قسط نمبر ۲۳
#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۳
"مامتا"
"مما مما"
ہم پاپا کے پاس واپس کب جائے گے...
3 سال کا معصوم بچہ اُسکی گود میں بیٹھ کر بولا....
وُہ چُپ چاپ بیٹھی رہی...
"مما بتائیے نہ؟"
وُہ دوبارہ بولا...
"کبھی نہیں شاید"
کھوئے کھوئے انداز میں اُس نے کہا...
"مما....آپ پاپا سے ناراض ہو"
اُس نے معصومیت سے پوچھا...
جبکہ وُہ اُسکے اتنی کم عُمر میں بِلکُل صحیح اندازہ لگانے پر لمحے بھر کو حیران رہ گئی...
"آپکو کیسے پتا مما ناراض ہے پاپا سے"
وُہ پیار سے اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی...
" نانو کے گھر آئے اتنے دن ہوگئے ہیں نہ پاپا آئے نا بھائی اور آپی کو بھیجا"
وُہ اب منہ پھولا کر بولا...
"بھائی اور آپی بھی آجائے گے"
وُہ اُسے بہلانے کی خاطر بولی جبکہ حقیقت کیا تھا یہ صرف وُہ ہی جانتی تھی...
"آجاؤ میرے بچے میرے پاس سوجاؤ"
وُہ اُسکا سر تکیے پر رکھتے ہوئے خود بھی اُس کے ساتھ لیٹ گئی....
کُچھ دیر بعد ہی وُہ سوگیا...
وُہ اب چھت کو تکنے لگی...
کانوں میں ہلکی سی آواز آئی اذان کی غالبًِا مسجد کُچھ دور تھی یہ شاید وُہ آج پہلی بار محسوس کررہی تھی کے کانچ کے خوبصورت محل کی اونچی دیواروں کو مزید خوبصورت اور محفوظ بنانے کی وجہ سے وُہ اپنے رب سے دور ہوچُکی تھی کمرے میں ہر طرف ساؤنڈ پروف شیشے لگے تھے مگر آج اذان کی آواز اُنکی چیرتی سیدھا دِل میں اُترتی محسوس ہونے لگی....
"بے شک نماز ہی بہترین ساتھی ہے،دُنیا سے قبر تک،قبر سے حشر تک اور حشر سے جنت تک"
وُہ زیرِ لب بڑبڑائی...
اُٹھ کر پاؤں چپلوں میں ڈال کر باتھروم کی طرف چل دی....
✡✡✡✡✡✡✡
فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے ایک بہت بڑی سے گاڑی آکر رُکی پیچھے پیچھے دو تین اور گاڑیاں بھی آکر رُکی...
ایک گاڑی میں سے سیکورٹی یونیفارم پہنے سات لوگ اُتر کر اُس عالیشان گاڑی کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے ایک نے گاڑی کا دروازہ کھولا اُس میں سے بھی تین سیکورٹی گارڈز نکلے حصار مزید تنگ کردیا گیا گاڑی کے گرد...
گاڑی سے اب ایک انتہائی سحر انگیز پرسنالٹی کا مالک شاندار مرد باہر نکلا سارے سیکورٹی گارڈز اب ایک گولہ بنا کر اُسے ہوٹل کے اندر لے جانے لگے...
اُس وقت الیکٹرونک میڈیا اتنی عام نہیں ہوئی تھی مگر صحافت عروج پر تھی اخباروں والے اور ایک سرکاری چینل پی ٹی وی کے چند نیوز رپورٹر اِس ایونٹ کو کور کرنے کے لیے موجود تھے ....
آفتاب سلمان ایک سیاست دان تھے آج اُنہیں کسی حلقے کی صدارت کے اختیارات حاصل ہوئے تھے اسی خوشی میں اُنہوں نے یہ پارٹی دی تھی پیسے کی ریل پیل شروع سے ہی تھی
یہ یوں کہے رشوت کے پیسوں بلیک منی ویسے بھی پاکستان کی سیاست حرام حلال کا فرق تو ازل سے ہی نہیں جانتی جس جس نے بھی ملک پر حکمرانی کی بس اپنے گھر دولتوں کے انبار کھڑے کیے اور عالیشان عمارتیں تعمیر کی اُن پیسوں سے جو عوام پر خرچ کرنے کے لیے تھے دُنیا میں عیش و عشرت کا سامان کرنے کی تگ ودو میں جہنم کی آگ کا ایندھن بناتے رہے...
دور حاضر ہو یا ماضی سیاست کسی نے بھی جمہوریت کے اصل مطلب کو فالو نہیں کیا...
" عام طور سے جمہوریت کی ڈیفینیشن کُچھ یوں ہے...
" Democracy is a government, of the people, by the people, for the people"
حکمرانوں نے اِس مطلب کو کہی گم ہی کردیا ہے اُنہیں تو خود بھی نہیں پتا ہوگا کہ جمہوریت کا اصل مطلب کیا ہے وُہ تو اِس بات کا فالو کر رہے ہیں
" Democracy is a government, of the leaders, by the leaders, for the leaders"
اِسی پر عمل کرتے ہوئے بس خود کو اور اپنی ذات سے جُڑے لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور عوام کو پستی میں دھکیلے جارہے ہیں....
آفتاب سلمان گارڈز کی نگرانی میں ہوٹل میں داخل ہوگئے اور باقی ساتھی دوستوں سے محو گفتگو ہوگئے....
"نیلم بس ٹھیک دو منٹ بعد ہم اندر جائیں گے بلکہ تُم یہی کار میں بیٹھو میں جاکر آتی ہوں بس ۵ منٹ میں"
انعم نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا....
"ایک دو منٹ سے کیا فرق پڑتا ہے ابھی چلی جاؤ"
نیلم جھنجلا کر بولی....
"بہت فرق پڑتا ہے میری جان"
وُہ ایک ادا سے بولی....
"اچھا اب میں جارہی ہوں اور تُم باہر تیار رہنا میں ٹھیک پانچ منٹ بعد باہر آؤگی"
کہہ کر وُہ گاڑی سے نکل گئی...
"ہیلو کہاں جانا ہے آپکو"
گارڈز نے اُسے روکتے ہوئے پوچھا...
"انعم صابر کو روکو گے اب تُم "وُہ دا ہیل آر یو"
وُہ کچھ چیخ کر بولی...
گارڈ اُسکی آواز سے زیادہ انعم صابر بولے جانے پر گڑبڑایا....
"سوری میم"
"اب ہٹو آگے سے"
وُہ اُسے پیچھے دھکا دے کر اندر چلی گئی...
اِس طرح کی پارٹیز اُس کے لیے نئی بِلکُل بھی نہیں تھی وُہ اکثر آتی جاتی رہتی تھی مگر آج یہاں آنے کا مقصد الگ تھا...
اُسکی نظروں نے مطلوبہ شخص کو تلاش کرنا شروع کردیا اُسے آفتاب سلمان کو پہچاننے میں ذرا بھی مُشکِل نہیں ہوئی وُہ اُسکی تصویرں اکثر اخباروں میں دیکھتی رہی تھی مگر آج حقیقت میں اسے سامنے کھڑا دیکھ کر لمحے بھر کو وُہ بھی دم بخود رہ گئی...
چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا احساس اُسے کُچھ یو ہوا
"مغرور ریزروڈ اور بے حد وجیہہ"
وُہ جان کر اب اُسکے سامنے سے گزری تھی...
آفتاب سلمان نے بھی اُسی لمحے سامنے کھڑی اُس لڑکی کو دیکھا...
بڑی بڑی ہیزل کلر کی خوبصورت آنکھیں سنہری رنگت کرل بال جو کمر سے کچھ نیچےکو آتے تھے سلیو لیس شرٹ اور ٹخنوں سے بھی اوپر آتا تنگ ٹراؤزر دوپٹہ سے ندراد گلہ بلا شبہ پہلی نظر میں ہی وُہ لڑکی آفتاب کو بہت اچھی لگی..
کیونکہ وُہ اپنی خوبصورتی سب کو دکھا رہی تھی...
وُہ بھی اپنے قول کی پکی ٹھیک پانچ منٹ ہوتے ہی وُہ باہر کی طرف چل دی...
غیر ارادی طور پر خود بخود آفتاب کے قدم اُسکی طرف اٹھیں.
مگر وُہ جا چکی تھی...
آفتاب نے اپنے قدم واپس کھینچ لیے...
"تُم بڑی پکی ہو پانچ منٹ بولا تو پانچ منٹ میں ہی واپس آگئی"
نیلم نے اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر کہا...
"یار کُچھ دیر رُک جاتی وُہ بندہ کُچھ بات ہی کرلیتا تُم سے"
"رُکنا ہی تو نہیں تھا رُک کر اپنی اہمیت تھوڑی کھو نی تھی مردوں کو کبھی بھی آسانی سے ملنے والی چیزیں پھنسا نہیں سکتی اور اُس ایرج کے چیلنج کو پورا میں کرکے دکھاؤ گی اِس آفتاب سلمان کو اپنی محبت میں دیوانہ کردوں گی....
میں چاہتی ہو وُہ خود مُجھے ڈھونڈے میں کیوں رکو اُس کے لیے"
انعم گھمنڈ کے عروج پر تھی...
"یو بچ"
نیلم قہقہہ لگاتے ہوئے بولی...
"يس آئی ایم"
انعم نے پورے وثوق سے اُسکی طنزیہ تعریف کو وصول کیا....
✡✡✡✡✡✡✡✡✡✡
"ایان سنائی نہیں دے رہا کب سے دروازہ بج رہا ہے"
امان نے ایان کو دیکھ کر کہا...
اُسکے کانوں میں لگے ہینڈ فری کو دیکھ کر امان کو شدید غصّہ آگیا...
دروازے پر پھر دستک ہوئی...
اُس نے ابھی کُچھ بھی بولنے سے خود کو باز رکھا اور اُسکے کانوں سے ہینڈ فری کھینچ کر دروازہ کھولنے چلا گیا..
ایان کو پھر اپنی حماقت کا احساس ہوا...
امان نے دروازہ کھولا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے حیرانگی کا شدید جھٹکا لگا...
"نواز صاحب آپ یہاں؟"
امان کو کُچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولے....
"مُجھے آپ سے کُچھ بات کرنی ہے کیا میں اندر آسکتا ہوں"
نواز صاحب نے کُچھ جھکتے ہوئے پوچھا...
ایک دل کیا کہ منع کردے مگر وُہ بدتمیز نہیں تھا گھر آئے اِنسان کے ساتھ بدسلوکی کرتا...
اُس نے ہٹ کے رستہ دیا...
نواز صاحب اندر داخل ہوگئے....
وُہ اُنہیں لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا...
ایان نے بھی اُنہیں اندر آتے دیکھ لیا ناسمجھی والے انداز میں اُس نے امان کو طرف دیکھا تو اُس نے بھی شانے اُچکائے...
ایان پانی لے کر اندر آیا....
"جی نواز صاحب آپکو کیا بات کرنی ہے"
امان رسان سے بولا....
نواز صاحب نے ایک گہری سانس لے کر خود کو بولنے کے لیے تیار کیا پانی کا گلاس واپس ٹرے میں رکھ کر امان کی طرف متوجہ ہوئے...
"سب سے پہلے میں آپ سے اُس دن طیات اور ایان کے ساتھ کیے گئے سلوک پر معزرت چاہتا ہوں"
ٹہر ٹہر کر نرمی سے وُہ بولے لہجہ حقیقی ندامت لیے ہوئے تھا...
"جی ہم تو وہ بات بھول بھی چُکے ہیں آپ بڑے ہیں آپکی باتوں کا بُرا مان کر ناراضگی تھوڑی رکھیں گے"
امان نے تسلی بخش انداز میں کہا....
"میں آج اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنے آیا ہوں"
جھجک شرمندگی اب بھی تھی...
"کس بارے میں؟"
امان نے پوچھا...
جو بات نواز صاحب بولنے آئے تھے وُہ اُنکے لیے دُنیا کا سب سے مُشکل کام تھا آواز حلق میں ہی اٹکنے لگی...
"اُس دن طیات آپکا رشتہ لے کر آئی تھی نمرہ کے لیے"
نواز صاحب بولتے بولتے رُکے...
"جی آئے تھے"
امان نے مزید بولنے میں ہمت دی...
"مُجھے یہ رشتہ منظور ہے اگر آپ ابھی بھی چاہتے ہیں یہ رشتہ جوڑنا"
اُنہیں اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی سنائی دی بلکل مدھم...
ایک لڑکی کا باپ ہوکر خود سے یہ بات کرنا اُن کے لیے آسان نہیں تھا...
اُسے خوشی ہوئی تھی غصّہ آیا تھا یہ افسوس امان سمجھ نہیں سکا اِسی وجہ سے اُس نے فوراً کوئی جواب نہیں دیا...
نواز صاحب پُر امید نظروں سے اُسے دیکھنے لگے...
"میں جانتا ہوں آپ کیا سوچ رہے ہیں مگر..."
نواز صاحب نے خود سے صفائی پیش کرنی چاہی...
مگر امان نے نرمی سے اُنکی بات بیچ میں کاٹی...
"نواز صاحب جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا نہیں ہے بلکلُ بھی بس مُجھے آپ کُچھ وقت دیں میں آپکو ایک دو دن جواب دونگا”
سب اتنی جلدی ہورہا تھا امان کے لیے یقین کرنا کافی مُشکِل تھا...
"بلکل آپ سوچنے کا وقت لیجئے"
نواز صاحب نے اپنی جھینپ چھپانے کی خاطر امان کی دکھائی گئی مدھم سی رضامندی پر اکتفا کرکے بخوشی اجازت دی...
"شکریہ"
امان نے خود کو کہتے سُنا......
پھر کُچھ دیر باتیں کرنے کے بعد نواز صاحب ایک اُمید لیے واپس گھر آگئے...
امان نے طیات سے بات کرنے کے لیے موبائل پے اُس نمبر پر کال ملائی جس سے طیات بات کرتی تھی....
✡✡✡✡✡✡✡✡✡
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro