Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۸

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۸
"انتہائے ضبط"

"میری جان میرے بچے خود کو تکلیف مت دو وُہ اللہ کی امانت تھی اُس نے واپس لے لی تُم مانتی ہو نہ اُسکے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہیں تو اِس میں بھی اُسکی کوئی مصلحت ہی چھپی ہوگی جو ہمیں ابھی نہیں دکھ رہی شاید آگے جاکر دکھے...”
وُہ اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اُسے رسان سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا....

"بھائی مُجھے اب راحیل کے ساتھ نہیں رہنا میں گھر جانا چاہتی ہو آپکے ساتھ...."
طیات یکدم فیصلہ کُن انداز میں بولی....
"ٹھیک ہے تُم اپنے گھر چلو گی تمہیں کوئی خی جانے نہیں دے رہا نہ کوئی لے کر جاسکتا ہے....آرام کرو تُم بس ڈسچارج ہوتے ہی ہم گھر چلیں گے...ٹھیک ہے گڑیا"
امان نے اُسے تکیے پر لٹاتے ہوئے کہا...
" آپ دونوں میرے پاس رہیں"
وُہ امان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی....
"بھائی کہی نہیں جارہے بھائی یہی ہے اپنی گُڑیا کے پاس بھائی کہا کہی جاسکتا ہے اپنی جان کو اِس حالت میں چھوڑ کر"
امان نے اُسے بہلاتے ہوئے کہا....
"آپی میں بھی کہی نہیں جارہا میں آپکے ساتھ ہی بیٹھا ہوں"
ایان نے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا....
طیات نے امان کا ہاتھ پکڑے آنکھیں بند کرلی....
اُسکے واپس سونے تک امان وہی بیٹھا رہا اُسکے سر میں ہاتھ پھیر رہا تھا شفقت بھرا ہاتھ ٹھندی چھاؤں کے تلے طیات کُچھ دیر میں ہی پُر سکون نیند سوگئی....
امان نے طیات کے نقاہت زده چہرے پر نظر ڈالی...
دو قطرے اُسکی آنکھوں سے چھلک پڑے....
اُس نے طیات کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ احتیاط سے نکالا....
"کتنی بدل گئی ہے میری گُڑیا پہلے ایک ہلکی سے خراش آنے پر گھر سر پے اُٹھا لیتی تھی اور اب اتنی بڑی بڑی تکلیفیں کتنے آرام سے برداشت کر گئی کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیا.... واقعی لڑکیاں نکاح کے ۳لفظ بول کر بہت بڑی ہوجاتی ہیں باپ کے گھر سے رخصتی کے وقت صرف گھر چھوڑ کر نہیں جاتی بلکہ ساری شوخی ساری شرارتیں سارے ناز نخرے بھی اُسی گھر میں چھوڑ جاتی ہیں... سچ میری گڑیا تُم بہت بدل گئی ہو"
امان نے اُسے تاسف زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا...
ایک نظر ایان پر بھی ڈالی جو طیات کے ہاتھ پکڑے اُس پر اپنا سر ٹکائے سوگیا تھا...
امان نے  طیات کی روشن پیشانی پر بوسہ دیا اور کمرے میں رکھے صوفے پر جاکر بیٹھ گیا....
دروازے کے باہر اندر آنے کے لیے کھڑے راحیل نے ساری بات سُن لی تھی اُسے بُرا لگا تھا تو صرف اِس بات کا وُہ اب اُسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی
تھی.... دِل پے جیسے منوں بھاری پتھر رکھ دیا ہو کسی نے اُسے اُس وقت دُکھ  ہوا تھا یا بُرا لگا تھا وُہ خود سمجھنے  سے قاصر تھا کیونکہ وُہ دونوں چیزوں کو ملا رہا تھا اور دُکھ اور غصّہ جب ایک ساتھ ہو تو پھر جُنوں کی شکل اختیار کرنے لگتے ہیں....
وُہ کمرے میں داخل نہیں ہوا واپس پلٹ گیا...

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"ہائے ماریہ"
نائلہ نے بینچ پر اُسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا...
ماریہ نے سُنا نہیں تھا وُہ اپنے خیالوں میں ہی گُم تھی....
"ہیلو"
نائلہ نے دوبارہ کہا....
"اُو بھئ کہاں گُم ہو تُم"
نائلہ اب اُسے جھنجوڑ کر بولی جس سے وہ ہوش و حواس میں واپس آئی....
"کیا ہے"
ماریہ اُسکا ہاتھ جھٹک کر بولی...

"یہی میں پوچھوں تو زیادہ ٹھیک رہے گا "کیا ہے" یہ سب کیا ہوگیا ہے تمہیں اور میں آج کوئی بہانہ نہیں سنوں گی مجھے تُم سب کُچھ سچ سچ بتاؤ گی"
وُہ اٹل لہجے میں بولی...

"ماریہ بولو میں کُچھ پوچھ رہی ہوں تُم سے"
نائلہ نے اب کی بار کُچھ غصے سے کہا...

"کیا بتاؤ کیا سننا کیا چاہتی ہو تُم"
وُہ ہار مانتے ہوئے بولی...

"جو سچ ہے میں وہی سننا چاہتی ہوں فضول کُچھ نہیں"
نائلہ نے ہلکی آواز میں ٹہر ٹہر کر ایک ایک لفظ پے زور دیتے ہوئے کہا....

"ہاں میں اعتراف کرتی ہوں تمہارے سامنے کے مُجھے محبت ہوگئی ہے مُجھے  ابوبکر سے محبت ہوگئی ہے کب کہاں کیسے یہ تو میں خود بھی نہیں جانتی مُجھے تو خود حیرت ہورہی ہے آخر کیسے چند ملاقاتوں میں مُجھے کیسے اُس سے اتنی گہری محبت ہوگئی جبکہ ہمارے بیچ کبھی ایسا کوئی بھی لمحہ نہیں آیا جس کی وجہ سے میرے دل میں اُس کے لیے محبت آجائے"
ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا...
"مگر نائلہ یہ ہوچکا ہے l ابوبکر کی محبت میرے اندر تک جڑیں پکڑ چُکی ہیں....
مُجھے زندگی میں اپنے کسی کارنامے پر حیرانی نہیں ہوئی مگر اِس محبت پے مُجھے شدید حیرانی ہورہی ہے مُجھے یقین نہیں آتا یار کے میں بھی محبت کرسکتی ہوں"
وُہ اُسکی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دِل کا حال بیان کرنے کی کوشش کر رہی تھی....

"میں پہلے ہی جان گئی تھی یہ تبدیلیاں جو تمہارے اندر رونما ہورہی ہے یہ صرف اور صرف محبت ہونے کی علامتیں ہیں اور کُچھ نہیں"
نائلہ اب اُسکے منہ سے اعتراف سُن کر مسکراتے ہوئے بولی...

ماریہ بھی حال دل بتا کر ہلکی پھلکی ہوگئی تھی...

"اب تُم کیا کروں گی"
"کیا مطلب کیا کرونگی"
ماریہ نے ناسمجھی والے انداز میں سر کو جنبش دی...

"مطلب کیا خاموش محبت کرتے رہنے کا ارادہ ہے"
نائلہ کو اب اُلجھن ہونے لگی...

"تو کیا کروں میں؟"
وُہ نائلہ سے سوال کر رہی تھی....

"یہ تو تُم سوچوں نہ تمہیں کیا کرنا ہے میں نے تھوڑی یہ روگ پالا ہے"
"پر میں نے تو کُچھ سوچا ہی نہیں آگے کیا کرنا ہے"
ماریہ کو اب افسوس ہونے لگا...
"میں جاکر چشمش کو پرپوز کردوں کیا"
ماریہ اُسی الہڑ پن سے بولی جو اُسکی شخصیت کا خاصہ تھی....

"حد کرتی ہو کم از کم اب تو بیچارے کو چشمش کہنا چھوڑ دو....اور بول تو ایسے رہی ہوں جیسے آگے سے وہ تمہارے انتظار میں ہی  گھٹنوں کے بل بیٹھا ہے ایک ہاتھ میں پھول اور دوسرے ہاتھ میں انگوٹھی لیے کے تُم آکر  اُسے پرپوز کروگی تو وہ تمہارے اُنگلی میں انگوٹھی پہنا کر اور پھول دے کر بولے گا... کہاں تھی تُم میں نے تو پیدا ہوتے ہی آپکا انتظار کرنا شروع کردیا تھا شُکر ہے آج آپ مِل گئی چلیں شادی شادی کھیلتے ہیں"
نائلہ نے اُسکا اچھا خاصہ مذاق اُڑایا....

"تُم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے میں یہاں سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی ہو اور تمہیں مذاق سوج رہا ہے... مری رہو میں ہی دفع ہورہی ہوں"
ماریہ نے اپنا بیگ  اُٹھا کر تیزی سے چلنا شروع کردیا...

ہمیشہ کی طرح اپنی دھن میں چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی...
اسٹاف روم سے باہر نکلتے ہوئے اُس دُشمن جان سے دوبارہ جا ٹکرائی....

"آپ نے کیا تہیہ کیا ہوا ہے دن میں ایک بار تو آپکو مُجھ سے ضرور ٹکرانا ہے...مطلب کوئی وظیفہ وغیرہ ہے کیا مُجھے بتا دیں خود آکر کھڑی ہوجاؤ گی آپکے سامنے آپ روز ٹکراتے ہوئے آگے چلے جائیے گا"
وُہ ہمیشہ کی طرح "اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" والی مثال پر عمل کرتے ہوئے سامنے والے کے گلے ہوگئی....
جبکہ ابوبکر کے پیشانی پر بل پڑ گئے...
"مس ماریہ میرے خیال سے آپکو ایک دماغی ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ کسی اچھے سے eye specialist کو بھی consider کرلینا چاہیے...
کیونکہ پڑھائی میں تو آپکا دھیان ہوتا نہیں دکھائی آپکو کم دیتا ہے اور اب ایک اور انکشاف ہوا ہے آپکو تو بات کرنے بھی تمیز نہیں...
آپ بھول چُکی ہے شاید تو میں یاد دلاتا چلوں "i am not your classfellow...I am your "
teacher"
تو آئندہ یہ ذہن میں رکھ کر بات کیجئے گا آپ ایک ٹیچر سے بات کر رہی ہیں"
ابوبکر نے اُسے اچھی خاصی جھاڑ پلائی..

"sorry sir"
وُہ بس اتنا ہی کہہ سکی....
"you must be"
ابوبکر کہہ کر آگے بڑھ گیا....

"ٹیچر مائی فٹ ہونہہ ہوتا ہوگا ٹیچر میرے لیے تو ہمیشہ "Double battery single power" ہی ہو تُم ابوبکر ریاض...

"بڑے آئے ٹیچر"
وُہ بھی بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھنے ہی لگی تھی ایک طرف منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکتی نائلہ پر نظر پڑ گئی...
"بڑی کھی کھی کر رہی ہوں"
وُہ خونخوار نظروں سے اُسے گھورتی ہوئے بولی....
"میں آپکا ٹیچر ہوں تمیز سے بات کیجئے مُجھ سے"
نائلہ ہنسی ضبط کرکے فوراً ابوبکر کی نقل اتارتے ہوئے بولی....
"نائلہ کی بچی"
اُس نے رجسٹر اُسکے سر پر مارنا چاہا مگر وُہ تیزی سے نکل کر بھاگ گئی....

"ہونہہ خود کو چار چار آنکھیں رکھ کر دکھتا نہیں مُجھے بولتا ہے"
وُہ دوبارہ ابوبکر کو بُرا بھلا کہنے لگی...

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"تُم گھر چلے جاؤ میں طیات کے پاس رُکا ہوا ہوں"
امان نے راحیل سے کہا...

"مُجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے نہ کسی مشورے کی  مُجھے جب جانا ہوگا میں چلے جاؤں گا"
وُہ بغیر کسی مروت کے بولا...

"میں تمہیں کوئی مشورہ نہیں دے رہا ہوں بول رہا ہوں گھر چلے جاؤ میں طیات کے پاس رُکا ہوا ہوں تُم رات سے گھر نہیں گئے تھک گئے ہوگے آرام کرکے صبح آجانا"
امان اتنا تو راحیل کو سمجھ چکا تھا کہ اُسکے دِماغ میں کسی کی بھی سیدھی بات نہیں آتی تھی اِسی لیے اُس نے نرمی سے کہہ کر اسے رام کرنا چاہا....مگر وُہ راحیل ہی کیا جو کسی کی بات مان لے....

"تُم فِکر مت کرو میری تمہیں جانا ہے تو جاکر کمر سیدھی کر آؤ"
اُسکا مقابلہ بھی راحیل سے تھا جو حاضر جوابی میں اپنی مثال آپ تھا....

"ڈاکٹر نے کہا ہے کوئی ایک ہی رُک سکتا ہے پیشنٹ کے ساتھ... اِس لیے تمہیں گھر جانا ہوگا"
وُہ اب اصل مقصد بتا رہا تھا نرمی سے بات کرنے کا...

"کیوں جانا ہوگا"
"بتایا تو پیشنٹ کے ساتھ کوئی ایک ہی رُک سکتا ہے"
امان نے اب کی بار کُچھ زور سے کہا...
"اچھا...."
اُس نے اچھا کو کافی لمبا کھینچا.....
تو پھر تُم اور ایان چلتے بنو کیونکہ میں تو کہی نہیں جارہا"
وُہ ڈھٹائی سے بولا...
"راحیل دیکھو"
" مُجھے اپنی بیوی سے کُچھ باتیں کرنی ہے اور وُہ میں تمہارے سامنے نہیں کرسکتا تھا اِس لیے پورے دن میں کمرے میں نہیں آیا اب  کُچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو.....
کھا نہیں رہا میں تمہاری بہن کو....
شوق سے پھر بھلے سے علی الصباح ہی چلے آنا..."
اُس نے فیصلہ سناتے ہوئے بات ختم کی...
امان بھی چُپ ہوگیا کیونکہ وُہ اِس وقت اُس سے اُلجھنا نہیں چاہتا تھا....
وُہ طیات سے ملنے چلا گیا...

"بھائی آپ دونوں کہاں جارہے ہیں"
طیات نے امان کے جانے اطلاع پر کہا...

"ہم کل صبح ہی آجائیں گے مگر ابھی جانا ہوگا گڑیا کیونکہ پیشنٹ کے ساتھ کسی ایک کو رُکنے کی ہی اجازت ہے اور میں نے تمہارے شوہر سے جانے کے لیے کہا تو مُجھے کہتا ہے کہ میں اور ایان چلتے بنے کیونکہ وُہ اول درجے کا ڈھیٹ اِنسان یہی رُکے گا اور یہاں میں اُس سے کسی بھی قسم کی بحث میں اُلجھنا نہیں چاہتا"
امان بے بسی سے بولا....

"اِس شخص نے آج بھی میرے بھائیوں کو بے بس کردیا"
طیات کو اب راحیل پر غصّہ آنے لگا تھا....

"پریشان مت ہونا بچے میں صبح ہی آجاؤ گا"
وُہ اُسے پیار کرتے ہوئے بولا...

"اللہ حافظ آپی....اپنا خیال رکھیے گا"
ایان نے بھی جُھک کر اُسکے ماتھے پر پیار کیا....

"اللہ حافظ راحیل بھائی" ایان میں کمرے میں داخل ہوتے راحیل کو دیکھ کر کہا....

"Bye"
اللہ حافظ کے جواب میں اُس نے خدا حافظ کہنے کے بجائے کہا....
جبکہ امان نے تو اُسکی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا...

وُہ اب چلتا ہوا اُس تک آیا....
طیات نے نخوت سے منہ پھیر لیا...

"کیسی ہو اب تُم؟"
وُہ بیڈ کے سرہانے رکھی کُرسی کھینچ کر اُس پر بیٹھتے ہوئے بولا...

"تمہارے لیے خوش آئند بات نہیں ہے بدقسمتی سے میں زندہ ہوں"
وُہ غصے بھرے انداز میں منہ دوسری طرف کیے ہوئے ہی بولی....
اُسکے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ آگئی...

"تُم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا"
وُہ اب اُسکے سامنے اعتراف کر رہا تھا...

طیات کو قریب بیٹھے شخص کی آواز اور کہے گئے ہر الفاظ پر جی بھر کے حیرت ہوئی...

"تمہیں بھی ڈر لگتا ہے میں نہیں مانتی تُم تو بس ڈرانا جانتے ہو"
وُہ استہزایہ بولی...
وُہ اب اُسکے تھوڑا قریب ہوا....
"پہلے نہیں لگتا تھا کیونکہ پہلے میری زندگی میں تُم نہیں آئی تھی میرے پاس کھونے کے لیے کُچھ نہیں تھا مگر اب میری زندگی میں واحد تُم ہی وُہ چیز ہو جسے میں کھونے سے ڈرنے لگا ہوں تُم نہیں جانتی مُجھ پر کیا گزری تھی باہر کھڑے ہوکر جب ڈاکٹر نے...."
راحیل سے مزید بولا نہیں گیا اُس نے رُخ موڑ لیا....

"کیا کہا تھا ڈاکٹر نے؟"
اُسے تشویش ہوئی...
وُہ ساری ناراضگی غصّہ بالائے طاق رکھتے ہوئے بولی...
"کُچھ نہیں بس سمجھو خواب تھا بھیانک ترین خواب.....
تمہیں پتہ ہے بچپن سے لے کر اب تک تقریباً  ہر رات کو ایک خواب دیکھا ہے میں نے جس نے میری نیندیں عذاب کردی تھی... مگر کھلی آنکھوں سے دیکھے اِس خواب نے مُجھے ہلا دیا ہے وُہ خواب راتوں کی نیند چھینتا آیا ہے اور اِس نے کُچھ پل کے لیے ہی سہی مگر میرے دِل کا چین چھینا لیا تھا...."
راحیل نے طیات کے ہاتھوں  کو اپنے  ہاتھوں میں لے کر  نرمی سے لبوں سے بوسا دیا ...
جبکہ وُہ اُس پل میں تولہ پل میں ماشا والی مثال پر پورا اترنے والے شخص کو بنا پلکے جھپکے دیکھ رہی تھی....

اُس نے اپنے ہاتھ کھینچنے چاہے...
مگر وُہ بھی کسی معمولی گرفت میں نہیں تھے راحیل آفتاب کی گرفت میں تھے وُہ بھلا کیسے اُنہیں نکال پاتی....

"تُم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مگر جو بھی ہوا اُس میں میرا کیا قصور تھا....
دیکھو طیات یہ تُم بھی جانتی ہوں تُم مُجھ سے بچ کر مُجھ سے دور نہیں جاسکتی... اِس لیے جہاں ہو سکون سے وہی رہو....
تُم کہی نہیں جارہی ہوں"
وُہ حاکمیت سے بولا....
اُس نے کچھ بولنا ہی چاہا تھا راحیل نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا....
"اب یہ میڈیسن لو اور چُپ چاپ لیٹ جاؤ"
راحیل نے اُسکی طرف دو گولیاں اور پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا....
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی تابعداری سے اُسکی بات مانتے گئی...

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

صبح سات بجے ہی امان اور ایان دونوں آگئے....
"ڈاکٹر ہم طیات کو گھر لے جاسکتے ہیں"
امان نے پوچھا...

"آپ اِنہیں گھر لے جاسکتے ہیں مگر انہیں مُکمل آرام کی ضرورت ہے تو آپ کو دھیان رکھنا ہوگا"
ڈاکٹر نے ہدایت کرتے ہوئے اجازت دی...

"thank you"
امان نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا....
"طیات میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے تُم گھر چل رہی ہو ہمارے ساتھ ڈاکٹر نے بھی اجازت دے دی ہے"
امان نے دوائیاں ایک جگہ کرتے ہوئے کہا....

"بھائی"
طیات نے جھجکتے ہوئے کہا...

"ہاں بولو کیا بات ہے"
امان نے محبت بھرے انداز میں پوچھا....
"بھائی....وُہ میں گھر جانا چاہتی ہوں"
"ہم گھر ہی جارہے ہیں بچے"
امان نے اُسکی بات کا مطلب کُچھ اور نکالا...

"بھائی میں راحیل کے ساتھ جانا چاہتی ہوں"
ہمت کرکے اُس نے بول دیا....
امان کو شاید اِس بات کی توقع تھی اِسی لیے حیرانی نہ  ہوئی بلکہ چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی...
طیات اُس مسکراہٹ کا مطلب نہیں سمجھ سکی....
امان نے بھی اُسے کل کی کہی ہوئی بات یاد دلانا مناسب نا سمجھا....
"مطلب تُم بھائیوں کو بھول گئی ہو پھر سے"
امان مصنوئی ناراضگی سے بولا.....

"بھائی نہیں ایسی بات نہیں ہے میں انشاءاللہ ایک دو دن میں آؤ گی آپ سے مِلنے"
وُہ اب اُسے منانے لگی...

"کبھی بھی آؤ میں تمہارا گھر ہے آنے کے لیے نہ وقت دیکھنا کبھی نہ موقع بس اتنا یاد رکھنا تُم اکیلی نہیں ہو تمہارا باپ بھائی زندہ ہے اور تمہاری دو وقت کی روٹی نہ مُجھ پر پہلے بھاری تھی نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی"
امان نے معنی خیز انداز میں کہا...

"جی بھائی"
وُہ اُسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکی....

"آپی اب تو آپ بھائی کی شادی پر لمبا رُکنے آئیے گا بہت مزہ آئیگا "
ایان نے بہت پُر جوش انداز میں کہا....

"ایان بکواس بند کرو"
امان نے اُسے گھرکا...

کُچھ یاد آنے پر طیات بھی بولی....
" بھائی آپ نے کیا جواب دیا نواز انکل کو..."

"اور تُم کیا اِس کی طرح شروع ہوگئی  ہو یہ وقت ہے اِن سب باتوں کا"
وُہ اب اُسے ڈانٹنے لگا...

"پر بھائی میں نے"
"کہہ دیا نہ ابھی کوئی فالتو بات نہیں...ابھی بس تُم اپنی صحت پر توجہ دو"
امان نے بات ختم کی...

"چلو"
راحیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا....

"ہر دفعہ فیصلہ سنائے گا کیا چلے جائے گا اگر "چلو" کو بجائے "چلیں" بول دے نہ قد چھوٹا ہوجائے گا اِسکا"
طیات کو اُس وقت راحیل کا "چلو" کہنا سخت گراں گزرا تھا...

وُہ امان کا سہارا لیتی کھڑی ہوگئی.....
راحیل نے آگے بڑھ کر اُسے تھامنا چاہا...
طیات نے امان کے بازو کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیا راحیل نے اپنے قدم واپس پیچھے کرے....

وُہ امان کا سہارا لیے ہی گاڑی تک آئی....
"اپنا بہت خیال رکھنا گڑیا اور آئندہ کُچھ بھی ہوجائے تم مُجھ سے کُچھ بھی نہیں چھپاؤ گی مگر ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا تُم تو بڑی ہوگئی ہو کافی...."
امان نے اُسے گاڑی میں بیٹھاتے ہوئے کہا...

"بھائی آپ کی گڑیا چاہے جتنی بڑی ہوجائے آپ کے لیے ہمیشہ ویسی ہی رہے گی چھوٹی سی بچی میں کُچھ بھی چھپاتی نہیں ہوں بس کوشش کرتی ہوں میری وجہ سے آپکو کوئی دُکھ یہ تکلیف نہ ہو"
وُہ رسان سے اُسکے سوالوں کے جواب ڈھکے چھپے لفظوں میں دے رہی تھی....

"خیال رکھنا اپنا .... اور یاد رکھنا تمہارا باپ تمہارا بھائی بیٹھا ہوا ہے کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو ایک لمحہ ضائع مت کرنا چلی آنا.."
"جی بھائی"

امان نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور گاڑی کا دروازہ بند کردیا....
"خیال رکھنا میری بہن کا"
وُہ اب راحیل سے بولا...
راحیل نے کوئی جواب نہیں دیا....
گاڑی اسٹارٹ  ہوچکی تھی....

"اللہ حافظ بھائی"
"اللہ حافظ آپی"
ایان بھی بولا.....

جبکہ امان گاڑی نظروں سے اوجھل ہونے تک کھڑا دیکھتا رہا.....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro