Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۶

#میدان_حشر
قسط نمبر ۱۶
باب نمبر چہارم
"ابتدائے عشق"

وہ احتیاط سے چلتی تقریباً ۲۰ منٹ بعد کمرے میں آ گئی....
وُہ اُس وقت سونے کے لیے لیٹ چُکا تھا کپڑے بدل کر طیات نے ایک نظر اُٹھا کر اُسکی طرف دیکھا اُسکی آنکھیں بند تھی.... وُہ آنکھیں بند کرکے لیٹا ہوا تھا یہ سوگیا تھا وہ اندازہ نہیں لگا پائی...بنا آواز کرے وُہ بھی صوفے پر آکر لیٹ گئی....
اُسکے لیٹتے ہی لائٹ بند ہوگئی...
"مطلب وہ جاگ رہا ہے"
طیات نے خود سے کہا...
"تُم اِدھر آکر سوتی ہو یہ میں اُٹھا کر لاؤں...اور اگر میں آیا تُو تُم سوچ لو"
اندھیرے میں راحیل کی آواز گونجی....
غصّہ تھا دھمکی تھی یہ پھر مخصوص بُلاوا تھا...
طیات کو آواز سے کُچھ اندازہ نہیں ہوا....
مگر فل سپیڈ میں چلتے اے سی کے باوجود اُسکی پیشانی عرق آلود ہوگئی....
وُہ اُٹھ کر بیٹھ گئی....
"میں آخری بار بول رہا ہو تم آرہی ہو یا نہیں؟"
راحیل کی آواز میں اِس بار غصے کا تاثر تھا جسے وُہ پہچان گئی...
طیات کے مسلسل انکار سے اُسکی انا کو مردانگی کو ٹھیس لگی تھی....
جبکہ طیات سُن کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی بیٹھے بیٹھے  خود کو گٹھری کی طرح سمیت لیا....
کُچھ گرنے کے آواز آئی...
شاید اُس نے اندھیرے میں سائڈ لیمپ جلانا کرنا چاہا ہوگا...
وُہ مزید سکڑ گئی...
راحیل نے بتی جلادی کردی ...
کھٹ کی آواز کیساتھ کمرہ روشنی میں نہا گیا...
اسکی اندھیرے کی عادی آنکھیں یکدم روشنی کے باعث چندھیا سی گئی تھیں.
اسنے زور سے آنکھیں میچ لیں.
راحیل اُٹھ کر اُس تک آیا...
قدموں کے آواز اپنی طرف بڑھتی سُن کر اُس نے آنکھیں کھول دی....
نا چاہتے ہوئے بھی اُسکی آنکھوں کے سامنے پھر سے اُس رات کا منظر گھوم گیا تھا.
وہ ڈر کے مارے صوفے پر ہی پیچھے کی جانب کھسکنے لگی..
راحیل نے کُچھ حیرانی سے اُسکی اِس حرکت کو دیکھا، طیات کے چہرے پر وحشت تھی۔
وہ مناسب قدم اٹھاتا اب اُسکے سر پر آچکا تھا طیات نے چہرہ اونچا کر کے اسے دیکھا اُسے آج بھی راحیل کسی موت کے فرشتے سے کم نہیں لگ رہا تھا.....
مارے بے بسی کے اُس نے اپنےلب کُچل ڈالے....
وُہ اُسکے برابر بیٹھ گیا...
طیات صوفے کے کونے سا جا لگی...
"نہیں آج پھر نہیں اللّٰہ میں نے تیری رضا کو مانا ہے مگر میں یہ نہیں کرسکتی میں نہیں کرسکتی میری آنکھوں کے سامنے سے وُہ منظر نہیں جاتا...مُجھے ابھی اِس امتحان میں نہ ڈال"
وہ دل ہی دل میں گڑگڑا کر دعا کرنے لگی....
راحیل نے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...
اسکے بھاری ہاتھوں کا کھردرا سا لمس اسکے وجود میں ایک سنسی دوڑا گیا۔
اس نے گھنی پلکھوں کی جھالر اُٹھا کے سہمی نظروں سے اُسکی طرف دیکھا..
خوف سے ٹھنڈے پڑتے جسم پر راحیل کا ہاتھوں کا لمس اُسے انگارہ محسوس ہوا....
راحیل نے مزید کوئی پیش رفت نہ کی وُہ آنکھوں میں حیرت لیے اُسکے  چہرہ کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا....
طیات اب تک کُچھ نہ بولی....
"اب فائدہ ہی ہے کیا بولنے کا۔۔“
طیات نے دُکھ بھرے انداز میں سوچا...
راحیل اُسکے تھوڑا اور قریب ہوا...
طیات کے چہرہ پر ایک سایہ لہرا کر گزر گیا کرب، تکلیف، اذیت کیا نہیں تھا اسکی سہمی ہوئی آنکھوں میں۔۔
راحیل کو اسکے وجود میں اک عجیب سی بے چینی کا احساس ہوا تو سرعت سے اُس نے اپنا ہاتھ طیات کے ہاتھ سے اٹھایا اور صوفے سے اٹھ گیا اس کے چہرے پر بے بسی آگئی جیسے کوئی پیاسا سمندر کے کنارے پہنچ کر بھی تشنہ کام ہی رہ جاۓ۔۔
وُہ دروازہ دھڑام سے بند کرکے چلا گیا....
طیات نے حیرانگی سے اُسکی پُشت کو دیکھا...
پھر اپنا رُکا ہوا سانس بحال کیا....
"اللہ تیرا شُکر"
طیات نے بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا..
"میں کیا کروں مُجھے کیوں سمجھ نہیں آتا ایک طرف میں تیری مرضی کو مانتی تو دوسری طرف جب جب یہ انسان میرے قریب آتا ہے مُجھے کیوں خوف آنے لگتا ہے میں کیوں ڈر جاتی ہوں....
صحیح تو کہتا ہے وہ میں کب تک کہا تک بچ سکتی ہوں وہ ایک مرد ہے  مضبوط اور بااختیار مرد میں کب تک اُسے روک سکتی ہوں
میں ساری زندگی تو اسے خود سے اِس طرح دور نہیں رکھ سکتی”
طیات نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لی...

کمرے سے باہر آکر وہ سخت غصے میں تھا.....
کُچھ رات پہلے کی ایک آواز دوبارہ اُسکی سماعتوں میں گونجی...
" " تمہیں پتہ ہے ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھرنا کیا ہوتا ہے اُسکی تکلیف کیا ہوتی ہے...."
راحیل کے آنکھوں کے سامنے طیات کا سہما ہوا وجود آگیا...
پھر کہی سے دوبارہ آواز آئی...
”جب جب تُم مُجھے سب اختیارات رکھتے ہوئے   چھوتے ہو میرے قریب آتے ہو...
اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آجاتا ہے جب تُم درندگی کی حد کو پہنچے ہوئے مُجھے توڑ ہی نہیں رہے تھے میری کرچیاں کرچیاں کر رہے تھے تو وہ وقت تھا میری ذات پے ضرب لگنے کا ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہونے کا اور اب ایک کمرے میں ایک بستر پر تمہارے بغل میں سونا مُجھے نئے سرے سے اذیت سے دوچار کرتا ہی....”
"ہاں تمہارے بغل میں سونا اُسے اذیت دیتا ہے"
ضمیر کی آواز آئی...
”مُجھے اپنے شوہر کی قربت سے گھن آتی ہے...
اِس سے بڑی گالی کیا ہوگی تمہارے لیے....
ایک بیوی اپنے شوہر کے ہاتھ لگانے سے گھن کھائے....."
راحیل کو اپنے ہاتھوں پر کسی کے کانپتے ہاتھوں کی لرزش محسوس ہوئی....
"ہاں وُہ تُم سے گھن کھاتی ہے..."
ضمیر نے پھر ملامت کی..
وہ مردہ ضمیر نہیں تھا اِس بات کا احساس اُسے تب ہوتا جب وہ ضمیر کی آواز کو سُنتا...
"وہ جو بھی ہوا مگر اب وُہ میری بیوی ہے وُہ بغیر کسی عذر کے مُجھے اپنے حق سے دور نہیں رکھ سکتی"
شیطان نے دِماغ کی سوچوں پر وار کیا...
"ہاں وُہ میری ہے صرف میری اُس پر صرف میرا حق ہے اور میں اپنا حق وصول کرکے رہوں گا"
وُہ کُچھ دیر یو ہی کھڑے رہنے کے بعد پورچ میں جاکر گاڑی میں بیٹھ کر باہر چلا گیا....

                    ✴✳✴✳✴✳✴✳

"کیا بول رہے ہو تم"
نزہت بیگم نے حیرانی سے عامر کو دیکھتے ہوئے کہا...

"امی... آپ اتنا حیران کیوں ہورہی  ہے میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا"
عامر رسان سے بولا...
"تُم جانتے ہو تُم کیا بول رہے ہو...
اوپر سے مُجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کے میں حیران بھی نہ ہو؟"
نزہت بیگم اُسے گھورتے ہوئے بولی....
”میں یہ رشتہ بہت عزت کے ساتھ یہی ختم کرنا چاہتا ہوں...امی مُجھے نہیں لگتا کہ ہم دونوں آگے چل پائیں گے اور جس رشتے میں زرا بھی شک ہو اسے آگے بڑھانے سے بہتر ہے کہ میں یہی بہت احترام سے ختم کردوں...کیا فائدہ اگر آگے جاکر یہ سب ہی زندگی دونوں کی متاثر ہوگی...اور بس منگنی ہوئی ہے کوئی نکاح نہیں ہوا"
عامر نے تفصیلی جواب دیا....
"میں نواز صاحب کو کیا بولوں گی کیوں ختم کردیا توڑ رہے ہے رشتہ ...اُنکو کیا بتاؤ کے میرے صاحب زادے کو منگنی ہوجانے کے ۲ مہینے بعد اور شادی سے کُچھ مہینے پہلے یہ خیال آیا ہے کے اُنکی بیٹی اُسکے مطابق نہیں.....کسی کی بیٹی کی عزت کا تماشا کیوں لگا رہے ہو میں کیا منہ دکھاؤ گی اُس باپ کو"
وہ افسردگی سے بولی...
"امی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے آپکی وجہ سے اِس رشتہ پر آمادگی ظاہر کی تھی...پر مُجھے لگتا ہے کہ آگے اِس رشتے کا کوئی مستقبل نہیں ہے...اگر آگے جاکر یہ سب ہوا تو وہ اب سے زیادہ تکلیف دہ ھوگا”...
عامر یہ کہہ کہ اُٹھ کر چلا گیا.....
جبکہ نزہت بیگم نے اپنا سر پکڑ لیا...
"یا اللہ اِس لڑکے نے مُجھے کس مُشکِل میں ڈال دیا ہے میں کیا کہوں گی نواز صاحب سے"
وہ خود سے ہی ہمکلام ہوئی...

                         ✴✳✴✳✴✳

وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ سوئی نہیں تھی...
قرآن پڑھتی تھی مگر یہاں وُہ بھی نہیں تھا...
راحیل بے خبر سورہا تھا....
رات کو وُہ کب واپس آیا پتا تو تھا اُسے مگر وہ یوں لیٹی رہی جیسے سو رہی ہو....
"یہ روز رات کو کہا جاتا ہے؟؟"
طیات نے خود سے سوال کیا....
وہ پھر سوتے ہوئے راحیل کے برابر آکر بیٹھ گئی ہے مقصد اُسے دیکھنے لگی....
پچھلی صبح کی کاروائی دوبارہ کر رہی تھی بلا مقصد اُسے دیکھ کر اپنے ہی خیالوں پر مسکرانا اُسکے قریب آنے پر ڈر جانا....
وہ بے مقصد ہی اُسکی چہرے پر بکھرے بالوں کو سنوارنے لگی....
اُسکے وجود سے اُٹھتی خوشبو طیات کے نتھنوں سے ٹکرائی...
اُسے کوئی خوشگوار احساس نہیں ہوا...
کیونکہ اُسکے پاس سے کسی لیڈیز کلون کی خوشبو آرہی تھی...
"تو کیا رات راحیل؟"
سوچ ہی اُسے ہراساں کرنے لگی...
"مُجھے کیوں فکر ہورہی ہے؟"
طیات نے خود سے کہا...
"تمہارا شوہر کسی اور عورت کے ساتھ تھا رات بھر تمہیں اِس لیے فکر ہورہی ہے"
اندر کسی کونے سے آواز آئی....
"میں اگر اللّٰہ کی مرضی کو مان چُکی ہو تُو کیوں دور بھاگ رہی ہوں میرے دِل میں کیوں کوئی احساس کوئی جذبہ نہیں ہے تمہارے لیے"
وہ زیرِ لب بولی...
اُسکوں اپنی ہی آواز انجانی لگی...
"اگر میرے دل میں اِس کے لیے کوئی احساس نہیں تو مُجھے کیوں فکر ہورہی یہ رات بھر کس کے ساتھ تھا اگر میرے دل میں کوئی جذبہ نہیں تو میں یہاں اسکے برابر میں کیوں بیٹھی ہوں کیوں یہ سب کر رہی ہو....
نہیں میرے دِل میں تمہارے لئے کوئی احساس کوئی جذبہ نہیں کبھی ہو بھی نہیں سکتا"
اُس نے اپنی بدلتی کیفیت کو محسوس کرکے خود کو باور کروایا....
"مگر یہ کس کے ساتھ تھا رات بھر "
دل دماغ دونوں پھر وہی آ رکے....
اُس نے ایک گہری سانس خارج کی اور اُسکے پاس سے اُٹھ گئی....

شال اپنے گرد لپیٹ کر وُہ لان میں آگئی....
نم اور ٹھنڈی گھاس پے ننگے پاؤں چلنا اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا اُسکے اندر سکون اُتر رہا تھا کُچھ دیر پہلے کی اضطرابی کیفیت میں کمی آئی تھی...
"وُہ باہر سکون تلاش کرنے میری وجہ سے جاتا ہے ..."
"کیا سچ میں میری وجہ سے جاتا ہے"
اُس کے دل میں سوال آیا....
"ہاں وُہ مرد ہے کب تک میری بے رُخی برداشت کرے گا....
اور وُہ بھی ایسا مرد کے اختیار نا ہوتے ہوئے بھی نہیں رُکا اب تو وُہ بااختیار ہے جائز رشتہ میں ہے منسلک میرے ساتھ...
میں کب تک اُسے اس کے حق سے محروم رکھ پاؤں گی...
کیا میں خود دور رہ پاؤں گی دور اُس سے میں اپنی اس بدلتی کیفیت کو کیا نام دوں میں اُس سے چاہ کر بھی اب نفرت برقرار نہیں رکھ پا رہی.....
تو کیا میں اُس سے محبت کرنے لگی ہوں؟"
تنہائی میں اور ترو تازہ  ماحول کی وجہ سے اُسکے دِماغ پر پڑی گرہیں اب کھلنے لگی تھی....
بہت سے نئے سوالوں نے جنم لیا تھا مگر جواب ہوتے ہوئے بھی وہ اُن سے منہ موڑ لینا چاہتی تھی....
"ہم لڑکیاں بھی کتنی عجیب ہوتی ہے....
بلکہ نہیں یہ معاملہ کسی جنس سے نہیں اسکا تعلق تو خدا کے کھیل سے ہے...
میری ذات کو میرے مان میرے اعتماد کو جس شخص کے ہاتھوں توڑا اُسی کی محبت میرے دل میں قطرہ قطرہ داخل کر رہا ہے یہ تیرا کیسا انصاف کیسا کھیل ہے خُدا اُس شخص کے لیے تو کوئی سزا ہی نہیں رکھی تُو نے وہ شخص میرے دِل اور دِماغ میں میری روح میں اُترتا جا رہا ہے"
اُس نے اپنے ہونٹوں پر ایک دردناک مسکان سجائے آسمان کی طرف دیکھا....
"تو کیا ظالم کے لیے کوئی سزا نہیں تیری عدالت میں مظلوم پر یہ ظُلم ہی ہے کہ ستم گر سے ہی محبت ہورہی اُسے....
اور اِس محبت کو میرے دِل میں ڈالنے والا بھی تُو ہی ہے....
تُو کیا میں تیرے انصاف سے بھی مایوس ہوجاؤ؟"
طیات نے دِل میں ہی خدا سے سوال کیا کیونکہ وُہ تو ہر ایک دِل میں رہتا ہے ہر ایک کے اندر ہوتا ہے بس سچے دِل سے یاد کرنے آنکھیں بند کرکے پکارنے کی دیر ہے وُہ سب دیکھ رہا ہے یہ سب اُسی کا تحریر کردہ ہے وہ ازل ابد تک کا سب کُچھ جانتا ہے...
ہر انسان کی شے رگ سے بھی زیادہ قریب...

"نہیں تیری مبحت ذات سے ہی اگر میں مایوس ہوگئی تو میں کہاں جاؤ گی اِس دُنیا میں کیونکہ جسکا تُجھ پر ہی بھروسہ نہ رہے دُنیا کا کیا بھروسہ کرے گا اور وُہ بھی اُس دُنیا کا جس کو بنانے والا بھی تو ہی ہے  تیری ذات سے تو کبھی مایوس میں ہو ہی نہیں سکتی ہر بندے سے تُجھے اُلفت ہے ستر ماوں سے زیادہ چاہتا ہے تو میرا بہتر ہی سوچا ہوگا تو نے...
میں آج خود سے وعدہ کرتی ہوں کوشش کرونگی جو ہوا اُسے نظر انداز کرنے کی کیونکہ بھولنا میرے اختیار میں نہیں کیونکہ میری یاداشت سے وُہ کبھی مٹ نہیں سکتا....
مگر میں تیری مرضی کو مان چُکی ہو اور میں اِس پر عمل کرو گی تُجھے شکایت کا موقع نہیں دونگی میں...
وُہ جیسا بھی ہے میرا محرم ہے وُہ اور میں کبھی یہ نہیں چاہوں گی کے اسے اُسکے حق سے محروم رکھ کر تیرے آگے گناہ گار ہوجاؤ ...
تو نے ہی میرے دل میں اتنی وسعت پیدا کی ہے میرے دِل میں اُسکے لیے نرم گوشہء پیدا کیا ہے....
آگے کے مرحلوں میں بھی میرے لیے آسانیاں پیدا کرنا"
طیات نے پر سکون ہوکر دعا کی....
آنکھیں بند کرلی...
دوبارہ آنکھ سورج کی کُچھ گرم کرنوں سے کھلی....
"میں سو کیسے گئی یہاں بیٹھے بیٹھے ہی؟"
اُس نے خود سے ہی سوال کیا...
"جو سوال راتوں کے نیند اور سکون برباد کردیتے ہیں اُنکے جواب مِل جانے پر سکون کی ہی نیند آتی ہے....”
خود ہی جواب دیا اُس نے...
وہ اندر کی جانب بڑھنے لگی گاڑی پُورچ میں ہی تھی...
"مطلب وہ ابھی تک سو رہا ہے"
ہال میں آکر سب سے پہلے اُس نے وال کلاک کی طرف نظر دوڑائی تو چھوٹا کانٹا اور بڑا کانٹا بھائی چارے کا ثبوت دیتے ایک ساتھ پائے گئے...
"دن کے بارہ بج گئے اتنی بےخبر نیند تو میں کبھی وہاں بھی نہیں سوئی"
اُس نے حیرت سے سوچا....
کمرے میں آئی تُو راحیل بیڈ پر نہیں تھا...
اُس نے اِرد گرد نظر دوڑائی ہی تھی باتھروم سے پانی کی آواز آنے لگی...
وُہ کمرے کی حالت دُرست کرنے لگی...
سب سے پہلے بیڈ کی شکن آلود چادر کو دُرست کرنے لگی پھر کمبل کو تہہ کر کرکے تھوڑا نیچا رکھ دیا...
تکیے جو من موجی اِنسان کی بانہوں میں مڑ کر  غلاف بھی تھوڑے بہت نیچے سرک گئے تھے...
ٹھیک کرکے واپس رکھے...
اور طائرانہ نظر کمرے پر ڈالی آج شادی کے ۱ ہفتے بعد وُہ مُکمل طور پر اپنی نئی اور مستقل خواب گاہ کو دیکھ رہی تھی...
بلاشبہ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا رہنے والے نے اپنی پسند کے مطابق ہی سجایا تھا اپنی ہی طرح بے حد زبردست وُہ اُس وقت صرف اُسکی ذات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سوچ رہی تھی عمل کو نہیں...
"عمل سے تو ایک نمبر کا ذلیل اِنسان ہے"
خیالوں میں کھوئی ہوئی ہی تھی ناب گھومنے کی آواز سے حال میں لوٹ آئی....
اُسکی نظرے غیر ارادی طور پر دروازے کی طرف گئی تو باتھروم سے باہر نکلتے اُس ۶ فٹ کے اِنسان کو دیکھ کر اُسکا دِل آج پہلی بار کسی نئی انداز سے دھڑکا تھا...
"تو کیا یہ میری تُم سے عشق کے سفر کی ابتداء ہے؟"
اُس نے بلا جھجک اُسے دیکھتے ہوئے سوچا....
وُہ اُسکی موجودگی سے بے خبر تولیے سے بال رگڑتا باہر آرہا تھا...
اپنے اوپر نظروں کی حدت محسوس کرکے سامنے دیکھا تو وُہ سامنے کھڑی تھی...
اُسے ہی دیکھ رہی تھی...
اُسکے چہرے اور یکدم غصے کے تاثرات اُبھر آئے...
طیات اب نظرے ہٹا کر اُسکی وارڈراب سے کپڑے نکالنے لگی...
اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی شروعات اُس نے یہی سے شروع کی....
ابھی طیات کپڑے نکال کر مڑی ہی تھی تو وہ کسی آفت کی طرح اُسکے سر پر کھڑا تھا...
"کیا کر رہی ہو؟"
درشتگی سے پوچھا گیا...
"تمہارے...ک کپ.. کپڑے نکال رہی تھی"
وُہ اٹک کر بولی...
"میں نے کہاں تُم سے؟"
دوبارہ درشتگی سے سوال ہوا....
اُس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا...
"اور تمہیں کیوں لگا کے میں تمہارے نکالے ہوئے کپڑوں  ہی پہنوں گا"
"وہ... وُہ...
اب وہ سوالوں سے پریشان ہورہی تھی اور خود کو  ملامت کر رہی تھی کیوں بھلا کرنے کا سوچا...
وہ سائڈ سے نکل کر جانے لگی...
اُس نے پھرتی سے اُسکی نازک کلائی پکڑ لی...
طیات نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا...
"آئندہ میری کسی چیز میں گھسنے کی ضرورت نہیں ہے  سمجھ گئی ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا...”
وُہ اُسکی نازک کلائی کو سختی سے دباتے ہوئے بولا...
ضبط سے مخالف کا چہرہ سرخ ہونے لگا...
پھر شاید خود ہی اُسے احساس ہوا اُسکا ہاتھ چھوڑ دیا...
وہ اپنی لال ہوئی کلائی کو سہلاتے ہوئے مڑی...
پھر کُچھ یاد آنے پر دوبارہ مڑی...
"مُجھے کُچھ پیسے چاہیے"
وُہ اُسکی طرف دیکھے بغیر بولی...
شرٹ کی بٹن کرتے راحیل کو کُچھ حیرت ہوئی...
پھر بیڈ کی سائڈ ٹیبل سے والیٹ اُٹھا کر اُسکی طرف بڑھا دیا...
طیات نے صرف ۱۰۰۰ کا نوٹ نکال کر اُسے واپس کردیا...
"وُہ مُجھے جائے نماز اور قرآن پاک لینا تھا"
اُس نے وجہ بتانی چاہی اور شاید شرم بھی دلانے کی کوشش کی کہ ایک مسلمان ہوکر اُسکے گھر میں وہ چیزیں ہی نہیں جو گھر میں رہنے والوں کے مذہب کا پتا دیتی تھی...
"میں نے تُم سے وضاحت نہیں مانگی”
راحیل نے اُسے دوبارہ دھتکارا....
"اور ہاں آج رات کے لیے اپنی اِس شکل کو ٹھیک کرلینا اگر تمہیں یاد نہ ہو تو  بتا دوں آج ریسیپشن ہے"
راحیل نے اُسے سچ میں یاد دلایا وُہ بھول ہی گئی تھی....
"تمہارے کپڑے آجائے گے شام تک تو جہاں بھی جا رہی ہو واپس جلدی آجانا ...
وہمجھے تمہاری وجہ سے اگر ذرا سی بھی مُشکل ہوئی تو تُم سوچ لینا میں کیا کرسکتا ہوں"
اُس نے دھمکی دی...
وُہ کس مُشکِل کی بات کر رہا تھا وہ سمجھ نہ سکی....
                           ✳✴✳✴✳✴
"اُفو احد حد کرتے ہو تُم بھی ایک شرٹ لینے میں ۱۰ گھنٹے لگا رہے ہوں تم سے بہت جلدی میں نے اپنی ڈریسز لے لی....”
ماریہ اُسکی شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر شرٹس کو لگا لگا کر دیکھنے کی حرکت  سے آکر چڑ کر بولی...
"ہاں ۱ گھنٹے کو تُم جلدی بولتی ہو میرے دس منٹ کو تُم ۱۰ گھنٹے گناتی ہو"
احد اُسکی باتوں کا اثر لیے بغیر  دوسری شرٹ کو اٹھاتا ہوا بولا....
میں جا رہی ہو گاڑی میں جب تمہیں اِن سب سے فرصت مل جائے تو آجانا....
وُہ یہ کہہ کر شاپ سے باہر نکل گئی....
احد کی حرکتوں پر کڑتّی وہ بنا آگے دیکھے بڑھ رہی تھی کے بری طرح کسی سے ٹکرائی...
حسبِ عادت غلطی خود کے ہوتے ہوئے بھی سامنے والے کو سنانے کے لیے سر اُٹھایا ہی تھا...
مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر آواز نکل ہی نہیں پائی...
" سوری میں نے دیکھا ہی نہیں...”
ابوبکر اسکو پہنچانے بغیر بولا...
وہ پہچانتا بھی کیسے اُن دونوں کا باقاعدہ کوئی تعارف بھی نہیں ہوا تھا...
"آپ"
وہ صرف اتنا ہی بول سکی...
ابوبکر معزرت کرتا آگے بڑھ گیا....
"کیا اِس نے مُجھے پہچانا ہی نہیں"
"ابوبکر"
وہ بے اختیار پُکار بیٹھی...
ابوبکر واپس مڑا...
"آپ نے مُجھے پہچانا نہیں"
ماریہ نے آنکھوں میں آس لیے پوچھا...
"نہیں"
ابوبکر اپنی مخصوص کم گوئی سے کام لیتے ہوئے مختصر سا جواب دیا....
"ہنہ...مجھے جیسے پتہ نہیں ہے کیوں نہیں پہچان رہے"
ماریہ نے دل میں ہی خود کو تسلی دی...
"میں جازم بھائی کی کزن اُنکی خالہ کی بیٹی"
ماریہ کو جازم کے حوالے سے خود کو تعارف کرواتے ہوئے سبکی ہوئی کیونکہ یہ تعارف کوئی خوشگوار تو نہیں تھا....
جسکا اندازہ اُسے ابوبکر کے  بدلتے زاویے کو دیکھ کر ہوگیا...
"اوہ اچھا...سوری میں نے پہچانا نہیں"
ابوبکر کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے...
جازم کے انکار سے طیات کے راحیل کے لیے اِقرار تک کے سارے منظر دوبارہ آگئے....
"آپکا ہاتھ کیسا ہے اب"
ماریہ بات کرنے خاطر بولی....
جبکہ ابوبکر نے سوالیہ نگاہ سے اُسے دیکھا....
"وہ میں نے آپکو کُچھ دن پہلے ایک اسٹور سے نکلتے دیکھا تھا جب آپکے ہاتھ پر بینڈ لگا ہوا تھا  اور دیکھیں ابھی بھی تو لگا ہوا بس اسی لیے پوچھ لیا"
ماریہ نے فوراً وضاحت پیش کی...
"جی اب ٹھیک ہے"
"اُف گورمنٹ کیا اسکے کُچھ زیادہ الفاظ بولنے پر ٹیکس لگاتی ہے جو اتنا کم کم بول رہا ہے"
ماریہ نے جھنجلا کر سوچا....
"آپ کیا شروع سے ہی ایسے ہے یہ تازہ تازہ مُجھے دیکھ کر ایسے بنے ہیں"
وہ پوچھ بیٹھی...
ابوبکر کو اُسکی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا....
وُہ سمجھنا بھی نہیں چاہتا تھا... وُہ تو جانا چاہتا تھا مگر مروت آڑے آگئی....
"میری نہ بولنے کی وجہ سے تو میں اِس حال میں ہو"
دوبارہ درد اُٹھا....
"قسم سے مُجھے لگتا ہے سیکھا ہوا یہ رٹایا ہوا ہے یہ فیڈ کیا ہوا ہے کے زیادہ بول دے گا تو کوئی وائرس آجائے گا"
وہ زیرِ لب بولی....
"کُچھ کہا آپ نے"
"نہیں میں نے تو کُچھ نہیں کہا"
وہ گڑبڑا کر بولی...
"اللہ کیا یہ من پڑھ لیتا ہے...
کہی جادو وادو تو نہیں کرتا ویسے دکھنے میں تو شریف لگتا ہے....
ویسے چشمش لوگ صرف دکھنے میں ہی سیدھے لگتے ہے ورنہ بہت تیز ہوتے ہیں آخر کو چار چار آنکھیں جو رکھتے ہے"
وہ سوال اور جواب خود ہی کو دینے لگی...
”ٹھیک ہے میں چلتا ہوں بس کسی کام سے آیا تھا ہوگیا”
ابوبکر نے خود ہی جان چھوڑائی...
"اللہ حافظ"
ماریہ بھی کہہ کر جانے لگی....

" طیات "
ماریہ ابھی کُچھ قدم ہی بڑھی تھی شاپ سے نکلتی طیات کو دیکھ کر اُس نے آواز لگائی...
واپس جاتا ابوبکر وہ ایک نام سن کر اپنی جگہ ساکت ہوگیا....
آواز پر طیات نے آنے والی سمت کی طرف دیکھا تو ماریہ کو دیکھ کر اُس کو بھی اپنے ساتھ ہوئی ہر چیز دوبارہ یاد آگئی...
حالانکہ اِس سب میں اُسکی کوئی غلطی نہیں تھی مگر اُسکی ذات کا تعلق اور تعارف کی وجہ وہ شخص تھا جس کو طیات تو بھول نہیں سکتی تھی....
وُہ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لائے ماریہ کے پاس آگئی...
"اسلام و علیکم"
ماریہ نے سلام کیا...
"وعلیکم السلام"
طیات نے جواب دیا....
ابوبکر کی پُشت تھی دونوں طرف تھی اِس لیے
طیات اُسے اب تک دیکھ نہیں سکی....
"کیسی ہو آپ"
"ٹھیک ہوں تُم کیسی ہو"
طیات عام انداز میں بولی...
"مُجھے بہت دُکھ ہوا جو آپ کے ساتھ ہوا اُسے سُن کر"
ماریہ ہمدردی سے بولی....
طیات کے دِل میں کسی نے نشتر اُتار دیا...
وہ چُپ رہی جبکہ اب ابوبکر نے اپنے منہ اُن دونوں کی جانب موڑا....
طیات نے جیسے ہی ابوبکر کو دیکھا اُسکی نظر ہاتھ پر بندھے بینڈ پر گئی وُہ شرمندگی کے سمندرمیں پھر سے غرق ہوگئی...

"اسلام و علیکم....کیسی ہے آپ"
ابوبکر قدم اٹھا کر کُچھ قریب آیا....
"وعلیکم السلام...آپکا زخم کیسا ہے اب..."
طیات نے بغیر نظر ملائے پوچھا....
"کون سے زخم کی بات کررہی ہے آپ"
ابوبکر پوچھ بیٹھا...
"ابے الو کے پٹھے ہاتھ کے زخم کی ہی بات کر رہی ہے آنکھ میں تو زخم نہیں ہے نہ جہاں کا دیکھ رہا وہی کا پوچھ رہی ہے نہ....
ویسے تو کُچھ بولتا نہیں اب بول رہا ہے تو اُلٹے سیدھے سوال پوچھ رہا...."
ماریہ نے دل ہو ہی میں اُسے سرزنش کی...
طیات نے ابوبکر کے سوال پر اُسکی طرف دیکھا تو سوال کا مطلب صاف تھا....
"کون سے زخم جسم پے لگے یہ روح کے"
وہ یہ اندازہ کبھی نہیں لگا پاتی اگر  ابوبکر کے احساسات سے باخبر نہ ہوتی....
"آپکے ہاتھ کے زخم کا پوچھ رہی ہوں"
طیات نے نظریں چرائی...
"ہاں ٹھیک ہے اب یہ تو وقتی گھاؤ ہے مندمل ہو ہے جائے گا مگر وہ گھاؤ نہیں"
ابوبکر نے قصداً بات ادھُوری چھوڑی...
طیات کا دل کیا وُہ غائب ہوجائے بس....
"کتنا فضول بولتا ہے یہ کہی یہ ڈاکٹر تو نہیں تب ہی تو کب سے زخموں کی بات کر رہا ہے کب سے...”
ماریہ جو اُسکے نہ بولنے پر کڑ رہی تھی اب بولنے پر چڑ رہی تھی...
"اچھا ماریہ میں چلتی ہو مُجھے گھر جلدی جانا ہے ابھی بھائی سے بھی ملنے جاؤ گی میں پھر رات میں ولیمہ بھی ہے دیر ہوگئی تو راحیل غصّہ ہوگے ورنہ"
طیات نے دانستہ طور پر ابوبکر کو دیکھ کر کہا...
ابوبکر کے چہرے پر ایک تکلیف دہ مسکراہٹ آگئی....
طیات دونوں کو خُدا حافظ کہہ کر چلی گئی....
وُہ اِس بات سے بےخبر تھی اُس سے کُچھ ہی فاصلے پر کھڑے ایک اور شخص کی نظروں نے اُسکا دور تک پیچھا،کیا تھا....

طیات کے جاتے ہی ابوبکر بھی چلا گیا....
"ویسے تو بڑے باتیں کررہا تھا چشمش میرے وقت میں گلو لگ جاتی نہ بس ہوں ہاں کرتا...
جیسا کہ میں نہیں جانتی مُجھ سے کیوں بات نہیں کر رہا تھا ٹھیک سے....."
ماریہ نے اپنی طرف سے ہی نتیجہ اخذ کرکے خود کو تسلی دی....

                    ✴✳✴✳✴✳✴✳✴
"تُم میری بات نہیں مانو گی؟"
امان غصّے سے بولا...
"بھائی میں آپ سب کو اور مُشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی ...”
طیات  رسان سے بولی....
"میں نے کہہ دیا نہ کے تُم اب واپس نہیں جاؤ گی مطلب نہیں جاؤ گی"
امان  قطعی لہجے میں بولا......
"بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہے آپی آپ اب کہی نہیں جاؤ گی"
ایان نے بھی امان کی تائید کی....
"بھائی پلز مجھے جانے دیں میں حقیقت کو مان چُکی ہوں میں حقیقت میں زندگی گزارنا چاہتی ہو جانتی ہو تھوڑی مُشکِل ہوگی مگر اب میں اِس رشتے کو مان چُکی ہوں اور پورے صدق سے اِس رشتے کو نبھانا چاہتی  ہوں بھائی جن حالات میں بھی یہ رشتا جڑا ہے وُہ سب بُھول کر یہ دیکھیں کے یہ رشتہ ہوگیا ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ میں راحیل آفتاب کی بیوی ہوں اور کم از کم کوئی بھی بھائی اپنی بہن کے اوپر طلاق کا دھبہ  تو نہیں لگانا نہیں چاہئے گا”
طیات نے شائستہ لہجے میں اپنی بات مُکمل کی...
"پر گڑیا وُہ شخص ...”
"بھائی بس آپ یہ سوچ لیں کے یہ میری خوشی ہے آپ میری خوشی کی خاطر سب بھُلا کر حقیقت کو مان لیں...”
طیات امان کی بات کاٹ کر بولی....
"تُم خوش ہو مُجھے سچ بتاؤ"
امان بھی اب نارمل انداز میں بولا...
"بھائی خوشی کا تو پتہ نہیں مگر اللہ کی مرضی مان کر میں مطمئن ضرور ہوں"
"میری دعا یہی ہے بس تُم خوش رہو اِس سے زیادہ کیا چاہئے مجھے"
امان اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا....
"بھائی میں بس چلتی ہوں اب جلدی پہنچنا ہے  بھائی آپ بھی آئے گا نہ یہ میری ہی شادی کی ایک تقریب ہے آپ کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے"

"نہیں میں تمہیں تمہاری خوشی کی خاطر وہاں واپس جانے کی اجازت دے رہا ہوں کیونکہ تُم نے سچ کہاں کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ طلاق جیسا گھٹیا لفظ کبھی لگانا نہیں چاہے گا میں بھی ایسا ہرگز نہیں چاہتا کیونکہ یہ لفظ معاشرے میں انسان کی عزت کو ختم کرکے رکھ دیتا ہے میں نہیں چاہتا تمہیں اور دُکھ یہ تکلیف پہنچے...
مگر میں وہاں نہیں آسکتا کم از کم ابھی تو بِلکُل بھی نہیں"
امان اُسّے چھوڑنے گاڑی تک آیا....
"بھائی میں دوبارہ آؤ گی...
میری ایک بات مانیں گے آپ؟"
طیات رُک کر بولی...
"ہاں بولوں"
"بھائی آپ بھی اب شادی کرلیں گھر کو ہمیشہ ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے..آپ سمجھ رہے ہیں نہ میں کیا کہہ رہی ہوں"
طیات پُر امید نظروں سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی....
"میں کوشش کروں گا"
امان اُسے ٹالنے کی خاطر بولا....
"اللہ حافظ بھائی"
طیات امان سے دعائیں اور پیار لیتی گاڑی میں بیٹھ کر چل گئی.....
                      ✴✳✴✳✴✳✴✳✴
"خاتون آپ جانتی بھی ہے آپ کیا کہہ رہی ہے"
نواز صاحب نزہت بیگم کی بات پر سیخ پا ہوکر بولے....
"دیکھے نواز صاحب میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں مُجھے تو خود آپ سے یہ بات کرتے ہوئے  بہت شرمندگی ہورہی ہے پر میں کیا کروں عُمر بھر کے رشتے اگر بغیر مرضی کے جوڑے جائیں  تُو آگے جاکر بھی اُنہیں ٹوٹنا ہی ہوتا ہے پھر فائدہ ہی کیا اِنہیں جوڑنے کا آپ کو کیا لگتا ہے میں عامر کو زور دے کر شادی کے لیے راضی نہیں کرسکتی تھی...
مگر میں ایسا اِس لیے نہیں کر رہی کیونکہ ایسے رشتے پائیدار نہیں ہوتے آگے جاکر ایک ایسے پچھتاوے میں جس کا کوئی حاصل نہیں زندگی برباد ہوچکی ہوتی ہے تو بہتر یہی ہے کے ہم ابھی اِس رشتے کو ختم کردیں"
نزہت بیگم نے تفصیلی جواب دیا....
"آپکا کیا ہے آپ تو لڑکے والے ہے مگر میں کیا کروں میری بیٹی ہے اور ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اگر کلامی بات بھی ہوجائے تو ختم ہونے پر لڑکے کے اوپر کوئی اُنگلی نہیں اٹھاتا سارا اِلزام لڑکی کے سر ہی ہوتا ہے اور یہاں تو کوئی رسمی کلام نہیں باقاعدہ دُنیا کے سامنے منگنی ہوئی ہے میں  اُن لوگوں کو کیا جواب دو گا کیا کہہ کر اُنکا منہ بند کرو گا"

نواز صاحب کے لہجے میں شکست خوری در آئی...

"میں آپ کی ساری بات سمجھ رہی ہوں بھائی صاحب مگر میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کے میں نمرہ کے لیے بہت اچھا رشتہ ڈھونڈو گی....”
وہ اپنی جھینپ مِٹانے کی خاطر بولی....

"بہت شکریہ اور میں اپنی بیٹی کا بھلا بُرا آپ سے بہتر جانتا ہوں.....ہم پر آپ نے پہلے ہی بہت احسان کردیا ہے اِس سے زیادہ نوازش ہم برداشت نہیں کرسکے گے"
نواز صاحب تلخ لہجے میں بولے.....

نزہت بیگم آگے کُچھ بولنے کی ہمت نہیں کرسکی ....
"اللہ حافظ"
وُہ کہہ کر چلی گئی...
"ٹھیک تو کہاں تھا طیات نے کیا مِل گیا ایسے خاندان میں رشتہ جوڑ کر جس کے آگے پیچھے بہت لوگ ہے"
اُن کو طیات کی بات یاد آگئی....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro