھوڑ دو"
جازم نے پیچھے سے کہا۔
"نہیں تھنک یو بھائی کے ساتھ آئی ہو وہ بس آتے ہی ہوگے مجھے لینے"
" طیات لے لی تُم نے اپنی بکس"امان نے کہا پھر جیسے ہی جازم کو دیکھا بولا...
"ارے جازم آپ یہاں کیسے"
"کیوں بھئی میں یہاں کیوں نہیں آسکتا"اُس نے ہستے ہوئے کہا..
"نہیں میرا کہنے کا مطلب تھا"
اچھا یہ سب چھوڑو...
"اور سناؤ باقی سب سیٹ ہے"وہ دونوں بلکل دوستوں کی طرح باتیں کر رہے تھے دیکھ کر لگتا نہیں تھا دونوں کے درمیان باس اور ورکر کا رشتا ہے...امان پھر بھی اسے آپ کہہ کر ہی مخاطب کر رہا تھا...
"جی جازم سب ٹھیک ہے" اچھا اب ہم چلتے ہے..
امان نے اُس سے ہاتھ ملایا اور واپس گاڑی میں آگئے"
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
"کیسی ہو طیات"؟
نمرہ نے آج بہت دنوں بعد اُس سے بات کرنے کی کوشش کی...
طیات نے اس دن کے بعد سے نمرہ سے بات چیت ترک کردی تھی..
"ہُن...ٹھیک ہو"
طیات نے ہے مروتی سے جواب دیا...
"یار اس سب میں میری کیا غلطی تھی تُم مجھے کیوں غلط سمجھ رہی ہو یار ہم تو بہت اچھے دوست ہے ایک بات کی وجہ سے تُم سب کچھ بھول گئی میں نے تو تمہیں اجازت دی تھی نہ گھر آکر بات کرنے کی اس سے زیادہ کیا کرسکتی تھی میں اب میں کوئی تمہارے بھائی سے محبت تو کرتی نہیں کے اپنے امی ابو کے سامنے جاکر کھڑی ہوجاؤ اور کہو "شادی کرونگی تو صرف امان حیدر سے ورنہ کنواری مر جاؤں گی"
طیات کو اُسکے خفا انداز اور بے ساختہ ہسی آگئی...
"ہس لو تمہیں کیا مشکل تو میرے لیے ہے نہ ایک طرف امی ابو ایک طرف جان سے پیاری دوست" نمرہ نے اُس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا..
"اچھا اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے چلو گھر چلتے ہیں"
"نہیں طیات آج تو مجھے عامر اور اُسکی امی کے ساتھ شاپنگ پے جانا ہے وہ لوگ مجھے یونیورسٹی سے پک کر لینگے بلکہ وہ آگئے" نمرہ نے ایک طرف اشارہ کیا... وہاں سے ایک عام شکل و صورت کا نوجوان اُنکی طرف بڑھ رہا تھا "
" طیات نے ایک نظر اسکو دیکھا پھر نمرہ کو جیسے کہہ رہی ہو کیا سوچ کر میرے بھائی کو منع کیا تھا"
"اسلام و علیکم"
"وعلیکم السلام"
طیات نے روکھے انداز میں جواب دیا...
"نمرہ یہ آپکی دوست ہے یقیناً طیات"
"جی میں ہی طیات ہو" اُسکا لہجہ اب بھی سرد تھا...
"آپ بھی چلیں ہمارے ساتھ"عامر نے خوش دلی سے کہا..؟
"نہیں شکریہ آپ اپنی منگیتر کو لے کر جائیں میں شاپنگ اپنے بھائی کے ساتھ ہی کرتی ہو"
طیات نے جتاتے انداز میں نمرہ کو دیکھ کر کہا تو اُس نے پل میں نظرے چرائی..
"خدا حافظ”
طیات کہہ کر آگے نکل گئی اُسکی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اتنی تلخ کیوں ہوگئی تھی جب کے اِس سب میں عامر کی کوئی غلطی نہیں تھی...
مگر وہ وہ انسان ہے جسے اُسکے بھائی پر ترجیح دی گئی تھی تُو اُسکا اِس طرح کا عمل فطری تھا...
ابھی وہ یونیورسٹی سے باہر نکلی ہی تھی ایک نئی مصیبت اُسکی منتظر تھی...
"یا اللہ یہ شخص آخر کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے"
طیات نے راحیل کی گاڑی کو اور گاڑی کے ساتھ کھڑے راحیل کو دیکھ کر کہا جس کے چہرے پر اسے دیکھ کر مسکراہٹ آگئی تھی..
طیات اُسے دیکھا کر ان دیکھا کرتی آگے نکل گئی...
راحیل نے بھی گاڑی اُس کے پیچھے لگا دی.....
"میری بات سنو" طیات نے اپنی رفتار بڑھا دی ...
"دیکھو ایک بار میری بات سن لو"
وہ مسلسل گاڑی سے سر نکالے اُسی بول رہا تھا پھر اُس نے گاڑی طیات کے آگے آکر روک دی...
اور گاڑی سے اُتر کر اُسکے سامنے آگیا...
"کتنا بھاگو گی طیات حیدر"
"تمہارا مسئلہ کیا ہے آخر چاہتے کیا ہو تُم کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو میں تمہیں پہلے ہی بتا دوں میں ان لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں جن سے تمہاری دوستی ہے"
طیات میں غصے سے کہا...
"اُن جیسی نہیں ہو تبھی تو مجھے اچھی لگتی ہو کیوں کے تُم اُنکی طرح میرے پیچھے نہیں پڑی جب کے میں تمہارے پیچھے خود چل کر آیا ہو تمہاری یہ ادا ہی تو مجھے پسند آئی ہے شاید پیار کرنے لگا ہو تُم سے"
طیات کے تو سر پر لگی تلووں پے بُجھی ...
"گھٹیا انسان دفع ہوجاؤ ورنہ شور کرکے سب کو اکھٹا کر لونگی"
اپنی یہ خواہش بھی پوری کر لوں راحیل نے اُسکی کلائی پکڑ لی...
طیات کو تو پتنگے لگ گئے...
اگلے ہی پل اُسکا ہاتھ گھوما اور راحیل کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا...
"آئندہ کبھی میرے راستے میں آنے کی یہ مجھے چھونے کی کوشش کی نہ حشر بگاڑ دونگی تمہارا ذلیل انسان...
تھپڑ کو دیکھ کر آس اس کے لوگ خاموش تماشائی بن کر انکی طرف متوجہ ہوئے...
جب کے ایک پاکستانی کا خون جوش مارا آگے بڑھ کر بولا...
"کیا ہوا تنگ کر رہا ہے کیا آپکو"
"دیکھیں نہ بھائی بے غیرت کو لگتا ہے گھر میں ماں بہن نہیں تب ہی دوسروں کی بہنوں کو بیچ بازار روک کر گھٹیا پن دکھا رہا اپنا"
"اُس آدمی نے آگے بڑھ کر راحیل کا گریباں پکڑ لیا کچھ اور لوگوں کی غیرت بھی جاگی"
بڑی مشکل سے اُس نے اپنی جان چھڑائی پھر دوبارہ تھوڑا آگے جاکر پیدل چلتی طیات کے پاس گاڑی روکی...
"تُم نے اچھا نہیں کیا بہت بڑی قیمت چکانی ہوگی تمہیں اُسکی"
"دیکھے گے..."
طیات نے بے نیازی سے کہا...
طیات نے جاتے جاتے سڑک سے کیچڑ اُٹھا کر اُسکے کپڑوں پے اچھال دیا....
"یہ ہے تمہاری اوقات اور خبردار آئندہ میرا پیچھا کرا ورنہ اب کی پتھر سے سر کھول دوگی تمہارا ذلیل شخص"
راحیل نے ایک نظر اپنے گندے کپڑوں اور جاتی
طیات کو دیکھا اور غصے سے مُٹھی بھینچ لی.....
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
پاپا...
"جی بیٹا "
"پاپا کیا طیات آنٹی ہمارے ساتھ رہ سکتی ہے"
ریحان نے جازم سے پوچھا...
"کیوں بیٹا میرے ساتھ خوش نہیں ہو" جازم نے اسے چھیڑا...
"پاپا آپ طیات آنٹی کو میری مما بنا دے میں کبھی آپ سے امی کا نہیں پوچھو گا"
ریحان نے معصومیت سے کہا...
جازم کو اسکی عمر کی بے نیازی صاف گوئی اور بے فکری پے بے پناہ رشک آیا...
جس سوال کا جواب وہ کب سے ڈھونڈ رہا تھا بلا آخر اسے ایک جھٹکے میں مل گیا...
بیٹا ہم بعد میں بات کریں گے ابھی پاپا کو بہت کام کرنا آپ گیم کھیل لو پاپا کے موبائل پے....
جازم نے ریحان کو اپنا موبائل دیا تو وہ سب بھول کر گیم میں گُم ہوگیا....
"مجھے طیات سے کوئی محبت نہیں"
اِس نے خود سے سوال کرا...
تو اندر سے جواب آیا...
”پر جیسی لڑکی مجھے جیون ساتھی کے روپ میں چاہیے طیات ویسی ہی تو ہے سب سے بڑا میرا خدشہ کیا ہے شادی کے حوالے سے...یہی نہ کے کوئی لڑکی میرے ساتھ ساتھ ریحان کو بھی اپنائیں اور طیات بِلکُل ویسی ہی تو ہے... محبت کا کیا ہے شادی کے بعد ہو ہی جائیگی"
"پر وہ مُجھ سے شادی کیونکر کرے گی؟؟"دماغ نے سوال کیا...
"اُس میں کیا خامی ہے جو وہ میرے ساتھ ایک بچے کو بھی اپنائے وہ کیوں ایک بچے کی ذمےداری لے گی ہنس کر بات کرنا تو ٹھیک ہے مگر یہ عمر بھر کا فیصلہ ہے وہ بھلا میرا انتخاب کیوں کرے گی؟..
دماغ حقیقت پسندی سے سوچ رہا تھا اور دِل... دِل کے سوچنے کا وقت نہیں آیا تھا کیونکہ یہ معاملہ دل کا نہیں تھا....
اُس نے پھر سر کو جھٹکا اور کام میں مصروف ہوگیا...
✳✴✳✳✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
"تمہیں تو میں حاصل کر کے ہی رہو گا آج تک کسی بھی لڑکی کی اتنی ہمت نہیں راحیل آفتاب کو منع کر سکے لڑکیاں میرے قریب انے کے بہانے ڈھونڈتی ہے اور تُم...
تمہارا حصول اب میری انا کا مسلہ بن گیا ہے
طیات"
راحیل اکیلے کمرے میں بیٹھا خود سے باتیں کر رہا تھا... سخت غصے سے اُسکا چہرہ لال ہورہا تھا پورا...
"ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی تُم سے تو سود سمیت بدلہ لونگا میں طیات حیدر"
اُس نے موبائل پے کوئی نمبر ڈائل کرا...
فون پے بات کرنے کے دوران اُسکے چہرے پر ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ آتی جا رہی تھی فون بند کرکے وہ خود سے ہمکلام ہوا
"کہا تک بچوں گی اب تو میں تمہیں روز نظر اونگا طیات میں اپنی ضد کے لیے کُچھ بھی کرسکتا بوں تُم میری ضد بن چُکی ہو طیات اور میں اپنی ضد ضرور پوری کرتا ہو..."اُسکی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی....
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
"تمہارے گھر نہیں" ابوبکر نے گھبراتے ہوئے کہا..
"کیوں میرے گھر کیوں نہیں وہاں جن ہے کیا"امان نے ہستے ہوئے کہا...
"نہیں یار بس مجھے اچھا نہیں لگتا ہم لوگ کہی باہر کھالیتے ہے نہ بلا وجہ زحمت کروگے"
"اوئے ایک بار بکواس کی نہ تو لگاؤ گا ایک زحمت ہوگی آیا بڑا ...مجھے پتہ ہے ہم لوگ باہر بھی کھاسکتے ہے پر یار میرا چھوٹا بھائی تُجھ سے ملنے کو بے تاب ہے دیکھنا چاہتے ہیں کون مجھے جھیل رہا ہے اس دن کی ملاقات تو کیا ہوئی تھی.. اور تو"
امان نے ناراض ہوتے ہوئے کہا...
"اچھا اب ناراض تو مت ہو یار اب نہیں بولتا تو جہاں بولے گا چلو گا"
"یہ ہوئی نہ اچھے بچوں والی بات"
ابوبکر اس بات پر مسکرایا...
"اچھا تو کل رات کو ملتے ہے کھانے پر میرے گھر
پر"
"میں نے جازم کو بھی بلایا ہے"
"ٹھیک ہے اللہ حافظ"
ابو بکر بوجھل قدموں سے اپنے گھر کی طرف چل دیا...
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✴✳✳✳✴✳✴
"بھائی مجھے کُچھ پیسے چاہیے طیات نے امان سے کہا"
"یہ لو" ابو بکر نے والٹ طیات کے آگے کردیا...
طیات نے کُچھ پیسے نکالے اور والٹ واپس دے دیا...
ساتھ بیٹھے ایان سے برداشت نہ ہوا آخر بول ہی پڑا...
"یہ غلط بات ہے بھائی آپی نے مانگے تو آپ نے پورا کا پورا والٹ اُنکو دے دیا میں مانگو تو دس سوال
کتنے؟
کیوں؟
ابھی تو دیے تھے...
کرتے کیا ہو اتنے پیسوں کا؟
" اُسکے بولنے کے انداز پے امان اور طیات دونوں کی ہنسی نکل گئی"
"ہا تو پوچھو گا تو نہ ساری چیزیں تو ہے تمہارے پاس پھر جیب خرچ بھی دیتا ہوں ہر ہفتے جب کے طیات نہیں لیتی جب ضرورت ہوتی تب ہی بولتی اور ورنہ مجھے دینے میں کوئی مسلہ نہیں کماتا کس کے لیے ہو تُم دونوں کے لیے تو کرتا ہوں سب"
امان بولتے بولتے کُچھ جذباتی ہوگیا..
" طیات کل رات کو میں نے اپنے دوستوں کو بلایا ہے کھانے پر تو کُچھ اچھا سا بنا لینا"
"ایان کو یکدم دلچسپی ہوئی...
"ارے مطلب کل دنیا کا سب سے ہمت والا انسان تشریف لہ رہے ہیں"ایان کی زبان سے فیصل گیا...
طیات نے اسے کڑی نظروں سے گھورا گویا یاد دلہ رہی ہو بھائی بھی موجود ہے.؟؟
"کیا مطلب امان نے پوچھا ..
"کچھ نہیں بھائی میں تو کہہ رہا تھا کل خوش قسمت انسان تشریف لا رہے ہیں آپ کے دوست جو ہیں"
ایان نے بات بنانے کی کوشش کی...
"بس رہنے دو جانتا ہو تمہیں بھی کیا بول رہے تھے"
ایان بغلے جھانکنے لگا...
ٹھیک ہے بھائی میں بنا دونگی آپ بس اس ایان کو بول دے سامان ٹائم سے لہ دے..
اور ہا اگلے مہینے اسکے پیپرز ہے فائنل ذرا دیکھے اِسکی تیاری...
طیات نے پھر اسے پھنسا دیا اور اُٹھ کھڑی ہوئی....
ایان پڑھائی کی بات پر جھنجلا گیا..
چلو اٹھو ایان اپنی بکس لے کے آؤ...امان نے کہا...
نہ چارہ اسے اٹھنا پڑا کیونکہ امان کے سامنے بولنے کی ہمت اُسکی نہیں تھی...
اُسے اِس وقت اپنی پیاری آپی میں شدید قسم والا غصّہ آیا...
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✴✴✴✴✴✳✴✳✳✴✳
"راحیل میری بات سنو...
راحیل اپنے گھر کے مین گیٹ پے تھا
اُسے پیچھے سے کسی نے روکا راحیل نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اُسکے چہرے پر نگواری پھیل گئی...
بولو کیا کام ہے دیکھو اگر تُم نے وہی پرانی باتیں کرنی ہے پیار محبت وعدے تو پلز تُم غلط دروازے پے کھڑی ہو...
راحیل آخر کیوں تُم مجھ سے دور بھاگتے ہو میرے اندر کیا کمی ہے کیا میں خوبصورت نہیں تمہیں پسند نہیں... مریم نے اُسکے قریب ہوتے ہوئے کہا...
اوہ پلز یہ ڈرامے بازی میرے سامنے مت کرنا میں اِن میں نہیں انے والا دوسرے گاہکوں کے ساتھ کرنا شاید وہ آجائے...
راحیل تُم مجھے غلط سمجھ رہے ہو میں ایسی نہیں ہو تُم میری بات تو سنو....
کیا سنو بتاؤ مُجھے کیا سنانا چاہتی ہو...
راحیل ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا...
"یہی کے میں تُم سے بہت پیار کرتی ہوں راحیل پلز مجھے اِس طرح مت ٹھکراؤ مجھے بے مول مت کرو...."
"بے مول" ہاہاہاہا ”بے مول” ہاہاہاہا ”بے مول” راحیل لفظ کو دہرا کر بار بار ہسنے لگا...
”پہلے تُم یہ تو بتا دو تمہارا کیا مول ہے ایک ایسی لڑکی کا کیا مول جو شادی سے پہلے کسی اور لڑکے کے ساتھ...دیکھو میں تمہیں غلط نہیں کہہ رہا پر تُم بھی سمجھو یہ پیار ویار سب بیکار ہے لائف کو انجواۓ کرو....
راحیل نے اپنی جان چھڑانے کی لیے اسے رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کی...
پر دھاک کے وہی تین پات...
”میں تُم سے محبت کرتی ہو بہت"
"میں نے کہا کیا تم سے کے مُجھ سے محبت کرو"
راحیل جھنجلا کر بولا..
"پر میں تو کرتی ہو نہ بہت زیادہ بے انتہا کرتی ہو"
مریم روتے ہوئے بولی...
"تو میں کیا کروں"
راحیل نے ہتک آمیز لہجے میں کہا...
"تُم کتنے سنگدل انسان ہو راحیل تمہارے سینے میں دل نہیں کیا”
"میرا پیچھا چھوڑو اور آئندہ میرا پیچھا مت کرنا سمجھی"
راحیل برباد ہوجاؤ تُم اللہ کرے....
مریم نے بھی ہر بار کی طرح بلا آخر کوششوں سے تنگ آکر کوسنے لگ گئی....
راحیل نے کوفت بھرے انداز میں اسکو دیکھا پھر بولا..
"تمہیں اور کوئی کام نہیں کیا جب دیکھو محبت کا جھنڈا لے کے چلی آتی ہو اور نہ کام ہونے پھر جاہلوں کی طرح بد دعائیں دینے لگ جاتی ہو سب سے پہلے اپنے دماغ کا علاج کرواؤ تُم جا کر.....
وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro