قسط نمبر ۱
#میدان_حشر
قسط نمبر ۱
وہ ایک انتہائی بھیانک رات تھی...
بادل گرج رہے تھے۔بارش پورے زور وشور سے ہورہی تھی...
گویا طوفان آنے والا تھا سڑکیں بلکل ویران تھی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی بھی تیز بارش سے ہوکر ہلکی ہلکی زمین پر پڑ رہی تھی... اُس طوفان میں کسی آدم زاد کا نامو نشان تک نہیں تھا دور دور تک...
جانور بھی سارے کہی جا چھپے تھے عموماً کراچی میں اتنی تیز بارش نہیں ہوتی مگر نجانے ایسا کیا تھا آسمان بھی آج اشک بہا رہا تھا...
اچانک اس طوفانی بارش میں کہی دور سے ایک ہیولا دوڑتا دکھائی دیا جو جو ہی قریب ہوتا گیا ظاہر ہوتا گیا وہ لگ بھگ کوئی ۲۶ ۲۷ سال کا نوجوان تھا بدحواسی کے عالم میں بھاگ رہا تھا جیسے کوئی اُسکے پیچھے پڑا ہو کسی سے بھاگنا چاہ رہا ہوں مگر ناکام ہو رہا تھا....
اسے کسی چیز کا خوف نہیں تھا نہ جانے اتنی سخت طوفانی بارش میں وہ کس سے بھاگ رہا تھا کون سا سائبان تلاش رہا تھا پناہ لینے کے لیے مگر شاید وقت آ چکا تھا اُسکے رسوا ہونے کا..
نہ جانے کیا غم تھا کیا گھاؤ کیا بوجھ تھا دِل پہ اُسکے اندر بے سکونی تھی جسم لرز رہا تھا وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا ایک آواز تھی جو بار بار اُسکی سماعتوں میں گونج رہی تھی خون کی طرح اُسکے جِسم کے ہر حصے میں سرائیت کر رہی تھی...وہ اِس آواز سے پیچھا چھڑانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا.....
🍁🍁 پہلی ثور پھونکی جا چکی ہے راحیل آفتاب بے چینی تمہارے وجود میں سرائیت کر چُکی ہے ۔
تُم کانپ رہے ہو ابھی سے ابھی تو دو ثور باقی ہے تُم تو ابھی سے مرنے لگے ہو انتظار کرو اگلے ۲ عذابوں کا سوچو تب کیا حال ہوگا تمہارا ...ابھی تو بس شروعات ہوئی ہے....
تمہارے وجود...
تمہاری انا....
تمہارے وقار....
تمہاری خود سری...
تمہارے گھمنڈ غرور ....
تمہارے گناہوں....
تمہارے ظلموں... کے اختتام کی بس شروعات ہوئی ہے تمہیں بھی تو پتہ چلے کے اورو پر کیا گزرتی ہے🍂🍂
اُس نے اپنے کانوں پے ہاتھ رکھ لیا اور بیچ سڑک پے بیٹھتا چلا گیا.....
✴✳✴✳✳✴⬇⬇⬇⬇⬇✳✴✳✳✴✳✴✴
اتوار کا دن تھا سب اپنے اپنے بستروں میں پڑے سو رہے تھے ابھی صبح پوری پھوٹی بھی نہیں تھی وہ صحن میں لگے بیسن سے وضو کرنے لگی فجر کی اذان کی آوازیں گونج رہی تھی محلے میں سے ایک دو گھروں کے دروازے کھلنے کی آوازیں آرہی تھی مطلب تھا اب بھی لوگوں کو نیند سے زیادہ رب کی عبادت عزیز تھی.....
اللہ اُنہیں اپنی طرف بلا رہا تھا بھلائی کی طرف بلا رہا تھا فلاح کی طرح مگر لوگ لمبی تان کر سورہے تھے اور دن رات یہ لوگ ہی اللّٰہ سے کہتے ہیں کب مشکلیں ختم ہوگی اپنے دُکھ
کا رونا لوگوں کے سامنے رونا ہمدردیاں وصول کرنا مگر اتنی فرصت نہیں تھی کے اُس ذات اقدس کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں سب کو اپنی نیند زیادہ عزیز ہے...
وہ فجر کی نماز ادا کرکے گھر کی صاف صفائی میں لگ گئی...
سب سے پہلے پکے فرش کے صحن کو خوبصورت بنانے کے لیے رکھے گئے گملوں کو پانی دے کے صحن کی صفائی کرنے لگی.....
چھت پر مٹی کے برتنوں میں پانی اور باجرہ پرندوں کی غذا کا انتظام کرکے نیچے آگئی...دوبارہ اپنے چہرے پے پانی کے چھینٹے مارے تاکہ رہی سہی نیند بھی اُڑ جائے پھر دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی کچن میں آگئی جہاں رات کے گندے برتن اسکو منہ چڑا رہے تھے جنھیں رات میں جلدی سونے کی وجہ سے وہ دھو نہیں پائی تھی...
ایک گہری سانس لے کر آستین چڑھائی اور برتن دھونے لگ گئی...
یو ہی گھر کے کام کرتے کرتے اُس کی صبح ہوتی تھی اورو کی طرح چھٹی اُسکی بھی ہوتی تھی کس کی آفیس سے کسی کی اسکول کالج اور اسکی یونیورسٹی سے مگر دن جو بھی ہو اسکا یہی معمول تھا....
گھر کی صفائی سے فارغ ہونے کے بعد اُس نے باہر صحن میں آکر ٹب بھرنے رکھے اور اندر جا کر دبے قدموں سب کے کمروں سے میلے کپڑے لے آئی اُنہیں بھگو کر صرف اُن پر برق دیا اور کُچھ دیر سستانے کی خاطر صحن میں پڑے تخت پے آکر لیٹ گئی دوپٹہ اُتار کر سائڈ پے رکھ دیا....
اُسکی آنکھ کھلی اِس احساس سے جیسے کوئی اسے مسلسل دیکھ رہا ہے اُس خیال کی تصدیق کے لیے جو ہی اُس نے آنکھیں کھولی تو گھر کی دیوار سے ملی دوسری دیوار یعنی دوسرے گھر کی چھت پے کھڑے ۳ لڑکے مسلسل اسے ہے دیکھ رہے تھے اُسکا چہرہ غصے سے سرخ ہوا سائڈ میں پڑا دوپٹہ خود پر ڈالا اور اُنہیں کڑے تیوریوں سے گھورتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئی اُسکے گھورنے پے اُنکی مسکراہٹ نے اسے تپا دیا....
پھر بھی سر جھٹک کر اندر چلی گئی اندر اپنے کمرے میں آکر غصے سے بیچ و تاب کھاتے ہوئے خود ہی سے ہمکلام ہوئی...
پتہ نہیں کیسے گھٹیا لوگ ہے مطلب حد ہے کوئی اپنے ہی گھر میں اپنی مرضی سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتا خود کی ماں بہن نہیں کیا.....
وہ سخت غصے میں تھی۔۔
اسے آب باہر جا کر کپڑے دھونے میں سخت کوفت ہونے لگی تھی...
اب کیا اِن لوگوں کے ڈر سے کیا میں اپنے کام بھی نہ کروں وہ خود سے ہم کلام ہوئی اور سخت جھنجھلائ بھی...پھر خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر واپس صحن میں آئی تو وہ آوارہ لڑکے اب نہیں تھے اُس نے چین کا سانس لیا۔۔اور کپڑے دھونے لگی دھوتے وقت بھی اُس نے خود کو مکمل ڈھانپ کر رکھا تھا۔۔کیونکہ وہ لڑکے کسی بھی وقت آسکتے تھے...
مشین بھی ٹھیک کروانی ہے بھائی کو بولو گی کپڑے دھونے سکھانے میں صبح کے تقریباً ۱۱ بج گئے....
کچن میں آکر اُس نے پوری کے لیے آٹا گوند کر رکھ دیا .... بھیگے ہوئے چنے کا سالن چڑھا کر آلو کی ترکاری کے لیے آلو کاٹنے کے لئے واپس تخت پے آرہی تھی...
اتنے میں اندر سے ریان باہر آیا ارے اٹھ گئے تُم....
ہا ں بس جلدی سے ناشتہ دے دو آپی بھوک لگ رہی ہے رات کو بھی بس دوستوں میں برگر کھا آیا تھا...گھر آیا تو آپ سو چُکی تھی اور بھائی نے سختی سے منع کرا تھا آپکو نہ اٹھاؤ....
ارے تو سالن تو رکھا ہوا تھا روٹی لا کر کھا لیتے...
رات کے ۱ بجے کون سا تندور کھلا ہوتا ہے...
ریان بول کر پھنس گیا...
تُم پھر ۱ بجے آئے کیا کرو تمہارا کتنی بار کہا ہے گھر جلدی آیا کرو اتنی رات رات باہر رہنا اچھا تھوڑی ہے....وہ ریان کو ڈانٹنے لگی...
بس آپی اب آپ نہ شروع ہوجائے بھائی بہت عزت نواز چُکے کل رات کو مجھے پورے ۱ گھنٹے اُنکی عدالت میں حاضری لگائی تھی ۲ بجے جا کر لیٹا تھا...ریان مسکین صورت بنا کر بولا تو اسے ہے اختیار ہسی آگئی....
اُسکی ہسی نے اسے اور حسین بنا دیا...
جھیل جیسی گہری آنکھیں جن پے گھنی پلکوں کا پہرا...
تیکھی ناک ...عنابی ہونٹ...سیاہ گھنے لمبے ریشمی بال گوری رنگت جِس میں ہلکی ہلکی سی لالی اسے اور جاذب نظر بناتی تھی....
آپ ہس بعد میں لیجئے گا میں ابھی بھوک لگ رہی ہے...ریان پیٹ پے ہاتھ رکھ کر بولا...
صبر کرو بےصبرے بس آلو کاٹ لینے دو تُم جب تک منہ ہاتھ دھو وضو کرکے فجر کی کا قضا نماز پڑھو اور قرآن پڑھو تب ہی ناشتہ ملے گا...
ٹھیک ہے آپی ریان بنا کسی چو چا کے وضو کرنے چلا گیا....
ریان بھائی اب تک نہیں اُٹھے وہ فجر کی نماز کے وقت بھی نہیں اُٹھے تھی مجھے لگا تھکے ہر ہوگے میں نے اٹھایا نہیں...
ابھی وہ کہہ ہی رہی تھی امان باہر آگیا...
بھائی آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ اُس نے فکرمندی سے پوچھا...
ہاں ٹھیک ہے کل اِس ریان کی وجہ سے دير سے سو یا اسلئے آنکھ نہیں کھلی شاید...
بھائی میں تو ۱ بجے آگیا تھا ۱ گھنٹہ آپ نے عزت نوازنے میں گزارا...ریان مسکرا کر بولا امان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی...
آپ دونوں بیٹھے میں ناشتا لاتی ہوں یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگی کے امان بولا...
طیات کیا بنایا ہے؟؟؟
بھائی آپکی پسندیدہ حلوہ پوری بنائی ہے بس پوریا تلنے جا رہی ہو...
طیات کچن میں آکر پوریاں تلنے لگی ریان مسلسل ہانک لگا رہا تھا آپی جلدی....
امان بھائی اور ریان انہی دونوں کے گرد تھا طیات کی زندگی کا دائرہ امی ابو کی محبت سے تو وہ واقف نہ تھی بہت چھوٹی تھی کے گزر گئے امان اس سے ۶ سال بڑا تھا طیات نے اسی کے سائے میں باپ ما ں بھائی دوست سارے رشتے پائے تھے اور چھوٹا ریان اُس سے ۲ سال چھوٹا طیات کی جان تھی اُس میں امان اپنی پڑھائی مکمل کر چُکا تھا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہا تھا...
ریان ابھی کالج میں تھا اور طیات یونیورسٹی میں تھی ڈاکٹر کی پڑھائی کر رہی تھی...
یہ گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا...
محبت سے سجا ہوا...
بھائی کپڑے دھونے کی مشین ٹھیک کروا دے مجھے ہاتھ سے دھونے پڑے کپڑے طیات بولی...
جب کے لقمہ توڑتا امان کا ہاتھ رکا اور چہرہ ریان کی طرف مڑ گیا...
ریان کے بھی چہرے کے تاثرات پل بھر میں بدلے طیات لمحے میں جان گئی ریان نے لا پرواہی کی ہوگی مگر ابھی اُسے بچانا تھا بھائی کی ڈانٹ سے...
تمہیں میں نے پرسوں کہا تھا کسی ٹھیک کرنے والے کو لا کر دکھا دو تُم نے اب تک ریان...
بھائی بھائی.....آج دکھا دیگا آپ ناشتہ کرے طیات نے فوراً اُسکا دفاع کرا کیوں کو وہ سمجھ چُکی تھی بھائی ریان کو اچھی خاصی ڈانٹ پلانے والے تھے...
امان کی توپوں کا رخ اب ریان کا دفاع کرتی طیات کی طرف ہوگیا۔
ہر بار سائڈ لینے کی ضرورت نہیں ہے کوئی بچہ نہیں رہا جوان پٹھا ہوگیا ہے مگر لا پرواہی میں ۲ سال کے بچے سے بھی ٹکر کا مقابلہ کرتا ہے تمہاری بے جا طرف داری ہی بگاڑ رہی ہے...
ریان غصے میں ناشتہ چھوڑ کر اُٹھنے لگا ہی تھا
طیات نے ہاتھ پکڑ لیا...
ایک تو غلطی کرتے ہیں اوپر سے بھاؤ دکھاتے ہیں...
طیات نے ریان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھایا جس پر اُس نے عمل کرا...
امان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولا سوری بھائی آئندہ نہیں ہوگا میں ابھی جا کر لے آتا ہو....ریان جانے لگا... امان نے بولا ناشتہ کر کر جاؤ چلو بیٹھو...امان نے نرم لہجے میں کہا...
طیات نے سکون کا سانس لیا....
✳✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴
بار میں کونے پے وہ بیٹھا ہوا تھا سب سے الگ مگر وہاں موجود ہر لڑکی کی نظر اُس پر ہی تھی وہ شاید اپنی شخصیت کے سحر سے واقف تھا شاید اِسی لیے چہرے پے خودپسندی کے تاثرات لیے ارد گرد کی نظروں سے بے نیاز بنا بیٹھا تھا مگر تھا نہیں وہ اپنے اوپر نظروں کی حدت محسوس کرسکتا تھا ڈارک بلیو جینز اُس پر کالے کلر کی ٹی شرٹ اور اوپر بلیو کوٹ...
جدید اسٹائل میں تراشے ہوئے بال سحر انگیز کالی آنکھیں صاف رنگت کسرتی بدن اُس کی شخصیت کو مزید پُر وقار بناتے تھے....
اُس نے ابھی اپنی ڈرنک ختم کی ہی تھی پیمنٹ کرکے جا ہی رہا تھا ایک لڑکی نیم عریاں لباس میں فیشن کے نام پر تقریباً برہنہ تھی اُس کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کے وہ سچ میں پاکستان میں ہی رہتی تھی اُسکا لباس بے حد فحاش تھا بڑے گہرے گلے کی ایک ٹی شرٹ ٹخنوں سے اوپر آتی کٹی پھٹی پینٹ میک اپ سے لبریز چہرہ لیے اُسکے سامنے آئی اور بولی..
۱ ڈرنک ودھ می؟؟
اُسکے معنی خیز لہجے کو سمجھ کر وہ بیٹھ گیا...
کُچھ دیر باتوں کر بعد وہ اسکو اپنے گھر لے آیا....
وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا کے ایک ملازم نے اُسے اٹھایا تو وہ بھڑک اُٹھا...
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی میں نے تمہیں بولا تھا کیا مجھے اٹھانے کو...
بیچارہ ملازم تھر تھر کانپنے لگا...
وہ صاحب نیچے کوئی لڑکی آئی کافی دیر سے بیٹھی ہوئی ہے میں نے بولا بھی آپ سو رہے ہیں مگر وہ گئی نہیں....
بیٹھے رہنے دو کہہ دو جا کر صاحب نہیں اُٹھے....
ملازم باہر نکل گیا ابھی چند لمحے ہی سرکے تھی ایک لڑکی طوفان کی طرح اندر داخل ہوئی پیچھے پیچھے وہ ملازم بھی ...صاحب میں نے روکنے کی بہت کوشش کی مگر یہ رکی ہی نہیں...
اُس نے ہاتھ کے اشارے سے ملازم کو جانے کا کہا اور لڑکی کی موجودگی کو نظر انداز کرتا اپنی وارڈ ڈراپ کی طرف بڑھ گیا وہ لڑکی اُسکے مقابل آگئی....
تُم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے تُم مجھے چھوڑ نہیں سکتے میں تُم سے بہت محبت کرتی ہو تم ایسا نہیں کرسکتے وہ لڑکی دیوانوں کی طرح بول رہی تھی اور وہ مسکراتا دیکھ رہا تھا جیسے کوئی معمول کا کام ہو اُس کے لیے جب وہ لڑکی چُپ ہوئی تو اُس نے اُسکے گال پے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
ایک رات میں محبت انٹریسٹنگ...
میں نے کیا کرا تمہارے ساتھ ؟؟؟
جو کُچھ ہوا دونوں کی مرضی سے ہوا اور ہا ں میں نے بہت انجوائے کرا....
میں نے کب تُم سے کوئی وعدے کرے تھے یہ میں نے کب کہا مجھے تُم سے محبت ہے ؟؟؟
یہ سب تمہارے دماغ کا فتور ہے میرا محبت کرنے کا کوئی شوق نہیں ارے جو چیز پیار محبت شادی کر کی ملتی میں بغیر یہ سب کرے حاصل کرلیتا ہو تو کیا یہ فضول طوق لٹکاؤ گلے میں اُس نے حقارت سے کہا...
پیسوں کی ضرورت ہے تمہیں بتاؤ کتنے چائیے یہ لو بلینک چیک اپنی قیمت بھردو اور چلی جاؤ....
میں تُم سے محبت کرتی ہو تُم میری محبت کی قیمت لگا رہے ہو...لڑکی نے قدرے افسوس سے کہا۔۔
وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا پھر اسے خود سے قریب کرکے بولا راحیل آفتاب راتوں کا سوداگر ہے رات گئی بات گئی میں راتیں خریدتا ہو دن میں مجھے رات کے اندھیرے یاد رکھنے کی ضرورت نہیں تقریباً ہر رات کسی نہ کسی سے ملتا ہو اگر سب کو یاد رکھنے لگا نہ تو راحیل آفتاب اور عام مجنوں میں کیا فرق رہ جائیگا میں نے تمہاری رات خریدی نہیں تھی کیوں کے تُم خود میری طرف آئی تھی....
and bleive Me we spend good time that's it.....
مگر میں کسی کا اُدھار نہیں رکھتا تمہاری رات کی جو بھی قیمت ہو اِس پر لکھ دو اور جاؤ مجھے اور بھی کام ہے راحیل نے جھٹکے سے اُسے خود سے الگ کرا...
راحیل میں تُم سے محبت کرتی ہو پلز مجھے مت چھوڑو...
مائی فٹ....
بہت ہوا اب تُم جاتی ہو یا دھکے کھا کر جانا پسند کروگی...
گیٹ لاسٹ ناؤ...
تُم دیکھنا راحیل آفتاب تُم ترسو گے محبت کے لیے تمہیں بھی کسی سے محبت ہوگی مگر تُم اسے پا کر بھی کھو دوگے تُم پچھتاؤ گے بد دعا ہے میری وہ لڑکی روتی ہوئی جانے لگی....
راحیل آفتاب نے پیچھے سے آواز لگائی اکہتر وی بد دعا مجھے کُچھ نہیں ہونا اِن بد دعاؤں سے بائی دا وے اگر موڈ ہوا تو ایک رات اور خرید لونگا تمہاری فکر مت کرو...وہ لڑکی جاتے جاتے پلٹی اور بولی تُم برباد ہوگے بہت برے منہ کے بل گرو گے تمہاری یہی شان و شوکت تمہیں راس نہیں آئیگی...وہ لڑکی دروازے سے باہر نکل گئی....
راحیل آفتاب کا قہقہ کمرے میں گونجنے لگا ۷۲ وی بد دعا اُس کے لہجے میں سفاکی انا خود پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی....
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳
بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے طیات نے جھجکتے جھجکتے کہا....
ہا ں بولوں کیا بات ہے امان میں دوستانہ لہجے میں کہا تو طیات اُسکے ساتھ کُرسی کھینچ کر بیٹھ گئی...
وہ بھائی میری دوست ہے نہ نمرہ اُس کے گھر والے اُسکی شادی کرنے کا سوچ رہے ہیں...
تو؟؟؟
امان کے لہجے میں اچانک درشتگی آگئی...
بھائی میں نمرہ کو ہمیشہ سے آپکے حوالے سے پسند کرتی ہو...
کیا میں نے کہا تمہیں ایسا سوچنے کو امان کا چہرہ سپاٹ تھا وہ کوئی اندازہ نہیں لگا پائی....
پر بھائی آپکو شادی تو کرنی ہے نہ نمرہ بہت اچھی ہے آپ تو جانتے بھی ہے اُسے بھائی آپ نے ساری زندگی ہم دونوں کے پیچھے خود کو کوئی خوشی نہیں دی پر یہ تو آپکا حق ہے شادی تو آپکو کرنی ہے امی ابو ہے نہیں تو میں اور ریان ہی جائینگے آپکا رشتا لے کر.....
بس طیات ان فضولیات میں پڑنے سے اچھا اپنی پڑھائی پر دھیان دو پہلے میں تمہاری شادی کردو پھر کر لونگا جس سے بھی کرنی ہوگی ٹھیک ہے اب جاؤ جا کر پڑھو اپنا اگلے مہینے ایگزیمز ہے تمہارے اور اس ریان کو بھی دیکھو کیا کر رہا ہے لگا ہوگا موبائل پے یہ کمپیوٹر پر اٹھاؤ اُسّے جو سامان منگوانا ہے گھر کا منگوا لو چلو شاباش اٹھو....
طیات منہ بسورتی چلی گئی....
امان کے دِل میں ایک طوفان برپا کر گئی تھی نمرہ کی کہی اور شادی کی خبر دے کر.....
✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴
وہ بس کے انتظار میں کھڑا تھا سخت چلچلاتی دھوپ تھی دوپہر کے ۲ بج رہے تھے سورج بھر پور آگ برسا رہا تھا وہ بار بار ماتھے اور چہرے پر آیا پسینہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے رومال سے صاف کر رہا تھا ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل کو اوٹ بنا کر سورج کی کرنوں سے بچنے کی نہ کام کوشش کر رہا تھا بس آنے کا نام نہیں لے رہی تھی وہ تھک ہار کر فٹ پاٹ پے بیٹھ گیا گرمی کی شدت سے اُسکی صاف رنگت سرخ ہورہی تھی جیسے خوں اُتر آیا سارے جسم کا چہرہ پر وہ ۲۵ سالہ خوبرو خوش شکل نوجوان تھا اُسکی شخصیت کمال کی تھی ویل ڈریس البتہ شرٹ پسینے سے جگہ جگہ سے بھیگ چُکی تھی تیکھی ناک جس پے وہ بار بار پسینے سے پھسلتے کانٹیکٹ گلاسز کو ٹھیک کر رہا تھا ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو بال گرمی کی وجہ سے خراب ہورہے تھے جنھیں وہ بار بار ہاتھوں کی کنگھی بنا کر ٹھیک کرتا مطلوبہ بس کو آتا دیکھ اُس نے چین کا سانس لیا مگر جو ہی بس قریب آئی گیٹ تک بھری ہوئی بس کو دیکھ کر مایوسی ہوئی مگر کیا کرسکتا تھا یہ بس چھوڑنے کا مقصد تھا پھر آدھا پون گھنٹہ انتظار....
کنڈیکٹر کو کرایہ دیکر اُس نے باقی مڑے توڑے ۱۰ ۲۰ ۱۰۰ ۵۰ کے نوٹ اور سکے واپس رکھے بس خالی ہوتی گئی پھر ایک سیٹ خالی ہوئی تو وہ بیٹھ گیا ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کے اُس نے دیکھا سامنے ایک بوڑھے آدمی بہت مشکل سے رش میں کھڑے ہیں اور جس سیٹ کی طرف اُنکا منہ تھا وہاں ایک ۱۸ ۱۹ سال کا نوجوان کانوں میں ہینڈ فری لگائے ارد گرد کے ماحول سے بلکل بیگانہ بیٹھا تھا یہ منظر دیکھ کر اُس نے بے اختیار نوجوان نسل خود سمیت فاتحہ بھیجی خود کھڑا ہوکر بولا انکل آپ بیٹھ جائے بوڑھا اُسے دعائیں دیتے ہوئے بیٹھ گئے...ساتھ کھڑے شخص نے افسوس بھری نگاہ سے اُسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو بڑے بے وقوف ہو اب رہو کھڑے....
بس میں سے رش ختم ہونے لگا ابھی دوبارہ ایک سیٹ اُسے ملی ہی تھی وہ بیٹھ کر باہر دیکھا ہی تھا اچھل پڑا اُسکی مطلوبہ جگہ آچکی تھی بیٹھنا اُسکے نصیب میں ہی نہیں تھا...وہ اُتر گیا...مگر مطلوبہ جگہ اب بھی کُچھ فاصلے پر تھی اُس نے ۱۰ کی چینچی میں بیٹھنے کے بجائے پیدل چلنے پر اکتفا کرا تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہی وہ مطلوبہ جگہ پہنچ گیا اُس نے سر اٹھا کر پوری بلڈنگ کو دیکھا اور بسم اللّٰہ پڑھ کر اندر داخل ہوگیا ریسیپشن پے پہنچ کر سب سے پہلے اُس نے اپنی مطلوبہ سیٹ کے انٹرویوز کا معلوم کرا ریسپشنسٹ نے ایک جگہ رکھے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتظار کرنے کا کہا وہ اطمینان سے اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا جو ہی اُس نے دوسرے اُمیدواروں کو دیکھا تو گرمی اور پسینے سے ہوئی اپنی ابتر حالت کا اندازہ ہوا...
اُن لوگوں نے بھی حقارت سے اُسکی طرف دیکھا....
وہ فوراً واشروم کی طرف بڑھ گیا پہنچ کر سب سے پہلے اپنی شرٹ دوبارہ ٹھیک سے سیٹ کی چہرہ پے پانی ڈالا جیب سے چھوٹا سا کنگھا نکال کر بال دوبارہ سیٹ کریں پھر ایک تنقیدی نظر خود پر ڈال کر مطمئن ہوا بلکل فریش ہوگیا تھا اب وہ اوربہت دسینٹ لگ رہا تھا چہرہ دھونے کی وجہ سے اور نکھر گیا پھر وہ باہر آگیا باہر چل رہے اے سی نے اُسے اور ترو تازہ کر دیا جو نظرے اُس پر حقارت کی لے میں اٹھی تھی اب اُنکی نظروں میں احترم تھا...
مطلب انسان کی پہچان کپڑوں سے ہوتی ہے اُسکا باطن کوئی اہمیت نہیں رکھتا دنیا ظاہر کو دیکھتی ہے کسی کو کو کیا پتہ وہ کس طرح یہاں پہنچا ہے اُس نے ایک گہری سانس لی اور چُپ چاپ انتظار کرنے لگا....
ایک ایک کرکے لوگ جا رہے تھے اور مایوس چہرہ لے کر آرہے تھے جنھیں دیکھ کر وہ بھی تھوڑا مایوس ہوا اللّٰہ اللّٰہ کر کے اُسکی باری آئی جتنی دعائیں اُسّے آتی تھی پڑھ ڈالی اور اندر داخل ہوگیا...
بلند آواز میں سب کو سلام كرا...
وعلیکم اسلام بیٹھ جائے...
وہ اُن کے سامنے بیٹھ گیا....
اور اپنی فائل اُن لوگوں کے سامنے کردی سامنے بیٹھے شخص نے بولنا شروع کیا...
مسٹر ابو بکر ریاض...
آپکی اکیڈمک کیریئر تو کافی متاثر کن ہے ماشاللہ بہت اچھا ریکارڈ ہے آپکا پھر آپ کو جاب کیوں نہیں ملی اب تک...
ابو بکر نے حیرت بھری نظر سامنے بیٹھے شخص پے ڈالی کیوں کے انٹرویو میں اِس سوال کا کیا کام...
وہ سر میں نے ٹرای کرا بہت جگہ مگر آپ تو جانتے ہیں یہاں سفارش کے بغیر کُچھ نہیں ہوتا...
سفارش تو آپکے پاس اب بھی نہیں ہے پھر؟؟؟
ابو بکر اِس کے معنی خیز سوال کو سمجھ کر بولا...
آئی نو سر میرے پاس سفارش نہیں پر میرے پاس میری تعلیم ہے اور اللہ پر یقین جو بہتر ہوگا مجھے وہی ملے گا محنت کرنے اورکوشش کرنے کا حکم تو اللہ بھی دیتا حرکت میں برکت ہے...ابو بکر نے نہایت مودب انداز میں جواب دیا...جس پے سامنے بیٹھے شخص کے چہرے پے احتراماً مسکراہٹ آئی...
پھر پوسٹ سے متعلق کچھ اور باز گشت کی اور جانے کا کہا اگر سلیکشن ہوا تو کال یہ میل اجائیگی وہ خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا....
ابو بکر بلڈنگ سے باہر آیا تو شام کے ۵ بج رہے تھے سورج ڈھلنے لگا تھا مگر فضا میں حبس ہنوز قائم تھا....
وہ پیدل چلتا ہوا اسٹاپ تک آیا اور بس کا انتظار کرنے لگا غیر ارادی طور پر اُسکے ہاتھ اپنی جیب میں گئے تو اُسکے طوطے ہی اُڑ گئے جیب مکمل خالی تھی اور موبائل بھی اُس نے دونوں جیب کھنگال لی مگر نتیجہ وہی نکلا اُسکی جیب کٹ چُکی تھی...اُس نے ایک گہری سانس خارج کی....ماتم کرنے کے بجائے اُس نے صبر کا گھونٹ پیا اور پیدل ہی چل پڑا .....
(جاری ہے)
✴✳✴✳✴✳✴✳✴✴✳✴✴✳✳✴✳✴✳✴✳
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro