Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۰

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۰
"مجذوب"

"ماریہ.... آج سے انگلش کے نئے سر آئے گے پڑھانے سر ابتسام ایک مہینے کی چھٹی پر گئے ہے"
نائلہ نے چپس کھاتی ماریہ کو بتایا.....
"ہمم...پتہ ہے"
ماریہ بے نیازی سے بولی...
"جب پتہ ہے تو چلو بس ۱۰ منٹ رہ گئے ہے کلاس شروع ہونے میں"
نائلہ بولی...
"چلیں گے پہلے یہ تو ختم کر لوں"
ماریہ چپس کا پیکٹ دکھا کر بولی...
"دن بھر نز ٹھوستی رہنا تُم غلط نہیں کہتا احد تمہیں"
نائلہ اُسے چڑانے کی خاطر بولی...
اور وُہ چڑ بھی گئی...
"افوں ایک تو تُم دونوں نے زندگی کو عذاب کردیا ہے بندہ چین سے کُچھ کھا بھی نہیں سکتا نظر لگا کر بیٹھے ہوتے ہو"
ماریہ بینچ سے اُتر کر جوتی میں پاؤں ڈالتے ہوئے بولی...
"اب چلو"
ماریہ خفگی سے بولی...

وُہ دونوں کلاس میں آکر سب سے آگے بیٹھ گئی...
احد اُس سے کُچھ پیچھے اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا....

"اسلام و علیکم"
آواز کُچھ مانوس سے تھی ماریہ جو ڈیسک کے نیچے جیومیٹری بکس رکھ رہی تھی آواز پر اوپر دیکھا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اُسکا منہ حیرت کی زیادتی سے کھلا رہ گیا...

جبکہ نائلہ اُسے کہنی مار کر بولی...
"یہ تو وہی چشمش ہے"
نائلہ ابوبکر کی طرف اشارہ کرکے بولی...
"یہ ٹیچر بھی ہے"
ماریہ سر نیچے کرے ہی بڑ بڑائی....

"میں اب سے ایک مہینے تک آپ لوگوں کا نیا انگلش ٹیچر ہوں جب تک سر ابتسام واپس نہیں آجاتے اُمید ہے آپ لوگ میرے ساتھ تعاون کرے گے"
وُہ اپنے مخصوص نرم انداز میں بولا...

"یہ اللہ یہ پڑھائے گا"
ماریہ نے بے بسی سے سوچا...

ابوبکر نے بہت جگہ اپلائی کیا تھا جاب کے لیے تو اس کے کسی جاننے والے نے اُسے بتایا تھا یونیورسٹی میں بھی اپلائی کردے لیکچرار کے لیے اسے سر ابتسام کی چھٹی نے ایک موقع دلا دیا...

ابوبکر نے طائرانہ نگاہ پوری کلاس میں دوڑائی اور آگے بیٹھی ماریہ پے آکر رُک گئی...
کُچھ حیرت بھی ہوئی اُسے دیکھ کر مگر وُہ چھپا گیا...

ماریہ کا وہاں بیٹھنا مُشکِل ہونے لگا...
جب کلاس ختم ہوئی تو ماریہ اِس طرح بھاگی جیسے جیل سے آزاد ہوئی ہو...

"ماریہ....کیا ہوگیا ہے یار طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری کلاس میں بھی تمہارا دیہان نہیں تھا"
نائلہ فکرمندی سے بولی...

"پتا نہیں یار مگر جب جب یہ شخص میرے سامنے آتا ہے پتا نہیں مُجھے کیا ہوجاتا ہے میں بِلکُل ڈسٹرب ہوجاتی ہوں "
ماریہ مضطرب ہوکر بولی...

"ماریہ تُم کہی اِس سے پیار تو"
"بکواس بند کرو اپنی تمہاری تو ہر بات وہی جا کر رکتی ہے"
ماریہ درشتگی سے اُسکی بات کاٹ کر بولی...

"میں گھر جا رہی ہوں باقی کلاسز نہیں لو گی کُچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہو میں"
ماریہ تیزی سے کہتی اُسکے جواب کا انتظار کرے بغیر آگے نکل گئی...
اُسکے کانوں میں نائلہ کے الفاظ گونجنے لگے...
"پیار"
"نہیں ایسا نہیں ہے"
ماریہ نے خود کو ڈپٹا قدموں کی رفتار مزید تیز کردی..

✴✳✴✳✴✳

وُہ اُسکے سامنے کھڑی تھی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا
"دعائیں اِس طرح بھی پوری ہوتی ہے"
اُس نے خود سے پوچھا...

وُہ چل کر اُس تک آیا....
چیاگو کی سڑکوں کو ابھی برف کی تہو نے ڈھکا ہوا تھا سخت سردی میں اسکو سامنے دیکھ کر اپنے اندر اُسے سکون کا احساس ہوا...

اُس نے آہستہ سے اُسے پُکارا....
اِس آواز کو وُہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی...
پیچھے پلٹی تو اپنے خیال کی تصدیق ہونے پر اور اندر کرب کی لہر اُٹھنے سے بے اختیار آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہونے لگا تھا....

"تُم"
بس اتنا ہی کہہ سکی...

"مُجھے تُم سے بس ایک بات کہنی ہے بس ایک بار سُن لو"
مُجھے تُم سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرنی....
وہ چہرہ دوسری طرف کرکے بولی...

" تمہیں مجھے غلط سمجھنا ہے سمجھو مجھے بے غیرت بے حیا بے شرم کافر جو کہنا ہے کہو...
میں اُف تک نہیں کرونگا مگر تمہیں خُدا کا واسطہ جس پر تمہارا کامل یقین ہے میری بات سن لو...."
وُہ ملتجی انداز میں بولا....
"میرے دل پر بوجھ ہے اُسے ختم کرنے دو مُجھے اظہارِ عشق تو کرنے دو"
میرے عشق پر کبھی شک مت کرنا کیوں کے میں نے یہ عشق تُم کو گنوا کر کیا ہے تُم سے جدا ہونے کے بعد اِس حقیقت کے ساتھ کے تم اب مجھے نہیں مل سکتی میں کھو چکا ہو تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے..
اور یقین جانو جو عشق محبت اس بات کی اُمید لگائے بغیر کی جائے کے اسکا کوئی حاصل نہیں تو وہ عشق خالص ہے پاک ہے میں بہت گناہ گار ہو بہت گناہ گار مگر زندگی میں اگر کوئی چیز میں نے پوری صداقت سے کی ہے سچے دل سے کی ہے تُو وہ میں نے تُم سے محبت کی ہے تمہیں واسطہ ہے اُس ذات کا میرے اس جذبے پر شک کرکے مُجھ سے یہ مان نہیں چھیننا مجھے اپنی ہی نظروں میں اور رُسوا نہیں کرنا...."

یہ کیا انکشاف تھا کیسا خلاصہ تھا جو اُس پر ہوا تھا آج اُسے چیاگو میں گرتی برف اچانک اگ کے گولے لگنے لگے....
اُس نے جلدی سے خود کو دوبارہ نقاب کی آڑ میں کیا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے آگے بڑھ گئی..
جبکہ وُہ تاسف سے اُسے جاتا دیکھتا رہا...
چیاگو اس دن اُسکے اظہار عشق کا مقام بن گیا تھا...
تو وہی مقبرہ بھی....

✴✳✴✳✴✳✴✳

"کیوں آئی تھی آپ وہاں"
راحیل نرم لہجے میں بولا...

"ہم جس کو ڈھونڈھ رہے تھے اُسکا پتا چل گیا ہے"
لڑکی نے اپنا نقاب کھینچ کر نیچے کیا...

"کون ہے وہ"
اُس نے سوال کیا....

"ابوبکر ریاض"
"کیا"
حیرتوں کے پہاڑ اُسکے اوپر ٹوٹے تھے....

"یہ کیسے ہوسکتا ہے" وہ خود سے بولا...

"ابوبکر"
نام پھر دہرایا...
یہ نام اتفاق ہوسکتا تھا مگر یہ نہیں.
"ابوبکر ریاض"
وُہ زیر لب بولا....

✳✴✴✴✳✴
"راحیل"
طیات نے اُسے پُکارا...

صبح ہوئی تلخ کلامی کے بعد اِس قدر شائستہ انداز اُسے حیران کر گیا...

طیات نے آرام سے اُسے سے بات کرنے کا فیصلہ کیا...
"مُجھے تُم سے بات کرنی ہے..."
"مگر مُجھے تم سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرنی"
راحیل نے اُسے جھڑک کر آگے کُچھ بھی بولنے سے باز رکھا...
اور کروٹ لے کر لیٹ گیا.....

"مجھے یقین ہے اللہ میرے بچے کو کُچھ بھی نہیں ہونے دے گا دیکھ لینا تُم راحیل تُم کچھ بھی نہیں بگاڑ سکوں گے میرا کبھی بھی"
طیات بھی دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی...

✳✴✳✴✳✴✳

آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں ،؟
یہ سوال اُسکی لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا ،
فرض ہے ؟ ، سب لوگوں کے سر اثبات میں ہلے...
بیان دینے والا دوبارہ بولنا شروع ہوا....
شکر ادا کرنے کے لئے ؟
خدا ہے ہی اس قابل ؟
جہنم کے خوف سے ؟
یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے ،
ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتا تھے ،
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا ،
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی ،
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی ،
اور نہ یکسوئی سے ،
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا ،
پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی ،
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا ،
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت ،
اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے ،
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم اس رشتوں شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو ،
ذہن میں یہ رکھ کی بھی نماز پڑھ لی ،،
دل کی حالت اب بھی وہی تھی ،،
پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی ،
میں جائے نماز پے کھڑا ، اور مجھے نماز بھول گئی ،
بہت یاد کرنے کی کوشش کی ،
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں ؟
مجھے خود پے بہت رونا آیا ،
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا ،
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پے ،،جیسے بچہ رو رہا ہو توہم سر پے ہاتھ رکھکے دلاسا دیتے ہیں ،
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے ، کے کیا ہوا ،
میں نے کہا نماز بھول چکا ہوں ،،
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تو کا جواب تو مرے پاس بھی نہیں تھا شائد ،،
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو ،
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے ،،
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پے سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا ،
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے ،
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو ،
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی ،
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی تو میں وہیں پے تھا ، وہ یقیناً خواب تھا ،
میں دوبارہ سے وضو کر کے کھڑا ہوا ،
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا ،
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے ،
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے اٹھتی ،
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا ،
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں ،
اللّه کا کرم ہو گیا ،

وہ جب بھی اِن کو سنتا تھا اسکو اپنے اندر کی ایک نئی خرابی گناہ دکھائی دیتا تھا....
خوف اُسکے حواسوں پے سوار ہو رہا تھا کیوں کہ اُسکا ظاہر ہو اور باطن مکمل طور پر گناہوں میں گھرا ہوا تھا بلا آخر خوف خدا اُس پر بھی چھا نے لگا تھا.....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro