Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۵

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۵
باب نمبر ۷
"انتہائے ضبط"

ضبط برداشت صبر اللہ کے پسندیدہ ترین عمل ہیں اسلام لفظ خود اِس بات کی گواہی دیتا ہے...
سلام کا مصدر "سَلِم" یا "سِلم" ہے جس کا مطلب ہے سر تسلیم خم کردینا، امن و آشتی کی طرف رہنمائی کرنا اور تحفظ اور صلح کو قائم کرنا۔

اسلام تحفظ، بچاؤ اور امن کا مذہب ہے۔
یہی اصول مسلمانوں کی زندگی میں بھی سرایت کرتے ہیں۔
جب مسلمان نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا سے ان کا رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ خدا کے حضور اپنے یقین اور تابعداری کے ساتھ باادب اور ہوشیار کھڑے ہوتے ہیں۔
اپنی نماز ختم کرتے ہوئے جب وہ دنیا مین واپس آرہے ہوتے ہیں تو اپنے دائیں باٸیں والوں کو امن کی دعا دیتے ہیں "
تم پر سلامتی ہو اور رحمت ہو"۔
امن و امان، تحفظ، آشتی اور سکون کی دعاؤں کےساتھ وہ اپنی عام زندگی کی طرف ایک بار پھر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
دوسروں کو امن اور تحفظ کی دعایئں دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا اسلام میں بہت اہم اور کارآمد چیز قرار پائی ہے۔
جب آپ ﷺ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اسلام میں سب سے فائدہ مند کام کون سا ہے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا " دوسروں کو کھلانا، اور انکو سلام کرنا، چاہے آپ انہیں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں"

انسان کیلئے ذاتی سطح پر دکھوں اور غم و غصے کے عجیب و غریب اسباب اور سلسلے موجود ہیں تاہم اپنے اندر قوت برداشت پیداکرنے کیلئے بھی آپکو قوت برداشت ہی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا عدم برداشت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے مسائل و مصائب کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے۔ بے شک عام روز مرہ زندگی میں ذاتی سطح پر آپ کی قوت برداشت کا سب سے بڑا اور کڑا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو نیکی کے جواب میں مد مقابل کی بلاجواز اذیت یا باقاعدہ بدی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر اس سلسلے میں صرف ایک بات یاد رکھی جائے کہ آپ کسی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ آپ کے کھاتے میں جائے گا اور جو مد مقابل کا عمل ہوگا وہ اس کے حساب میں درج ہوگا اور یہی منصف اکمل کا وعدہ بھی ہے۔
کہ دو اشخاص کے اعمال کو ہرگز آپس میں گڈمڈ نہیں کیا جائے گا تو آپ کا بدسلوکی کا دکھ برداشت کرنے کا رنج آدھا رہ جائے گا اس سلسلے میں دوسری بات یہ یاد رکھنے والی ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز، کوئی بھی جذبہ، کوئی بھی احساس بے سود نہیں بنایا گیا سب کی اپنی اپنی جگہ افادیت ہوتی ہے، اپنا اپنا ضرر ہوتا ہے کوئی نہ کوئی رمز پوشیدہ ہوتی ہے یہاں تک کہ کوڑا کرکٹ اور مٹی تک کو بھی کام کی چیزیں گنا جاتا ہے بعینہ بدی بھی معاشرے کا کوڑا کرکٹ سہی لیکن وہ بھی اس کا ناگزیر حصہ ہے اگر بدی نہ ہوتی تو نیکی کے وجود پر کس کو اعتبار آتا؟

اندھیرا نہ ہوتا تو روشنی کو روشنی اور اندھیرے کو اندھیرا کون کہتا بلکہ ہوسکتا تھا لاعلمی کے اندھیرے کی وجہ سے ہم اندھیرے ہی کو روشنی سمجھتے کیونکہ روشنی کے بعد ہی اندھیرے کو اندھیرا اور اندھیرے کی وجہ سے روشنی کو روشنی سمجھا گیا۔

گو کہ یہ صحیح ہے آپ کیلئے بدسلوکی اور برائی کرنے والے کسی بھی شخص سے بدلہ نہ لینا، اس کے ساتھ حساب نہ چکانا اور ایک غائب الوجود ہستی کے حساب کو حاضر ناظر جان کر اپنے اعمال کو اس کے حساب پر چھوڑ دینا بے پناہ مشکل بلکہ ناممکن عمل نظر آتا ہے تاہم صبر و حوصلے کی مسلسل پریکٹس سے آپ ایسا کرسکتے ہیں، آپ بلا تامل اپنی سیدھی راہ پر چلتے جائیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ذاتی فہم کی روشنی کے حوالے سے عطا کردی ہے اور جو اندھیرے آپ کے مد مقابل کو بخشے گئے ہیں ان کو ان میں ٹامک ٹوئیاں مارنے دیں آپ دل کے اندھوں کو سمجھا ہرگز نہیں سکتے مگر خود تو صبرو ضبط اور جبر و حوصلہ کرسکتے ہیں اور یہی حضور پر نور کا اسوہ حسنہ ہے بلکہ ان کی تعلیمات کا پہلا درس یہ قوت برداشت ہے آپ اپنے آئینہ دل کو اس حد تک ستھرا رکھئے کہ زمانے کے دئیے ہوئے صدمات ، دکھ اور اذیتیں اسے گرد آلود نہ کرسکیں کیونکہ دل کی یہی صفائی اور روشنی ہی وہ صفائی اور روشنی ہے جس میں آپ روز قیامت اپنے رب کا دیدار کرسکیں گے اگر آپ کا آئینہ دل اندھا نہ ہے تو آپ اندھے ہیں اور اگر آپ اندھے ہیں تو پھر آپ کو قوت برداشت کے علاوہ بھی دنیا کی کوئی دوسری اچھائی، اچھائی نظر نہیں آئے گی ایسا ہونا یقینا آپ کا ذاتی خسارہ ہے یادرکھیئے آپ کا صبر و تحمل، آپ کا قوت برداشت اور جبر ذات آپ کے لئے ہمیشہ خیر اور اجر کا سبب بنتا ہے ہم سمجھتے ہیں ہر معاشرے میں انتشار و خلفشار کی بنیادی وجہ قوت برداشت کی کمی ہے اگر انسان انہی میں بنیادی خامی بلکہ کمزوری کے خلاف نبر د آزما رہے تو یہ عارفی دنیا رہنے کیلئے ایک پر سکون جگہ بن سکے گی....

ہمیں زندگی میں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چائیے اللہ ہمیں امتحان مشکلیں پریشانیاں کبھی بھی برداشت سے زیادہ نہیں دیتا اور جتنی دیتا ہیں اُسے برداشت کرنے کا ہوصلہ بھی دیتا ہے اکثر ایسے مقام آتے ہیں زندگی میں جب ہمیں لگتا ہے یہ دُکھ پریشانی ہماری ضبط کی حدوں کو توڑ رہی ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا اگر وُہ پریشانی ہم پر آئی ہے تو اتنا جان لیں وُہ برداشت کی جاسکتی بلکل برداشت کی جاسکتی ہے تبھی تو اللہ نے ہمیں اُس آزمائش میں ڈال ہیں.......

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"نیلم وُہ دیکھ وُہ آفتاب ہی ہیں نہ"
انعم نے چند ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے ایک شخص کو دیکھا کر کہا اُسکا پورا چہرہ نہیں دکھ رہا تھا اِس لیے انعم ٹھیک اندازہ نہیں لگا پائی...

"ہاں لگ تو وہی رہا مگر محترم سائڈ پوز دیے بیٹھے ہے ٹھیک سے چہرہ نہیں دکھ رہا"
نیلم بھی گومگو کی کیفیت میں بولی....

وُہ دونوں اِس وقت اسلام آباد کے سب سے پوش ترین علاقے کے اُس وقت کے فائیو اسٹار ہوٹل میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے کے انعم کی نظر کُچھ فاصلے پر محو گفتگو آفتاب پر پڑ گئی...
"اب کیا کرنا ہے؟"
نیلم انعم کو دیکھ کر بولی...

"کیا کرنا ہے مطلب؟؟میں کیا کرونگی پلز یہ مت کہنے کے میں اُسے جاکر ہمارے ساتھ لنچ کرنے کے لیے انوائیٹ کروں"
انعم نے اُسکے سوال کا جواب کُچھ غصے سے دیا...

"اففو...میں نے ایسا کب کہا یار میرے کہنے کا مطلب ہے یہ دیکھنے چھپنے کا سلسلہ کب تک چلے گا اِس سے آگے بھی بڑھو یہ تمہیں اُس رات پارٹی کے بعد سے کوئی چوتھی دفعہ ٹکرایا ہے اور بیچارہ دیکھتا رہتا ہے مگر محترمہ کا مزاج ہی نہیں ملتے...انعم پارٹی کو بھی مہینہ ہوگیا ہے"
نیلم نے اُسے اچھا خاصا لیکچر سُنا ڈالا....

"تمہارے کہنے کا مطلب ہے خود سے پہل کروں؟؟؟
اور اگر تُم ایسا سوچ بھی رہی ہو تو وُہ بھول ہے تمہاری سراسر میں کبھی پہل نہیں کرونگی تُم نے مُجھے کیا کوئی سطحی لڑکی سمجھ رکھا ہے یہ میں کوئی اُس کی محبت میں پاگل ہوئی جارہی ہوں جو جاکر اپنی ویلیو ختم کردوں....
نیلم ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا مردوں کی فطرت ہے عورت مرد سے جتنی دور رہے مرد کے کیے بہت پُر کشش ہوتی ہے خواہ وہ عام ہی کیوں نہ ہو مرد کی وُہ عورت ہمیشہ ایک Task  لگتی ہے وُہ عورت اُسے اُن سب عورتوں سے اچھی لگتی ہے جو اسے (available) میسر ہو بھلے پھر حاصل عورت حور ہی کیوں نہ ہو مرد کے دِل سے بلکل اِس طرح اُترتی ہے جیسے ہاتھوں سے پانی...
پانی زیادہ دیر ہاتھوں پر ٹہرتا نہیں ٹہر ہی نہیں سکتا یہ پانی کی فطرت ہے... اور یہی مردوں کی فطرت ہے وہ یکسوئی سے کوئی کام نہیں کرسکتا خاص طور پر جب معاملہ عورت کا ہو....؟
جس طرح سمندر صرف دکھنے میں اچھا لگتا ہے  جب ہم اُسکے قریب جاتے ہیں نہ تو وُہ پُر کشش سمندر ہی ہمیں عام سا لگنے لگتا ہے  اور ساحل پر کھڑے ہوکر دور سمندر میں تیرتی کشتیاں ہمیں Attract کرنا شروع کردیتی ہیں پتہ ہے کیوں؟؟
کیونکہ وُہ ہماری پہنچ سے دور ہوتی ہے"
انعم نے اچھا خاصا فلسفہ جھاڑا....

"انعم اُسکے ساتھی دوست چلے گئے"
نیلم نے مزید کُچھ سننے سے بچنے کے لیے اُسکی توجہ واپس آفتاب کی جانب مبذول کروائی......

"ہاں تو جانے دوں...."I just don't care"....
اُس نے لاپرواہی سے شانے اچکائے.

"کیسی ہو تُم ایک طرف تمہیں ایرج کا چیلنج بھی پورا کرنا ہی پھر اوپر سے تمہارے نخرے..
میرے خیال میں تمہیں وُہ چیلنج اکسیپٹ کرنا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ تُم پورا نہیں کرسکتی”
نیلم نے اُسکا مذاق اُڑایا...

"میں جیسی بھی ہوں اُس اریج کی طرح بِلکُل نہیں کے پیچھے پڑ جاؤ کسی کے میں کسی کے پیچھے نہیں جاتی لوگ خود انعم صابر کے پیچھے پیچھے آتے ہیں اور یہی میں تمہیں کرکے دکھاؤ گی...."
وُہ اترا کر بولی...

"ارے یہ تو ہماری طرف ہی آرہا ہے"
نیلم نے آفتاب کے قدم اُنکی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا...

"تو آنے دے اِس میں اتنا ایکسائٹڈ  ہونے والی کیا بات ہے"
انعم کی لاپرواہی عروج پر تھی...

"ہیلو بیوٹیفل لیڈیز"
آفتاب نے اُنکی ٹیبل کے پاس رُک کے  ہاتھ جیبوں میں ڈالے کُچھ اکڑ کر اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا....

"hi..How are you?"
نیلم نے انتہائی خوش دلی سے بے اختیار کہا...
انعم نے ٹیبل کے نیچے سے اُس کے پاؤں پر اپنا پاؤں مارا....
"آہ..."
نیلم کی کراه نکلی...

”hi"
انعم نے بہت روکھا سا جواب دیا...

"I think I disturb both of you"
انعم کے انداز پر وُہ کُچھ شرمندہ ہوکر بولا....

"No...it's..."
انعم نے نیلم کو دوبارہ خوراک دو جِس سے اُسکی بات ادھوری رہ گئی...

"Not at all"
اب کی بار انعم نورمل انداز میں بولی...
”چلو نیلم لیٹس گو”
وُہ اب اُٹھ کر جانے لگی....

"تُم بار بار میرا پیر کیوں شہید کرنے پر تُلی ہوئی تھی"
کار میں بیٹھ کر نیلم اپنا پیر سہلاتے ہوئے بولی...

"کیونکہ تمہاری چونچ نہ بغیر خوراک کے بند نہیں ہوتی”
انعم غصے سے بولی....

"میں نے کیا کیا"
وُہ معصومیت سے بولی....

"واری جاؤ اِس معصومیت پے....نہیں تُم نے کہاں کُچھ کیا میں ہی صدقے واری جارہی تھی بچھی جارہی تھی اُس کے سامنے"
انعم کُچھ زور سے بولی...

"ہاں تو کیا ہر بندہ تمہاری طرح بے مروت ہوجائے خود چل کر آیا تھا جواب بھی نہ دیتی کیا"
نیلم نے اپنی طرف سے ایک مضبوط وجہ اُسے دی...

"ہاں ہاں جیسے مُجھے تو پتا ہی نہیں کچھ"
انعم نے اُسکی وجہ کو انتہائی آرام سے واپس لوٹائی...

"اچھا یہ سب چھوڑ گھر چلتے ہیں"
انعم نے بات ختم کی....

"ہنہ..."
نیلم نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا.....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"آفتاب"
ایاز نے کمرے کی طرف بڑھتے آفتاب کو روکا...

"تُم یہاں کیا کر رہے ہوں؟"
آفتاب کا کُچھ دیر پہلے کا خوشگوار موڈ یکدم بدلا...

"کیا کر رہے ہو سے مطلب تُم شاید بھول رہے ہو یہ میرا بھی گھر ہے"
ایاز اب اُسکے سامنے آ کھڑا ہوا...

"یہ میرا گھر ہے تمہارا نہیں"
وُہ کُچھ زور سے بولا....
"تمہارے کہنے سے کیا ہوتا ہے میرے دوست رہے گے تو ہم... آگے تو تُو جانتا ہے"
ایاز مسکراتے ہوئے بولا...

"دفع ہوجا"
آفتاب آگے بڑھ گیا...

"ابے یار اب تو معاف کردے نہ اچھا چل سوری"
ایاز نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا...

"بھول جا بیٹا... میرے لیے اتنا بڑا دن تھا اور موصوف پارٹی میں ہی نہیں آئے"
وُہ خفگی سے بولا...

"یار پاپا کی وجہ چیاگو جانا پڑ گیا ورنہ  تُو خود بتا میں مس کرسکتا تھا کیا؟"
وُہ بیڈ پر گرنے والے انداز میں لیٹا....

"دیکھ آتے ہی کمرے کا حشر کرنا شروع کردیا تو نے"
آفتاب نے افسوس بھری نگاہ سے اپنے شکن آلود بستر کو دیکھا جبکہ ایاز اب تکیوں کو اٹھا کر ایک ہاتھ کے نیچے اور ایک سر کے نیچے رکھ رہا تھا.....

"یار تُجھے دیکھ کر کون کہے گا کہ تُو ایک بہت بڑا سیاست دان ہے جبکہ در حقیقیت تو ایک سلیقہ مند عورت ہے جسے ذرا بھی گندگی پسند نہیں...تُجھے سیاست دان کے بجائے صاف صفائی کے کسی ادارے میں ہونا چاہیے تھا"
ایاز نے ہنستے ہوئے کہا...

"یہ بتا سب سے مل کر آیا آنٹی وغیرہ سے دو سال بعد تو گیا تھا سب بہت خوش ہونگے"
آفتاب نے بڑے اشتیاق سے پوچھا...

"ہاں سب خوش تھے"
ایاز نے نورمل انداز میں کہا...
مگر وُہ جانتا تھا آفتاب کے اتنے شوق سے پوچھے جانے والے سوال کے پیچھے چھپی محرومی کو .....

"اچھا تُجھے ایک بات بتانی ہے"
آفتاب نے بھی جان کر موضوع بدلا...
"ہاں تو بتا نہ" ایاز نے کروٹ لیتے ہوئے کہا...

  مُجھے ایک لڑکی پسند آئی ہے"
آفتاب نے  بغیر کوئی لمبی تمہید باندھے کہا...

ایاز کو 440 والٹ کا جھٹکا لگا وہ اپنی جگہ سے فوراً اُٹھ بیٹھا...

"کیا کہا تُو نے"
ایاز کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا...

"میں اپنی بات دوہراتا نہیں"
آفتاب نے بھی اُسکی  حیرانگی کو نوٹ کرتے ہوئے شوخی سے کہا اور جگ سے گلاس میں پانی ڈالنے لگا...

"ابے اِس کو رکھ مُجھے  بتا یہ حادثہ کب ہوا"
وُہ اُسکے ہاتھ سے گلاس لے کر رکھتے ہوئے بولا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا.....

"پارٹی والی رات کو "
آفتاب نے اطمینان سے جواب دیا...
جبکہ ایاز کو چین نہ آرہا تھا...

"کون ہے؟ کہاں سے ہے؟ مطلب کیسی ہے؟
ایاز نے ایک ہی سانس میں بہت سارے سوال کر ڈالے...

"تھم جا بھائی سب بتاتا ہوں "
آفتاب اب اُسے اپنی اور انعم کی متعلق بتانے لگا...

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
" یہ کیا کیا تُم نے پاگل ہوگئی ہو تم"
راحیل نے اُسکی کلائی کو زور سے پکڑا جہاں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا....
"تُم مرجاؤ راحیل"
وُہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی تھی  اُسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چها گیا....
"طیات طیات"
وُہ اُسکا سر اپنے گھٹنے پر رکھ کر چہرہ تھپتھپانے لگا...

طیات کو  آخری احساس کسی مضبوط ہاتھوں میں ہونے اور تیز چلنے کا ہوا....
پھر وُہ مُکمل ہوش کھو بیٹھی....

وُہ تیزی سے پورچ میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھا...
طیات کو برابر سیٹ پر بٹھا کر ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرنے لگا دوسرے ہاتھ سے اب بھی مضبوطی سے اُسکی کلائی کو جکڑ رکھا تھا...

"میں تمہیں کُچھ نہیں ہونے دونگا"
راحیل نے پورے راستے بس خود کو یہی باور کرایا تھا.... وُہ یہی ایک جملہ دہرا رہا تھا کوئی اُسے دیکھتا تو پاگل سمجھتا ، خود سے باتیں کرنے والا پاگل اِنسان...
ہاسپٹل کی حدود میں گاڑی  داخل ہوتے اس نے طویل ڈراٸیو وے کے  بیچ میں ہی گاڑی روک دی اور اُسے بانہوں میں اٹھائے ہوۓ دیوانہ وار اندر کی طرف بھاگا...
"ڈاکٹر ... ڈاکٹر"
وُہ چلانے لگا...
دو کمپاؤنڈر پھرتی سے اسٹریچر کھینچ لائے.راحیل نے اُسے اسٹریچر پر لٹا دیا.
اتنے میں ڈاکٹر بھی آگیا...
"سوسائسڈ کرنے کی کوشش کی ہے کیا؟" ڈاکٹر کے بے تکے سوال پر راحیل کو شدید غصّہ آیا.
"منہ مت چلا ہاتھ چلا مُجھے میری بیوی ٹھیک چاہئے سمجھا ورنہ تیرے لیے اچھا نہیں ہوگا"وُہ ڈاکٹر کا گریباں پکڑ ہذیانی انداز میں بولا.
"ایمرجنسی میں لے کر جاؤ اِنہیں جلدی"
ڈاکٹر نے وارڈ بواۓ کو ہدایت دی تو راحیل نے اسکا گریبان چھوڑ دیا....
ڈاکٹر ،طیات کو لے کر تیزی سے ایمرجنسی کی طرف جانے لگا راحیل وہی کھڑا رہ گیا.
اضطرابی کیفیت میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا....
اندر بیقراری بڑھ چکی تھی ہاسپٹل کے کوریڈور میں کھڑا وُہ اپنی اصل شخصیت لیے ہوا تھا آئینے کی طرح صاف، جس کی
آنکھوں سے اسکے دل تک جھانکا کا سکتا تھا۔ وہ راحیل جسے طیات دیکھنا چاہتی تھی مگر
آج وُہ ہی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔
اُس حالت میں راحیل کو دیکھ کر پہلی نظر میں کسی کو بھی یہی گمان ہوتا کہ وہ ایک محبت کرنے والا شوہر ہے جو اپنی بیوی کی تکلیف پر مضطرب ہے۔ لیکن در حقیقت ایسا نہیں تھا راحیل کے اندر کیا تھا وُہ جانتا تھا  اُسکے اندر کیا جذبات تھے اپنی بیوی کے لیے۔۔۔
اُسے طیات صرف اپنے ساتھ چاہیے تھی اُسے طیات کی فکر تھی اُسے طیات کے دور جانے کے خیال سے ڈر لگتا تھا "مگر محبت" کیا اُسے طیات سے محبت بھی تھی؟م تھی یا نہیں،
ہے یا نہیں، ہوگی یا نہیں....
اندر کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں ہلچل ہو چُکی تھی مگر محبت کیا یہ محبت کی شروعات تھی ہاں یا ناں بہتر وُہ ہی جانتا تھا اور وُہ اپنے جزبات کو چھپانے میں کمال کی مہارت رکھتا تھا....
"آپ کا بلڈ گروپ او نیگٹو ہے؟“ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آکر پوچھا...
"نہیں میرا بلڈ گروپ بی پوزیٹو ہے" راحیل نے فوراً جواب دیا....
"پیشنٹ کے کوئی First degree relatives موجود ہے یہاں۔“
"میرا خون لے لو مگر اُسے کُچھ نہیں ہونا چاہیے"
راحیل ڈاکٹر کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا....
"دیکھیے آپکا بلڈ گروپ اُنکے بلڈ گروپ سے میچ نہیں کرتا آپ پلز پیشنٹ کے بھائی بہن يا ماں باپ میں سے کسی کو بلواٸیں، اُو نیگیٹیو بلڈ بہت نایاب بلڈ گروپ ہے ہم نے بلڈ بینکس سے کانٹیکٹ کیا ہے مگر وہاں بھی نہیں ہے  ہمارے پاس ابھی یہ بلڈ گروپ اویلیبل نہیں ہے اور پیشنٹ کی حالت بگڑتی جارہی ہے پلز آپ کسی ایسے شخص کو بلائیں جن کا پیشنٹ کے ساتھ خونی رشتہ ہو۔“ ڈاکٹر نے اپنے مخصوص پروفیشنل انداز میں کہا۔
"ڈاکٹر پیشنٹ کی حالت مزید بگڑتی جارہی ہے" تبھی نرس نے باہر آکر بتایا...
"پلز آپ کریں جو میں نے کہا ہے آپ کو.." یہ کہہ کر وُہ دوبارہ ایمرجنسی روم کی طرف بڑھ گئے...
راحیل لمحہ ضائع کیے بغیر اب امان کو کال ملانے لگا تھا۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

رنگ ٹون بجنے کی آواز پر اُس نے اپنی آنکھیں کھولی  لیٹے لیٹے ہی اُس نے سائڈ ٹیبل پر بج رہے موبائل کو اٹھایا اور اسکرین آنکھوں کے سامنے کی مندی مندی آنکھوں سے امان نے دیکھا نمبر شناسا نہیں تھا....
بج بج کر بند ہوگیا...
امان نے موبائل دوبارہ سائڈ پے رکھا اور کروٹ لے لی...
کُچھ ہی لمحوں بعد موبائل دوبارہ بجنے لگا...
امان اب مُکمل طور پر اُٹھ کر بیٹھ گیا اور کال ریسیو کرکے کان سے لگا  لیا..
"جی کون"
دوسری طرف سے راحیل کی کُچھ گھبرائی ہوئی آواز اُبھری....
"میں راحیل بول رہا ہوں ابھی کُچھ بھی مت پوچھنا میں تمہیں سب بتاؤ گا بس ہاسپٹل آجاؤ"
راحیل لفظ پر امان کی رہی سہی نیند بھی بھک سے اُڑ گئی....
"ہاسپٹل مگر کیا ہوا ہے طیات تو ٹھیک ہے نا"
امان کا دھیان فوراً اُسکی طرف گیا....
”طیات اور تمہارا بلڈ گروپ سیم ہے کیا؟"
راحیل نے اُسکی بات کو نظر انداز کیا....
"ہوا کیا ہے میری بہن کو کُچھ تو بتاؤ"
امان نے دراز سے گاڑی کی چابی نکالی....
"تُم اتنا بتاؤ تمہارا اور طیات کا بلڈ گروپ سیم ہے"
راحیل مسلسل ایک ہی سوال پوچھ رہا تھا....

"نہیں....ایان اور طیات کا بلڈ گروپ سیم ہے"
"تو اُسے فوراً لے کر آؤ بس تمہیں اتنا بتا سکتا  ہوں طیات کی جان خطرے میں ہے تُم جلد از جلد انڈس ہاسپٹل پہنچو..."
کہہ کر راحیل نے رابطہ منقطع کردیا....

امان نے فوراً ایان کو لیا اور گاڑی فل اسپیڈ میں سڑک پر دوڑا دی.....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

وُہ سیڑھیوں سے اوپر چڑھتا وہی پر رُک گیا قدم اب ہلنے سے بلکل انکاری تھے اوپر سے آتی آواز نے اسے سحر میں نہیں جکڑا تھا بلکہ کسی نے اُسکے دِل کو مُٹھی میں قید کیا تھا یہ آواز تو وُہ کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان سکتا تھا اِس آواز کے بارے میں وُہ کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا تھا یہ آواز تو اُسکی سماعتوں میں ہر وقت گونجتی تھی یہی وُہ آواز جو ذرا سے اونچی ہوکر اُسکی زندگی کا رُخ موڑ چُکی تھی....
وُہ واپس سیڑھیوں پر اُلٹے قدم  اُترنے لگا تھا...
آواز اُسکا پیچھا کیے جارہی تھی وہ مدھم سے آواز اب یکدم اُسے پورے گھر میں آتی اپنے ارد گرد ہی محسوس ہونے لگی تھی....

"خاموشی ایسے میں بنتی ہے پھر اظہار کا ذریعہ نگاہوں ہی نگاہوں میں ہزاروں باتیں ہوتی ہیں اِنہیں رنگینیوں میں پھر کچھ ایسے موڑ آتے ہیں محبت کا حسیں موسم اچانک رنگ بدلتا ہے دلوں میں میل آتاہے
تعلق ٹوٹ جاتاہےتعلق ٹوٹ جانے سےکسی کے روٹھ جانے سےمحبت چھوٹ جانے سےکوئی دل ٹوٹ جانے سے مجھے معلوم ہےجاناں!
کسی کے ذکر سے پلکیں اچانک بھیگ جاتی ہیں
کسی قلبِ حزیں میں پھر اچانک درد کی
اک ٹیس اٹھتی ہےکسی کا قلب بن آواز روتا ہے
کوئی پھر ماہیٔ بے آب کی صورت تڑپتا ہے ، سسکتا ہے ،بلکتا ہے"
اُسکا دِل دوبارہ سسک اُٹھا اُسکا وجود تڑپنے لگا تھا.... "محبت کا حسین موسم اچانک رنگ بدلتا ہے" اُسکی کانوں میں یہی آواز گونجنے لگی تھی مگر آواز کی نوعیت الگ تھی.....
" پہلی ثور پھونکی جا چکی ہے راحیل  بے چینی تمہارے وجود میں سرائیت کر چُکی ہے ۔
تُم کانپ رہے ہو ابھی سے ابھی تو دو ثور باقی ہے تُم تو ابھی سے مرنے لگے ہو انتظار کرو اگلے  عذابوں کا سوچو تب کیا حال ہوگا تمہارا ...ابھی تو بس شروعات ہوئی ہے....

تمہارے وجود...
تمہاری انا....
تمہارے وقار....
تمہاری خود سری...
تمہارے گھمنڈ غرور ....
تمہارے گناہوں....
تمہارے ظلموں...
  کے اختتام کی بس شروعات ہوئی ہے تمہیں بھی تو پتہ چلے کے اورو پر کیا گزرتی ہے"
تکلیف درد اذیت سے بھری آواز اُسے اپنی رگوں میں دوبارہ اُترتی محسوس ہونے لگی  3 سال پہلے کی رات کا منظر اُسکی زندگی کی "بھیانک ترین رات" کا منظر پھر سے آنکھوں کے سامنے زندہ ہوگیا تھا....
شیریں آواز ابھی بھی آرہی تھی آواز میں چھپے کرب کو وُہ محسوس کرسکتا تھا... 
"کبھی یہ سسکیاں ، آہوں کی صورت دھار لیتی ہیں کبھی بن موسمی برسات ہوتی ہے
کبھی راتوں کی تنہائی ڈراتی ہےفراق کےدن
گرچہ کرب آمیز ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
ہر اک گھاؤ با لآخر بھر ہی جاتا ہےسنا ہے وقت مرہم ہےسبھی غم بھول جاتے ہیں"
الفاظ زندگی کی حقیقت تھے اُسکی مکمل زندگی کی ترجمانی کر رہے تھے....
وُہ مردہ قدموں سے نیچے اُتر گیا....
"پاپا"
مانوس آواز پر اُس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ  آگئی تھی.....
وُہ اب اُسکی طرف بڑھنے لگا.....

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro