قسط نمبر ۱۲
#میدان_حشر
قسط نمبر ۱۲
"تُم کیوں منہ بنائے بیٹھی ہو"
احد نے اُسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا....
"تُم اچھے سے جانتے ہو وجہ پھر بھی پوچھ رہے ہو"
ماریہ نے دُکھ بھرے انداز میں کہا...
" طیات کے ساتھ بہت برا ہوا....کتنی معصوم ہے وہ تو مگر اب کیا حالت ہورہی ہو گی اُن کی....
میں تو اُن سے پہلی بار ملی تھی مگر مُجھے لگا ہی نہیں کے میں پہلی بار مِل رہی ہو مُجھے لگا میں اُنہیں بہت وقت سے جانتی ہو....
مجھے تو سوچ کر بھی تکلیف ہورہی ہے احد جو اُن کے ساتھ ہوا ہے وہ کس قدر تکلیف اور اذیت میں ہوگی...."
وہ ہمدردانہ انداز میں بولی...
"احد کیا ہوجاتا اگر جازم بھائی اُن سے شادی کر لیتے....
اِن سب میں اُن کی کیا غلطی تھی..
مجھے جازم بھائی سے اِس قدر کم ظرفی کی اُمید ہرگز نہیں تھی"
ماریہ کے لہجے میں درشتگی در آئی...
"ماریہ....
پلز یہ کوئی ٹی وی فلم یہ کہانی نہیں ہے پریکٹکل لائف ہے اور جس رویے کی تُم بات کے رہی ہو وہ سب کہانیوں میں ہی اچھے لگتے ہے...
جازم بھائی کسی بھی فلم کے ہیرو یہ ناول کا کوئی کردار نہیں ہے جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہو برائیوں سے بلکل پاک....
جازم بھائی بھی ایک اِنسان ہے اسی سوسائٹی کے ایک مرد کُچھ نام نہاد لوگوں کے بنائے گئے اصولوں یہ معاشرے کی طے کردہ حدود میں رہتے ہے اور اُن اصولوں پر عمل کرکے ہی وہ سوسائٹی میں مو کرسکتے ہے....
میں یہ نہیں کہہ رہا کے جازم بھائی نے ٹھیک کرا میں بلکل بھی اُنکے اِس قدم کی حمایت نہیں کر رہا....مگر میں اُنکے اس عمل کو فطری ہی کہو گا....
سب چھوڑو تُم یہ بتاؤ..."اگر جازم بھائی کی جگہ میں ہوتا کیا تب بھی تمہارے خیالات یہی ہوتے...."
احد اُسے زندگی کی تلخ حقیقت دکھا رہا تھا....
وہ زندگی کی تلخ حقیقت سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی مگر احد نے اسے دنیا کی سچائی سے روشناس کرایا...
"کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہوتا جازم بھائی خود ایک عام انسان ہی ہے بالکل ہماری طرح....
اگر ہم لوگوں میں صبر برداشت درگزر کا مادہ ہو تو ہم لوگوں میں اور فرشتوں میں کیا فرق رہ جائے گا....”
"تُم ٹھیک کہتے ہو احد مگر طیات کے ساتھ بہت بُرا ہوا"
ماریہ اپنے موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی.....
"غلط تو تب ہوتا نہ جب وہ لڑکا طیات کو اسی طرح چھوڑ دیتا...اگر اُس نے عزت کی چادر اُسکے سر سے چھینی تو اپنے نام کی عزت بھی تو اُسے دی ہے"
احد بڑے مطمئن انداز بولا....
جبکہ ماریہ کو احد کی یہ بات سخت نگوار گزری...
"کتنا آسان ہے تُم لڑکوں کے لئے....مطلب کوئی ندامت نہیں کُچھ نہیں لڑکی کی اپنی کوئی مرضی نہیں اُسکی کیا خواہش ہے کوئی یہ کیوں نہیں جاننے کی کوشش نہیں کرتا"
ماریہ نے اُسے کڑے تیوریوں سے گھورتے ہوئے کہا....
"توبہ ہے ویسے....ماریہ جانِ چھوڑو میرے تُم کو منہ لگا لیا تو لٹک ہی جاتی ہو"
احد نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی....
"ہنہ.... آئے بڑے تُم سے بات کرتی میری جوتی اور تمیز سے بات کیا کرو مُجھ سے پورے ۳ منٹ بڑی ہو تُم سے...."
ماریہ نے اُسکو چھیڑتے ہوئے کہا...
"ہاں تُم نے پتہ نہیں کون سہ احسان کرلیا 3 منٹ پہلے آکر عذاب ہی اُترنا تھا زمین پر 3 منٹ بعد اُتر جاتا..... کم از کم مُجھ جیسے نیک شریف پیارے معصوم ہینڈ سم اسمارٹ لڑکے کے ساتھ دُنیا میں آتے ہوئے تمہیں شرم کرنی چاہیے تھی..."
احد بھی فورم میں آگیا....
"توبہ توبہ کرو احد....تمہیں پتہ ہے نہ اللّٰہ کو جھوٹ ذرا بھی نہیں پسند اور تُم تو سفید جھوٹ بول رہے ہو....تمہاری بولی گئی ایک بھی صفات مُجھے تو نہیں دکھتی.... ہاں پر تُم رج کر کمینے اور نکمے ضرور ہو"
نکمے لفظ پر احد ہتھے سے اُکھڑ گیا....
"نکمی ہو تُم.... سمجھی دن بھر بیٹھی بس ٹھوستی رہتی ہو بکرے کی طرح جگالی کرنے کی عادت تمہیں ہے اور مُجھے نکما بولتی ہو"
احد بھی کٹنی عورتوں کی طرح لڑنے آگیا....
"بی بی دور رہو مُجھ سے....ایک تو پتا نہیں تمہاری یہ بوا دادی چاچی محلے کی عورتوں کی طرح لڑنے کی عادت پتہ نہیں کب جائیگی"
ماریہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا....
احد تپ گیا....
"آئندہ مُجھے یہ الفاظ مت کہنا منہ نوچ لوں گا تمہارا میں”
سخت جل کر گویا ہوا....
"کیا کروں میرے بھائی......
سارے لچھن تو وہی ہے دیکھو ابھی بھی جاھل لڑاکا عورتوں کی طرح بول رہے ہو...."
ماریہ نے دوبارہ اُسے چڑایا...
”ماریہ کی بچی”
وہ اُسکی طرف لپکی....
جب کے اُسکی متوقع اقدام کے پیش نظر وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی....
✴✳✴✳✴✳✴
"ڈاکٹر اب کیسی طبیعت ہے ابوبکر کی"
امان نے ڈاکٹر سے پوچھا....
"ہم نے آپریشن کرکے بلٹ نکال لی ہے مگر ابھی بھی وہ مُکمل طور پر خطرے سے باہر نہیں ہے آپ دعا کریں"
ڈاکٹر اپنی روایتی تسلی دے کر چلے گیا....
امان گرنے کے انداز میں چیئر پر بیٹھ گیا....
"بھائی سنبھالے خود کو"
ایان نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا....
"کیا سنبھالو کیا سنوارو میں سب ٹوٹ گیا ہے ختم ہوگیا ہے جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا....
طیات آج اُس گھٹیا ذلیل انسان کے ساتھ ہے جس کے منہ سے میں اپنی بہن کا نام سننا بھی برداشت نہیں کرسکتا....آج میری گڑیا اُس کی بیوی بن گئی ہے اور میں کُچھ نہیں کرسکا میں کس قدر بے بس ہوگیا تھا"
امان صدمے کی حالت میں پھٹ پڑا....
"بھائی پلز خود کو سنبھالے اگر آپ ہی ہمت ہار جائینگے تو ہم کیسے آپی کو واپس لائے گے"
ایان نے اُسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے ہمت دی...
"ہاں میں اپنی بہن کو اُس منہوس اِنسان کے پاس سے واپس لے کر آؤ گا...اپنی بہن کو اُس گھٹیا انسان کے ساتھ ہرگز نہیں رہنے دو گا"
امان نے بھی فیصلہ کرلیا....
"ابوبکر ٹھیک ہوجائے بس اللّٰہ کرے اگر اُسے کُچھ ہوگیا تو میں خود کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاؤ گا...ہماری وجہ سے اُسے اتنی سب کُچھ بھگتنا پڑ رہا ہے..."
امان نے رنجیدہ ہوکر سوچا....کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا ابوبکر صرف اُسکی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی محبت کے خاطر یہ سب کر گزرا تھا....
✴✳✴✳✴✳✴
"کیا تُم نے شادی کرلی....کب کری کس سے کری؟"
عمر نے بے یقینی کے عالم میں اُسکی طرف دیکھتے ہوئے ایک کے بعد ایک سوال کیے...
"ہاں کرلی.. آج کری ہے.. طیات سے کری ہے "
اُس نے بھی کسی روبوٹ کی طرح بس اتنا ہی کہا جتنا پوچھا گیا تھا....
"اب یہ طیات کون ہے"
عُمر نے اُلجھ کر پوچھا....
"وہی اُس رات والی جس کے لیے تو نے مجھے"
"ہاں وہی"
راحیل نے اُسکی بات کاٹ کر کہا......
"پر تو"
"مُجھے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی...."
راحیل نے دوبارہ اُسکی بات کاٹی...
"پر کیوں مُجھے جاننا ہے یار تُجھ جیسے بندے نے"
"میں کہہ رہا ہو نہ مُجھے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی"
راحیل نے مسلسل تیسری بار اُسکو بیچ میں ٹوکا...
"ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی"
پھر عمر بھی فوراً مان گیا....
"ویسے مریم آئی تھی کُچھ دیر پہلے تیرے آنے سے بہت انتظار کرکے گئی ہے....محبت کرتی ہے تُجھ سے"
عمر شوخ انداز میں بولا....
"ایک تو پتا نہیں یہ میرا پیچھا کب چھوڑے گی کسی آسیب کی طرح چپک گئی ہے"
راحیل نے سخت بے زاری سے کہا....
"مل لے یار ایک بار پھر..... تیرا کیا جا رہا ہے"
"راحیل آفتاب کسی سے بھی دوبارہ نہیں ملتا ایک ہی مقصد کے لیے"
راحیل نے جیسے اُسے باور کرایا...
"پھر اُسکا کیا جسے اپنی بیوی بنا کر لے آیا ہے تو... تیرا مقصد تو پورا ہوچکا ہے نہ اُس سے یہاں ایک لڑکی سے دوبارہ ملنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے اور وہاں جو دوسری لڑکی کو وہی مقصد پورا کرکے جو تو اُسے بیوی بنا چُکا اُس کا کیا"
عُمر گھوم پھر کے دوبارہ اُسی بات پر آگیا....
راحیل اِس بات پر لاجواب ہوگیا....
اُسے خود نہیں پتہ تھا آخر کیوں اُس نے ایسا کیوں کرا تھا...
وہ کبھی بھی زبردستی کا قائل نہیں تھا پھر کیا تھا اُس میں جو وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوگیا....اور اگر اُسکا مقصد صرف طیات کی قربت تھی تو وہ تو حاصل کر چُکا تھا....تو کیوں نہیں چاہتا تھا کہ وہ کسی اور کی ہوجائے....
راحیل نے اپنے دماغ میں اُٹھتے سوالوں کو جھٹکا....
"یہی فرق ہے اِن لڑکیوں میں اور طیات میں کے یہ یہاں ہے اور وہ وہاں میرے گھر میں ہے....یہ یہاں سب لوگوں کی آسائشوں عیش کا سامان کرتی ہی جبکہ وہ صرف میری ہوکر وہاں ہے"
راحیل مسکرا کر سامنے کھڑی سگنل دیتی لڑکی کی طرف مُسکرا کر دیکھتا ہوا بولا....
"اوہ تیرے کہنے کا مطلب مستقل مزاجی بھی آگئی ہے تیرے اندر..ایک شاہکار گھر میں بھی چھپا رکھا ہے جس اور ٹیگ لگا دیا ہے تُو نے بس راحیل آفتاب کا"
عمر نے اپنی سوچ کے مُطابق کہا...
"بلکل"
"ہائی ڈارلنگ"
وہ لڑکی راحیل کے برابر بیٹھتے ہوئے بولی....
"ہائی"..
"آئی وانٹ ٹو اسپنڈ سم "
شہ....
راحیل نے اُسکے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...
ساتھ ہی وہ لڑکی کو لے کر کھڑا ہوگیا....
"ابے کہا جا رہا ہے"
"گھر جا رہا ہوں اور کہا"
راحیل نے سادہ انداز میں کہا......
"پر گھر میں تو وہ"
"تو کیا"
راحیل نے ہنوز سادہ انداز میں کہا....
عمر کو اُسکی بے پرواہی پر رشک آیا....
"کُچھ نہیں"
اُس نے بھی شانے اُچکاے....
راحیل لڑکی کمر میں ہاتھ ڈالے چل دیا....
✴✳✴✳✴✳✴
طیات کی نیند کسی چیز کے گرنے کی آواز سُن کر کھلی...
ابھی وہ کچی نیند سے بیدار ہوئی تھی آنکھیں کھولی تو کُچھ لمحے اُس ماحول کو سمجھنے میں سرک گئے....
جیسے ہی ہوش بحال ہوئے گزرے لمحے یاد آئے اُس نے پورے کمرے میں نگاہ دوڑائی مگر وہاں سب ٹھیک تھا....
وہ بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی دوپٹہ شانوں پر اچھی طرح ڈالا....
وہ واشروم تک آئی...
دو بار دروازہ بجایا مگر کوئی جواب نہیں آیا اُس نے دروازہ کھولا تو وہ کھلا ہوا تھا اندر کوئی نہیں تھا.....
اب وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آگئی ساتھ دو کمرے اور تھے...
طیات کو دوبارہ کوئی آواز سنائی دی....
وہ ڈر گئی...
آہستہ آہستہ چلتی دروازے تک آئی...
اُس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا...
اندر کے منظر کو دیکھ کر اُسکی آنکھیں بے اختیار نیچے ہوگئی.....
راحیل اور کوئی لڑکی قابل اعتراض حالت میں تھے....
طیات نے پھر نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور دروازہ بنا بند کرے جس کمرے سے نکلی تھی وہی بھاگی....
"کس قدر گھٹیا گندہ اور واہیات اِنسان ہے"
طیات کو سخت غصّہ آیا....
"اپنے گھر کو اِس نے کیا بنا رکھا ہے"
اُسے سخت غصّہ آرہا تھا...
راحیل نے جیسے ہی طیات کو دروازے پر دیکھا نجانے کیوں اُس کے دل ہر چیز سے اُٹھ گیا...
وہ اب شرٹ پہن رہا تھا....
جبکہ وہ لڑکی حیرانی سے کھڑی اُسّے دیکھ رہی تھی....
"واٹ آر یو دوئنگ"
(کیا کر رہے ہو)
"نوتھینگ یو مے لیو"
(کُچھ نہیں تُم جاؤ)
راحیل نے آخری بٹن لگاتے ہوئے کہا...
"بٹ ڈیر ہم تو"
وہ لڑکی راحیل کے قدرے قریب ہو کر بولی ....
"میں نے کہا نہ تم جاؤ اور یہ لو جتنے چاہیے نکال لو"
راحیل نے اُسے شانوں سے پکڑ کر خود سے الگ کیا..اور اپنا والے والٹ اُسکے سامنے پھینک کر دروازے سے باہر نکل گیا....
لڑکی نے فوراً والٹ اٹھایا اور اپنی قیمت کا حساب لگانے لگی....
✴✳✴✳✴✳✴
قدموں کو آتی آواز کی وجہ سے اُس نے کمبل میں خود کو پوری طرح چھپا لیا....
راحیل دروازہ کھول کر اندر آیا....
طیات نے کوئی ردِ عمل نہیں کیا....
وہ کُچھ دیر کھڑا اُسے یو ہی بے مقصد گھورتا رہا....
وہ اُسکی نظروں کو حدت اندر بھی محسوس کرسکتی تھی...
راحیل کپڑے بدلنے چلا گیا....
طیات نے پھر اپنی رکی سانس بحال کی.....
وہ کپڑے بدل کر آیا تو جب تک طیات بیڈ سے اُٹھ کر صوفے پر لیٹ گئی..
"بات سنو"
راحیل نے اس سے بات کرنی چاہی....
طیات بھی زیادہ دیر سونے کا ناٹک نہیں کرسکی اور نفرت سے منہ دوسری طرف کرلیا...
راحیل بھی پھر آگے نہ بڑھا بیڈ پر آکر لیٹ گیا...
یو اُس طرح ہوئی اُن دونوں کی شادی کی پہلی رات...
✴✳✴✳✴✴
وہاں معمول کا درس چل رہا تھا پر نے جانے کیوں اُسّے لگ رہا تھا کے پوری دنیا اسکو اُسکے کیے گئے گناہ باور کروا رہی تھی چور اُسکے دل میں جو تھا.....
ایک مولانا صاحب بیان دے رہے تھے....
وہ کبھی یہاں نہیں آتا مگر کسی سے ملنے کے لئے ساتھ بنے ریسٹورنٹ میں آیا تھا...آواز پر نجانے کیوں خودبخود اُسکے قدم اُٹھتے چلے گئے...
وہ پہلی بار زندگی میں کوئی مذہبی بیان سن رہا تھا...
وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر اُسکے قدم نہیں آٹھ پا رہے تھے وہ مجمند ہوگیا تھا جسم ہلنے سے انکاری تھا اُسكو یو محسوس ہو رہا تھا اُس پر سینکڑوں کیڑے رینگ رہے ہیں اُسکی ساعتوں میں دوبارہ آواز گونجی....
زنا کیا ہے؟
اگر مرد ایک ایسی عورت سے صحبت / ہم بستری کرے جو اس کی بیوی نہیں ہے تو، یہ زنا کہلاتا ہے ضروری نہیں کی ساتھ سونے کو ہی زنا کہتے ہیں، بلکہ چھونا بھی زنا ایک حصہ ہے اور کسی پرائی عورت کو دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے.
اب اُسے اپنے ریسٹورنٹ آنے کا مقصد یاد آیا....
ذنا کو اسلام میں ایک بہت بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے، اور اسلام نے ایسا کرنے والو کی سزا دنیا میں ہی رکھی ہے. اور مرنے کے بعد اللہ اس کی سخت سزا دے گا.
وہ کبھی بیان کو نہیں سنتا اگر اُسکے اختیار میں ہوتا....مگر آج وہ بے اختیار ہوچکا تھا اُسکے چلے جانے کے بعد سے اب تک اُسے کبھی سکون نہیں ملا اُسکی بد دعا سائے کی طرح پیچھے لگی تھی....
بُخاری شریف میں ارشاد ہوا:: محمد (صلی الله عليه وسلم) نے فرمایا مومن (مسلم) ہوتے ہوئے تو کوئی زنا کر ہی نہیں سکتا.
الله قرآن میں سورۃ آل اسراء کی آیات نمبر ۳۲ میں فرماتا ہے... فرماتا ہے اور (دیکھو) زنا کے قریب بھی نہ جانا، کورس وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے....
ذنا کی سزا اور عذاب: اگر زنا کرنے والے شادی شدہ ہو تو کھلے میدان میں پتھر مارمار کر مار ڈالا جائے اور اگر کنوارے ہو تو 100 کوڑے مارے مارے جائے.
اج کل دیکھنے میں آیا ہے کی اس گناہ میں بہت سے لوگ شامل ہیں، خاص کر کے اس بازار میں جہاں عورتیں اور مرد جاتے ہیں کس کا ہاتھ کس کو لگ رہا ہے کہا لگتا ہے کچھ معلوم نہیں ہوتا، چاہے لڑکا ہو یا لڑكياں اور پھر اس گناہ کو کرنے کے بعد اپنے دوستوں کو بڑی شان سے سناتے ہیں، بلکہ ان کو بھی ایسا کرنے کی رائے دیتے ہیں.
اگر کوئی اکیلے لڑکے یا لڑکی کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا گناہ اس کے ماں باپ کو بھی ملتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی جلدی شادی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ غلط کام کرنے لگے،
اور شادی کی عمر ہونے کے بعد بھی ماں باپ ان کی شادی نہ کرے تو اللہ ناراض ہوجاتا ہے اور ان کے گھر کی برکت ختم ہوجاتی اور اللہ ان ماں باپ سے قیامت کے دن حساب مانگے گا
ور ایک جگہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کی پاک دامن لڑکیاں، پاک دامن لڑكو کے لئے ہیں،
اسكا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو اچھی ہیں تو اللہ آپ کو بھی اچھی بیوی یا دولہا ديگا اور خراب ہیں تو سمجھ لیجیے.
راحیل آفتاب کے سخت سردی میں پسینے چھوٹ گئے اُسکے جسم پے سانپ لوٹنے لگے....،
اگر آپ نے اپنے جنسی قصہ آپ کے دوست / سہیلی کو سنایا اور اس کے دل میں بھی ایسا کرنے کی بات آ گئی اور اس نے وہ کام کر لیا تو اس کا گناہ آپ کو بھی ملے گا، کیونکہ آپ نے ہی اس کو غلط راستہ دکھایا ہے .اور آپ کے دوست آگے بھی جتنے لوگو کو غلط راستہ دکھائیں گے ان سب کا گناہ اپكےكھاتے میں آئے گا.
الله ہم سب کو اس بڑے گناہ سے بچائے.
وه دن قریب ہے جب آسمان پہ صرف ایک ستاراهوگا.
توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا.
قران کے حروف مٹ جائیں گے،
سورج زمین کے بالکل پاس آ جائے گا.
میدان حشر سجے گا زیر زبر ہوگا اُسکی عدالت لگے گی جہاں رشوت اثر و رسوخ کام نہیں آیگا انصاف ہوگا ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ توبہ کر لو.....
دوبارہ ایک آواز ٹکرائی اُسکی سماعتوں سے....
" اِنتظار کرو تم اپنی بربادی کا جشن مناؤ خدا کی رحمت سے آزادی کا تمہاری رسی بہت جلد کھینچی جائیگی انتظار کرو بد دعا ہے میری دل سے نکلی ہے عرش کو ہلا دیگی....."
"کیا میں غلط ہوں" اُس کو اپنی ہی آواز اجنبی لگی....
"ثور پھونکی جا چکی ہے"
دوبارہ آواز آئی کہی اندر سے....
اُس سے زیادہ وہاں نہیں رُک سکا....وہ بھول گیا کس کام کے لیے آیا تھا....اُسے کُچھ یاد نہیں رہا وہ ابھی ہال سے باہر نکلا ہی تھی پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے اُسکی نظر گاڑی سے اُترتی ایک چہرے کی طرف گئی گویا کیا آج شروعات تھی اُسکی تباہی کی....
اُس نے فوراً اپنا منہ پھیر لیا....
مگر چہرہ اُس سے چھپ نہیں سکا...
سامنے کھڑا وجود لمحے کو بے کل ہوا پھر اُسکے چہرے پر کرب کا ایک سایہ لہرا کر گزر گئی...
اُس پر ترحم بھری نگاہ ڈالی اور آگے بڑھ گیا...
گاڑی کے گیٹ کے پاس کھڑے اُسکے قدم لڑکھڑائے.....
گاڑی میں بیٹھ کر اُس نے گاڑی فل سپیڈ میں ہائی وے پر دوڑا دی....
"برباد ہوگے تم"
آوازیں اُسکے کہی اندر سے آرہی تھی....
"وہ پاکباز ہے تُم گنہگار ہوں"
ضمیر نے ملامت کی....
اُس نے سپیڈ مزید بڑھا دی....
سامنے سے آتا ٹرک اُسے نہیں دکھا....اُس نے گاڑی سائڈ سے نکا لنی چاہی....
گاڑی اپنی توازن برداشت نہیں کرسکی بری طرح ایک پول سے جا ٹکرائی.....
"ابھی تو شروعات ہے"
دوبارہ کسی نے اسے جھنجھوڑا....
آخری منظر جو اُسکی آنکھوں کے سامنے آیا وہ تھا ایک سجا ہوا نہایت خوبصورت وجود جسکی ساری حشر سامانیاں اُس کے لیے تھی....
مگر....
مہلت نہیں دی....
گردن ایک لڑک گئی....
✴✳✴✳✴✳✴
وہ سامنے بیٹھے کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ رہی تھی...
تاسف بھری نظریں بچوں کی ہر حرکت کا تعاقب کر رہی اُن کی معصوم مسکراہٹ ہنسی اُس کی آنکھوں کے سامنے کئی منظر کسی فلم سین کی طرح گزر گئے....
اُسکی آنکھوں دوبارہ بھر آئی....اُسکا روز کا معمول تھا یہاں آکر گھنٹوں بیٹھنا بچوں کو دیکھنا....
وہ پھر جانے کے لئے اٹھی مگر اُٹھتے ہی اُسّے چکر آئے....پھر اُسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا....
اور وہ زمین پر اگری....
✴✳✴✳✴✳✴
ابوبکر خالی نظروں سے کمرے کو دیکھ رہا تھا....
اُسے ۳ دن بعد ہوش آیا تھا...
مگر اُس نے اپنے منہ پر بلکل چُپ لگا لی تھی...
"یہ لیں بھائی آپ کُچھ کھا لیں پھر آپکو دوائی بھی لینی ہے"
ایان نے کٹے ہوئے فروٹ کی پلیٹ اُس کے آگے کری...
ابوبکر نے ایک نظر ایان کو دیکھا اور پھر نظر ایک غیر مرئی نقطے پر ٹکا دی....
ایان نے اُس کو ترحم بھری نظر سے دیکھا....
امان سب دیکھ رہا تھا اُس نے آگے بڑھ کڑ زبردستی جوس کا گلاس اُسکے منہ سے لگا دیا....
ابوبکر نے بےبسی سے اُسکی طرف دیکھا پھر اُس سے لپٹ گیا.....
امان کو نہیں سمجھ آیا وہ کیوں رو رہا تھا مگر اُس وقت اُس نے صرف ابوبکر کو تسلی دی.....
✴✳✴✳✴✳✴
طیات کو نیند نہیں آرہی تھی وہ اُٹھ کر چھت پر آگئی....
خالی نظروں سے آسمان کو دیکھ رہی تھی....
شادی کو ۳ دن ہوچکے تھے مگر نہ تو راحیل نے اُس سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی نہ ہی
طیات نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی....
راحیل اُسے کمرے میں نہ پاکر تھوڑا پریشان ہوا پتہ نہیں کیوں پر وہ ہوا تھا....
کمرے سے ٹيریس کی طرف کھلتا دروازہ کُھلا ہوا تھا غیر اِرادی طور پر وہ اُس دروازے پر آیا تو سامنے کھڑی طیات کو دیکھ کر اُسے تسلی دی....
وہ چُپ چاپ اُسکے بغل میں آکر کھڑا ہوگیا....
طیات نے اپنے دونوں ہاتھ ریلنگ پر ٹکائے ہوئے تھے...
عجیب سی خاموشی تھی دونوں کی بیچ ۳ دن سے نہ کوئی تلخ کلامی تو نہ ہی کوئی خوشگوار گفتگو....
راحیل خود بھی اُس سے اجتناب برت رہا تھا....
راحیل نے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ اپنی موجودگی کا احساس دلایا....
طیات کسی گہری سوچ میں ڈوبی اُسکے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے سامنے دیکھا وہ اُسکے بہت قریب کھڑا تھا....
طیات کے چہرے پر خوف اُتر آیا....
جسے راحیل نے بھی محسوس کیا مگر اُسکی پرواہ کیے بغیر بے اختیار اُسکی طرف بڑھا....
کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کیا...
"کیوں ڈرتی ہو مُجھ سے ... اب کیوں اب تو مُجھے سارے اختیارات ہے"
راحیل نے اسکو چہرہ کو چھو کر کہا....
طیات نے ضبط سے اپنی آنکھیں بھینچ لی....
راحیل نے اسے چھوڑ دیا..
طیات اُسکے حصار سے الگ ہوتے ہی تھوڑا آگے بڑھ گئی....
جبکہ راحیل نے اپنا منہ دوبارہ دوسری طرف کرلیا....
"کیوں روکا تھا اپنے دوست کو"
راحیل کے لیے سوال بلکل غیر متوقع تھا...
طیات نے اُن دونوں کی شادی شدہ زندگی کے ۳ دن بعد راحیل کو مخاطب کیا....
راحیل کو نہیں پتہ چلا اُسّے کیا ہوا اِن چھ لفظوں میں ایسا کُچھ ضرور تھا جس نے اُس جیسے شخص کو بھی جھنجوڑ دیا...
"کوئی جواب نہیں.....
راحیل آفتاب تمہارے پاس کوئی جواب نہیں....
ہونے دیتے نہ ویسے بھی تُم جیسوں کے لیے کیا غیرت....جب میری روح کا قتل ہونا ہی تھا تو کیا فرق پڑتا قاتل ایک ہوتے یہ دس"
کرب ہی کرب تھا اُسکی آواز میں اُس نے سیدھا راحیل کی غیرت کو چوٹ کی..
طیات ٹیریس کے بیچ و بیچ بیٹھ گئی دونوں ہاتھوں میں سر کو گرا لیا.....
راحیل کی آنکھوں میں اُسکی چیخے تڑ پنا سب گونجنے لگا....
"یہ کیا ہورہاہے مجھے"
خود ہی سے مخاطب ہوا...
طیات نے اُسکی بڑبڑاھت سُن لی تھی...
"کُچھ نہیں ہوتا تُم جیسوں کو..بڑی ہی ڈھیت ہڈی ہوتے ہیں تُم جیسے لوگ"
طیات نے نخوت سے منہ پھیرا اور کمرے کی طرف چل دی...
رات کے ۳ بجے ٹیریس کے ایک کونے میں کھڑا اِس بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا...کے وہ کیسا ہے....
طیات کے لفظ پھر اُسکی سماعتوں میں گونجی..."تُم جیسے لوگ"
راحیل کی غصے کی وجہ سے رگیں تن گئی...
وہ تیز قدم اٹھاتا اُس کے پیچھے گیا....
طیات ابھی کمرے میں آئی ہے تھی راحیل نے اندر آکر اس کو تیزی سے اپنی طرف کھینچا....
"کیسا انسان ہو میں"
راحیل اُسکے چہرے پر جھُکا....
طیات نے اُس کو پیچھے دھکیلا....
" تمہیں پتہ ہے ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھرنا کیا ہوتا ہے اُسکی تکلیف کیا ہوتی ہے....
راحیل کی گرفت اُس کی کمر پر ڈھیلی پڑی....
جب جب تُم مُجھے سب اختیارات رکھتے ہوئے چھوتے ہو میرے قریب آتے ہو...
اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آجاتا ہے جب تُم درندگی کی حد کو پہنچے ہوئے مُجھے توڑ ہی نہیں رہے تھے میری کرچیاں کرچیاں کر رہے تھے تو وہ وقت تھا میری ذات پے ضرب لگنے کا ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہونے کا اور اب ایک کمرے میں ایک بستر پر تمہارے بغل میں سونا مُجھے نئے سرے سے اذیت سے دوچار کرتا ہی....
مُجھے اپنے شوہر کی قربت سے گھن آتی ہے...
اِس سے بڑی گالی کیا ہوگی تمہارے لیے....
ایک بیوی اپنے شوہر کے ہاتھ لگانے سے گھن کھائے....."
"ایسے انسان ہو تُم راحیل آفتاب ایسے انسان ہو"
طیات نے نفرت سے کہا....
راحیل نے غصے سے بدحال ہوتے اُسے دھکا دیا اور خود اُس پر گر گیا....
طیات نے اِس بار ساری مزاحمت ترک کردی....
راحیل اُسکے قریب تھا بہت قریب راحیل نے اپنے گرد دوبارہ وہی آواز سنی...
"مُجھے اپنے شوہر کی قربت سے گھن آتی ہے...
اِس سے بڑی گالی کیا ہوگی تمہارے لیے....
ایک بیوی اپنے شوہر کے ہاتھ لگانے سے گھن کھائے....."
راحیل نے ایک نظر طیات کے سہمے ہوئے چہرے پر ڈالی...
راحیل اُس پر سے اُٹھ گیا....
دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا...اور صوفے پر جا بیٹھا....
جبکہ طیات نے اُسکی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھالی....
راحیل خود کو جھنجھوڑنے لگا "کیسا انسان ہے وہ"
پھر وہی آواز آئی....
"مُجھے اپنے شوہر کی قربت سے گھن آتی ہے...
اِس سے بڑی گالی کیا ہوگی تمہارے لیے....
ایک بیوی اپنے شوہر کے ہاتھ لگانے سے گھن کھائے....."
"ایسے انسان ہو تُم راحیل آفتاب ایسے انسان ہو"
اُسکے اضطراب میں مزید شدت آگئی......
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro