Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۴

#میدان_حشر
قسط نمبر ۱۴

طیات اُسکے جانے کے بعد سوئی تھی اُسکی موجودگی میں نیند تو کیا نیند کا خیال بھی اُسے نہیں آتا تھا....

اُس کی آنکھ کھلی تو دوپہر کے ۲ بج رہے...
باہر کُچھ کھٹ پٹ کی آواز پر اُسکی نیند کھل گئی...
وہ جو اپنے گھر پے دُنیا سے بےخبر سکون کی نیند سوتی تھی اب ہلکی ہلکی سی آہٹ بھی اُسے خوفزدہ کر دیتی تھی...
اُسے بے اختیار اپنی ۱ ہفتے پہلے والی زندگی پر رشک آیا....
کس قدر اطمینان سکون تھا... اور اب...
بالوں کو جوڑے کی شکل دے کر وہ صوفے پر سے اٹھی....ہاتھوں سے لباس کی شکنیں دور کرنی کی کوشش کی...
کچی نیند سے اُٹھنے کے باعث سر میں درد ہوگیا تھا.....
وہ نہا کر باہر آگئی  تولیے سے بال پوچھنے کے بعد بال بنانے کی خاطر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی...
ایک نظر اپنے بجھے ہوئے اور مرجھائے ہوئے چہرے پر ڈالی اور اپنی حالت پر کون کہہ سکتا تھا کہ اُسکی شادی کو صرف ۴ دن ہوئے ہے نہ تو خوشی تھی نہ کوئی تازگی ....
اُسے مہندی کی رات جو کسی اور کے لیے بنائی گئی تھی... ایان کی بات یاد آگئی...

"ارے واہ کیا بات ہے آپی بہت پیاری لگ رہی ہو
آپ"
ایان نے سفید رنگ اور پیلے دوپٹے میں سادہ سی کھڑی طیات کو دیکھ کر کہا...
بغیر کسی میک اپ کے اُسکا قدرتی حسن ہی اُسے سب سے الگ بنا رہا تھا...

"اور آج"
طیات نے خود کو دوبارہ آئینے میں دیکھا...
برش پھینک کر اُٹھ گئی.....

"جو حقیقت ہے میں اُس سے بھاگ نہیں سکتی چاہ کر بھی میری زندگی کی سچائی وہ شخص ہے جس سے میں نفرت کرتی ہو...راحیل تُم نے جو میرے ساتھ اُسکی تکلیف صرف میں محسوس کرسکتی ہو مُجھ سے شادی کر کے تُم نے دُنیا کے سامنے خود کو ہیرو بنا دیا......
مرد چاہے عورت کو برباد کردے مگر اُسے کہنے والا کوئی نہیں ہوتا کُچھ بھی کرے ہم تو جاگیر ہوتے ہے اِن کی کوئی خواہش نہیں ہوتی ہماری...
ایک نکاح کر کے تُم نے خود کو افضل بنا لیا پر میرا کیا میرے ساتھ لگے الزام ساری عمر نہیں دھلے گے... دُنیا مجھے ہمیشہ ایک بدکردار لڑکی ہی سمجھے گی جو شادی سے پہلے"
اُسکی رگوں میں درد کی ایک لہر دوڑ گئی اُس منظر کو یاد کرکے..

رُخسار پر آئے موتیوں کو لڑی کو بے دردی سے توڑ کر اُس نے اپنے چہرے پر دوبارہ ہاتھ پھیرا....

دوپٹہ ٹھیک سے سر پر ٹکا کر وہ باہر نکل آئی....

نیچے ہال میں کھڑی ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی کام کرنے والوں میں تقریباً ساری لڑکیاں تھی وہ بھی خوبصورت...
طیات نے ایک نظر اُن لڑکیوں کو دیکھا اور پھر اپنی حالت کا اندازہ ہوا وُہ سب بلیک وائٹ کلرکا یونیفارم پہنے ہوئے تھی...
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ کچن میں آگئی....
سر درد دور کرنے کے لیے اُس نے چائے چڑھا دی.....

وہ خالی آنکھوں سے خلا میں کُچھ تلاش کرنے لگی....
اُبل کر گرنے  والی چائے کے چھینٹے اُسے دوبارہ کہی دور سے کھینچ کر واپس لے آئے....

                   ✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴

"نائلہ یہ تو وہی چشمش ہے "
ماریہ نے سٹور سے باہر نکلتے ہوئے ابوبکر کو دیکھ کر کہا..

"کون چشمش؟"
نائلہ نہ سمجھ آنے والے انداز میں بولی ....
"ارے ہاں تُم کیسے جانتی ہو گی تُم تھوڑی تھی مہندی میں"
ماریہ کو یاد آیا...
"ویسے کون ہے یہ؟"
نائلہ معنی خیز انداز میں بولی...
"یہ تُم اِس طرح کیوں دیکھ رہی ہو مجھے"
ماریہ کو نائلہ انداز پر کُچھ عجیب سا ہوا....

"اچھا چلو چھوڑو مِل تو جا کر اس سے اگر تُم جانتی ہو کے وہ کون ہے"
نائلہ مزید شرارتی انداز میں بولی....

"نہیں میں جانتی نہیں نہ کبھی بات ہوئی بس ایک دفعہ دیکھا تھا کسی کی شادی میں"
ماریہ نے فوراً بات بنائی...
"ہاں تبھی تو اُسکی شکل اب تک یاد ہے تمہیں"
"تُم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے"
ماریہ نے رکشے میں بیٹھتے ابوبکر کو دیکھا اُسکے ہاتھ پر بندھا بینڈ بھی دیکھا جو گردن کے پیچھے سے لے کر نیچے ہاتھ کی کہنے تک آرہا تھا....
"اسے کیا ہوا"
ماریہ بے ساختہ بولی جسے نائلہ نے بھی سُن لیا...
"اتنی ہی فکر ہورہی ہے تو پوچھ لیتی جا کر"
"بکواس کم کیا کروں نائلہ چلو مرو اب گھر چلو"
ماریہ نے کُچھ غصے سے کہا...
"ہائے...میری دوست گئی"
نائلہ بھی کہاں پیچھے رہتی...
"نائلہ کی نچی"
ماریہ نے اُسکے پاؤں پر زور سے اپنا پیر مارا...
"اُف... مُجھ سے کس بات کا بدلہ لے رہی ہو"
پیر کو سہلاتی نائلہ نے اُسے غصے سے دیکھ کر کہا...
"اب گھر چلو یہاں ناٹک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں"
"ایک تو اتنا بھاری پاؤں مار دیا اوپر سے بولتی ہو میں ناٹک کرتی ہو"
"دفع ہو تُم بیٹھی رہو اپنی ٹانگ کو کے کر میں تو جا رہی ہو"
ماریہ رکشہ روک کر بولی....
"اچھا مُجھے سہارا تو دو....”
"ہنہ....ڈرامے دیکھو"
ماریہ ہنس کر بولی..

رکشے میں بیٹھ کر بھی نجانے کیوں اُسکا دیہان غیر ارادی طور پر ابوبکر کی طرف گیا...

اُس نے سر کو جھٹکا اور پھر نائلہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی ....

                         ✴✳✴✳✴✳✴✳

"ابوبکر میں نے تمہیں کہا تھا باہر جانے کی ضرورت نہیں پھر تُم کیوں گئے باہر"
امان اب اُسکے سر پر کھڑا گرج رہا تھا...
"یار میڈیسن لینے گیا تھا بس”
"تو ایان کو بول دیتے وہ لا دیتا تُم کیوں باہر گئے”
امان نے غصے سے کہا...
"یار ایک تو ویسے بھی میں تمہارے اصرار پر تمہارے ساتھ رہ رہا ہو جب تک ٹھیک نہیں ہوجاتا ...پھر ایان کو بولنا مُجھے اچھا نہیں لگا کے میں تُم لوگوں کو پریشان کرو"
"تُم غیروں والی بات کیوں کر رہے ہو.."
امان کو اُسکی بات سے تکلیف ہوئی تھی..
"نہیں امان ایسی بات نہیں بس میں نے سوچا”
"تُم سوچا مت کرو ..آرام کرو تم ابھی مُکمل ٹھیک نہیں ہوئے ہو"
امان اب کی بار تھوڑا ڈانٹ کر بولا تو ابوبکر نے مزید کُچھ بولنے سے خود کو باز رکھا...

                          ✳✴✳✴✳✳
"راحیل ابھی اپنے آفیس سے نکلا ہی تھا اُسکا سامنہ مریم سے ہوگیا...
اُسے دیکھ کر راحیل کو سخت کوفت ہوئی...
اسے دیکھ کر بھی اندیکھا کرتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا...
وہ پیچھے پیچھے اُسکے ساتھ آئی پارکنگ تک....
"تُم ایسا کیسے کرسکتے ہو"
اُس نے راحیل کو کندھے سے پکڑ کر پیچھے اپنی طرف موڑا...
"یہ کیا حرکت ہے"
راحیل نے غصے سے گاڑی کا دروازہ بند کرا اور مُکمل اُسکی طرف متوجہ ہوگیا...
"تُم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو"
"کیا کیا میں نے تمہارے ساتھ"
وہ جتنی مشتعل تھی راحیل اب اتنا ہی پر سکون تھا...
"تُم شادی کیسے کرسکتے ہو؟"
"کیوں میں شادی کیوں نہیں کرسکتا؟"
اُس نے سوال کے بدلے سوال کیا...
"میں تُم سے محبت کرتی ہو تمہیں کیوں نہیں دکھتا یہ"
وہ اسکے تھوڑا اور قریب ہوئی...
"مگر میں تمہیں آج تیسری مرتبہ بتا رہا ہوں میں تُم سے محبت نہیں کرتا ...نہ میں نے تُم سے کوئی وعدے کیے کیوں پیچھے پڑ گئی ہو تم”
جھنجلاہٹ بیزاری کوفت غصّہ اُسکے انداز میں بیک وقت سب تھا..
"آخر کیا ہے اُس لڑکی میں ایسا....جو مُجھ میں نہیں ہے کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ”
راحیل نے تقریباً سینے تک پہنچ چکی لڑکی کو دیکھا بے ساختہ اُسکے منہ سے نکلا...
"وہ یہ سب نہیں کرتی اسی لیے وہ وہاں ہے تُم یہاں"
اُسے اپنی ہی آواز انجانی لگی....

"دو دن بعد ریسیپشن ہے  تُم آکر اسے دیکھنے کی حسرت پوری کرلینا"
راحیل یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گیا...
"تو آخر تمہیں بھی محبت ہو ہی گئی..."
مریم نے زور سے کہا...
جبکہ راحیل نے استیزائیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر ک کہا....
"محبت نہیں بس وقت گزاری ہے انسان کو کبھی کبھی مستقل مزاجی بھی ہوجانا چائیے...
اور مُجھ میں یہ مستقل مزاجی اسے دیکھ کر آئی ورنہ باقی جتنی لڑکیوں سے میں ملا ہو مُجھے فرق نہیں پڑتا کے وہ میرے بعد کسی سے بھی ملے جب کے اُسے میں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف میری ملکیت ہے راحیل آفتاب کی....
محبت بِلکُل بھی نہیں اُسکی حیثیت میری زندگی میں بلکل ایسی چیز جیسی ہے جسکی مُجھے خاص ضرورت بھی نہیں پر مجھے وہ کسی اور کے ساتھ کسی اور کے پاس برداشت بھی نہیں ہے"
اُس نے ایک طویل جواب دیا اُسکے مختصر سوال کا....
گاڑی اُس نے سائڈ سے نکال لی...
جب کے مریم کے اندر طیات کو دیکھنے کی  خواہش جاگی....

                      ✳✴✳✴✳✴✳✴

پورا دن بے مقصد گھر میں گھومنے کے بعد وہ باہر گارڈن میں آکر بیٹھ گئی....
اُس نے کُرسی پے سر ٹکا دیا...اور تازہ سانسیں اپنے اندر اتارنے لگی...
"چھوڑ دو مُجھے....چھوڑ دو"
وہی منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے دوبارہ آگیا...
اُس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دی تھی...
تازہ فضا میں یکدم گھٹن محسوس ہونے لگی...یہ گھٹن اُسکے اندر کی تھی....
"کب آخر کب میری  جان چھوٹے گی اِس سب جب بھی آنکھیں بند کرتی ہی وہی منظر وہی سب کُچھ میری آنکھوں کے سامنے زندہ ہوجاتا ہے...وہ منظر جہاں میری موت ہوئی تھی...”
طیات کی آنکھوں میں نمکین پانی بھرنے لگا...

"کہی بھی سکون نہیں کہی بھی چین نہیں ہے میں دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤ یہ ایک ایسا سچ ہے جو میری ذات سے جڑا ہے جسے میں چاہ کر بھی خود سے کبھی الگ نہیں کرسکتی...
اِس کا سیدھا تعلق میری روح سے ہے تو یہ درد تو مرنے کے بعد بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا...
کیونکہ موت تو ہمارا تعلق جسم اور دُنیا سے ختم کرتی ہے روح سے تو تعلق اور مضبوط ہوجاتا ہے کیونکہ جب تک زندہ ہوتے ہیں کُچھ چوٹیں جسم پر لگ جاتی ہے روح تک نہیں پہنچ پاتی کُچھ صرف جسم پر نہیں بلکے بے حد بے باکی سے دندناتی ہوئی روح پر جا لگتی ہے کبھی نہ ٹھیک ہونے کے لئے ہمیشہ اذیت دینے کے لیے...”
اُس نے بھی اذیت سے سوچا....
گاڑی کے ہارن کی آواز پر اُس نے اُس طرف دیکھا....
جہاں وہ کھڑا تھا ...اذیت دہندہ....
پتا نہیں کیوں اِس بار اُسے دیکھ کر طیات نے منہ نہیں پھیرا بلکہ نظروں کو اُس پر ٹہرا کر  اُسے دیکھنے لگی...
وہ اُسکی نظروں سے بے خبر اُسکی موجودگی سے بے خبر داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا...

جب کے طیات کی نظروں نے اُسکا نظروں سے اوجھل جانے تک تعاقب کیا....

                           ✴✳✳✴✳✴

"لائے میں رکھ دیتی ہو"
اُس نے کوٹ ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دیا....
مقابل شخص کے چہرے پر مسکراہٹ آئی....

"آپ کیوں کرتی ہے یہ سب...
اِن سب کاموں کے لیے ملازم ہے..."
اُس نے شرٹ کے اوپر کے بٹن کھول کر ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی....
اور صوفے پر بیٹھ گیا....
وُہ اب اُسکے جوتے اُتارنے کے لیے جھکی....
اُس نے اپنے پیر فوراً پیچھے کیے....

"کیا کررہی ہے آپ...
پلز خود کو مت اذیت دیں...”
اُس نے کندھوں سے تھام کر اُسے اٹھایا...

"آپ یہ سب کیوں کرتی ہے"
"یہ سب کرنا میرا فرض ہے اور...."
"میں اِس کی بات نہیں کر رہا آپ جانتی ہے میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں"
وہ اُسکی بات کاٹ کر بولا..

سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی پر کُچھ اثر نہ ہوا...
اب وہ اُٹھ کر اُسکے لیے وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگی...
"آپ نہا لیں میں جب تک آپکے لیے چائے لاتی ہوں"
وہ کپڑے نکال کر باتھروم میں رکھ آئی...
"میری بات سنیں....”
وہ اُسکی کلائی تھام کر بولا....

"جب کی اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی اُسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی "
"آپ روئے تو مت آپ جانتی ہے مُجھے آپ کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں"
وہ اپنی اُنگلی سے موتی چن کر بولا....

اتنی محبت اتنی شدت پر اُسکا دِل بھر آیا...
اُس نے بنا کُچھ کہے اُسکے کشادہ سینے میں خود کو چھپا لیا...
اُس نے بھی اپنے بازو اُسکے گرد حائل کردیے....

آج کتنے دنوں بعد اُسکی چُپ ٹوٹی تھی...
پورے ۲ سال بعد وہ روئی تھی....
اِن دو سالوں میں خود کو پتھر کا کرلیا تھا مگر  آج اتنی محبت پر وہ ہار گئی تھی...
وُہ شخص مسلسل اُسکی دل جمعی میں لگا رہتا تھا....
مگر وہ چپ رہی پرانے کُچھ زخم تھے جو اب بھی وقفے وقفے سے ہرے ہوتے تھے...
دونوں میں سے کسی نے بھی کُچھ نہیں بولا....
وہ روئے جارہی تھی جبکہ وہ اُسکے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا...
وہ اُسکے اِس قدر قریب تھی....وہ اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور خود کو روک نہیں پایا....
اُسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے...
یہ حرکت اُسکے لیے غیر متوقع تھی... قابل اعتراض نہیں...
اُس نے ایک نظر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا اور اُسے بے اختیار نجانے کیوں اُس سے ہوئی پہلی تلخ ملاقات یاد آگئی....

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟میں ہی ہوں آپکا شوہر؟"
اُس نے دلفریب مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا...
اُس کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر گئے....

ابھی وہ ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے...
ایک عورت اندر گھبرائی ہوئی اندر داخل ہوئی....
"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ"
وہ انہیں اِس قدر گھبرایا ہوا دیکھ کر روایتی شرمانا بھول گئی...
"وہ انہیں"
اُس نے کسی کا نام لیا..
"کیا ہوا اُس کو"
دونوں ایک ساتھ بولے...
جبکہ اُسکے دل بیٹھنے لگا...
اِس سے آگے سُن کے اُسے اپنا وجود منوں بھاری محسوس ہونے لگا...
جلن ہونے لگی تھی...
بڑی بے رحمی سے اُسکی روح جھلسنے لگی تھی....

                          ✴✳✴

" 2 دن بعد ریسیپشن ہے یہ لو پیسے اور جاکر کُچھ لے آؤ اپنے لیے"
راحیل نے چند ہزار کے نوٹ اُسکی طرف کیے...

طیات نے پہلی بے حد حیرانی سے اُسکے الفاظ سُنے پھر حیرانی سے اُسکا چہرہ دیکھنے لگی....

"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"
راحیل کو اُسکا انداز عجیب لگا....

"تُم سے نکاح کرنا میری مجبوری تھی پر یہ سب کرنا میری مجبوری نہیں ہے یہ سب کُچھ وہاں اچھا لگتا ہے جہاں شادی ہوتی ہے تُم تو اُٹھا کر لائے ہو مُجھے بندوق کی نوک پر"
وہ طنز کرے بغیر نہیں رہ سکی....

"تمہیں بھلے نہ ہو پر مُجھے ہے ضرورت  سمجھی تُم سے جتنا کہا ہے نہ بس وہ کرو اپنا دماغ مت چلاؤ سمجھ گئی"
وہ اُسکے ہاتھ پر اپنی اُنگلی پھیرتا ہوا بولا...

طیات نے فوراً اپنا ہاتھ ہٹایا...

"تُم سے ہزار بار کہا ہے مُجھے ہاتھ مت لگایا کرو...اگر آئندہ ہاتھ لگایا نہ تو"
اُس نے تنبیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا...

"تُم شاید بھول رہی ہو پہلے بھی تمہیں ہاتھ لگانے کا حق صرف  مُجھے تھا اور اب بھی تُم مُجھ سے بچ نہیں سکتی مُجھ سے ....
میں دوبارہ کہہ رہا ہوں تُم صرف اور صرف میری ہو ...
تو اپنی فالتو کی ضد چھوڑ دوں....
میں زور زبردستی کا قائل نہیں ہو"
راحیل نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے کہا....
وہ تھوڑا سا استيزایہ ہنسی...
پھر بولی...
"یہ بات مُجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے تُم زور زبردستی کے کتنے خلاف ہو"
اُسکے الفاظ اُسّے لوٹا کر وہ صوفے پر جاکر لیٹ گئی اور چادر منہ تک اوڑھ لی....

                       ✳✴✳✴✳✴✳✴

"اسلام و علیکم"
عامر نے اسلام کیا....
جب کے وہ چُپ رہی....

"شاید آپ بہت پریشان ہے کسی بات پرمگر سلام کا جواب دینے میں تو کوئی قباحت نہیں"
وہ بڑی نرمی سے بولی....

"وعلیکم السلام"
نمرہ نے لٹھ مار جواب دیا...

"کیا بات ہے اتنا غصّہ کس بات پر آرہا آپکو کُچھ ہوا ہے کیا"
عامر نے اب بھی اُسکے رویے کی تلخئ کو نظرانداز کرکے اُس میں بھی فکر ڈھونڈ لی...

"نہیں کُچھ نہیں ہوا... بس میری کُچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے شاید"
نمرہ قدرے سنبھل کر بولی اِس بار....

"خیریت کیا ہوا آپکو...چلیں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے"
وہ پریشانی سے بولا..
"میں نے کہا نہ میں ٹھیک ہوں...آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے..ویسے کیسے آنا ہوا آپکا؟"
اب وہ غصّے میں بولی....

"ارے آپ غصّہ تو مت ہوں میں نے بس پوچھ لیا...میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا ملتا چلو...
مُجھے لگتا ہے آپکو میرا آنا بُرا لگا؟"
وہ شرمندگی سے بولا...
اُس نے جواب دیے بغیر پہلو بدل لیا...سامنے رکھے گلدان کو تکنے لگی....
اس نے بطور اُسے دیکھا...اُسے سوال کرنے میں مزید آسانی ہوگئی....
"نمرہ آپ اِس رشتے سے خوش تو ہے نہ..
میرا مطلب یہ آپ کی مرضی سے تو ہوا ہے نہ"
وہ اُسکے چہرے کے  تاثرات کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا...

"آپ ایسا کیوں پوچھ رہے ہے"
نمرہ اِس سوال پر گڑبڑا گئی...

"کیوں کے میں دیکھ رہا ہوں جب سے ہماری بات طے ہوئی اور ہم جتنی بار بھی ملے ہیں میں نے کبھی آپکے چہرے پر خوشی نہیں دیکھی ہر بار میں نے اپنا وہم سمجھ کر ٹالا مگر میں پچھلی کُچھ ملاقاتوں میں واضح طور پر محسوس کر رہا اپکا کھنچا کھنچا سا انداز سرد رویہ بے مروتی "
وُہ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اُسے احساس دلا رہا تھا....
نمرہ کی آواز اٹک گئی وہ کُچھ نہ بول سکی...

"اگر ایسا کُچھ بھی ہی کے آپ کے ساتھ زبردستی کی جارہی ہے یہ پھر آپکی پسند کے بغیر یہ رشتہ ہوا ہے تو آپ مُجھے بتا سکتی ہیں...میرے خیال سے میں اتنے دنوں میں آپکا دوست تو بن ہی گیا ہوں"
وہ رسانیت سے بولا....

نمرہ اب بھی خاموش سر جھکائے بیٹھی رہی....
زمین کو تکنے لگی...

اُسکو خاموش بیٹھا دیکھ کر وہ دوبارہ بولا...

"اگر آپ کسی.."
وہ بولتے بولتے رُکا اور نمرہ کے چہرے پر نظر جما لی...
"اگر آپ کسی اور کو پسند کرتی ہے تو مُجھے بتا دیں میں اِس رشتے سے انکار کردوں گا"
نمرہ کا چہرہ فق ہوگیا....

اُس نے نمرہ کی فق ہوتی رنگت کو دیکھا اور اُسکو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا...

"آپ فکر مت کریں...
آپ پر کوئی بات نہیں آئیگی میں اپنی طرف سے انکار کردوں گا"
نرم شائستہ انداز میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی...

"میں نے کب کہاں کے میں"
نمرہ نے کمزور سا احتجاج کرنا چاہا....

"میں سمجھ سکتا ہو آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے ....
اور ویسے بھی آپ کُچھ غلط خواہش بھی نہیں کر رہی پر پتا نہیں کیوں آپکے گھر والے زبردستی کیوں رہے ہیں آپکے ساتھ میں اِس معاملے میں آپکی مدد ضرور کرتا مگر انکار کرنے کے بعد انکل آنٹی کو آپکی پسند کی شادی کے لیے راضی کرنے کی کوشش سے سوال آپ پر اُٹھے گے.... کہ آپ نے کہا ہوگا مُجھے...
اور یہ میں نہیں چاہتا....”
نمرہ اُس کے آخری الفاظوں پر چونک کر اُسے دیکھنے لگی...
اُن عقابی نظروں میں کُچھ تاثر تھا جسے نمرہ ایک نظر میں سمجھ گئی اور نظریں چرّا لی....
نمرہ بنا کُچھ کہے چلی گئی...

جبکہ عامر کے چہرے پر تاسف بھری مسکراہٹ آئی...
آنکھ بند کی اور گہری سانس اندر اُتاری....
اُٹھ کر باہر کی طرف بڑھ گیا...

                      ✴✳✴✳✴✳✴✳

اُسکی آنکھ صبح فجر کے وقت کھل گئی تھی....
پچھلے کئی دنوں سے اُسکی نماز قضاء ہورہی تھی یہ پھر وہ خود بھی کوشش نہیں کرتی تھی...
کوشش ہی انسان کو کامیاب کرتی ہی....
اُس نے كسلمندی سے آنکھیں مسلی اور کانوں میں آتی آذان کی آواز پر مُکمل طور پر اُٹھ کھڑی ہوئی...
ایک نظر سوتے وجود پر ڈالی جو بے خبر سو رہا تھا...
”آذان کی آواز پر آنکھ انہی کی کھلتی ہے جسے اللہ اپنی عبادت کرتا دیکھنا چاہتا ہے...
جیسے وہ آج چاہتا ہے میں پڑھو
پچھلی نمازے میں نے نہیں چھوڑی اللّٰہ نے نہیں چاہا مُجھے اپنے سامنے کھڑا کرنا...”
اُس نے دل میں سوچا.....

وضو کرکے وہ جا نماز تلاش کرنے لگی...
پر بھلا کبھی ناپاک جگہ خُدا ملا ہے...
تُو خدا سے رابطے کی شے کہاں سے ملتی....

طیات نے اُس گھر کو ناپاکیزہ جگہ کہا....

"کعبہ کیا یہاں بھی ہی"
آواز کہی اندر سے آئی
"کعبہ اپنی سمت میں ہے اِس بات سے بے خبر کہاں کیا ہے وہ شروع سے اپنی سمت میں ہے اور قیامت تک رہے گا"
اُس نے ایک طرف جس طرف کعبہ تھا وہاں ایک صاف چادر بچھا لی جائے نماز نہ ملنے کی وجہ سے...
دوپٹے کو چہرے کے گرد لپیٹا اور نیت باندھنے کھڑی ہوگئی...
سلام پھیرنے کے بعد اُس نے ایک نظر دوبارہ بیڈ کی طرف اٹھائی اُس نے کروٹ لی تھی...مگر بےخبری اپنی جگہ تھی....

دعا کے لیے ہاتھ ااٹھائے...
"اے اللہ دُنیا کے تمام لوگوں کی مُشکلیں دور فرما...
اُن کی پریشانیاں دور فرما...
بیماروں کو صحت اتا فرما..
تنگ دستوں کی تنگ دستی دور فرما...
بے روز گاروں کو حلال روٹی عطا فرما...
بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لا...
ہر ماں کی گود بھرا رکھ...
تمام مومن مرد مومن عورتوں مسلمان مرد مسلمان عورتوں کو بخش دے.
اگرچہ میں بہت گُنہگار ہو پر میں یہ بھی جانتی ہو تیری رحمت تیرے غضب پر غالب ہے....
یا اللہ مجھے راہِ حق دکھا دے اور اُس پر چلنے کی توفیق عطا فرما...
مُجھے باطل راستہ بھی دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق مرحمت فرما...
جس اِنسان کے ساتھ تُو نے میرا جوڑ بنایا ہے....
اُسے راہِ راست پر لا"
اُسکی کتنے دنوں کی اُلجھن آج سلجھ گئی تھی وہ کیا چاہتی تھی اُسکے خدا نے اُسکے لیے کیا چنا تھا اُسکے سامنے تھا گرہیں کھلنے لگی تھی...
دماغ دل دونوں اتفاق رکھتے تھے...
وُہ نفرت یکدم ہی کہی چلی گئی تھی....
وہ اپنے رب کے سامنے تھی وُہ ذاتِ اقدس اُسکے دماغ پر پڑی گرہیں کھول رہا تھا.....
"میرے بھائیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا...
مُجھے تو اپنی نعمتوں پر شکرگزاری کی توفیق عطا فرما...
تُجھ سے اپنے سارے  گناہوں اور سیاہ کاریوں کی معافی کی طلب گار ہو مُجھے معاف فرما دے...
ہم سب کے لیے ایمان کو محبوب بنا دے...فتنوں سے بچنے کے لیے ہمیں اسلام کی حالت میں زندہ رکھ اور اور موت عطا فرما...
تیری رحمت کے ساتھ تیری معافی کی طلب گار"
آمین...
ہاتھ کو منہ پر پھیرا اور پھر چادر سمیٹ کر کھڑی ہوگئی.....
ایک طائرانہ نگاہ دوبارہ سامنے ڈالی اِس بار اُسکے دِل کو عجیب احساس ہوا نفرت کا نہیں کُچھ ایسا جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی... نماز میں اُس نے  اپنے رب سے راہ مانگی تھی اُس نے راہ دکھا دی تھی....
وہ خودبخود چلتی اُسکی طرف آئی اور ساتھ بیٹھ گئی وہ اب بھی سو رہا تھا ایک ہاتھ کو گردن کی نیچے رکھے دوسرے ہاتھ میں تکیہ پکڑے...
اُسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی...
اُس نے آہستہ سے ہاتھ میں پکڑا تکیہ سر کے نیچے رکھا اور ہاتھ سینے پر...
وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے اُسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا مگر اُسکا دل چاہ رہا تھا یہ سب کرنے کے لیے وہ تو اُس شخص سے نفرت کرتی ہے...اُس نے اپنے دل کو ٹٹولا کوئی احساس نہیں کوئی جذبہ محسوس نہیں ہوا سوائے نفرت کے پھر یہ سب کیوں؟؟؟
اُسکے اندر بے چینی بڑھ گئی...
اُس نے ایک بھرپور نگاہ اسکے چہرے پر ڈالی دِماغ پہلا آنے والا خیال کُچھ یو آیا...

"سوتے ہوئے ہی اچھا لگتا ہے بلکہ بہت اچھا لگتا ہےمگر جب اُٹھتا ہے تو ذلیل اور کمینہ بن جاتا ہے"
اپنے خیال پر خود ہی مُسکرا دی...
بے اختیار سر کو جھٹکا گویا اِن سب سوچو سے آزادی چاہ رہی ہو...
"ایک سچ یہ بھی ہے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کر سکوں گی جو تُم نے میرے ساتھ کیا ہے"
اُسکی سوچوں میں پھر تلخئ آگئی....
پھر نخوت سے پہلو بدلا اور کمرے سے باہر نکل گئی...

باہر آکر بھی اُسکے اضطراب میں کمی نہیں آئی وہ مضطرب ادھر اُدھر گھومتی رہی...
وہ چائے بنانے کے لئے کچن کی طرف  چل دی....

چائے بنا کر اُسکا ارادہ گارڈن کی طرف جانے کا تھا مگر ایک حل میں سے گزرتی کونے پر بنے ایک کمرے کو دیکھ کر وُہ رُک گئی...
چونکنے کی وجہ کمرہ نہیں اُس پر لگا تالا تھا...
اُس نے اب تک اِس گھر میں کسی بھی کمرے کے دروازے پر تالا لگا نہیں دیکھا تھا...
چائے کے کپ کو ٹیبل پر رکھ کر اُسکے قدم بے اختیار کمرے کی جانب  اُٹھ گئے...

دروازے تک پہنچ کر اُس نے دیکھا وہ کی عام تالا نہیں تھا وُہ ایک کوڈ سے ہی کھولنے والا تھا...
اگر چابی سے کھل سکتا تو وہ بھی کوشش کر لیتی...
مایوس ہوکر اور اپنے اندر تجسس لیے جیسے ہی وہ پیچھے مڑی کسی سخت چیز سے ٹکرائی اُس نے اپنا سر مسلہ جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے کھڑے اِنسان کو دیکھ کر اُسکی ہوا خُشک ہوگئی....
"یہاں کیا کر رہی ہوں"
وہ انتہائی سرد لہجے میں بولا.....
"بس ایسے ہی میں تو"
اُسکی زبان اُسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی...
"تمہیں جہاں بھی گھومنا ہی گھومتی پھرو آئندہ مُجھے اِس کمرے کی طرف نظر آئی تو اپنی حالت کی ذمےدار صرف تُم خود ہوگی...."
راحیل نے اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرا...

طیات حیرت سے اُسے دیکھنے لگی...
"اب کھڑی دیکھ کیا رہی ہوں... دفع ہو یہاں سے اُس نے باقاعدہ کندھے سے پکڑ کر اُسے دھکا دیا اگر دیوار کا سہارا نہیں ہوتا تو وہ اوندھے منہ کے بل زمین پر گرتی...
"میں پہلی اور آخری بار بول رہا ہوں اِس حصے کے ۱۰ میٹر کے دائرے میں بھی تُم مُجھے دکھی تو مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ کوئی جب بھی اسکے قریب آئے گا مُجھے پتا چل جائے گا...
تو دور رہنا ۱۰۰ قدم دور سمجھ گئی"
راحیل نے شعلہ بار آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا....
پھر واپس سیڑھیوں کی طرف چلا گیا...
طیات کبھی جاتے راحیل کو دیکھتی کبھی کمرے کے دروازے  کو....

                        ✳✴✳✴✳✴✳

"کیا بات ہے بیٹا پچھلے ۱ ہفتے سے میں تُجھے دیکھ رہا ہوں  روز یہاں آکر بیٹھتا ہے بے چین ہوتا ہے روتا ہے پھر چلا جاتا ہے؟"
سامنے بیٹھے شخص کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے....
"پریشان ہے؟ مایوس ہے؟"
اب کی بار اُسکی آنکھوں کی پتلیوں میں حرکت ہوئی ہونٹ بولنے کے لئے کپکپانے لگے...

"مایوسی کفر ہے..."

﴾ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ﴾

"جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"،
اُسکے ساکت وجود میں دوبارہ جنبش ہوئی...

اللہ پر توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے، اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے، بعض حضرات ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب اختیار کئے بغیر اللہ پر توکل
کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں،
وُہ دم سادھے اُنکی باتیں سُن رہا تھا جو بغیر بتائے اُسکا مسئلہ جان گئے تھے...

اس قسم کے توکل کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، قرآن میں ایسی تعلیم ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسی کوئی تعلیم دی ہے۔
اُسکو اپنے جلتے وجود اور پھوار پڑتی محسوس ہوئی....
اس بات پر قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام اور سلف صالحین امت کے واقعات شاہد عدل ہیں۔
ہم پہلے قرآن کریم سے توکل کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ﴾  "جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"۔
انہوں نے دوبارہ دہرایا...
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین ﴾(یونس: 84)
"اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو"۔
اُسکو اپنے اندر نئی ترنگ محسوس ہونے لگی...
نیز ارشاد الہی ہے:
﴿ وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین ﴾ (المائدہ: 23)
"تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے"۔

نیز ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون ﴾ (التوبہ: 51)
وہ مسلسل اُس کے ذہن کا بوجھ کم کررہے تھے...
"مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے"۔
ان آیات پاک میں اللہ تعالی نے مومنوں کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا حکم اور اس کی انتہائی ترغیب دی ہے۔
وہ اُنہیں سنتے رہنا چاہتا تھا اور وہ وہی کر رہا تھا....

                       ✳✴✳✴✳✴✳✴✳

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro