قسط نمبر ۲۷
#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۷
"انتہائے ضبط"
وُہ تیزی سے قدم اٹھاتی کلاس روم سے باہر نکل رہی تھی روز کی طرح اُسکا یہی معمول تھا کلاس ختم ہوتے ہی وُہ اِسی طرح فوراً باہر نکلتی تھی کوئی روک نہ لے کوئی کُچھ پوچھ نہ لے کوئی اُسکی آواز نہ سُن لے....
کوئی اُسکی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اور دیکھتا بھی کون جہاں چست کپڑے پہنی لڑکیاں تھی وہاں بھلا کیونکر کوئی اُسے دیکھتا اور یہی اُس کے لیے راہ فرار اور نجات ہوتی تھی....
"اسلام علیکم"
"وعلیکم السلام"
سلام کا جواب اُس نے بغیر دیکھے ہی دیا بے اختیار لبوں سے نکلا....
جب سامنے نظر پڑی تو اُس نے فوراً اپنی نظریں نیچے کی اور دوبارہ تیزی سے چلنے لگی....
"محترمہ مُجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے پلز میری بات سُن لیجئے"
وُہ اُسی رفتار سے اُسکے پیچھے چلنے لگا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وُہ اُس تک آ پہنچا....
"دیکھیے میرا فی الحال میرا olympics میں دوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے برائے مہربانی رُک کر میری بات سُن لیں میں کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں" وُہ ہانپتے ہوئے بولا....
وُہ اپنی رفتار مزید کرنےکی کوشش میں اب تقریباً بھاگنے والے انداز میں چل رہی تھی....
وُہ دونوں یونیورسٹی کے گیٹ تک آگئے تھے....
اُس نے فوراً ہاتھ کے اشارے سے آگے بھاگ کر رکشہ روکا اور بغیر کُچھ بھی طے کیا بیٹھ گئی اور فوراً چلنے کا حُکم دے دیا....
”ارے نام تو سُن لیں اور اپنا نام بھی بتا دیں....” رکشہ اسٹارٹ نہیں ہورہا تھا اُسکی اُلجھن بڑھتی جارہی تھی ....
"ویسے میرا نام حماد ہے حماد ذاکر نام تو سُنا ہی ہوگا"
اُس نے اپنے مخصوص فلمی انداز میں تعارف کروایا....
رکشہ سے ٹیک لگا کر وُہ کھڑا ہوگیا...
نقاب کے پیچھے سے دکھتی واحد اُسکی آنکھیں تھی جن میں نمی اُترنے لگی تھی....
حماد رکشہ سے ہٹ گیا بنا کُچھ کہے پھر اردگرد کے ماحول کا اندازہ ہوا تو اُسے آنکھوں میں نمی اور تیز بھاگنے کی وجہ سمجھ آئی یونیورسٹی کے گیٹ پر کھڑے تقریباً سب ہی لوگ اور گزرتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ عجیب نظروں سے اُن دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے....
"sorry"
ہلکی سی سرگوشی کے ساتھ وُہ مزید 3 قدم پیچھے ہٹا....
اتنے میں رکشہ اسٹارٹ ہونے کی آواز بھرپور شور میں مدھم سی گونجی.... رکشہ آگے بڑھ گیا پیچھے کالا دھواں چھوڑتے ہوئے وُہ وہی کھڑا دور اور دور جاتے رکشے کو دیکھتا رہا نظروں سے اوجھل ہونے تک....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
اُس نے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے برقعے سے ڈھکے وجود پر نظر ڈالی ڈھیلا ڈھالا برقع تھا تھان کی طرح چاروں گرد لپیٹا ہوا تھا
کہی سے بھی جسم کے کسی خدوخال کے نمایاں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر وُہ آج مطمئن نہیں تھی....
"یہ مُجھے چھپانے میں ناکام ہے یہ بیکار ہے یہ میرے جسم کو چھپانے میں کارگر ثابت نہیں ہوا اگر ہوتا تو وُہ مُجھے کبھی نہ روکتا کبھی بھی مُجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کرتا..."
اُس نے نقاب کو کھینچ کر نیچے کیا....
چہرہ زمین کی جانب کیے رہی آنکھوں میں لبا لب پانی بھر آیا جو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلنے کے لیے نبردآزما تھے قطرے اب نیچے سیمنٹ کے فرش پر گر رہے تھے...
"نہیں میں بدکردار نہیں ہوں میں نہیں ہوں بدکردار..."
وُہ روتے ہوئے بولی....
"غیر مرد نے مُجھے بیچ بازار میں روکا ہے میں کیسے بدکردار نہیں میں ایک بدکردار عورت ہوں مُجھے غیر مرد روکتے ہیں"
کوئی گھاؤ پھر سے ہرا ہوا تھا...
" مُجھے محرم کے ہوتے ہوئے بھی اُنکی کی حفاظت میسر نہیں میں چاہ کر بھی وہاں نہیں جاسکتی اونچے اونچے مکانوں میں رہنے سے تکبر آجاتا ہے تکبر آجائے تو اللہ کا ڈر ختم ہوجاتا اللہ کا ڈر ختم ہوجائے تو اِنسان گناہوں کے دلدل میں گہرے سے گہرا گھر جاتا ہے میں ویسے ہی گناہ گار ہوں اور نہیں ہونا چاہتی میں"
وُہ خود اذیتی کی انتہاء پر تھی ....
"میں اقراء آفتاب میرے محرم راحیل آفتاب ابوبکر ریاض یا پھر ابوبکر ...."
مزید وُہ کُچھ نہ سوچ سکی کیونکہ ابوبکر کے نام سے ذہن میں اُبھرنے والی تصویر نے اُسے مزید مضطرب کردیا.....
"ایک با خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر بنا ہوا ہے اور ایک کو تو شاید یاد بھی نہیں ہوگا کہ کوئی کوئی اقراء ہے جس کا اُس سے کوئی رشتہ بھی ہے"
وُہ کرب سے بولی....
ڈرتے ڈرتے چہرہ اوپر کیا آئینے کے سامنے
بلکل صاف تھا آئینہ نہ اُس پر کوئی گرد تھی نہ اُسکے چہرے پر دونوں صاف تھے آئینہ اب اُسے اُسکی خوبصورتی دکھا رہا تھا..جو ہمیشہ سات پردوں میں چھپی رہتی تھی....
اقراء نے دوپٹہ بھی اُتار دیا جوڑے کی شکل میں بندھے ہوئے بال کھل کر شانوں پر پھیل گئے سیاہ ریشمی گھنے کمر سے نیچے تک آتے بال.....
ہیزل رنگ کی خوبصورت آنکھیں صرف وہی ایک حصہ تھا جسم سے جڑا جو برقعے نقاب کے باوجود نمایاں تھے ستواں ناک باریک ہونٹ جنہیں کُچل کر وُہ زخمی کر چُکی تھی....
چہرہ کی رنگت نہ بہت زیادہ صاف تھی نا ہی سانولی وُہ بہت صاف رنگت اور صاف رنگت کے درمیان کا رنگ لیے ہوئے تھی جو اُس پر بہت کھلتا تھا....
متناسب جسم نہ فربا نا بِلکُل ہی ہوا کا جھونکا...
"تمہیں طلاق دیتا ہوں
طلاق دیتا ہوں
طلاق دیتا ہوں"
22 سال پہلے کے یہ الفاظ آج بھی اُسکے کانوں میں گونج رہے تھے....
"تُم ایک بد کردار عورت ہو"
ایک اور آواز گونجی...
"مُجھ سے گناہ ہوا ہے مگر مُجھے معاف کردو میں نے خیانت کی ہے خدارا مُجھے معاف کردو میں خُدا کے بعد سب سے بڑی تمہاری گنہگار ہوں مُجھے معاف کردو مُجھے معاف کردو"
آوازیں دوبارہ زندہ ہو رہی تھی...
لرزتے ہاتھوں کا آخری لمس آج بھی اُسے اپنی گردن پر محسوس ہوتا تھا....
چہرے سے ہوتی نظر گردن پر جا ٹہری جہاں سے باریک سنہری زنجیر جھانک رہی تھی جس کے اختتام پر ایک لفظ "A" معمہ بنا ہوا تھا....
"آہ ابوبکر"
اُس نے گہری سانس لیتے ہوئے افسوس سے کہا.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"انعم مُجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے"
آفتاب نے گاڑی کی طرف بڑھتی انعم سے کہا....
"جو بولیں"
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی آج رُک ہی گئی....
نائلہ کو آنکھ کے اشارے سے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا اور خود ہاتھ سینے پر باندھے اُسکی طرف متوجہ ہوئی...
"اب بولیں بھی....کیا وجہ ہے جو آپ نے اِس طرح مُجھے روکا..."
وُہ کڑے تیوریوں سے اُسے گھورتے ہوئے بولی...
"معذرت چاہتا ہوں آپکو اِس طرح روکا مگر میں آپ سے کُچھ کہنا چاہتا ہوں"
وُہ تھوڑا سے حجل ہوکر بولا...
"تو بولیں نہ اتنا دیر سے کھڑا کرکے رکھا ہے آپ نے بول کُچھ نہیں رہے"
وُہ کُچھ جھنجلا کر بولی....
"میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں"
آفتاب نے بلا آخر بول دیا...
"اوہ اچھا تو پھر"
وُہ اُسکی بات کا جواب میں قدرے اطمینان سے بولی اُسکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آگئی تھی....
جبکہ اتنی بڑی بات کے جواب میں اتنے ٹھنڈے عمل کی آفتاب کو ہرگز توقع نہیں تھی...
"تو یہ کے آپ کو اِس بات سے کوئی اعتراض نہیں"
وُہ قدرے سنبھل کر بولا...
"آپکو کیا لگتا ہے بیچ سڑک میں کھڑے ہوکر آپ کسی بھی لڑکی کو پرپوز کریں گے تو اُس لڑکی کا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے"
وُہ پہلی بار مسکراتے ہوئے بولی...
"غصے میں اُسے سامنے والے کو دو تین لگا دینے چاہئے"
وُہ کُچھ اُلجھا اُلجھا ہوا بولا...
"تو مُجھے لگتا ہے آپکو میرے جواب سے زیادہ اپنے رخساروں کی فِکر ہونی چاہیے یہ باتیں ایسی نہیں کی جاتی"
وُہ معنی خیز بات کہہ کر پلٹ گئی...
وُہ اِسی کشمکش میں تھا وُہ کیا کہہ کر گئی تھی....
بے اختیار اُسکے ہاتھ اپنے گالوں پر گئے....
بات کا مطلب سمجھ آنے پر وُہ اُسکی شخصیت سے مزید متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا....
وُہ ظاہر دیکھ کر مرعوب ہونے والوں میں سے تھا وُہ انعم کا باطن نہیں جانتا تھا...
کیونکہ کسی نے صحیح ہی کہہ ہے ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی...اور انعم صابر تو بِلکُل بھی نہیں....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
کمرے کی دہلیز پر پہنچ کر اُس نے قدم روک لیے....
نظریں دروازے کی طرف اُٹھنے کی دیر تھی اُسکے اندر گویا کسی نے نئی روح پھونک دی ہو وہ غائب دماغی کی انتہا کو پہنچا ایک غلط کمرے کے باہر کھڑا اجنبی کی موت پر زندہ اِنسان کے لیے آنسو بہانے والا وُہ اپنی مثال آپ تھا....
"راحیل"
آواز پر چونک کر اُس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو امان کھڑا تھا...
"کیا ہوا"
امان نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
" طیات کیسی ہے"
وُہ ہر بار کی طرح سامنے والے کی بات سن کر ان سنی کرتا ہوا اپنے مطلب کی بات پوچھنے لگا....
"خون چڑھا رہے ہیں ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کے اب
طیات کی کنڈیشن بہتر ہے"
امان نے اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا....
"ہو"
راحیل نے ہنکارا بھرا....
"تُم مُجھے اب بتاؤ گے آخر ایسا کیا ہوا جو طیات نے خودکشی کرنے کی کوشش کی"
امان کافی ضبط سے بولا اگر موجودہ جگہ کا خیال نہ ہوتا تو امان یقیناً اُسکے گریبان تک پہنچ چکا ہوتا کیونکہ ڈاکٹر سے وُہ طیات کے متعلق پوچھ چُکا تھا....
راحیل آگے بڑھ گیا...
امان بھی اُسکے ساتھ چلنے لگا....
وُہ دونوں طیات کے روم کے باہر آکر کھڑے ہوگئے...
ایان بھی باہر ہی بیٹھ گیا تھا وہ خون دے آیا تھا.....
"تُم مُجھے کیوں نہیں بتا رہے آخر ایسا کیا ہوا جو میری بہن نے اتنا بڑا قدم اٹھایا”
امان مٹھیاں بھینچ کر بولا....
"کیونکہ تمہاری بہن اول درجے کی پاگل ہے"
راحیل نے وُہ کہا جو وُہ طیات کو کہنا چاہتا تھا....
"کیا مطلب؟"
امان ناسمجھی والے انداز میں بولا....
راحیل نے اُسے ساری بات بتا دی مگر مکمل نہیں وُہ کُچھ باتیں سنسر کر گیا جس میں "ابارشن" والی بات بھی تھی....
"يا اللہ"
امان کو شدید دھچکا لگا تھا....
"اتنا کچھ ہوگیا اور گڑیا تُم نے مُجھے کچھ بھی نہیں بتایا 3 دن پہلے ہی تو ہماری بات ہوئی تھی اتنا پرایا کردیا مُجھے"
امان نے دِل میں سوچا....
امان نے راحیل کے کندھے پر تسلی دینے والے انداز میں ہاتھ رکھا....
کیونکہ راحیل نے جو باتیں سنسر کی تھی اُسکی وجہ سے کسی کو بھی طیات اور راحیل دونوں سے ہمدردی ہوتی بچہ کھونے کی....
"پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے"
ڈاکٹر نے آکر اُنہیں خوشخبری سنائی...
"Thank God"
راحیل کے منہ سے بے اختیار نکلا...مگر اُسے اپنی آواز ہی اجنبی لگی کیونکہ وُہ جانے انجانے رب کو یاد کرچکا تھا شکریہ ادا کر چُکا تھا....
"کیا ہم مِل سکتے ہیں آپی سے"
ایان فوراً بولا...
"جی اب آپ مِل سکتے ہیں مگر زیادہ دیر نہیں کیونکہ پیشنٹ کو آرام کی ضرورت ہے"
"جی ڈاکٹر ہم خیال رکھیں گے”
امان بولا...
"تھینک یو سو مچ ڈاکٹر"
راحیل نے پہلی بار اگر کسی کو شکریہ کہا تو وہ انڈس ہاسپٹل کے ایک معمولی سے ڈاکٹر محمد حمید شاہد کو اُس شخص کو پہلا شکریہ حاصل ہوا تھا راحیل کے تشکّر بھرے لہجے میں کُچھ تو ایسا تھا کہ امان رُک کر اسے دیکھنے لگا.....
امان نے ڈاکٹر کے جانے کے بعد ایک نظر راحیل کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ساتھ چلنے کے لیے...
راحیل کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر ایان کے ہمراہ روم میں داخل ہوگیا....
طیات پر پہلی نظر پڑتے ہی امان کو یو محسوس ہوا جیسے اُسکا دِل کسی نے مُٹھی میں قید کرکے زور سے بھینچ دیا ہو....
نقاہت زدہ چہرہ اُسکی رنگت بھی پیلی پڑ چُکی تھی...
آنکھیں کے گرد سیاہ حلقے نجانے کب سے جگہ بنا چُکے تھے آنکھیں مُسلسل چھت پر خلا میں کسی غیر مرئی نقطے پر ٹکی ہوئی تھی...
وُہ نجانے کیا دیکھ رہی تھی خلا میں کونسی نہ نظر آنے والی چیز کو اب وُہ دیکھنے لگی تھی بڑے انہماک سے......
اسے ایان اور امان کے اندر آنے تک کی خبر نہ ہوئی....
"گڑیا"
امان نے محبت بھرے انداز میں اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کرکہا...
نظریں کا رُخ اب اُسکی طرف کی...
آنکھوں میں کرب اُتر آیا آنکھوں کے گوشہ چشم اب بھیگنے لگے تھے...
وُہ بنا بولے بس اُسے دیکھے جارہی تھی آنسو گرنے لگے تھے...
امان مسلسل اُسکے سر میں ہاتھ پھیر رہا تھا وُہ اسے روتے ہوا کبھی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اُسکی کمزوری تھے طیات کے آنسو جس کو وُہ اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا...
"بھائی"
وُہ بھیگی ہوئی آواز میں اُٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی...
امان نے فوراً آگے بڑھ کے اسے تھاما نہ ہوتا تو وُہ دوسری طرف سے گر جاتی...
دُنیا میں سب سے بہترین سہارا وہی تو تھا اُسکا....
"بھائی"
اب کی بار وُہ اُسکے سینے سے لگ گئی....
اُسے آج بھی سب سے زیادہ پُر سکون سب سے زیادہ سکون بخش چھاؤں اپنے بھائی کا وجود ہی لگا جس کی حصار میں آکر وہ دُنیا کی تپش سے بچ پاتی تھی ....
وُہ رورہی تھی پہلے آہستہ پھر تھوڑی تیز آواز دھیرے دھیرے رونے میں تیزی آتی گئی...
"آپی"
ایان سے بھی نہیں دیکھا گیا وُہ طیات کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنی طرف کیا طیات نے اُسکے سینے میں خود کو چھپا لیا اب وُہ بلکنے لگی تھی...
"آپی پلز روئے مت پلز آپی"
ایان اُسکے چہرے پر ہاتھ پھیر کر آنسو صاف کرتے ہوئے بولا...
طیات نے شادی کے بعد سے اتنی چاہت اتنی فکرمندی کہا دیکھی تھی وُہ بھوکی تھی اُسے آج اپنے بھائیوں کی بے لوث محبت سے سیراب ہونے کا موقع ملا تھا وُہ اب امان کے سینے میں خود کو دوبارہ چھپا لیا....
"بھائی میرا بچہ بھائی وُہ نہیں رہا"
وُہ بری طرح رونے لگی...
اپنے جسم کے حصے کو کھونے کا دُکھ اُنکے سامنے نکلا جن کے وجود کا وُہ حصہ تھی....
"طیات بس میرے بچے بس"
امان بھی اسے اپنے ساتھ لگائے روتے ہوئے بولا....
"بھائی میں تو اُسے ٹھیک سے محسوس بھی نہیں کر پائی تھی مُجھ سے دور ہوگیا بہت دور جب اُسے اِس دُنیا میں آنا ہی نہیں تھی تو کیوں کُچھ دنوں کا مہمان بن کر میرے جسم میں آیا مُجھ سے میری ساری ہمت لے گیا میں نے ہر مُشکِل میں ثابت قدم رہنا سیکھا ہے ہمیشہ یہی سوچا ہے کہ اللہ کے ہر کام میں میرے لیے بہتری ہے میرے لیے اچھا سوچا ہوگا مگر آج کیوں مُجھے چین نہیں آرہا بھائی.."
طیات نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہا آنسوؤں نے چہرے کو تر کردیا تھا...
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro