قسط نمبر ۳۰
#میدان_حشر
قسط نمبر ۳۰
باب نمبر ۸
"ماہیت" (اصلیت)
"تُم آج کیا پہنو گی"
وارڈروب کی طرف بڑھتے ہوئے نیلم نے پوچھا...
"کیوں آج ایسا کیا خاص ہے"
انعم اپنے ناخنوں کی تراش خراش میں مصروف بولی...
"انعم تُم بھول گئی...مطلب تُم کیسے بھول گئی آج تمہیں آفتاب کے ساتھ ڈنر پر جانا ہے"
انعم کو اُسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا....
"یاد ہے مُجھے مگر تُم کیوں اتنی اکسائٹڈ ہورہی ہو"
"میرے کہنے کا مطلب ہے آج تو تمہیں اسپیشل لگنا چائیے نہ کوئی اچھی سی ڈریس پہنو"
نیلم نے اُسے ملخلصانہ مشورہ دیا...
"تو تمہارے کہنے کا مطلب میں روز اچھی نہیں لگتی"
انعم نے اُسکی باتوں کا مزا لیتے ہوئے کہا...
"یار وُہ تمہیں پرپوز کرنے والا ہے یہ بات تو تم جانتی ہو نہ پھر بھی..."
"میں کوئی خاص طور سے اُسکے لیے تیار ہوکر نہیں جاؤ گی میں جیسی ہو ویسی ہی بہت اچھی ہوں اور بائے دا وے وُہ مُجھ پر مر مٹا ہے میں نہیں شادی کے بارے میں تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا مگر شاید یہ ٹھیک بھی ہے مُجھے کبھی نہ کبھی تو شادی کرنی ہی ہے تو پھر اِس پاگل سے کیوں نہیں"
انعم آخری کے لفظوں پر کُچھ زور دیا...
"خیر جیسے تمہاری مرضی میں تو تمہارے بھلے کے لیے ہی بول رہی تھی "
نیلم نے بھی لاپرواہی سے شانے اچکائے...
"you don't worry about me... i know what's good or bad for me"
انعم نے گھمنڈ سے کہا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"تو مس انعم صابر یہ موقع بھی درست ہے اور جگہ بھی کیا ہم اب بات کرسکتے ہیں"
آفتاب نے بغور اُسکی تیاری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا...
"جی اب آپ کہیں"
انعم نے اُسے اجازت دیتے ہوئے کہا...
"سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ آپ نے میری دعوت قُبول کی اور یہاں میرے ساتھ ڈنر کے لئے آئی....
میں زیادہ گھما پھرا کے بات کرنے کا عادی نہیں صاف لفظوں میں دوبارہ کہوں گا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں"
آفتاب نے اپنی بات مکمل کرکے اُسکی طرف دیکھا...
"کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟"
آفتاب نے کوئی جواب نہ پاکر اپنا سوال دوبارہ دہرایا...
"مُجھے سوچنے کے لیے کُچھ وقت چاہئے مسٹر آفتاب"
"sure you take your time"
آفتاب نے خوش ہوکر کہا...
"Thanks"
انعم نے جواباً کہا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"یار جانا ضروری ہے ورنہ تو خود بتا تیری شادی میں میں نہیں شامل نہیں ہونا چاہتا..."
ایاز نے آفتاب کی سمجھانا چاہا...
"میں کُچھ نہیں جانتا تو کہی نہیں جارہا اور یہ میرا فیصلہ ہے اگر تو گیا تو میں کبھی تیری شکل بھی نہیں دیکھو گا"
آفتاب نے خفگی سے کہا...
"پلز یار ناراض تو مت ہو پانچ سال کی تو بات ہے بس میں واپس آجاؤ گا نہ پھر تو اور تو بھی آتا رہنا نا مِلنے میں بھی چکر لگایا کرو گا پاکستان کا مگر ابھی جانا ضروری ہے میرے یار"
ایاز نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا...
"جانا بہت ضروری ہے شادی تک تو رُک جا یار تُو اب تک انعم سے مِلا بھی نہیں ہے "
آفتاب نے آخری کوشش کی...
" اگر ضروری نہیں ہوتا تو کیا مُجھے شوق ہے اپنے جانی کی شادی میں شامل نہ ہونے کا اور بھابی سے تو میں مِل ہی لو گا"
ایاز پیکنگ کرتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا...
"اچھا اچھا اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے"
آفتاب نے بھی ہار مانتے ہوئے کہا...
"اچھا اب یہ سب چھوڑ فلائٹ کا ٹائم ہورہاہے مُجھے ایئرپورٹ کے لیے نکلنا ہے"
ایاز نے بیگز کی زپ بند کرتے ہوئے کہا....
آفتاب اُسے ایئرپورٹ تک چھوڑنے آیا تھا....
"ناراض تو نہیں ہے نہ یار..."
ایاز نے اُس سے گلے ملتے ہوئے کہا...
"ناراض تو بہت ہوں مگر ابھی جانے دے رہا ہوں مگر جب تو واپس آئے گا تو تُجھے بتاؤں گا میں...”
آفتاب نے مکا اُسکے سینے پر تھوڑی زور سے مارا....
"یہ تشدد اگر تو کرے گا نہ تو پہلے ہی بتا رہا ہوں واپس نہیں آؤ گا پھر میں"
ایاز نے اسے دھمکانے والے انداز سے کہا...
"تیرے تو اچھے بھی آئیں گے چل اب دفع ہو"
فلائٹ کی لاسٹ اناؤنسمنٹ سُنے کے بعد آفتاب نے کہا....
"I will miss you Jani"
ایاز نے بغل گیر ہوکر کہا....
"میں بھی"
دونوں نے برملا اعتراف کیا...
"اللہ حافظ"
"خدا حافظ"
آخری مکالمات کا تبادلہ کرنے کے بعد ایاز ٹرالی گھسیٹتا ہوا چیکنگ پوائنٹ کی طرف بڑھ گیا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
عورت ایک ایسا موضوع ہے جس پہ بے تحاشا لکھا، بولا اور بحث کی جا سکتی ہے۔
ایک ایسا موضوع جس پہ بات کرنے والے نہ کبھی اکتاتے ہیں نہ دامن بچاتے ہیں۔
یہ انسان ہے یا نہیں ایک الگ بحث ہے لیکن تفریح طبع کا ذریعہ ضرور ہے۔
اس کے ہزار رنگ اور ہر رنگ کا ڈھنگ الگ۔
کہیں یہ محض کاروبار خانہ داری چلانے میں ایک سہولت کار ہے تو کہیں جنسی تسکین کا باعث۔
کبھی طاقتور مرد کے عزت کی رکھوالی ہے تو کبھی اسی عزت پہ وار دی جاتی ہے۔
کسی کا خیال ہے چار دیواری میں رہے تو بھیڑیوں سے بچی رہے گی تو کسی کے خیال میں معاشرے کی ہر برائی کی جڑ یہی ہے۔
جہاں اس کا مردوں سے میل جول ہو گا وہیں یہ اخلاقی برائیاں پروان چڑھانے کا باعث بنے گی۔ یہی وہ مخلوق ہے جو پیدا ہوتے ہی اتنی سیکس اپیل لیے ہوتی ہے کہ کسی بھی پارسا آدمی کو بہکا سکتی ہے۔
گھر اور عزت کی رکھوالی کر سکتی ہے کہ اس کے لیے عقل کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ کچھ کرنا اس کے بس میں کہاں۔ باقی باتیں بر طرف یہ آنکھوں اور دل کے لیے تفریح کا ایسا ذریعہ ہے کہ جس کا بدل اور کوئی نہیں۔
اسی مخلوق میں کچھ سر پھری عورتیں بھی شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے پہ تل جاتی ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں ،سوچ سکتی ہیں بول سکتی ہیں اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتی ہیں۔
ان پاگل عورتوں میں کچھ ایسی بھی ہو تی ہیں جو شہرت پا لیتی ہیں اور یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ نوع انسانی میں دوسرے درجے کے شہری کے سلوک کی مستحق ہیں۔
ان کی سوچ سے زیادہ قابل غور ان کا وجود ہے۔
وہ دیکھنے میں کیسی ہیں ،کیا پہنتی ہیں کیسے چلتی ہیں یہ باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ معاشرہ کوئی بھی ہو اس کے سٹیٹس سے زیادہ لباس کو اہم تصور کرتا ہے کہ لباس ہی وہ آفت ہے جو اکساتا ہے یا جذبات کنٹرول رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ مانا کہ لباس پہننے کے کچھ آداب ہوتے ہیں لیکن وہ آداب مردوں پہ اس شدت سے لاگو نہیں ہوتے جس شدت سے عورتوں پہ لاگو ہوتے ہیں۔
اور آجکل عریانیت بے غیرتی فحاشی کا رجحان سب سے زیادہ لوئر کلاس اور اپر کلاس میں بہت بڑا ہوا نظر آرہا ہے لوئر کلاس اپر کلاس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتی ہیں اور فحاشی کو اپنی سیڑھی بناتی ہے....
ہر طبقے میں اِسے فروغ دینے والی عموماً عورت ہی ہوتی ہے اگر مردوں کو باہر دِل بہلانے کے لیے عورتیں نا ملے تو وُہ کبھی ادھر کا رُخ کرے بھی نہیں کرے گا..
اور ایلیٹ کلاس نے تو فحاشی کی انتہا کردی ہے جسے اب سب کسی رول کی طرح فالو کرتے نظر آرہے ہیں....
شادی کے بعد بھی انعم کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی وُہ ویسی ہی رہی جیسی شادی سے پہلے تھی اسٹینڈرڈ اور فیشن کے نام پر ایلیٹ کلاس میں بڑھتی بے غیرتی کا ایک حصہ وُہ بھی تھی.....
اُن دونوں کی شادی کو 5 سال کا عرصہ گزر چکا تھا بچوں کی پیدائش بھی اُس کے پیروں میں بیڑی نہ ڈال سکی تھی کیونکہ جس ماحول کا وُہ حصہ تھی وہاں بچوں کی تعلیم پر تو توجہ دی جاتی کیونکہ جب تک امیر لوگ انگریزی میں نہ بولے کسی کو بھی یقین نہیں آئے گا اُن کے امیر ہونے پر...
مگر تربیت پر کوئی توجہ نہیں اور جب تربیت اور توجہ نہیں تو بچہ بگڑتا ہے اور امیر زادوں کا بگڑا ہوا ہونا تو سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے اُنکی یہ یو کہیں یہ بھی ایک فیشن ہی ہے....
آفتاب نے انعم سے شادی کرکے اپنا گھر اُسکے حوالے کردیا اُس نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ کیا کر رہی ہیں اسے کبھی بھی انعم کے بولڈ ہونے سے مسئلہ تھا ہی نہیں کیونکہ اُسے پسند کرنے کی ایک وجہ اُسکی بے باکی بھی تھی....
شادی کے دو سال بعد انعم اور آفتاب کے یہاں ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی......
پیدائش تو پہلے سال ہی ہوجاتی مگر چونکہ انعم اُس وقت تیار نہیں تھی تو کسی پھول کو کھلنے سے پہلے ہی اُسکی کونپل کو توڑ دیا گیا مگر جب آفتاب کا اصرار بڑھا تو انعم کو بھی اُسکی بات ماننی پڑی....
لڑکی کا نام اقراء رکھا گیا اور دو سال بعد ایک بیٹے کی پیدائش جس کا نام خود آفتاب نے رکھا "راحیل" وُہ دونوں نوکروں کے ہاتھوں میں پل رہے تھے ہر اپر کلاس کے بچوں کی طرح جن کے لیے ماں باپ میں سے کسی کے پاس وقت نہیں....
بچوں کے لئے ابتدائی عمر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،ابتدائی عمر میں عدم توجہی ان کی شخصیت میں بگاڑ کاسبب بنتی ہے-
والدین کابچوں کی شخصیت بنانے میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کے جتنا زیادہ قریب ہوں گے، ان کے بچے بڑے ہوکر کم بری عادات کواپنائےگے-
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"ہیلو بیوٹیفل لیڈی"
اُس نے انعم کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا اور ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا...
انعم نے ایک سرسری نگاہ اُس پر ڈالی وُہ بلیک جینز اور وائٹ شرٹ میں ملبوس ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو اور آنکھوں سحر انگیز نیلی آنکھوں میں ایک نشا لیے اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا بلا شبہ وُہ ایک مقناطیسی شخصیت رکھتا تھا اتنی کشش کے پہلی ہی نظر میں انعم صابر اُسکی طرف کھینچنے لگی....
"ہائے"
انعم نے مختصر سا جواب دیا...
"آپکو پہلے کبھی دیکھا نہیں یہاں....آئی مین اِس بار میں آپ پہلی بار آئیں ہے شاید "
انعم نے خود ہی دوبارہ سوال کرنے شروع کیے...
" I've just returned from England two days ago"
"oh I see"
"what's your name beautiful lady"
نشے میں چور اُس نے اب انعم کی طرف جھکتے ہوئے کہا....
" Handle yourself plz"
انعم نے اُسے واپس پیچھے کرتے ہوئے کہا...
"How can I control myself when such a beautiful girl in front of me"
وُہ مخمور لہجے میں بولا....
"You have to stop I am not such a girl"
وُہ انعم تھی اتنی آسانی سے کسی کے آگے گھٹنے کیسے ٹیک دیتی...
وُہ اب اُسکے برہنہ بازؤں پر اپنی اُنگلی پھیر رہا تھا....
"ویٹر ویٹر"
انعم ویٹر کو بلانے لگی....
"yes mam"
"plzz handle this guy he's so drunk"
انعم نے اٹھتے ہوئے کہا....
آج پانچ سال بعد اُسے ایک اور مرد ٹاسک لگا تھا جسے وُہ ہر قیمت پر پورا کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ یہ تو بھول چکی تھی یہ نظر انداز کرچکی تھی کے وُہ کسی کی بیوی ہے...
۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"اسلام علیکم جازم بھائی"
ماریہ نے حیرانگی سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا....
"آپ یہاں کیسے جازم بھائی"
"خالہ کی طبیت اچانک خراب ہوگئی ہے اُنہیں ہاسپٹل لے کر گئے ہیں اِسی لیے میں تمہیں اور احد کو لینے آیا ہوں..... احد کہاں ہے؟"
جازم نے بات پوری کرکے احد کی تلاش میں نظرے گھمانا شروع کردی اتنے میں تین لڑکوں کے ساتھ احد ایک طرف سے اُسے آتا دکھا....
"جازم بھائی کیا ہوا ہے امی کو"
ماریہ پریشانی کے عالم میں بولی...
احد بھی دوڑتا ہوا اُنکی طرف آیا....
"تُم دونوں چلو میرے ساتھ بس دعا کرو اللّٰہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا...."
جازم نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا....
احد اور ماریہ فوراً گاڑی میں بیٹھ گئے....
جازم ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے ہی لگا تھا سامنے سے آتے ابوبکر کو دیکھ کر رُک گیا....
ابوبکر کے چہرے کے تاثرات بھی لمحے میں بدلے....
ابوبکر کی آنکھوں کے سامنے جازم کی طیات سے شادی کی خواہش کے اظہار سے لے کر انکار تک کا سارا منظر گھوم گیا چہرے پر خودبخود نفرت اور غصّے کے تاثرات آتے گئے.....
ابوبکر اُسکی موجودگی کو نظر انداز کرتا آگے بڑھ گیا...
جازم نے بھی اُس وقت کُچھ بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
رات کے وقت راحیل کمرے میں داخل ہوا تو
طیات سورہی تھی ٹرالی اب تک ویسی ہی رکھی تھی جیسی دوپہر میں عبداللہ چھوڑ کر گیا تھا....
راحیل کو کُچھ عجیب لگا اُسکے سونے کا انداز وُہ بغیر آواز کیے طیات کے پاس آیا تشویش اب بھی دور نا ہوئی ....
" طیات...
طیات...
طیات...."
تیسری آواز پر راحیل نے اسے جھنجھوڑا مگر
طیات نا اُٹھی.....
"یہ بیہوش ہے"
راحیل خود سے بولا اور سائڈ میں رکھے گلاس میں سے پانی کے چھینٹے اُسکے منہ پر ڈالے اُسکے ساکت وجود میں حرکت ہوئی تو راحیل کے قلب کی بے ترتیب دھڑکنے دوبارہ درست ہوئی...
راحیل نے اُسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر شانوں سے پکڑ کر تھوڑا اونچا کیا....
"تُم نے دوائی نہیں کھائی"
وُہ غصے سے بولا....
طیات نے کُچھ نہیں کہا نظروں کا رُخ اُسکے چہرے سے ہٹا کر غیر مرئی نقطے پر ٹکا دی....
"میں تم سے کُچھ پوچھ رہا ہوں تُم نے دوائی کیوں نہیں کھائی اور کھانا..."
"کھانا"
راحیل نے دوبارہ زیر لب دہرایا...
"تُم نے اب تک کُچھ کھایا نہیں....
تُم مُجھے پاگل کر رہی ہو طیات بتاؤ مُجھے تُم نے دوائی کیوں نہیں کھائی کھانا کیوں نہیں کھایا"
راحیل نے چُپ چاپ بیٹھی طیات سے پوچھا.....
"مُجھے تُم زہر لا دو ایک ہی دفعہ کھا کر تمہاری جان چھوڑ دیتی ہو"
طیات نے بغیر کوئی تاثرات چہرے پر لائے اُسکی طرف دیکھے بغیر کہا....
راحیل اِس جواب کے لیے تیار نہیں تھا اپنے سوال کے بدلے میں وُہ لمحے بھر کے لیے چونک گیا...
"میں ہی عذاب ہو سب پر میں اِسی کی اہل ہو خدارا مُجھے موت دے دیں میں تھک گئی ہوں ر میرے برداشت کا پیمانہ ہر روز لبریز ہوتا ہے مگر میں خود کو روز ایک نئے سرے سے سمیٹی ہوں مگر میں بھی اِنسان ہوں مُجھ سے نہیں ہورہا برداشت مُجھ سے اور جھوٹا دکھاوا نہیں کیا جاتا لوگوں کے سامنے... تُم مُجھے مرنے دو مُجھے مرنے دو میں تھک چُکی ہوں میں تھک چُکی ہوں"
طیات کی آنکھوں سے نمکین پانی بہنے لگا....
"تُم کھانا کھا کر دوائی لے کر سوجاؤ تمہیں آرام کی ضرورت ہے"
راحیل نے اُسکی بات کو نظرانداز کیا تھا یہ پھر بچنا چاہا تھا یہ وُہ خود ہی جانتا تھا...
"مُجھے بس ایک چیز کی ضرورت ہے تُم دو گے مُجھے"
طیات نے ایک زخمی نگاہ اُس پر ڈالی...
"کس کی"
"موت کی..."
طیات نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے کہا راحیل نے اُسے روکنا چاہا مگر اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا...
"یہ چیز مُجھے میری ساری تکلیفوں سے نجات دلا سکتی ہے..
یہ واحد چیز راحیل تُم مُجھے دے دو اگر تُم دے سکتے ہو"
طیات کا ناتواں جسم بری طرح سے لڑکھڑایا....
" کیا کر رہی ہو تم.... "
راحیل نے اُسے تھامنا چاہا مگر طیات نے اُسے دوبارہ اپنے قریب آنے سے روک دیا...
طیات کمرے کے بیچ میں کھڑی تھی راحیل بے بسی سے اُسکی غیر ہوتی حالت کو دیکھ رہا تھا...
"میرا کتنا نقصان ہوا ہے اب تک کے سفر میں تُم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے میں وُہ لڑکی تھی جو اپنی ہاں کی ناں ہونے پر اپنے بھائی کی ناک میں دم کردیتی تھی اور مُجھے آج دیکھو میں کیا ہوگئی ہوں میں کِتنی بے مول بے وقعت بے کردی گئی ہوں...
میں وہ لڑکی تھی جو اپنے طرف اُٹھتی ایک میلی نگاہ کا منہ توڑ جواب دیتی تھی مگر میرے کردار کی پستی دیکھو آج میں کس شخص سے محبت کرتی ہوں میں کس اِنسان کی بیوی ہوں....
میں وُہ لڑکی تھی جس کے لیے اُسکی انا اُسکی خوداری اُسکی عزت سب سے بڑھ کے تھی مگر دیکھو آج مُجھے میں روز اِس کمرے میں اپنی انا کا جنازہ نکالتی ہوں....
مُجھے اپنے بھائی کے الفاظ کے" میری گڑیا بڑی ہوگئی ہے"یہ الفاظ سُن کر میرا دِل خون کے آنسو رویا ہے میں جس اِنسان کے نظر میں ہمیشہ اُسکی چھوٹی سی تھوڑی سی ناسمجھ تھوڑی پاگل سی لڑکی رہنا چاہتی تھی حالات نے مُجھ سے میرا ایک وُہ خوبصورت احساس بھی چھین لیا...
میں بڑی ہوگئی اپنے بھائی کے لیے جو میں کبھی نہیں ہونا چاہتی تھی...
اور یہ سب صرف اور صرف تمہاری وجہ سے میں جتنا کوشش کرلوں تمہاری گناہوں کو نظرانداز کرنے کی مگر یہ حقیقت ہے راحیل آفتاب یہی حقیقت ہے ...
یہی حقیقت ہے...."
وُہ ہزدیانی انداز میں چلاتے ہوئے دو قدم مزید آگے بڑھی اور توازن برقرار نہ رکھ پانے کے باعث زمین پر گر گئی....
"تُم دور رہو مُجھ سے قریب مت آنا ورنہ میں دوبارہ کُچھ کرلوں گی خود کو دور رہو مُجھ سے بہت دور کوسوں دور مُجھے ہاتھ بھی مت لگانا"
طیات نے دوبارہ چلاتے ہوئے کہا...
راحیل کے اٹھتے قدم وہی رُک گئے وُہ جہاں کھڑا تھا اسی جگہ پر بیٹھ گیا...
"کیا ہوجاتا راحیل اگر تُم مُجھے اُس دن اُس ریسٹورنٹ میں نا ملتے کاش وُہ منحوس دن کبھی میری زندگی میں آیا ہی نہیں ہوتا....
میں تُم سے کبھی ملتی ہی نہیں میں تمہارے سامنے ہی نہیں آتی کتنی پُر سکون ہوتی میری زندگی...
کیا ہوجاتا اگر میں اتنی ہے باکی نہ دکھاتی کے بیچ سڑک تمہارے چہرے پر اپنا ہاتھ نہ چھوڑتی تُو تُم جیسے مردوں کی نام نہاد انا کو کبھی ٹھیس ہی نہ لگتی....
کیا ہوجاتا اگر میری شادی اُس کم ظرف اِنسان سے طے ہی نہ ہوتی جو بے قصور کو سزا دینا جانتا تھا بس جو وُہ کرسکتا تھا اُس نے کیا....
کیا ہوجاتا وُہ رات کبھی نہ آتی وُہ رات جس کی وجہ سے یہ سب ہوا وُہ رات جس کی وجہ سے میں یہاں ہوں وُہ دردناک رات کبھی نہ آتی میری زندگی میں"
راحیل دم سادھے بس اُسکی مورد الزام ٹہراتی آوازوں کو سُن رہا تھا....
طیات چند قدمی دوری کا فاصلہ طے کرکے اُس کے پاس آئی اور اُسکا گریبان پکڑ کر بولی....
"جانتے ہو نہ کونسی رات کی بات کر رہی ہوں میں........
تُم کیسے بھول سکتے ہو اُس رات کو.......
بھول سکتے ہو کیا....؟"
راحیل نے نگاہیں اُسکی طرف اٹھائی....
"تُم بھول بھی نہیں سکتے جیسے میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی تُم بھی ساری عُمر اِس کرب میں رہو گے"
اُس نے زور کے جھٹکے سے گریبان چھوڑ دیا...
"طیات"
راحیل نے اُسکے ہاتھوں کو پکڑا....
"تُم جتنا اِن سب کے بارے میں سوچوں گی تمہیں اتنی ہی تکلیف ہوگی "
راحیل نے اُسکے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر رکھ کر کچھ محسوس کیا....
"میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ پاتا ہوں مُجھے بھی تکلیف ہوتی ہے..."
راحیل نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اُسکے ہاتھ سے....
طیات اُسکے تھوڑا قریب ہوئی....
"تُم میری مُشکِل آسان کردو راحیل مُجھے کوئی تو سکون دے دو"
طیات نے دونوں ہاتھوں میں راحیل کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں قید کرتے ہوئے کہا...
راحیل اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا....
طیات نے ایک ہاتھ اُسکے سینے پر رکھا اور اور اسی چین کو دوبارہ باہر نکالا....
راحیل کے تاثرات بدلے مگر اُس نے کوئی حرکت نہیں کی....
”مُجھے بس تُم اتنا بتا دوں اِس کا تعلق کس سے ہے....میں پاگل ہوجاؤ گی راحیل اگر مُجھے یہ پتا نہ چلا تو مُجھے بتا دو خُدا کے واسطے اِس لفظ کا تعلق کس اِنسان سے ہے اور اِنسان کا تمہاری زندگی میں کیا مقام تھا کیا راز ہے اُس دروازے کا...میں جاننا چاہتی ہوں کون ہے یہ اِنسان جس کو تُم نے اپنے دِل کے قریب رکھا ہے...."
طیات نے اپنا ڈر اُس پر عیاں کیا...
"میں کھانا لے کر آتا ہوں اور تُم دوائی کھا کر سوجاؤ"
راحیل نے اُسے وہی بیٹھا چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا....
"پھر تُم چلے گئے پھر میرے سوالوں کا کوئی جواب نہیں پھر کرب پھر اذیت...."
طیات نے طیش اور بے بسی کے عالم میں ارد گرد پڑی ساری چیزیں اُٹھا کر پھینکنی شروع کردی....
ٹوٹتے چیزوں کی آواز دروازے کے باہر کھڑے راحیل کو بھی سنائی دے رہی تھی مگر وُہ سچ اُسے بتاتا بھی کیسے جس سے وُہ خود بھاگتا آرہا تھا.... جس سچ نے اُسکی نیندیں تب سے عذاب کر رکھی تھی جب سے وُہ سمجھنے کے قابل ہوا تھا.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro