Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۱

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۱
باب نمبر ۶
"مامتا"

کتنا عجیب لفظ ہے یہ بھی جب ہونٹوں سے ادا ہوتا ہے تو کسی جانی پہچانی شفقت کے احساس سے تن بدن میں ٹھنڈک بھر دیتا سنا ہے مسیحا کے لمس سے مردے زندہ ہوجاتے تھے لیکن ماں کے پیار بھرے لمس سے روح تک سرشار ہو جاتی ہے...
"مامتا"
یہاں آکر قلم رک جاتا ہے الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ساتھ نہیں چھوڑتے اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں...
کیا کہوں کیسے کہوں کس طرح خراج تحسین پیش کروں...

جب رب کریم نے اپنی محبت کا اظہر کرنا چاہا تو کس سے تشبیہ دی

مامتا سے

روایات میں ملتا ہے

رسول اکرمؐ کے زمانے میں ایک اعرابی آپؐ کی زیارت کو مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کبوتری نے بچے دیئے ہوئے تھے۔
اس نے کبوتری کے بچے اٹھالئے اور دل ہی دل میں یہ سوچا کہ یہ بچے آنحضرت ؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا۔
جب کبوتری نے اپنے بچوں کو اس
کے پاس دیکھا تو بڑی بے چین ہوئی
اور اس کے سر پر چکر کاٹنے لگی۔
اس شخص نے آنحضرت ؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپؐ کی خدمت میں وہ بچے پیش کئے۔
کبوتری نے جیسے ہی اپنے بچوں کو دیکھا تو وہ تیزی سے زمین پر آئی اور اپنے بچوں کے
گرد چکر کاٹنے لگی۔ پھر وہ اپنی چونچ میں غذا لے کر آئی اور اپنے بچوں کو کھلا کر اڑ گئی، پھر دوسری دفعہ غذا لے کر آئی اور اپنے بچوں کو کھلانے لگی۔

اس منظر کو دیکھ کر رسول اکرمؐ نے صحابہؓ سے فرمایا:

’’تم نے دیکھا کہ ایک کبوتری کو اپنے بچوں سے کتنی محبت ہے؟‘‘
پھر آپؐ نے فرمایا:

’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اور جس نے مجھے برحق نبی بنا کر معبوث کیا ہے۔"
اللہ اس کی نسبت اپنی مخلوق سے ہزاروں گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔

مامتا

اور اسکی گواہی تو خود قرآن عظیم دیتا ہے...

حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا قصہ....
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے...

"حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود
بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے
کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے
ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ
کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں
کھانا تو کہاں؟
پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں
دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں
اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں
کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی
ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی
جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی
جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی
ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی؟
آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت
جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟
آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں
ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں؟

آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا.....

ماں کی محبت و ممتا عالم میں ایک مثال ہے،ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے،جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکانہ ناپ سکے گا۔ماں کی محبت وہ ہمالیہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلند یوں کو کوئی آج تک چھو نہ سکانہ چھو سکے گا۔ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی
ماں تو اولاد پر قربان ہوجایا کرتی ہیں،اور یہ صرف انسانوں میں نہیں بلکہ پرندوں میں بھی دیکھ لیجئے،چڑیا ایک ننھی سی جان ہے،گرمی کے موسم میں اڑکر جاتی ہے،اور پسینہ پسینہ ہوجاتی ہے مگر چونچ میں پانی لاکر اپنے بچوں کو پلاتی ہے،اس کے اپنے چونچ میں پانی ہے اور وہ پیاسی بھی ہے مگر خود نہیں پیتی کہ اس کے بچے پیاسے ہیں،چھوٹی سی جان میں دیکھئے بچوں کی کتنی محبت ہے،ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے جا رہے تھے،

کہ ایک درخت پرانہوں نے ایک گھونسلہ دیکھاجس میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے،چڑیا کہیں گئی ہوئی تھی ان کو وہ پیارے لگے،اس لئے انہوں نے بچے کو اٹھا لیا۔
ذرا دیر میں ماں چڑیا بھی آگئی،بچے کوہاتھ میں دیکھ کراس صحابیؓ کے سر پر چہچہانا شروع کردیا۔وہ ان کے سر پر اڑتی رہی ،

چہچہا تی رہی،وہ صحابیؓ سمجھ نہ پائے،بالآخر تھک کر چڑیا ان کے کندھے پر بیٹھ گئی۔انہوں نے اس کو بھی پکڑ لیا-
اور نبی ﷺ کی خد مت میں آکر پیش کیا۔
اور کہااے نبی ﷺ ! یہ بچے کتنے پیارے اور خوبصورت ہیں اور سارا واقعہ بھی سنایا۔نبی ﷺ نے بات سمجھائی کہ ماں کے دل میں بچے کی اتنی محبت تھی کہ پہلے تو یہ تمہارے سر پر اڑ تی رہی اور یہ فریاد کرتی رہی کہ میرے بچے کو آزاد کردو،میں ان کی ماں ہوں۔
مجھے میرے بچے سے جدا نہ کرو۔مگر آپ سمجھ نہ سکے،تو اس ننھی سی ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں بچے کے بغیر تو نہیں رہ سکتی،میں اپنے بچے سے الگ آزاد رہ کر کیا کروں گی،اس لئے تمہارے کندھے پر آکر بیٹھ گئی،کہ اگر چہ میں قید ہوجاوَں گی،مگر بچے کے ساتھ تو رہوں گی۔اس کے بعد نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو واپس اپنی جگہ چھوڑ آوَ...

"ماں کتنی ٹھنڈک ہے تیرے نام کے ان حرفوں میں

لب پہ آتے ہی تپتی دھوپ بھی گھنی چھاؤں لگنے لگتی ہے

تیرا سایہ رہے مجھ پر میری زندگی کی آخری حد تک

ماں تجھے اک دن نہ دیکھوں تو زندگی بُری لگنے لگتی ہے

اے میری پیاری ماں تُو کیا جانے تیری دعا میں کیا اثر ہے

اِدھر تو ہاتھ اٹھائے، اُدھر ہر مشکل مجھےآساں لگنے لگتی ہے

ایک تجھے راضی رکھنے سے میرا دامن بھرگیا خوشیوں سے

تیری محبت کے سامنے دنیا کی ہرمحبت جھوٹی لگنے لگتی ہے

جو ہو میرے بس میں نثار کردوں میں جہاں بھر کی نعمتیں

دنیا کی ہر نعمت تیرے رتجگوں سامنے ہیچ لگنے لگتی ہے

ماں تُو کہتی ہے میں تیری ہستی کا مان ہوں،غرور ہوں

یہ سوچ کے مجھے یہ زندگی کچھ اور بھی اچھی لگنے لگتی ہے

میں وہ لفظ کہاں سے ڈھونڈ کرلاؤں
جو تیری شان میں ہوں ادا ماں میری محبت،
تیری محبت کے سامنے شرمندہ سی لگنے لگتی ہے"

⁦                        ✳✴✳✴✳✴✳

"کیا کہا تُم نے؟"
اُس کی بات پر حیرت سے اُس نے اپنا رُخ موڑا...

"تُم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو...
مطلب تُم مردوں نے بس عورتوں کو کھلونا سمجھ رکھا ہے بس کھیلنا جانتے ہو...
من پسند عورت نہ مل سکی تو دوسری کا رُخ کرلیا...
مگر وُہ کوئی لڑکی نہیں صرف وُہ تمہاری منکوحہ ہے نکاح میں ہے وُہ تمہارے نکاح کے سارے ایجاب وقبول کیے ہے تُم نے زبردستی نہیں کی کسی نے تُم آخر کس طرح میرے سامنے کھڑے ہوکر تُم یہ بات کر رہے ہو...
مُجھے تُم سے ایسی حرکت کی اُمید ہرگز نہیں تھی بلکل نہیں"
وُہ یاسیت سے بولی...
مخالف جی بھر کے شرمندہ ہو چُکا تھا....

"مگر اُس نے خود مُجھے اجازت دی ہے"
اُس نے آخری کوشش کی...

"لعنت ہے تُم پر پھر تو"
اُس نے ملامت کی....
اُس لڑکی پر کیا گزری ہوگی تُم نے کبھی سوچا  تُم مرد سوچ بھی نہیں سکتے کبھی نہیں...
وُہ تُم سے محبت کرتی ہے آخر تمہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی...
تمہاری خوشی کے لیے وُہ یہ تک کرنے کو تیار ہوگئی مگر تمہیں اُس کا احساس نہیں بلکلُ بھی نہیں"
آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے اب....
اُس نے انگلیوں سے آنکھوں کی کناروں کی دوبارہ خشک کیا..
ایک گہری سانس لے کر بولی...
"چاہے جانے کا احساس کتنا خوبورت احساس ہوتا تم اب تک نہیں جان سکے"
وُہ تاسف سے بولی....
"وُہ تمہیں چاہتی ہے پوری شدت سے اُسکا دِل  تمہیں چاہتا ہے اُسکا دِماغ بھی تمہیں سوچتا ہے..... تُم اُسکے اندر بستے ہو اسکی رگوں میں خون بن کر بہتے ہو اُسکی سانسوں میں تُم بسے ہو اُسکی آنکھوں میں صرف تمہاری تصویر ہے اُسکا چہرہ صرف تمہارے نام سے گُلنار ہوتا ہے...اُسکا دِل تمہاری بے رُخی پر ٹوٹتا ہے اُسکی آنکھیں بھی اب صرف تمہارے لیے نم ہوتی ہے اُسکّے ہونٹوں پے مسکان تمہارے لیے سجتی ہے....
یہ ہے چاہے جانے کا احساس افسوس تُم نہیں سمجھ سکے میں نے دیکھ لیا اُسکی آنکھوں میں یہ سب تُم نہیں دیکھ سکے شوہر ہو اُسکے تُم تو مگر وُہ تُم سے تمہیں نہیں مانگ سکتی مگر وہ میرے پاس آکر مُجھ سے تمہیں مانگ کر گئی ہے اور یہ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ایک بیوی اپنا شوہر ایک ایسی عورت سے مانگنے آئے جس کا اُسکے شوہر سے کوئی جائز شرعی تعلق نہیں...
مُجھے تُم نے اُسکی نظروں میں بے وقعت کردیا ہے..."
وُہ افسوس سے بولی....
وُہ اُسے دیکھ رہا تھا.... اور اُسکے الفاظوں پر غور کرنے لگا....

                    ✡✡✡✡✡✡✡✡✡✡

"بھائی آپکو پتا چلا"
ایان نے کتاب پڑھتے  امان سے پوچھا....
"کیا"
امان نظریں ہٹائے بغیر بولا....
"بھائی وُہ نمرہ آپی ہے نہ اُنکا جہاں رشتہ ہوا تھا نہ تو لڑکے والوں نے شادی سے مہینے پہلے  منع کردیا..."
نمرہ لفظ اور اُسکے متعلق سنی بات نے امان کی دلچسپی کتاب سے بلکل ہٹا دی....

"تو"
لہجہ نارمل کرتے ہوئے بولا....

"بھائی سچ میں بہت بُرا لگا سُن کر  نمرہ آپی تو بہت اچھی ہے کوئی کیسے اُن کے لیے منع کرسکتا ہے...”
ایان افسوس کے ساتھ بولا....
"تُم جاکر اپنی پڑھائی کرو فالتو بتائیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ محلے کی عورتوں کی طرح اِدھر اُدھر باتیں کرنے کی عادت چھوڑ دو اپنے ایگزامز پر فوکس کرو کل تمہارا پیپر ہے نہ مُجھے دکھاؤ کہا تک پہنچی تیاری تمہاری”
امان نے باتوں کا رُخ بدلا...
ایان منہ بسورتا اُٹھ گیا....

"نمرہ"
آہستہ سے نام ادا ہوا...
اُسکے دِل میں درد اُٹھا تھا....
"بہت ہی بدقسمت تھا جو تمہیں چھوڑ دیا اُس نے اور مُجھے دیکھو میں تمہیں چاہتا ہو مگر تُم مُجھ سے دور ہو مگر میرے دِل میں تو صرف تمہاری محبت ہے میں کیا کروں خود کو کیسے سمجھاؤں"
دک میں ہی خود سے مخاطب ہوا...
سامنے لہرائے جانے والا ہاتھ اُسے سوچوں کے بھنور سے نکال لایا...
"کیا ہوا کہاں گُم ہو تُم...مُجھے آئے ہوئے بھی 5 منٹ گزر گئے مگر تمہیں تو میرے آنے کا پتا ہی نہیں چلا”
ابوبکر فکرمندی  سے بولا...
کُچھ نہیں ہوا یار بس ایسے ہی"
امان نے اُسے ٹالنا چاہا...
"مُجھے دوست بولتا ہے مگر مانتا نہیں ہے تُو ابے دوست ہوتے کس لیے ہے پریشانی بتا یار مُجھے شاید کوئی حل ڈھونڈ سکے مِل کر"
ابوبکر اُسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا....
امان کا دِل اِس قدر مان سے پوچھے جانے پر سب بتانے کو چاہا مگر وُہ چاہ کر بھی نہیں بتا سکا....
"میں وقت آنے پر بتا دوں گا یار چھپا نہیں رہا"
امان نے اعتراف کرتے ہوئے سہولت سے اُسے مزید سوالوں سے روکا...
"ٹھیک ہے جیسی تیری مرضی"
ابوبکر کُچھ ناراض ہوکر بولا...
"پلز یار ابھی نہیں"
امان نے التجا کی....
"اچھا یہ بتائے لیکچرار صاحب کیسا چل رہا سب"
امان عام سے انداز میں اب اُس سے جاب کی بابت پوچھنے لگا....
"اچھا ہے .... تُجھے تو پتہ ہے مُجھے ایکسپیرینس نہیں تھا اِس کا بلکل بھی مگر تُو نے بتایا تو میں گیا اور اللہ کے کرم سے جاب مِل بھی گئی"
"اچھا میں چلتا ہو یہی سے جارہا تھا واپس گھر تو تُجھ سے مِلنے بھی آگیا"
ابوبکر کہہ کر اُٹھ گیا....
"چل ٹھیک ہے انشاءاللہ میں دیکھ کل یہ پرسوں چکر لگاتا ہوں تیری طرف"
امان مصافحہ کرتے ہوئے بولا....
"اللہ حافظ"
"خدا حافظ"
دونوں نے الوداعی کلمات کہے امان اُسے گیٹ تک چھوڑنے آیا پھر واپس مڑ گیا....

                        ✡✡✡✡✡✡✡✡

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro