Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۴۶ (حصہ اول)

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۶ (2nd last episode)
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"نور نور..."
علی نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اُسے اُٹھایا...
"علی میرا بچہ..."
وُہ بُری طرح چلائی...
"کُچھ نہیں ہوگا ،کُچھ نہیں ہوگا تُم رُکو میں ٹیکسی... تُمہیں چھوڑ کر کیسے جاؤں..."
اُسے کُچھ نہیں سمجھ آرہا تھا کیا کرے نور کی نکسیر پھوٹ گئی تھی سر سے بھی خون بہہ رہا تھا....
"علی بہت درد ہورہاہے علی..."
درد کی شدت کے باعث نور نے اُس کے ہاتھ کو اتنی زور سے پکڑا کے ناخنوں سے علی کے ہاتھ پر خراشیں پڑ گئیں...
"کُچھ نہیں ہوگا ہمت کرو میں ٹیکسی لے کر آتا ہوں تُم ہمت کرو..."
علی نے اُس کا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے کہا...
"علی نہیں جائیں بہت درد ہورہاہے...... اللہ.. اُس نے اپنا پورا زور لگا کر علی کو پکڑ لیا....
"دانیال...دانیال.. امی.."
اُس نے وہی بیٹھے بیٹھے زور سے آواز لگائی...
"آواز بند کرو ٹی وی کی نمرہ مُجھے لگ رہا ہے کوئی آواز دے رہا ہے مُجھے .."
دانیال نے نمرہ سے کہا..
"علی چیخ  رہا ہے..."
شفق خاتون بھاگی بھاگی اندرونی کمرے سے باہر نکلیں..
"امی..امی..."
علی کی دوبارہ آواز پر وُہ حواس باختہ سیڑھیوں کی طرف بھاگیں...
"نہیں برداشت ہورہا علی..."
وُہ بُری طرح رونے لگی...
"کیا ہوا علی ..؟"
شفق خاتون نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا...
"کیا ہوا نور کو.."
اُسے یوں خون میں دیکھ کر اُن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے...
"دانیال ٹیکسی لے کر آؤ جلدی.."
علی نے چیخ کر کہا تو وہ سرعت سے نیچے بھاگا...
"علی میرا بچہ کُچھ نہیں ہونا چاہیے اُسے.."
نور مسلسل روتے ہوئے ایک ہی بات کہہ رہی تھی...
"کچھ نہیں ہوگا ہم ہاسپٹل جارہے ہیں تُم ہمت کرو بس ہوش میں رہو میری جان..."
علی نے اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بہت ضبط سے کام لے رہا تھا...
"گر گئی...امی نور پریگننٹ ہے.."
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اُس نے شفق خاتون  سے کہا...
"نور بچے کُچھ نہیں ہوگا گہری سانسیں لو کُچھ نہیں ہوگا بس ہوش میں رہو.."
شفق خاتون نے فوراً آگے بڑھ کر اُس کا سر اپنی گود میں رکھا اور محبت سے کہا...
"بھائی آپ سنبھالیں خود کو کُچھ نہیں ہوگا ہمت سے کام لیں آپ نے تو بلکل ہاتھ پیر ہی چھوڑ دیے ہیں.."
نمرہ نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو اُس نے اُسے گلے سے لگالیا...
"سب ٹھیک ہوجائے گا نور بیٹا تھوڑی ہمت کرو بس ہم سب تمہارے پاس ہیں.."
شفق خاتون نے اُسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا مگر وہ بےہوش ہوچکی تھی...
"علی اِس کو نیچے لے کر چلو..."
علی نے آگے بڑھ کر اُسّے اُٹھایا اور جلدی جلدی سیڑھیاں اُترنے لگا...
"آرام سے علی..."
سبحان نے اُسے ٹوکا...
"نور آنکھیں کھولو..."
علی نے اُسّے صحن میں پڑے تخت پر لٹایا...
"یہ تو بےہوش ہوچکی ہے.."
وُہ گھبرا کر بولا...
"کُچھ نہیں ہوا بیٹا کُچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوگا سب تُم اتنے کمزور نہیں ہو...."
شفق خاتون نے اُسے بُری طرح جھڑک دیا...
"بھائی ٹیکسی آگئی ہے..."
علی اُسّے اُٹھائے باہر کی طرف بھاگا شفق خاتون اور سبحان صاحب اُس کے ساتھ تھے...
"ابو آپ لوگ نکلیں میں بائک پر آرہا ہوں پیچھے.."
دانیال نے سبحان صاحب سے کہا اور واپسی گھر کے اندر بھاگا اور اپنے کمرے میں آیا...
"یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ...؟"
تانیہ نے اُسے الماری سے پیسے نکالتے ہوئے دیکھا تو تنک کر بولی...
"ہاسپٹل لے کر بھابھی کو وہاں ضرورت ہوگی..."
"ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا کیا سارے پیسے لے کر جارہے ہیں آپ.."
"تمہارے اندر انسانیت ہے کہ نہیں..."
اُسے تانیہ سے ہرگز بھی اتنی سفاکی کی اُمید نہ تھی...
"ہاں ہاں لے جائیں آپکی محبوبہ جو ہے تکلیف میں..."
وُہ چلائی...
"میں کیا کروں تمہارا کتنی گندی عورت ہو تُم تمہارا فیصلہ میں آکر کرتا ہوں ابھی مُجھے جانا ہے.."
"ہاں جائیں اپنی محبوبہ کے پاس.."
وُہ پیچھے سے پھنکاری...
"بھائی میں چلوں گی آپکی ساتھ..."
نمرہ برقع پہن کر صحن میں کھڑی تھی..
"چلو..."
اُس نے بائک باہر نکالتے ہوئے کہا...
"مرا جارہا ہے اپنی بھابھی کے پیچھے..."
تانیہ نے الماری کا دروازہ پوری شدت بند کرتے ہوئے کہا اُس کی آنکھوں میں نفرت اُتری ہوئی تھی...

_________________________________________

"بھائی یوں پریشان ہونے سے بھابھی ٹھیک نہیں ہوجائیں گی آپ دُعا کریں اُن کے لیے.."
دانیال نے اُس کی ابتر حالت دیکھتے ہوئے ہمدردی سے کہا...
"گری کیسے نور...؟"
شفق خاتون نے اُس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا...
"پتا نہیں کیسے گرگئی تھوڑی سی بحث ہوگئی تھی ہماری بس..."
وُہ مسلسل روم کی طرف نظریں کیے بولا..
"اِس حالت میں لڑتا ہے کوئی..."
شفق خاتون نے اُسے دپٹا....
"وُہ پہلے ہی پریشان ہے شفق اُسے حوصلہ دو یوں وُہ مزید پریشان ہوگا..."
سبحان صاحب نے آہستہ سے کہا...
"بیٹا نور کو یا تمہارے بچے کو کسی کو کُچھ نہیں ہوگا اللہ پر بھروسہ رکھو.."
شفق خاتون نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا..
"پیشنٹ کی کنڈیشن بہت سیریس ہے اُن کا سر بہت بُری طرح کسی ٹھوس چیز سے ٹکرایا ہے انٹرنل بلیڈنگ اسٹارٹ ہوگئی ہے ہمیں فوراً آپریشن کرنا ہوگا آپ میں سے کس کا بلڈ گروپ اے پوزیٹو ہے..؟"
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا...
"میرا بلڈ گروپ اے پوزیٹو ہے.."
نمرہ فوراً بولی.
"آپ چلیں ہمارے ساتھ.."
ڈاکٹر نے نمرہ سے کہا اور آگے بڑھ گئے..
"بھائی سب ٹھیک ہوجائے گا..میں آتی ہوں ابو.."
نمرہ نے اُس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا...
"بھائی تھوڑی دیر بیٹھ جائیں آپکی خود کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے.."
"میں ٹھیک ہوں.."
اُس نے دانیال کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
علی شدید بے چینی کے عالم میں ہاسپٹل کے کوریڈور میں چکر لگا رہا تھا....
"اللہ نور کو کُچھ نہ ہو نا ہی میرے بچے کو.."
زبان پر مسلسل ایک ہی دُعا تھی...
" "مُجھے نفرت ہے آپ سے..."
سماعتوں میں بس ایک ہی آواز گردش کر رہی تھی...
"مُجھے تُم سے بہت محبت ہے نور اللہ اُسے بلکل ٹھیک کردے اُسے کُچھ نہیں ہو میں اُس کے بغیر نہیں رہ پاؤں گا..."
اُس کے ہونٹ کانپ رہے تھے چال میں لغزش تھی وُہ اُس علی کا سایہ ہی لگتا تھا جو مشکل سے مشکل وقت میں بھی مضبوط کھڑا رہتا تھا...

"دیکھیں تو کیسے تڑپ رہا ہے میرا بچہ.."
شفق خاتون نے اُس کی غیر حالت دیکھ کر تقریباً رونے کے قریب تھی...
"کُچھ نہیں ہوگا علی سب ٹھیک ہوجائے گا بیٹا
حوصلہ رکھو تُم تو بہت ہمت والے ہو..."
سبحان صاحب نے اُسے زبردستی بٹھاتے ہوئے کہا..
"بھائی کیا ہوگیا ہے یار آپ اتنے کمزور تو کبھی نہیں تھے.."
دانیال نے اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا...
"مُجھے خود حیرت ہورہی ہے علی تُم پر..."
واقعی اُسکی اِس قدر غیر حالت سب کے لیے تشویش کا باعث تھی کسی نے کبھی علی کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر آج اُس کی آنکھیں چھلکنے کو بیتاب تھیں..
"ابو میں نور کے بغیر نہیں رہ سکتا آپ نے سنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہم اُس کی کنڈیشن بہت سیریس ہے میں اُسے نہیں کھوسکتا اُس کے علاوہ کوئی نہیں ہے میرا..."
"تو کُچھ نہیں ہوگا بھابھی کو آپ مثبت سوچیں ناں کیوں منفی سوچ رہیں ہیں دُعا کریں بس بھابھی اور بچہ دونوں ٹھیک ہوں..."
دانیال نے اُس کا ہاتھ دبا کر تسلی بخش انداز میں کہا...
علی کے الفاظ سُن کر اور آنکھوں کی نمی دیکھ کر شفق خاتون کے دِل پر گھونسا پڑا تھا اُن کا دِل کیا علی کو اپنے سینے سے لگالے اُسے یقین دلائے کہ اُس کی نور کو کُچھ نہیں ہوگا مگر وُہ ایسا نہ کرسکیں اُن کی انا کی دیوار اب تک قائم تھی مگر وہ تڑپ ضرور رہی تھی...
"نور کو کُچھ نہ ہو میرے بچے کو اب تک کوئی خوشی نہیں ملی اُس سے اُسکی محبت مت چھیننا وُہ واقعی نہیں جی سکے گا.."
شفق خاتون نے دُعا کی...
"بھائی آپکا فون بج رہا ہے..؟"
دانیال نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اُس کے فون کی طرف اشارہ کیا...
علی نے کوئی جواب نہیں دیا اُسے ابھی کسی چیز کا ہوش نہیں تھا..
"جی ابھی کُچھ بتایا نہیں ہے ڈاکٹر نے جی ٹھیک ہے.."
دانیال نے فون بند کیا...
"بھائی کسی عُمر کا فون تھا میں نے بتایا تو کہہ رہا تھا وُہ بھی آرہا ہے.."
علی نے پھر کوئی جواب نہیں دیا...
گزرتے وقت کا ہر لمحہ بھاری تھا سب پر...
عُمر اور بشریٰ بھی آگئے تھے...
"علی بھابھی کیسی ہیں.؟؟"
عُمر نے اُس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا.
"تین گھنٹے ہونے والے ہیں ابھی تک کُچھ نہیں بتا رہے ڈاکٹر.."
علی نے بےچینی سے پہلو بدلا...
"علی بھائی کُچھ نہیں ہوگا نور کو..."
بشریٰ نے متانت سے کہا...
"مُجھے سب بتادینا چاہیے تھا اُسے تُو ٹھیک کہہ رہا تھا سب میری وجہ سے ہوا ہے مگر میں تو اُسے تکلیف سے بچانا چاہتا تھا بس میری نیت بلکل صاف تھی تو جانتا ہے.."
علی کو کسی طور چین نہیں آرہا تھا۔۔۔
"علی یہ وقت اِن سب باتوں کا نہیں ہے ابھی بھابھی اور بچے کی سلامتی اہم ہے.."
عُمر نے سختی سے کہا تو علی نے دیوار سے ٹیک لگاکر آنکھیں موند لی...
شفق خاتون کو بے اختیار نور کی قسمت پر رشک ہوا محبت نبھانے کے معاملے میں وُہ بلکل اپنے باپ پر گیا تھا...
اُنہوں نے سوچا...
کُچھ وقت مزید گزر گیا...
"ڈاکٹر کیسی ہے نور؟؟"
ڈاکٹر کو باہر آتا دیکھ کر علی اُن کی طرف بھاگا...
"وُہ خطرے سے باہر ہیں مگر ہم بچے کو نہیں بچا سکے..."
پروفیشنل انداز میں کہتے ہوئے اُنہوں نے علی کا کندھا تھپتھپایا اور چلے گئے...
"نور ٹھیک ہے.." اُسے صرف اتنا یاد رہا...
"بھائی.."
دانیال نے اُس کا شانہ ہلایا تو وُہ اپنی نیم بیہوشی کی سی حالت سے ہوش کی دُنیا میں لوٹ آیا...
"بھائی بھابھی اور بچہ دونوں خطرے سے باہر ہیں ابھی ڈاکٹر بتا کر گئے ہیں االلہ نے سب کی دُعا سُن لی ہے..."
"کیا.." اُس نے بے یقین نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے محض اتنا ہی کہا...
وُہ ڈر تھا اُس کے اندر کا سوچ بن کر نیم بیہوشی کی حالت میں اُسکی آنکھوں کے سامنے رونما ہوا تھا...
وُہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا...
"نور اور میرا بچہ دونوں ٹھیک ہے.."
اُسے اب بھی یقین نہ آیا تھا...
"ہاں یار دونوں ٹھیک ہے.."
عمر نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا...
"اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر تُو نے مُجھے مزید کسی آزمائش میں نہیں ڈالا..."
وُہ اپنے رب سے مخاطب تھا...
"ابھی تھوڑی دیر میں بھابھی کو روم میں شفٹ کر رہے ہیں تب ہم لوگ مِل سکتے ہیں اُن سے..."
"بہت شکریہ دانیال اگر آج آپ لوگ نہیں ہوتے تو میں کیسے..."
اُس نے دانیال کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ بھائی اپنوں کو کون شکریہ کہتا ہے.."
دانیال نے اُسے سختی سے بھینچے کہا..
"تُو نے ہمیں اتنا پرایا کردیا کہ اتنی بڑی بات ہم سے چھپائی کیا اِس بچے پر صرف تیرا اور تیری بیوی کا حق ہے ہمارا اِس سے کوئی تعلق نہیں.."
سبحان نے شکوہ کیا...
علی سے کُچھ نا بولا گیا کیونکہ وُہ غلط تھا...
"ہمارے گھر کے پہلے بچے کی پہلی اولاد ہے ہمیں اتنا بھی حق نہیں تھا جاننے کا...؟"
"بھائی لڑائی اختلافات سب اپنی جگہ مگر ہم سب کے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے آپ کو نہیں چھپانا چاہیے تھا..."
نمرہ نے بھی گلہ کیا...
"بھابھی نے بھی کُچھ نہیں بتایا ہمیں..."
"اُسے کیا بولنا وُہ بیچاری تو وہی کرے گی ناں جو یہ بولے گا اُسّے..."
کب سے خاموش کھڑی شفق خاتون بالآخر بولیں..
علی سمیت سب نے حیرت زدہ نظروں سے اُنہیں دیکھا...
"ابو آپ لوگ گھر چلے جائیں میں ہوں نور کے پاس..."
علی نے ہموار لہجے میں کہا...
"تُو گھر جاکر آرام کر حالت دیکھ کیسی بنا رکھی ہے میں رُک جاتی ہوں نور کے پاس..."
شفق خاتون نے دوسری بار سب کو حیران کیا تھا...
"نہیں امی میں رُکوں گا آپ لوگ جائیں ویسے بھی نور ابھی ہوش میں نہیں ہے تو آپ لوگ مِل نہیں سکتے..."
اُس نے سہولت سے انکار کیا...
"ٹھیک ہے بھائی مگر کوئی بھی مسئلہ ہو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو مُجھے فوراً کال کیجئے گا.."
دانیال اُس سے گلے ملتے ہوئے کہا ...
"اور پریشان نہیں ہونا آپ نے بھائی.."
نمرہ نے بھی اُس کے گلے لگتے ہوئے کہا...
اُسکی نظریں شفق خاتون کی طرف اُٹھی تھیں مگر اُنہوں نے اُسے اپنے اپنے سینے سے نہیں لگایا جبکہ وہ چاہتا تھا کہ وُہ خود اُسے اپنے سینے سے لگائیں....

_________________________________________

"کیا ہوا شفق ایسے کیوں بیٹھی ہو؟..."
سبحان نے اُنہیں گم صم بیٹھے دیکھ کر پوچھا...
"کُچھ نہیں بس ایسے ہی.."
اُنہوں نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر کہا...
"میں کبھی کبھی تُمہیں بالکل نہیں سمجھ پاتا.."
اُنہوں نے یوں ہی بیٹھتے ہوئے کہا...
"میں خود بھی خود کو نہیں سمجھ پاتی..."
وُہ کھوئے کھوئے انداز میں بولیں...
"یہ تمہارا کون سا روپ ہے شفق جو آج میں نے دیکھا صرف علی کے لئے نہیں نور کے لئے بھی ورنہ تُم نے اپنی ہر عمل سے یہ بات ثبت کردی ہے کہ تُم علی اور نور سے نفرت کرتی ہو..."
اُنہوں نے غیر مرئی نقطے پر نظریں مرکوز کیے کہا..
"میں بُری نہیں ہوں سبحان صاحب  آپ جانتے ہیں میں مانتی ہوں میں علی سے نفرت کرتی ہوں  نور سے بھی مگر میں ماں ہوں آخر پیدا تو میں نے ہی کیا ہے اُسے میں اپنی مامتا اور نفرت سے لڑ رہی ہوں پچھلے اٹھائیس سالوں سے اور ہر بار میری نفرت میری مامتا پر غاصب رہی مگر آج بھی جب وُہ تکلیف میں ہوتا ہے تو مُجھے پُکارتا ہے اپنی ماں کو.."
وُہ بہت ضبط سے کام لے رہی تھیں...
"تُم اُس سے بہت محبت کرتی ہو مگر تُم اِس بات کو کبھی مانو گی کیونکہ تُم ہارنا نہیں چاہتی اتنے سالوں سے جو جنگ خود سے لڑ رہی ہو اُس میں جیتنا چاہتی ہو مگر اُس کا جیت کا کوئی حاصل نہیں ہے شفق..."
سبحان صاحب نے اُن کا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے کہا...
"وُہ کہہ رہا تھا نور کے علاوہ اُس کا کوئی نہیں ہے کیا میں نے اُسے خود سے آپ سب سے اتنا دور کردیا ہے ..."
وُہ اب ہچکیوں سے رونے لگی تھیں...
"مُجھے آج اندازہ ہوا اِسی طرح آپ میرے لیے تڑپے تھے علی کے وقت جیسے آج علی تڑپ رہا تھا نور کے لئے میں نے اپنی پوری زندگی نا شكری میں گزار دی کبھی آپکی محبت کی قدر نہیں کی کبھی آپکی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا میں نے علی کے ساتھ آپ سے بھی نفرت کی مگر آپ نے مُجھے کبھی نہیں چھوڑا .."
سبحان صاحب کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی...
"میں تُمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا شفق میں مانتا ہوں میں نے غلط کیا تھا تمہارے ساتھ مگر میں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور تھا شفق بچپن سے بچپن سے میں نے تُم سے محبت کی تھی کیسے چھوڑ دیتا تُمہیں...."
سبحان صاحب نے اُن کا سر تھپکتے ہوئے کہا...
"مُجھے عُمر گزرنے کے بعد آج احساس ہوا آپکی محبت کا وُہ بھی اُس کی وجہ سے جس کی وجہ سے میں کبھی آپکی محبت کو سمجھ نہ سکی مگر آج علی کے اِن لفظوں نے مجھے بُری طرح ہلاکر رکھ دیا ہے کہ "اُس کا نور کے علاوہ اور کوئی نہیں..."
"مت ظلم کرو پھر خود پر جاکر اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگالینا وُہ تُم سے بہت محبت کرتا ہے مُجھ سے زیادہ چاہتا ہے وُہ تُمہیں تُم نے دیکھیں تھی اُس کی نظریں جو تُم پر ٹکی تھیں وُہ تمہارے گلے لگنا چاہتا تھا  مگر پھر تُم نے اپنی انا اُونچی رکھی.."
سبحان صاحب نے افسوس سے کہا...
"مُجھ سے نہیں ہوگا یہ سبحان صاحب ہاں میں اُس سے محبت کرتی ہوں اپنے سب بچوں سے زیادہ مگر میں نفرت بھی کرتی ہوں میں نہیں ہار سکتی مگر میں نے خود سے وعدہ کیا ہے اپنے پوتا یا پوتی کو وُہ سارا پیار دوں گی جو میں اُس کے باپ سے نہ کرسکی میں اپنے علی کی اولاد کو اپنے ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھوں گی وُہ میرے علی کی اولاد ہوگی مُجھے اُس سے صرف محبت ہوگی.."
"تُم جیسے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں مگر اپنا انا کا پرچم بُلند رکھتے ہیں.."
سبحان صاحب نے طنز کیا..
"جو کہہ لیں آپکو حق ہے.."
شفق خاتون نے بہت سے آنسو اندر اُتارتے ہوئے کہا...

(جاری ہے)

Warning ⛔⛔⛔😎😠 اب سے ناول کی اقساط آپ سب کے کمنٹس  کی بُنیاد پر آئے گی مرے ہوئے لوگوں کے زندہ ہونے کا وقت ہوگیا ہے...
فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ مر مر کر آخری کی قسطیں چاہیے یا جلدی...
اور اِسے محض دھمکی نہ سمجھنا....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro