Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۹

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۹
باب نمبر ۸
"ماہیت" (اصلیت)

"کیا تُم سچ کہہ رہی ہوں"
نیلم نے بے یقینی سے کہا...

"منہ بند کرو سب سے پہلے اپنا مکھی چلی جائیگی....اور بھلا مُجھے تُم سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت آن پڑی اُس نے مُجھے بیچ سڑک  دم درود کروانے کے لیے تو روکا نہیں ہوگا..."
انعم نے اپنی بات مُکمل کرکے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا...

"تو اب تُم اُسے کیا جواب دو گی"
نیلم کو تجسّس ہونے لگا...

"جواب کیا دینا ہے...کُچھ دن آگے پیچھے گھماؤ گی پھر نا بول دو گی"
انعم لاپرواہی سے بولی...

"تُم پاگل تو نہیں ہوگئی ہو انعم وُہ تمہیں پسند کرنے لگا ہے"
نیلم کو انعم کی بات گراں گزری...

"اتنا ہی درد آرہا ہے تو خود  سمبھال لینا میرے چھوڑنے کے بعد"
انعم نے ہستے ہوئے کہا...

"انعم دیکھو میری بات سنو تمہیں کسی نہ کسی سے شادی تو کرنی ہے نہ تو پھر آفتاب ہی کیوں نہیں وُہ تو تمہیں پسند بھی کرتا ہے تمہارے اسٹیٹس سے بھی میچ کرتا ہے دیکھنے میں بہت اچھا ہے....یہ ایک بہترین پرپوزل ہے
تُم ابھی تک آفتاب کو ایک ٹاسک کی طرح دیکھ رہی تھی مگر اب سیریس ہوکر سوچو یہ ایک بہت اچھا پرپوزل ہے"
نیلم نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا...

"کہتی تو تُم ٹھیک ہی ہو شادی تو کرنی ہی ہے تو پھر یہ آفتاب ہی کیوں نہیں...."
انعم نے اُسکی بات کا جواب غیر متوقع دیا...

”شُکر تمہارے دماغ میں میری کوئی بات تو آئی"
نیلم نے بھی کُچھ پُرسکون ہوتے ہوئے کہا...

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"میری کیا غلطی تھی مُجھے اِس بات کا جواب دو تُم بس.."
چیاگو میں گرتی برف اُسے یکدم آگ کے شعلے لگنے لگے جو اُسکے دِل پر برس رہے تھے....
"میں نے سوچا بھی نہیں تھا اِس بارے میں اور دیکھو جس چیز کے بارے میں نے سوچا تک نہیں  تھا آج وہی مُجھے سب سے زیادہ اذیت دے رہی ہے میں کیسے بھول گیا میرا یہ معاملہ خُدا سے نہیں تُم سے ہے...میں نے کیوں نہیں سوچا کہ تُم اگر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر مُجھ سے میری زیادتیوں کا حساب لینے کھڑی ہوگئی تو  اِس کرہ ارض میں کہاں پناہ لو گا میں...."
وُہ اُسے پہلی بار روتے ہوئے دیکھ رہی تھی...
اُسکے اندر کُچھ ٹوٹا جس کی کرچیاں اب دِل کو لہولہان کر رہی تھی...
"ہر بار کی طرح آج بھی تمہارے پاس کوئی نہیں تُم آج بھی کُچھ نہیں بول سکتے تُم ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہو ڈرو اُس دن سے جس دن اُس ذات نے میری ساتھ کی گئی زیادتیوں کا حساب لینا شروع کردیا...میں نے تمہیں معاف نہیں کیا میں نے صبر یا کیا ہے میں نے خاموشی اختیار کیا تھی اور یقین جانو مُجھے خودبخود صبر آگیا میرے خُدا کی شان ہے یہ
مگر "صبر کرنے" اور "صبر آجانے" میں بہت فرق ہوتا ہے ....
صبر وہ ہوتا ہے جو صدمے کے شروع میں کیا جائے۔
اپنے دل پر جبر کرکے اپنے حوصلے کو آزما کر چُپ سادھ لینا "صبر کرنا" ہوتا ہے.... میں نے رو دھو کر اپنے زخموں کی نمائش دُنیا کے سامنے نہیں کی میں نے صبر کیا ہے...
صبر "کوئی" "کوئی" کرتا ہے...
اور اُسکا بہت خوبصورت صلہ دیا اللّٰہ نے مُجھے بہت خوبصورت....."
وُہ نم آنکھوں اور سرشار لہجے کے ساتھ بولی...
مقابل کے چہرے پر سیاہ سایہ آ رُکا...
"خوش رہو ہمیشہ میں یہی دعا کرسکتا ہوں"
اتنا کہہ کر وُہ رُکا نہیں جبکہ وُہ اسے جاتے دیکھتی رہی...
اُس نے جیسے ہی اپنا رُخ موڑا کسی سے بری طرح ٹکرائی وُہ اُسکے بلکل پیچھے کھڑا تھا کب آیا یہ اُسے پتا نہیں چلا نظر اُٹھا کر جب اُسے دیکھا تو بے اختیار آنکھیں بھر آئیں...
اُسکے سینے میں خود کو چھپا لیا بے آواز روتی رہی....
اُس نے بازو اُسکے گرد حمائل کرکے اُسے چُپ کروانے کی کوشش کرنے لگا کے اسے سکون آجائے کیونکہ اُسکی آنکھوں میں آنسو وُہ نہیں دیکھ سکتا تھا......

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"تمہارا بھائی نہیں ہے یہاں جس کا سہارا لے کر تُم چلو گی"
راحیل نے اُسے گاڑی میں ہی بیٹھے دیکھ کر کہا....
"آؤ باہر"
راحیل کُچھ نرمی سے بولا اور اپنا دایاں ہاتھ اُسکی طرف بڑھایا...
"مُجھے تمہارے سہارے کی کوئی ضرورت نہیں میں خود  چل سکتی ہوں ٹانگیں سلامت ہے میری"
وُہ پہلے ہی تپی بیٹھی تھی سارا غصّہ اب اُس پر نکالنے لگی...
مگر وُہ بھول گئی تھی کہ اُس کا مقابلہ بھی راحیل سے تھا جو اپنی بات کی نفی برداشت نہیں کرسکتا تھا اُس نے زبردستی اُسے گاڑی سے باہر نکال کر کھڑا کیا اور گاڑی لاک کردی....
"اب شوق سے اپنی سلامت ٹانگوں پر کھڑی رہو"
راحیل نے اُسکا شانہ چھوڑ کر کہا اور قدم بڑھاتا راہداری عبور کرگیا.....

"ذلیل کمینہ"
وُہ غصے سے بیچ و تاب کھاتے ہوئے راحیل کے لیے کیے گئے مخصوص لفظوں سے اُسے نوازنے لگی...
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اندر بڑھنے لگی...

روم میں آکر وُہ فوراً بیڈ پر بیٹھ گئی کیونکہ طبیعت ابھی مُکمل ٹھیک نہیں ہوئی تھی سیڑھیاں چڑھنے سے اُسکا سر چکرا گیا تھا...
وُہ دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام کر دبانے لگی....

"کیا ہوا؟"
راحیل نے اُسے سر دباتے ہوئے دیکھ کر پوچھا...
"کُچھ نہیں"
مختصر  سا جواب دیا گیا...
"میں تمہارا نوکر نہیں ہوں بار بار ہاسپٹل لے لے کر گھومتا رہوں سیدھے سیدھے بتاؤ کیا ہوا ہے"
وُہ اُسکے سر پر اکھڑا ہوا...
"سر میں درد ہورہاہے"
طیات نے بغیر اُسکی طرف دیکھے  کہا...

"کھایا ہے کُچھ تُم نے؟"
وُہ ایسا شوہر بنا ہوا تھا اُس وقت جسے اپنی بیوی کی فکر تھی..

"ہاں جوس پیا تھا صبح بھائی نے پلایا تھا"
طیات نے بھی اپنا لہجہ نارمل کرتے ہوئے کہا...

"میں نے کھانے کا پوچھا ہے"
وُہ سختی سے بولا...

"نہیں"
ایک لفظی جواب دینے پر اُس نے اکتفا کیا...

"عبداللہ عبداللہ"
راحیل نے نوکر کو آواز دینی شروع کردی...
کُچھ ہی لمحوں میں دروازے پر دستک ہوئی اندر آنے کی اجازت طلب کی گئی تھی...
"آجاؤ"
ایک ۲۳ ۲۴ سال کا دبلا پتلا سانولا سا لڑکا یونیفارم پہنے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے مودب انداز میں اندر داخل ہوا...
"جی سر"
"کھانا لے کر آؤ فوراً"
آرڈر پاتے ہی وُہ سر کو خم دیتا کمرے سے نکل گیا...
"تُم مُجھے ہر بار نئے سرے سے حیران کرتے ہو راحیل کبھی اتنی لاپرواہی کبھی اتنی فِکر آخر تُم ہو کیا"
وُہ اُس سے پوچھ بیٹھی...
راحیل کے سپاٹ  چہرے پر مسکراہٹ آگئی پہلی بار وُہ اسے مسکراتا دیکھ رہی تھی...
وُہ اُسکے برابر میں آکر بیٹھ گیا...

"تمہیں عادت ہوجائیگی پھر تمہیں حیرانی نہیں ہوگی تُم مُجھے سمجھنے لگی ہو میں جانتا ہوں اِس بات کو اور شاید اِس دُنیا میں صرف تُم ہی وُہ واحد انسان ہو جو سمجھ سکتا ہے"
راحیل اُسکی طرف دیکھے بغیر اپنی ذات کے کُچھ اور پہلوؤں سے اُسے روشناس کروا رہا تھا...
طیات کی نظرے صرف اُس پر تھی وُہ دیکھنا چاہتی تھی نرمی سے بولتے ہوئے وُہ کیسا لگتا ہے....
  ”مگر میں تمہیں سمجھنے میں ناکام ہوں تُم میرے سامنے کھلی کتاب ہو مگر میں ہمت نہیں کرپاتا کبھی اِس کتاب کو پڑھنے کی...میں اِس کتاب کے کُچھ پنّے پھاڑ دینا چاہتا ہوں مگر میں جانتا ہوں یہ نا ممکن ہے"
"شائستگی مہذب انداز دھیما لہجہ یہ شخص ہر روپ میں کمال ہے"
طیات نے مُسلسل اُسے دیکھتے ہوئے خود سے کہا...
”طیات میں جھوٹ نہیں بولتا آج بھی نہیں بولوں گا میں تُم سے محبت نہیں کرتا میں کر ہی نہیں پاتا مُجھے نہیں پتہ ایسا کیوں مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے مُجھے تمہاری عادت ہوگئی ہے تُم میری وُہ ضد ہو جسے پوری کرکے بھی کے پوری نہیں کرسکا میں نے تمہارے وجود کی نفی کرنی چاہی اِس گھر میں مگر مُجھ پر ادراک ہوا ہر کونے میں تُم بس چُکی ہوں میں اِس تبدیلی کا عادی ہوتا گیا"
وُہ ہاتھ گھٹنوں پر رکھے نیچے اپنا منہ کیے بیٹھا سب بول رہا تھا...
طیات کی نظر اُسکے چہرے سے ہوتی ہوئی سینے تک آئی جہاں سے آدھی باہر لٹکتی چین اُسے منہ چڑا رہی تھی...
طیات نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر چین کو مکمل باہر نکالا "A" لفظ کو دو انگلیوں کے بیچ میں قید کرلیا...
"مُجھے تمہارے بارے میں کُچھ نہیں جاننا مُجھے بس تُم اِس بات کا یقین دلا دو کے میں تمہاری زندگی میں بطور خاص حیثیت پر آنے والی واحد لڑکی ہوں..."
طیات کو  ایک نئے اندیشے نے آ گھیرا تھا....
راحیل کو اپنی گردن پرکچھ کھنچاؤ محسوس ہوا تصدیق کے لیے نظریں زمین سے اُٹھی اور اپنی گردن کے گرد گئی تو ایک ہاتھ کی دو اُنگلیوں میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے راز کو قید پایا.....
وُہ جھٹکے سے کھڑا ہوگیا....
"آئندہ یہاں تک پہنچنے کی غلطی بھی مت کرنا ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا"
راحیل نے اُنگلی کا اِشارہ اُس چین کی طرف کرتے ہوئے انتہائی روکھے اور سرد لہجے میں کہا....
چند لمحے پہلےشائستہ مہذب اور نرمی سے  بولنے والا وُہ شخص دوبارہ خود پر "Mysterious"  کا بورڈ لگا چُکا تھا....
بول کر ایک نظر طیات کی طرف دیکھا تو وہاں اُسے  ڈر اور حسرت  نظر آئی اور اُسکا ڈر کتنا سچ تھا یہ صرف راحیل خود جانتا تھا....

دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی...
"کھانا کھا لینا"
خُشک انداز میں دوبارہ کہا گیا...
کہہ کر وُہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا باہر کھڑے عبداللہ کے لیے یہ سب نیا نہیں تھا...
وُہ سائڈ ہوگیا اور راحیل کے چلے جانے کے بعد ٹرالی گھسیٹتا اندر داخل ہوگیا.....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

" محترمہ میری بات تو سُن لیں آپ تو ایسے بھاگتی ہیں جیسے میں کوئی بندوق لے کر آپکے پیچھے بھاگ رہا ہوں"
حماد نے کلاس سے باہر جانے کے لیے کھڑی اقراء کا راستہ روکتے ہوئے کہا...

"بڑی بڑی ہیزل کلر کی آنکھوں میں میں پانی بھر آیا اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا...

"یہ نا کیا کریں آپ..."
حماد نے فوراً راستہ چھوڑتے ہوئے کہا...
وُہ رستہ پاتے ہی آگے بڑھ گئی...
حماد نے اُسکے ساتھ چلنا شروع کردیا...

"کیا آپ اطمینان سے بیٹھ کر میری بات سُن سکتی ہیں"
حماد نے دوبارہ اپنی بات دہرائی...

مگر وُہ تو جیسے اپنے کان بند کرچُکی تھی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے بس اُسکی منزل تھی یونیورسٹی سے باہر نکلنا...

"پلز بس ایک بار میری بات سُن لیں میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں"
حماد نے چلتے ہوئے واقعی ہاتھ جوڑ دیے...

اقراء نے رفتار دھیمی کی اور دھیمی پھر رُک گئی...اُسکی طرف رُخ کیے چہرہ نیچے جھکائے  بولی....
"بھائی میرا پیچھا مت کریں خدا کا واسطہ آپکو لوگ مُجھے عجیب عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں کیوں میرا تماشا بنواتے ہیں آپ..."

"الفاظ واپس لیں اپنے فوراً آپکی ہمت بھی کیسے ہوئی مُجھے بھائی بولنے کی"
وُہ سخت غصے میں بولا...
اقراء کے اوسان خطا ہوئے اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی لگی اُسے جواب دینا...
وُہ دوبارہ تیزی سے چلنا شروع ہوگئی...
حماد نے اِس بار اُسکا پیچھا نہیں کیا وُہ وہی رُک گیا جِس پر اقراء نے شُکر ادا کیا....

"جسے دیکھو بھائی بول دیتی کیا میری شکل بھائیوں والی ہے"
حماد غصے میں خود سے بولا...
"مگر میں بھی حماد ذاکر ہو آپکو اپنی شریک حیات بنا کر رہوں گا پھر دیکھتا ہوں کیسے بھائی بولتی ہے آپ مُجھے...."
اُس نے خود کو تسلی دی...
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro