Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۴۲

#میدان_حشر
قسط نمبر ۴۲
باب نمبر ۱۱
"پہلی صور"

انعم کو دُنیا سے گئے کئی مہینے ہوگئے تھے....
آفتاب نے ظاہر کسی پر نہیں کیا تھا مگر انعم کے یوں اچانک اِس طرح چلے جانے کی وجہ سے وُہ بری طرح ہل گیا تھا انعم جیسی بھی تھی مگر اُسکی محبت تھی اُس نے تو پوری صداقت سے اُسے چاہا تھا جتنا ناراض کِتنا ہی غصّہ تھا مگر محبت وہی تھی جو شروع دن سے تھی....
اُس نے ابوبکر کے وجود کو تسلیم تو مکمل طور پر نہیں کِیا تھا مگر ابوبکر سے بھی محبت اُسکی اپنی جگہ قائم تھی بھلے اُس پر نفرت غصّے کی گرد جم چُکی تھی مگر محبت تو تھی
اور اسی محبت کی وجہ سے اُس نے ابوبکر کو انعم کی موت کے بعد اپنے ساتھ ہی رکھا...

انعم کی موت کے دن سے راحیل کے دِل میں ابوبکر کے لیے نفرت تھی اُس  6 سالہ بچے نے اپنے ماں باپ کو زندگی میں پہلی بار لڑتے دیکھا تھا اور اتنا وُہ سمجھ چکا تھا لڑائی ابوبکر کی وجہ سے تھی وجہ وُہ تھا اور پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کو آخری سانسیں لیتے دیکھنا آسان تو کُچھ بھی نہیں تھا ایک بچے کے لیے...

شوہر اور بیوی کے درمیان توتکار روز کا معمول بن چکی ہے۔ بعض اوقات بات لڑائی جھگڑوں سے آگے بڑھ جاتی ہے اور نوبت علیٰحدگی تک آجاتی ہے۔ اس صورت حال سے بچے سب سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ گھر میں آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور بدکلامی سے ان کے ذہن اور نفسیات پر پہلے ہی منفی اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ماں باپ کے درمیان علیٰحدگی یا طلاق ان کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔
راحیل نے بھی سب دیکھا تھا لڑائی بھی بدکلامی بھی ماں باپ کے بیچ علیحدگی بھی ایک مہینے تک اپنی ماں سے دور بھی رہا....
والدین کے سَر پر ہونے کا احساس بچے کو تحفظ دیتا ہے اُس کی شخصیت کی مثبت تعمیر کرتا ہے۔
اس سائے میں جب دراڑ پڑجائے تو پھر اولادکی شخصیت بھی تقسیم ہوجاتی ہے۔
معصوم بچے کے ذہن و دل میں جاری جنگ، اس کے من میں ابھرتے معصوم سوال، اس کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ پر نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی اس پر گفت گو کی جاتی ہے۔
اپنی انا کے خول میں بند ہوکر ماں اور باپ دونوں ہی نہیں سوچتے کہ بچوں کے لیے ان دونوں کا ساتھ رہنا کتنا ضروری ہے۔
والدین کی علیحدگی سے بچوں پر جو منفی اثرات پڑتے ہیں وہ تاعمر ان کی شخصیت کا حصہ رہتے ہیں۔
جہاں میاں بیوی میں سے کوئی ایک فریق یا دونوں فریقین ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوں تو ان گھرانوں کے بچے بھی بڑے ہوکر اچھے شریک حیات ثابت نہیں ہوتے۔
کیوں کہ والدین ان کے سامنے زندگی کی سب سے بڑی مثال ہوتے ہیں اور ان کے معصوم ذہن والدین کے کیے گئے ہر عمل کو صحیح سمجھتے اور عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بچے بڑے ہونے پر عموماً مختصر عارضی رشتے قائم کرپاتے ہیں۔
کسی مضبوط بندھن میں بندھنا، رشتوں کا نبھانا، ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کیوںکہ بچپن سے شخصیت میں پیدا ہونے والا خوف ان کو اس سے دور رکھتا ہے۔
تاکہ کسی بھی ناخوشگوار عمل کی صورت میں ان کا دل ٹوٹنے سے محفوظ رہتے۔
اور وہ بچپن میں جس اذیت سے گزرے دوبارہ اس اذیت کو نہ سہنا پڑے۔
راحیل کی شخصیت اُس حادثے کے بعد سے بُری طرح متاثر ہوئی تھی اُس کی شخصیت میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی تھی اور سب سے بڑی تبدیلی تھی ابوبکر سے نفرت وُہ اپنے"Capri" سے نفرت کرنے لگ گیا تھا کیونکہ اُس کے نزدیک اِن سب کا ذمےدار وُہ تھا....

              ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

وُہ ایک سرد شام تھی جب ابوبکر اُن سب سے دور ہوا تھا ہمیشہ کے لیے یا دور کیا گیا تھا...

ابوبکر اور راحیل اسکول پکنک پر آئے ہوئے تھے ایک فارم ہاؤس....
اقراء ساتھ نہیں تھی...
شام ڈھلنے لگی تھی اور سب واپس جانے کے لیے بس میں چڑھنے لگے تھے وُہ اور ابوبکر اپنا سامان سمیٹ رہے تھے....

"Hurry up children...."
ایک ٹیچر نے کہا....

"کوئی رہ نا جائے دھیان سے ہر بچے کو لے کر آئے گا..."
پرنسپل صاحب اُنہی ٹیچر کو کہہ کر چلے گئے....
سب بچے ایک ایک کرکے بس میں بیٹھ  گئے تھے آخر میں صرف راحیل اور ابوبکر رہ گئے تھے....

"Capri"
راحیل نے بیگ لٹکائے ابوبکر کو روکا جو بس کی جانب بڑھ رہا تھا....

"جی بھائی..."
"میری واٹر بوتل پیچھے پول کے پاس رہ گئی ہے وُہ لا دو..."
راحیل نے جھوٹ بولا....

"اوکے بھائی..."
ابوبکر خوشی خوشی لینے چلا گیا....
7 سالہ راحیل جو وقت سے پہلے ہی بڑا ہوچکا تھا اور ابوبکر سے نفرت بھی بڑھتی جاتی تھی اُسکے ذہن نے ابوبکر کو دور کرنے کے لیے جو راستہ چنا تھا وُہ اُس پر عمل بھی کرچکا تھا...
کچے ذہن اور نفرت دونوں نے اُس معصوم کو ایک معصوم کے ساتھ زیادتی پر اُکسایا تھا....

"بیٹا ابوبکر کہاں ہے"
ٹیچر نے اسے اکیلا دیکھ کر پوچھا...

"وُہ...وُہ ...تو بس میں بیٹھ  گیا ہے
میں اپنی واٹر بوتل لینے گیا تھا..."
اُس نے ہکلاتے ہوئے جھوٹ بولا....

"okay get in into bus..."
ٹیچر اُسکا ہاتھ پکڑ کر چل دی...
"بس چل پڑی تھی راحیل خوش تھا اُس نے آج"capri" سے جان چھڑا لی تھی جو ہر چیز کا ذمےدار تھا معصوم سوچ کو تفاخر ہوا تھا....

"راحیل بھائی"
ابوبکر واپس آیا تو راحیل کو نا پاکر پریشان ہوگیا....

"راحیل بھائی"
وُہ اُسے آوازیں دیتا اُس جگہ آیا جہاں بس کھڑی تھی مگر اب وہاں کُچھ نہیں تھا نا بس نا کسی زی روح کا نام و نشان ابوبکر رونے لگا....

رات تیزی سے اپنے پر پھیلا رہی تھی...

"مما..پاپا"
ابوبکر نے روتے ہوئے دونوں کو پُکارا جس میں سے ایک کا آنا نا ممکن تھا دوسرے کو خبر بھی نا تھی....

ابوبکر روتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گیا....

ویرانی ہی ویرانی تھی دور دور تک اندھیرا بھی تقریباً مکمل پھیل چُکا تھا 4 سالہ ابوبکر روتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا دور تک بس جنگلی جھاڑیاں تھی...

دور کہی کتے بھونکے تھے...
ابوبکر کے رونے کو بریک لگا....
آواز قریب ہوتی جارہی تھی...
اُس کا ننھا سا وجود تھر تھر کانپنے لگا....
اب بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ایک ساتھ آرہی تھی ابوبکر جہاں کھڑا تھا وہی بیٹھ گیا اور جسم کو لپیٹ لیا اور بے آواز رونے لگا...
وُہ جنگل کے حصے میں تھا...
درخت آپس میں رازدارانہ انداز میں سر گوشی کرنے لگے اور دھمکی دینے لگے۔
جنگل میں ایسی تاریکی چھا گئی گویا جب سے جنگل وجود میں آیا تھا اُس وقت سے لے کر اب تک جتنی راتیں تھیں وہ سب اس ایک جگہ میں جمع ہوگئی تھیں۔
ہوائیں بہت تیز تیز چل رہی تھی گویا آندھی آنے والی ہو   قوی ہیکل درخت   اونچے  جھومتے ہوئے درخت ان کے اوپر قہر آلود انداز میں ٹوٹ ٹوٹ کر شور مچا رہے تھے۔
بارش نہیں ہورہی تھی مگر بجلی کڑک رہی تھی...
بجلی ان درختوں کی ٹہنیوں پر کڑک کر اپنی نیلی روشنی سے دور تک کا منظر واضح کرتی اور جس تیزی سے وہ چمکتی اتنی ہی تیزی سے غائب ہوجاتی۔
ابوبکر کا رونا اب ہچکیوں میں تبدیل ہوگیا تھا  ۔
درخت بجلی کی سرد روشنی میں ایسے معلوم ہوتے گویا جاندار ہوں اور اپنے بھدّے بازوؤں سے  تنگ حلقہ بنا کر  راستہ روک رہے ہوں ۔
شاخوں کی اس تاریکی میں سے کوئی خوفناک سرد اور بھیانک چیز انہیں گھورہی تھی۔

وہ جنگل کی بری آوازوں اور کپکپاتی ہوئی تاریکی میں لرزتے وجود کے ساتھ بیٹھا تھا....
اُسے قدموں کی آوازیں اُٹھتی سنائی دی پھر کیا ہوا اُسے ہوش کی دُنیا سے ناطہ توڑ گیا......

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ویرانی ہی ویرانی تھی دور دور تک اندھیرا بھی تقریباً مکمل پھیل چُکا تھا  بچہ روتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا دور تک بس جنگلی جھاڑیاں تھی...
دور کہی کتے بھونکے تھے...
آواز قریب ہوتی جارہی تھی...
بچے کا ننھا سا وجود تھر تھر کانپنے لگا....
اب بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ایک ساتھ آرہی تھی....

وُہ یکدم سے اُٹھ بیٹھا...
بدن پسینے میں شرابور  تھا...
ابوبکر نے اپنی بے ترتیب سانسوں کو بحال کیا...
اُٹھ کر فرج سے بوتل نکالی اور سیدھا منہ سے لگا لی اور غٹاغٹ گھونٹ اندر اُتارنے لگا....

"پھر سے یہ خواب..."
وُہ بڑبڑایا....
اُسے نہیں یاد تھا پہلی بار یہ خواب اُس نے کون سی عُمر میں دیکھا تھا مگر اُس نے اکثر اِس خواب کو دیکھا تھا اور ہر بار اُسکی حالت ایسی ہی ہوتی تھی....

اُس نے ہاتھ ماتھے پر پھیرا تو وُہ مکمل عرق آلود تھا بال بھی پسینے میں شرابور تھے...
وُہ ابتک جان نہیں سکا تھا خواب میں دکھنے والا بچہ تھا کون عکس دُھندلا تھا....
نیلی آنکھوں میں بے چینی تیر رہی تھی....
دیوار پر لگے کلاک پیس پر نظر دوڑائی تو رات کے تین بج رہے تھے بے چینی کے ساتھ وُہ دوبارہ نہیں سو سکتا تھا وُہ تہجد پڑھنے کھڑا ہوگیا...

          ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro