Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۳۶

#میدان_حشر
قسط نمبر ۳۶
باب نمبر ۱۰
"جہاں وقت تھم جاتا ہے"

"میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلا جاؤں گا رہتی زندگی تو میں کبھی واپس نہیں آؤ گا یہاں...... یہ سب کیسے ہوگیا مُجھ سے میں کیسے اپنے بھائی جیسے دوست کی بیوی...."
ایاز پیکنگ کرتے ہوئے مُسلسل خود کو ملامت کر رہا تھا....
نیلی آنکھوں میں سُرخی اُتری ہوئی تھی شاید مسلسل نمکین پانی بہایا گیا تھا....

"مگر وُہ تو جانتی تھی نہ کہ وُہ کسی کی بیوی ہے....
پھر کیسے وُہ یہ سب کرسکتی ہے..."
ایاز کے دل میں آیا وُہ جاکر اپنے دوست کو اُسکی بیوی کی بیوفائی کا بتا دے مگر اِس گناہ میں اپنی ذات کے شامل ہونے کا احساس جُرم اُسے روک رہا تھا وُہ نا چاہتے ہوئے بھی چُپ ہوگیا اور خاموشی سے چلے جانے کا فیصلہ کرلیا......

"میں اُسے پسند کرنےلگا تھا...."
اُسے اب اپنے دِل میں بس چُکی انعم کی محبت کا احساس کھل رہا تھا....

زندگی میں کُچھ فیصلے کرنا بہت مُشکِل ہوتا ہے اور ایسے مُشکل وقت سے وُہ گزر رہا تھا...
احساس ندامت اُسکے اندر آگ لگائے ہوئے تھا....
اور اِس حالت میں بندے کا رب کی طرف آنا جب وُہ گناہوں میں گھرا ہو تو وہ ذاتِ اقدس سچی توبہ دیکھتا ہے معاف فرماتا ہے.....

ہم زندگی میں کیوں مشکلوں میں گھرے رہتے ہیں...
کیونکہ ہم یہ راستے خود اپنے لیے تلاش کرتے ہیں"
ہم  لوگوں سے اُمیدیں بہت لگا لیتے ہیں مگر جو ہماری ہر اُمید ہے خواہش پوری کرنے کا اختیار رکھتا ہے اسی کو بھول جاتے ہے....
دنیا کی بھاگ دوڑ میں مصروف زندگیوں میں ہم بھلا بیٹھتے کے ہماری سب خواہشیں پوری کرنے ہمیں معاف کرنے سزا دینے کا اختیار صرف ایک ذات کو ہے...
مگر ہم اُسی کو بھول کر لوگوں سے اپنی خوشیاں اور اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں....
کسی کے چلے جانے کو سزا مان لیتے ہے من پسند چیز کے میسر ہونے پر خود کو نیک گردانتے ہیں....
جو سر نجانے کتنے لوگوں کے سامنے جھکتا ہے بھلے مقصد کوئی بھی سے جُھکنے کی ذلت  ایک ہوتی ہے...
یہی سر اگر ہم اُس ذات کے آگے جھکائے جو ہر چیز پر قادر ہے تُو اِن ذلتوں کے بجائے ہمارے کھاتے میں اللہ کی خوشی آئیگی
بے شک اللہ عاجزی اور انکساری کو پسند کرتا ہے....

صبح ۹ بجے کی فلائٹ سے وُہ واپس جارہا تھا چیاگو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کم از کم ایاز نے یہی سوچا تھا....مگر ہمارے طے کرنے فیصلے کرنے سے کیا ہوتا ہے ہوتا تو وہی ہے جو وُہ لکھ چُکا ہوتا ہے تقدیروں میں.....
اضطرابی کیفیت، احساس ندامت وُہ کسی مجرم کی طرح اپنے رب کا سامنے جا کھڑا ہوا کٹہرے میں  جہاں گناہوں کی اور نیکیوں کی فہرست لیے دائیں بائیں بیٹھے فرشتے تھے اُس نے نیت باندھ لی حلف اُٹھا لیا جو کہے گا سچ کہے گا....
مگر کیا اسے بتانے کی ضرورت تھی وُہ تو دِلوں کا حال جانتا ہے....
مقدمے کی سماعت ختم ہوئی اُس نے سلام پھیر لیا ہے اب گناہوں کے اعتراف کا وقت تھا اُس نے ہاتھ اٹھا لیے.....
یا اللہ....تو جانتا ہے میں تیری کائنات کا سب سے حقیر ذرہ ہوں لیکن میری کم ظرفی میرے گناہوں کی داستانیں آسمانوں سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقیت اور میرے دِل میں چھپے چور احساس جُرم سے تو بخوبی واقف ہے_
مگر میرے گناہوں کی فہرست کِتنی ہی طویل سہی مگر تیری بے کراں رحمت سے کم ہے۔ میری منافقت بھری توبہ و معافی کو یہ جانتے ہوئے بھی قبول فرما کے توبہ کرتے وقت بھی میرے دِل کا چور مُجھے تیری نافرمانی پر اُکساتا رہتا ہے۔
پھر بھی تُجھے تیرے پیاری نبی صلی االلہ علیہ وسلم کا واسطہ میری لاج رکھنا۔
میرے عیبوں پر میرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھنا مُجھ میں ہمت نہیں ہے اپنے گناہ گار وجود کے ساتھ آفتاب کا سامنا کرسکوں میرے لیے آگے کے مرحلے آسان کرنا۔
میرے مولا تو ہی عیبوں کا پردہ دار ہے۔
میرے جھولی میں سو چھید ہے مگر پھر تیرے سامنے پھیلائی ہے مُجھے معاف کردے میرے خدا....مُجھے بخش دے میرے گناہوں کو معاف فرما....."
نیلی آنکھوں میں نمکین پانی لباب بھر آیا اپنی شخصیت سے ہر کسی کو سحر زدہ کردینے والا وُہ شخص آج ٹوٹا تھا......
اعتراف کا مرحلہ گزر چکا تھا عدالت برخاست ہوگئی وُہ اُٹھ گیا......
اندر لگی آگ پر ٹھنڈے پانی کی پھوار سی پڑی تھی مگر الاؤ بجھا نہیں تھا بس شدت میں کمی آئی تھی....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

آفتاب تیسری اولاد کے آنے کی خبر سے پھولے نہیں سما رہا تھا وُہ بھلے بچوں کو وقت نہیں دے پاتا تھا مگر وُہ محبت بہت کرتا تھا اپنی اولادوں سے....

"انعم میں بہت خوش قسمت ہوں جو تُم مُجھے مِل گئی ہو تُم نہیں جانتی تُم میرے لیے کیا اہمیت رکھتی ہو....تُم نے مُجھے میری زندگی کے دو سب سے خوبصورت تحفے دیے ہیں اور اب ایک اور دینے جا رہی ہو"
آفتاب نے بیڈ کے کنارے پر بیٹھتے ہوئے فرط مسرت سے اُسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں محبت سے لیتے ہوئے کہا.....

انعم اِس سب سے بے خبر  کہی کھوئی ہوئی تھی....
"انعم...انعم"
آفتاب نے اُسکی غائب دماغی محسوس کرتے ہوئے اُسے پُکارا....
انعم کسی گہری سوچ سے حال میں لوٹ آئی اُس نے کُچھ نہیں کہا بس آفتاب کے کندھے سے سر ٹکا دیا....

"Are you ok?"
آفتاب فِکر مند ہوا....
"I am ok....but I want to sleep"
انعم نے دھیمے لہجے میں کہا.....

"ہاں تو تُم لیٹ جاؤ آرام کرو"
آفتاب نے اُسے لٹاتے ہوئے اور بلینکٹ سینے تک ڈال دیا....

"تُم آرام کرو میں میں آتا ہوں..."
آفتاب نے اُسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور چلا گیا....

"کیا میں اِس قدر چاہے جانی کے لائق ہوں"
انعم نے خود سے کہا....

اُسکی آنکھوں کے سامنے آفتاب سے بیوفائی کی رات ٹہر گئی....
اُس نے زور سے آنکھیں میچ لی.....
وہ سچائی سے بھاگنا چاہتی تھی...مگر کون جانتا تھا وُہ سچائی سے بھاگ نہیں سکتی بس کُچھ وقت کے لیے بچ ضرور گئی تھی بس کُچھ وقت کے لیے......

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

وُہ جا چکی تھی  گھر سے زندگی سے ہمیشہ کے لیے....
وُہ خالی الذہن کیفیت میں بیٹھا دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے وُہ  باہر گئی تھی....

"ہاں مُجھے عشق ہے تُم سے....."
ادراک ہوا.....
ادراک کا یہ لمحہ زندگی میں کئی تباہیاں لے کر آیا تھا......
راحیل آفتاب کو طیات سے محبت نہیں عشق تھا نجانے کب سے مگر وُہ جھٹلاتا رہا نکارتا رہا بھاگتا رہا مگر آج وہ خود سے جھوٹ نہیں بول سکا وُہ بھاگتے بھاگتے ایک بند گلی میں آگیا تھا جہاں سے آگے جانے کا رستہ نہیں تھا پیچھے نا جانا اُسکے اختیار میں نہیں تھا.....

"اب کیوں؟؟"
اندر سے آواز آئی...

"میری  ذات کے تُم نے بخیے اکھیڑ دیے ہیں تُم برباد ہوگے کرب سے تڑپتے رہوگے موت سے پہلے موت آئیگی تمہیں قیامت سے پہلے قیامت آئیگی تُم پر یہ پوری دنیا میدان حشر بنے گی تمہارے لیے...."
آوازیں گونجنے لگی....کُچھ دیر پہلے کسی کی دل سے نکلی آہ سے آفتاب ہاؤس کے گھروں دیوار لرزتے محسوس ہوتے تھے.....

”ثور پھونکی جائیگی تُم پر قیامت سے پہلے اِنتظار کرو تم اپنی بربادی کا جشن مناؤ خدا کی رحمت سے آزادی کا تمہاری رسی بہت جلد کھینچی جائیگی انتظار کرو بد بد دعا ہے میری دل سے نکلی ہے عرش کو ہلا دیگی....."
ادراک اور نقصان ایک ساتھ ہوا ایک ہی لمحے میں سب مِل بھی گیا تھا اُسے لمحے میں سب چھن بھی گیا تھا....

اِس بات کا احساس اُسے اُس وقت ہوا جب وُہ دُنیا سے جا چکی تھی راحیل آفتاب کی دنیا سے.... اُس گھر سے.... اُسکی زندگی سے اب صرف پچھتاوا  تھاجسکا فائدہ نہیں....

اُسے یکدم کُچھ ہوا نہایت پھرتی سے وُہ اٹھا اور بھاگتا ہوا نیچے کی طرف بڑھنے لگا سیڑھیاں اُترتے ہوئے لڑکھڑایا بھی مگر اسے تو کسی کو روکنے کی ناکام کوشش کرنی تھی....
وُہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھا مگر وُہ کہی نہیں تھی جسے وُہ ڈھونڈنا چاہتا تھا جسے روکنا چاہتا تھا صدر دروازہ پورا کا پورا کھلا ہوا تھا....

ننگے پیر وُہ سڑک تک آیا حد نگاہ تک صرف سناٹا تھا وُہ کہی نہیں تھی.....
"طیات..... طیات...... طیات"
راحیل آدھی رات طوفانی بارش میں سڑک کے بیچو بیچ کھڑا پاگلوں کی طرح اُسے بلا رہا تھا مگر اُسکی آواز بارش کی آواز کے شور میں گم ہوکر اُسے بھی با مُشکِل دوبارہ سنائی دیتی تھی....
وُہ اُنہی قدموں پر واپس گھر کے اندر داخل ہوگیا.....

صدر دروازہ کُھلا ہوا ہی چھوڑ کر وُہ رہائشی عمارت کے اندر داخل ہوگیا......
حال میں پہنچ کر وُہ رُک گیا....
گردن موڑ کر اس نے بلکل الگ تھلگ بنے اُس کمرے کو دیکھا جو کبھی 3 معصوم بچوں کا ہوتا تھا....
چہرے پر کرب کا سایہ لہرا گیا چہرہ تاریک ہوگیا تھا....

"کیا ہے اس کمرے کا راز "
راحیل کی سماعتوں میں طیات کی آواز گونجی.....
وُہ اب اُس کمرے کی طرف بڑھنے لگا....
اُسکے ہاتھ جیب میں گئے اور جب ہاتھ باہر نکالے تو ہاتھ میں ایک چابی تھی اُسکی ہاتھ کانپتے لگے تھے آج ایک عرصے بعد زندگی کی اُس حقیقت سے سامنہ ہونے جارہا تھا جس سے وہ بھاگتا آیا تھا......
چابی کو تالے میں داخل کیا اور ہاتھ کو گھمانے کے انداز میں جنبش دی...
کانپتے ہاتھ یا تالا بہت پُرانا ہونے کی وجہ سے بمشکل ہی کھلا....
تالے کے اندر دھنسی لوہے نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی تالا کھل گیا.....
وہ لغزش پا ہوا تھا ،وُہ ہمت نہیں کر پا رہا تھا کے اندر جائے.....
مردہ قدم اٹھاتا اُس کمرے میں داخل ہوگیا جو ایک راز تھا اور راز ہی رہ گیا تھا "طیات" کے لیے....
روشنی سے اندھیرےاور اندھیرے سے روشنی  یہ سفر کی شروعات تھی اُسکے.....
اُسکی بربادی کی......
اُسکی ذات کے گرد چڑھے perfect کے خول کے ٹوٹنے کی....
اُس راحیل کے باہر آنے کی جو گُم ہوچکا تھا تہوں کو نیچے.....
یہ شروعات تھی اُسکے سفر "میدان حشر" کی...
ہر اٹھتا قدم اُسکی آنکھوں کے سامنے دُھندلا دُھندلا سا منظر صاف کر رہا تھا ہر چہرہ صاف نظر آنے لگا تھا....

اُس نے سوئچ بورڈ کے پاس جاکر بٹن دبایا پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا.....

3 سنگل بیڈ مٹی میں اٹے ہوئے....
دیواروں پر بھی جالوں نے موٹی موٹی تہہ لگا رکھی تھی کمرے کی ہر چیز بکھری ہوئی تھی بلکل اُسی طرح جیسی ۲۵ سال پہلے تھی اُسی حالت میں جس حالت میں وُہ کمرہ ہمیشہ کے لیے بند کیا گیا تھا پچیس سالوں میں آفتاب سلمان کے علاوہ کوئی اُس کمرے میں نہیں گیاتھا اور اُنکی موت کے بعد وُہ کمرہ اب کھلا تھا.....

"اقراء آپی....دیکھیں میری ڈرائنگ کیسی ہے؟"
آنکھوں کے سامنے 6 سالہ بچہ بیٹھا دیکھائی دینے لگا تھا.....

"موٹو کِتنا کھاؤ گے"
ایک اور آواز گونجتی سنائی دی ....

"راحیل بھائی دیکھیں میں نے آپکے جیسی ڈرائنگ کی...."
اِس گونجتی آواز پر اُس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی.....

"راحیل بھائی آپی مار رہی ہے مُجھے بچائے..."
سامنے سے ایک معصوم سا بچہ بھاگتا اپنی طرف آتا دکھائی دیا.....
راحیل نے کسی احساس کے تحت پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا....

"آپی یہ کتنا کیوٹ ہے"
اُسے سامنے سنگل بیڈ بلکل صاف نظر آنے لگا تھا دھول مٹی کا نام و نشان تک نہیں تھا....
بیڈ پر بیٹھا 3 سالہ لڑکا 4 سالہ لڑکی کے گود میں نومولود بچہ کو دیکھتے ہوئے بولا تھا.....

"موٹو....راحیل بھائی.....موٹو.... راحیل بھائی"
آوازیں تیز ہوتی جارہی تھی....وُہ آوازیں جو برسوں سے اُس کمرے کے در و دیوار سے ٹکراتی دم توڑتی رہی تھی اب اُسکے کانوں میں سیسے کی مانند اُترنے لگی تھی.......

"نہیں.....ہوں میں تمہارا بھائی"
غصے میں راحیل سامنے بیٹھے فریب کی جانب بڑھا مگر بیچ رستے میں ہی منظر غائب ہوگیا......

"راحیل بھائی"
عقب سے آواز آئی  تھی....
وُہ فوراً پیچھے مڑا کوئی نہیں تھا...
ہوتا بھی وُہ آوازیں تو برسوں سے کمرے کی دیواروں میں قید تھی اب اُس کے کانوں کے غلاف کو چاک کرتی اندر اُتر رہی تھی....
راحیل دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا چلا گیا........

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro