قسط نمبر ۴۵ (حصہ اول)
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۵
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"زبیر کی کال آئی تھی بتا رہا تھا عید کے چوتھے دِن آرہے ہیں..."
علی نے شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا...
"ہاں نادیہ آپی سے بات ہوئی تھی کل کہہ رہی تھیں عید پر ہی آجاتے مگر فلائٹ نہیں ملی..."
نور نے گھڑی اسے پکڑاتے ہوئے کہا...
"پھر اُنہیں سب پتا چل جائے گا ویسے ہی تمہارا بھائی مُجھے دھمکیاں دے چکا ہے اب کی بار پتا نہیں کیا کرے..."
علی نے بیچارگی سے کہا...
"کیا پتا چل جائے گا..؟"
اُس نے ناسمجھی سے پوچھا...
"یہی کہ میں نے اُس کی بہن کو کس حال میں رکھا ہوا ہے.."
"کس حال میں ٹھیک تو ہوں میں آپ نے بھائی کو بہت غلط سمجھ لیا ہے اِس بات پر تو وُہ کبھی آپکو کُچھ نہیں بولیں گے وقتی پریشانی ہے یہ تو..."
نور نے مسکرا کر اُسے حوصلہ دیا...
"ایک ہفتے بعد عید ہے شادی کے بعد ہماری پہلی عید مگر کوئی تیاری نہیں..."
اُس نے قنوطیت سے کیا..
"یہ آپ اتنی نا اُمیدی کی باتیں کیوں کرنے لگ گئے ہیں علی آپ ایسے تو ہرگز نہیں تھے..."
نور نے افسوس سے کہا...
"کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ احساس شدت پکڑ رہا ہے میرے اندر کہ میں تُمہیں کُچھ بھی نہیں دے پارہا ہوں..."
"آپ اپنا ساتھ مُجھے دے رہے ہیں یہ کافی ہے میرے لیے اور یہی ضروری ہے باقی سب ٹھیک ہوجائے گا..."
نور نے ہموار لہجے میں کہا...
"آج کُچھ نہیں ہے رات کے کھانے کے لئے ایک روپیہ نہیں ہے میرے پاس فیکٹری بھی عُمر کے ساتھ جاؤں گا پیٹرول ختم بائک میں..."
علی نے یاسیت سے کہا...
"ابھی پورا دِن پڑا ہے علی.."
نور نے مضبوط لہجے میں کہا..
"تُمہیں کسی بات سے فرق کیوں نہیں پڑتا؟.."
علی اُلجھ کر بولا...
"پھر وہی باتیں اگر آپ نے مزید ایسی کوئی بات کی جائیں مُجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی..."
نور نے نروٹھے پن سے کہا وُہ جانتی تھی یہ دھمکی کارگر ثابت ہونی تھی اور ایسا ہو ہوا..
"اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے نہیں بولتا ایسی کوئی بات..."
علی نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی...
"آپکی کال آرہی ہے علی.."
نور نے ایک نظر موبائل پر ڈال کر کہا...
"ہاں عُمر ہوگا شاید آگیا ہوگا لینے تُم کہہ دو اُسے میں آرہا ہوں.."
علی نے موزے پہنتے ہوئے کہا...
"نہیں عُمر بھائی نہیں ہیں کوئی انجان نمبر ہے..."
"اچھا.." علی نے بے فکری سے کہا مگر پھر ایک خیال بجلی کی سے تیزی سے اُس کے ذہن میں کوندا اُس نے سرعت سے موبائل اُٹھا لیا...
نور نے اُس کی اِس حرکت کو بغور دیکھا...
"اُسی کی کال ہوگی کیسے بھول گئی میں اُسے..."
نور نے نخوت سے سوچا...
"بات کریں کون ہے..؟"
نور نے طنزیہ انداز میں کہا جس علی نے محسوس نہیں کیا...
"چھوڑو تُم دیکھو عُمر بھی آگیا.."
نیچے سے آتی ہارن کی آواز پر اُس نے کہا...
"میں چلتا ہوں جاناں اپنا خیال رکھنا اور بلاوجہ خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں ہے بلکل بھی اور نیچے ہرگز نہیں جاؤ گی تُم ٹھیک ہے.."
وُہ اُسے جلدی جلدی نصیحت کرتا ہوا بولا...
"جی ٹھیک ہے.."
وُہ بے دلی سے بولی...
"کیا ہوا منہ کیوں اُتر گیا ایک دم سے.."
علی نے رُک کر پوچھا...
"ایسا کُچھ نہیں ہے آپکو ایسے ہی لگ رہا ہے.."
نور نے فوراً مسکرا کر کہا مگر وُہ مطمئن نہ ہوا...
"میں چلتا ہوں شام کو بات ہوگی اللہ حافظ.."
علی نے اُس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا...
"خُدا حافظ.."
وُہ نارمل انداز میں بولا تو علی کُچھ لمحے اُسے یوں ہی دیکھتا ہوا چلا گیا...
"اللہ کرے جو میں سوچ رہی ہوں وُہ غلط ہو میں یہ نقصان برداشت نہیں کرسکتی خود سے پوچھ بھی نہیں سکتی ابھی ایک بھرم ہے ایک دیوار ہے اگر پوچھنے پر صاف صاف مُجھے کہہ دیا کہ "ہاں میں اُس سے اب تک محبت کرتا ہوں.." تو میں کہاں جاؤں گی.."
اُس نے تاسف سے سوچتے ہوئے سر جھٹکا اورکمرے میں بکھرے علی کے کپڑے سمیٹنے لگی...
_________________________________________
"کیسی لگ رہی ہے نئی جاب.."
عُمر نے اُس کے سامنے کُرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا...
"ٹھیک ہے.."
علی نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا...
"کہاں گُم ہے..؟"
عمر نے اُس کے سامنے ہاتھ لہرا کر کہا...
"کہیں نہیں بس اب گھر دیکھنا شروع کروں گا دس بارہ ہزار تک کا کوئی فلیٹ مِل جائے ابھی کے لئے تو بعد میں جب سہولت ہوگی تو اور اچھا لے لوں گا اور تنخواہ بھی اب زیادہ ہے تُو نے تو پینتیس تک بتائی تھی مگر یہ لوگ تو بیالیس تک کہہ رہے ہیں پھر بھی تھوڑا مشکل ہوگا مینج کرنا مگر ہوجائے گا تو بھی اپنے جاننے والوں کو بول کر رکھ کوئی فلیٹ ہو تو اسٹیٹ ایجنٹس کو نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں اُن کا کمیشن افورڈ نہیں کرسکتا.."
علی نے تفصیل سے ساری بات کی...
"ٹھیک ہے کہہ دوں گا مگر میں اب کہہ رہا ہوں علی جب تک تمہاری اچھی جاب نہیں ہوجاتی ہمارے ساتھ رہ لو دوست ہوں یار تمہارا مگر شاید تُم صرف کہتے ہو مُجھے مانتے نہیں ہو..."
عمر اُس کے مسلسل انکار سے تنگ آکر جھنجھلا کر بولا...
"عمر ایسی کوئی بات نہیں ہے تُو جانتا ہے پھر بھی..."
"مگر یار..."
عمر نے کُچھ کہنا چاہا...
"دیکھ میری بات سُن مُجھے بڑی مشکل سے ایک مخلص بھائی جیسا دوست مِلا ہے تیری شکل میں میں تُجھے ناراض نہیں کرنا چاہتا مگر میں وُہ بھی نہیں کرسکتا جو تُو کہہ رہا ہے ..."
علی نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا...
"مُجھے تُجھ سے بات ہی نہیں کرنی.."
عُمر نے جیب سے موبائل نکالا اور خود کو مصروف ظاہر کرنے لگا...
"گنجو..."
"کیا ہے لمبو؟؟"
حسبِ توقع جواب تنک کر آیا...
"میری بیوی نہیں روٹھی آج تک مُجھ سے لیے مُجھے منانے کا کوئی تجربہ نہیں مگر تُو ہر چھوٹی بات پر منہ پھولا کر بیٹھ جاتا ہے لڑکیوں سے بھی گیا گزرا ہے تُو تو..."
علی نے سنجیدگی سے کہا ارداہ اُسے تپانے کا تھا اور وہی ہوا...
"منہ بند کر ورنہ تیرا سر پھوڑ دوں گا..."
عُمر مصنوئی خفگی سے بولا...
"اچھا ناں جانو مان جا ناں..."
اُس نے شرارت سے کہا...
"ایک شرط پر..."
" پکی بیویوں والی حرکتیں ہیں تیری..."
علی نے مزید چھیڑا..
"وعدہ کر اگر کبھی تُجھے ایسا لگا کہ تُجھے ضرورت ہے کوئی بھی مسئلہ ہو کسی بھی قسم کا تو مُجھے بغیر بتائے سامان لے کر دروازے پر آ کھڑا ہونا اپنے گھر کے..."
عُمر نے اُس کے شوخ لہجے کا اثر لیے بغیر سنجیدہ انداز میں کہا...
"چل وعدہ کرتا ہوں پہلی فرصت میں تیرے پاس آؤں گا اور تُجھے اُس گھر سے نکال باہر کرکے اُس پر قابض ہوجاؤں گا..."
علی کی اِس بات پر عُمر کا قہقہ بے ساختہ تھا...
علی کا فون بجنے لگا..
"ہیلو کون..."
انجان نمبر دیکھ کر اُس نے پہلا سوال کیا...
"بوجھو تو جانیں..."
دوسری طرف سے آنے والی آواز وُہ فوراً پہچان گیا اُس نے اپنی مُٹھی سختی سے بھینچ لی پیشانی پر بل نمودار ہوئے تھے عُمر نے بغور اُس کے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھے...
"تمہارا مسئلہ کیا ہے آخر کیوں کسی جونک کی مانند چمٹ گئی ہو خُدا کے واسطے شرم کرو کُچھ تو..."
وُہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھ کر نفرت سے بولا...
عمر نے حیرت سے اُس کی بات سنی...
"علی میرے گھر والے میری شادی کسی رنڈوے دو بچوں کے باپ سے کر رہے ہیں پلیز مُجھے بچا لو میں تُمہاری دوسروں بیوی بننے کو بھی تیار ہوں..."
زونیہ کی آواز روتی ہوئی تھی...
علی کو انسانیت کے ناطے افسوس ہوا تھا اُس نے ایسا تو نہیں چاہا تھا..
"دیکھو زونیہ مُجھے تُم سے ہمدردی ہے اِنسانیت کے ناطے مگر اِس سے زیادہ میں کُچھ نہیں کرسکتا پلیز مجھے پریشان کرنا بند کردو..."
علی نے نرمی سے اُسّے سمجھانا چاہا...
"علی پلیز تُمہیں اُس محبت کا واسطہ جو تُم نے کبھی مُجھ سے کی تھی مُجھے مرنے سے بچا لو..."
"میں نے تُم سے کبھی محبت کی ہی نہیں تو پھر کیسا واسطہ وُہ صرف میری حماقت تھی میں صرف نور سے محبت کرتا ہوں تُمہیں کیوں نہیں سمجھ آتی یہ بات مُجھے تمہارے نام سے بھی نفرت ہے تُم شادی کی بات کرتی ہو..."
علی اب پھٹ پڑا...
"میں تمہارے گھر آکر سب سے کہوں گی کہ تُم نے میرے ساتھ غلط کیا تمہارے میرے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں اتنا بدنام کردوں گی کہ تُمہیں مُجھ سے شادی کرنی پڑے گی ہر صورت..."
وُہ اب دھمکیوں پر اُتر آئی...
"تُم میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ جو کرنا ہے کرو میری بیوی کو مُجھ پر پورا بھروسہ ہے تمہارے اِن جھوٹ الزامات سے ہمارے رشتے کو کُچھ نہیں ہونے والا البتہ تُم منہ کی کھا کر جاؤ گی..."
اُس کے لہجے میں غرور بول رہا تھا نور کی اپنے لیے محبت اور اعتماد کا...
"دیکھ لوں گی..."
زونیہ نے غصّے میں کہتے ہوئے فون بند کردیا...
"کیا عذاب ہے..."
اُس نے ٹیبل پر مکا بنا کر زور سے مارا...
"یہ کیا چکر ہے علی...؟"
کب سے چُپ بیٹھا عُمر بولا...
علی نے شروع سے لے کر اب تک کی ساری بات اُسے بتادی...
"وُہ اب چاہتی کیا ہے..؟"
ساری بات سننے کے بعد عُمر نے کہا...
"یہی کہ میں اُس سے شادی کرلوں.."
"اور تُم کیا چاہتے ہو...؟"
عُمر نے ترچھی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا..
"کیا مطلب کیا چاہتا ہوں.."
علی تپ کر بولا...
"تمہارے دِل میں کہیں بھی دوسری شادی کا خیال۔۔"
"بکواس بند کر عُمر میں مذاق کے موڈ میں بلکل نہیں ہوں مُجھے کیا ضرورت ہے دوسری شادی کی میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں..."
علی نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا...
"تو مسئلہ کیا ہے..؟"
"دھمکی دے رہی ہے گھر آکر جھوٹ بولے گی کہ میرے اُس کے ساتھ تعلقات ہیں..."
"کتنی گری ہوئی لڑکی ہے..."
عمر نے نخوت سے کہا...
"میں تو اُسے صرف ضدی خود پسند سمجھتا تھا مگر یہ اِس تک گر جائے گی میں نے سوچا تک نہیں تھا مُجھے تو حیرت ہوتی ہے مُجھ جیسے اِنسان نے ایسی لڑکی سے شادی کی خواہش رکھی بھی کیسے تھی کبھی..."
وُہ سخت کبیدہ خاطر دکھائی پڑتا تھا...
"بھابھی کو اعتماد میں لے کر ساری بات بتاؤ ایسا نہ ہو تم دونوں کے درمیان غلط فہمی پیدا ہوجائے..."
"نہیں نور کو مُجھ پر پورا بھروسہ ہے وُہ جانتی ہے میں اُس سے کتنی محبت کرتا ہوں میں اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تُم نہیں جانتے وُہ کتنی حساس ہے میرے معاملے میں بلاوجہ اپنی طبیعت خراب کرلے گی میں اُسے تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا یہ معاملہ میں خود ہی نپٹا لوں گا مگر نور کو نہیں پتا چلنا چاہیے میں صرف اُسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں..."
علی نے رسانیت سے کہا..
"تُم ٹھیک کہہ رہے ہو مگر میرا مشورہ یہی ہے تُمہیں اُنہیں سب بتادو عورتوں کو فطرت نہیں جانتے تُم اپنے شوہروں کو لے کر وُہ خبطی ہوتی ہیں بھلے پھر اُن سے جتنی بھی محبت کرتی ہوں جتنا بھی بھروسہ کرتی ہوں..."
عُمر نے یکساں لہجے میں کہا...
"جب مُجھے لگا اِس کا ضرورت ہے میں بتادوں گا مگر ابھی میں خود سے اِس عذاب سے جان چھڑوانے کی کوشش کروں گا..."
علی نے مضبوط لہجے میں کہا...
"اچھا چھوڑ یار موڈ ٹھیک کر اب اپنا..."
عمر نے اُس کے تنے ہوئے نقوش دیکھ کر کہا..
"کیا ہے..؟"
وُہ بیزاری سے بولا...
"یہ لُک مت دیا کر مُجھے قسمیں کُچھ کُچھ ہوتا ہے ہائے..."
وُہ دِل پر ہاتھ رکھ کر لوفرانہ انداز میں بولا تو علی کے چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ اُبھری تھی...
"کمینے.."
"یہ ہوئی ناں بات لمبو..."
عمر نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا....
_________________________________________
"دیر ہوگئی آپکو آج آنے میں..."
نور نے پانی کا گلاس اُسّے دیتے ہوئے کہا..
"ہاں چھ بجے تو وہاں سے نکلے پھر ٹریفک آتے آتے دو گھروں سے ہوتا آیا ہوں فیس کے پیسوں کے لئے آگے دے دیں تو کُچھ لے آتا کھانے کے لئے..."
اُس نے شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولتے ہوئے کہا...
"دیے پیسے.."
"کہاں یار عجیب ذلالت ہے اپنے ہی پیسوں کے لئے بھکاریوں کی طرح بار بار مانگنے جانا پڑتا ہے.."
علی نے تند لہجے میں کہا...
"تُم نے کُچھ نہیں کھایا ہوگا صبح سے..."
"نہیں سامنے منیرہ خالہ کے گھر سے افطاری آگئی تھی تھوڑی تو میں نے وہی کھا لی تھی..."
اُس نے صاف جھوٹ بولا وُہ علی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی...
"آپ نے یقیناً کُچھ نہیں کھایا ہوگا..."
"تُم میری فکر مت کرو یار اپنا خیال رکھا رنگ دیکھو کیسا زرد ہورہاہے تُمہارا.."
اُس نے نور کے اُترے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا...
"میں ٹھیک ہی ہوں علی..."
وُہ اُس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی...
"انشاءاللہ کل کُچھ ہوجائے گا آپ پریشان مت ہوں.."
اُس نے علی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"انشاءاللہ..." وُہ بے دلی سے بولا...
"کیسا تھا پہلا دِن.."
نور نے اُس کا دھیان بٹانا چاہا...
"ٹھیک تھا..." وُہ عدم دلچسپی سے بولا...
"دانیال بھائی آئے تھے آپکا پوچھنے..."
نور نے اُس کے ہاتھ سے گھڑی اتارتے ہوئے بتایا تو وُہ اُس کی اِس حرکت پر مسکرادیا...
"اچھا کیوں آیا تھا...؟"
"پتا نہیں بول رہے تھے آپ سے کُچھ بات کرنی ہے اور مُجھے سے کل کے لئے دوبارہ معافی مانگ رہے تھے.."
نور نے اُس کی ہتھیلی پر اپنی اپنی اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا علی کے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ تھی...
"فرح کی بھی کال آئی تھی عید کے فوراً بعد واپس آرہے ہیں وُہ لوگ فارس بھائی کا ٹرانسفر کراچی میں ہی ہوگیا ہے واپس اور خیر سے پانچواں مہینہ لگ گیا ہے فرح کا بس اللہ ساتھ خیریت سے فارغ کرے اُسے..."
نور اب علی کے دائیں ہاتھ کے اُنگلی میں پہنی
انگوٹھی سے کھیل رہی تھی...
"آمین.."
علی اُسی طرح لیٹ گیا...
"آج ٹی وی پر بڑا اچھا شو پروگرام آرہا تھا عامر لیاقت کا..."
وُہ بے تکی باتیں کر رہی تھی...
"وُہ تو پورے رمضان ہی آتا ہے آج کیا خاص تھا..."
"کُچھ نہیں بس ایسے ہی بول دیا.."
نور نے جھٹ بات بنائی...
"نورِ علی کوئی بات کرنی ہے؟؟"
علی نے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا..
"پوچھنا تو بہت کُچھ ہے مگر ہمت نہیں سچ سُننے کی..."
اُس نے خود سے کہا...
"نہیں کوئی بات نہیں ہے ایسی ہی آپ سے باتیں کرنے کا دِل کر رہا ہے..."
نور نے مسکرا کر کہا..
"ابھی بہت تھکا ہوا ہوں تھوڑی دیر لیٹوں گا یار بعد میں بات کریں.."
وُہ واقعی تھکا ہوا تھا..
"ٹھیک ہے..." نور نے اِس بات کو بُری طرح محسوس کیا تھا...
"ہاں عشاء سے پہلے اُٹھا دینا اگر آنکھ لگ گئی تو تراویح کے لئے بھی جانا ہے..."
اُس نے دوسری طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا اور آنکھیں بند کرلیں...
"اب آپ مُجھ سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے تھکن ہورہی آپکو پہلے تو جتنا بھی تھکے ہوئے ہوں ہمیشہ مُجھے سے باتیں کیا کرتے تھے..."
وُہ بہت زیادہ سوچ رہی تھی...
علی کا موبائل فون سائیلنٹ پر تھا مگر وُہ دیکھ سکتی تھی مسلسل کسی کے میسج آرہے تھے ...
"یار چھوڑو رات میں ہی سوؤں گا ابھی سوگیا تو پکا تراویح نکل جائے گی چلو باتیں کرتے ہیں.."
اُسے خود ہی احساس ہوا تو نور کی طرف کروٹ لے کر بولا...
"نہیں آپ آرام کرلیں میں اُٹھا دوں گی آپکو تراویح کی فکر نہیں کریں..."
وُہ رُکھائی سے کہتے ہوئے اُٹھ کر چھت پر چلی گئی...
"اِسے کیا ہوا...؟"
علی نے خود سے سوال کیا پھر اپنا وہم سمجھ میں ٹال گیا...
_________________________________________
علی تراویح کے لئے گیا ہوا تھا موبائل گھر پر ہی چھوڑ کر گیا تھا جو نور کے ہاتھوں میں تھا...
"علی میرے گھر والے میری شادی کسی اور سے کر رہے ہیں پلیز کُچھ کرو مُجھے اپنا نام دے دو میں تمہاری دوسری بیوی بننے کے لئے بھی تیار ہوں نور کو بھی طلاق مت دو مگر مُجھے اپنا لو..."
"بات یہاں تک پہنچ چُکی ہے آج دوپہر میں باتیں بھی کر رہے تھے اُس سے..."
وُہ مسلسل خود اذیتی کا شکار تھی میسج پڑھنے کے ساتھ ساتھ وُہ ڈیلیٹ بھی کرتی جارہی تھی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں..
"ایک دفعہ پوچھ کر خود کو اذیت سے رہا کرو نور.."
کہیں اندر سے آواز آئی...
"نہیں پوچھ سکتی کیونکہ میں جانتی وُہ اُن کی محبت ہے بچپن کی میں نے اِس حققیت کے ساتھ ہی اُنہیں اپنایا تھا مگر مُجھے نہیں پتا کہ وُہ پھر ہماری زندگی میں یوں آجائے گی..."
وُہ خود کلام تھی...
"صحیح کہتے ہیں لوگ مرد اظہارِ محبت سُن کر آزاد ہوجاتا ہے اور عورت قید اب اُنہیں مُجھ سے بات کرنے میں بیزاری ہوتی ہے وُہ بہانے کرتے ہیں..."
نور ہر طرح سے منفی سوچ رہی تھی...
اُس نے نجانے کیوں زونیہ کا نمبر اپنا موبائل میں سیو کرلیا تھا...
اُس نے موبائل واپس رکھا اور فریج میں کل رات کا بچا سالن اور ایک تندور کی روٹی گرم کرنے چلی گئی...
"کیا ہورہاہے.."
وُہ اُسّے ڈھونڈتے ہوئے کچن میں آگیا...
"کُچھ نہیں.."
اُس کا لہجہ نجانے کیوں خشک تھا جبکہ وُہ ایسا کہنا نہیں چاہتی تھی...
"آپ جاکر بیٹھیں میں بس لارہی ہوں کُچھ تو کھائیں صبح سے بھوکے ہیں..."
اُس نے اب کی بار نارمل انداز میں کہا تو وُہ ار ہلاتا چلا گیا...
وُہ کمرے میں آئی تھی علی موبائل میں مصروف تھا...
"کسی کی کال آئی تھی کیا..؟"
اُس نے اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا..
"نہیں تو.."
اُس نے متانت سے بولنے کی ناکام کوشش کی...
"تُم بھی کھاؤ ناں میرے ساتھ ہی جتنا بھی ہے..."
علی نے نوالہ توڑتے ہوئے کہا...
"نہیں علی بلکل بھوک نہیں ہے شام میں افطاری کی تھی پھر آج بڑی رات ہے ایک جگہ سے نیاز آئی تھی وُہ کھا لی تو بالکل بھوک نہیں..."
وُہ اُس کی طرف بغیر دیکھے جھوٹ بولی...
"اچھا..." اُس نے اچھا کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا مسلسل نظریں اُس کے چہرے پر تھیں وُہ عجیب سے انداز میں مسکرا دیا...
"بس میرا ہوگیا اور اب میں سوؤں گا لائٹس بند کردینا.."
اُس نے بمشکل تین نوالے حلق سے اُتارتے تھے ٹرے ایک طرف کھسکا دی...
"آپ نے تو کھایا ہی نہیں کُچھ علی.."
وُہ حیرانگی سے بولی..
"مسجد میں آج اعتکافیوں کے لئے بریانی کا انتظام کیا گیا تھا تو سب تراویح پڑھنے والوں کو بھی کھلایا میں نے وہاں پیٹ بھر کے کھا لیا تھا..."
علی جانتا تھا وُہ اُسکی آنکھیں دیکھ کر فوراً سمجھ جائے گی اِس لیے ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے لیٹ گیا...
"آپ نے سچ میں کھالیا تھا...؟"
اُسے بلکل یقین نہیں آیا..
"ہاں جیسے تُم نے افطاری اور نیاز کھا لی تھی اکیلے..."
اُس کے آواز ہنستی ہوئی تھی نور کُچھ دیر اُسے یونہی دیکھتی رہی پھر ٹرے اُٹھا کر کمرے سے نکل گئی...
"تُم نے مُجھے پاگل سمجھا ہوا ہے نور یا تو خود کو بہت ہوشیار تُم مُجھ سے کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتی تُم جانتی نہیں ہو یہ بات میں کیسے یقین کرلیتا تُم نے میرے لیے کُچھ بھی رکھے بغیر سارا خود کھا لیا ایسا تو نا ممکن ہے رکھتی بھی تب ناں جب وُہ دونوں باتیں حقیقت ہوتی.."
اُس نے دِل گیر لہجے میں خود سے کہا مٹھیاں سختی سے بھینچ لی...
"آپ جھوٹ نہیں بول سکتے مُجھ سے علی یہ بات نہیں جانتے آپ نہ میں آپ سے میں جانتی ہوں آپ نے کُچھ نہیں کھایا اور آپ یہ بھی جانتے ہیں میں نے کُچھ نہیں کھایا اِسی لیے آپ نے میرے لیے یہ چھوڑ دیا..."
وُہ کچن میں کھڑی آدھی سے زیادہ روٹی اور سالن کو دیکھتے ہوئے خود سے گویا ہوئی...
"وُہ تُمہیں تُم سے بہتر جانتے ہیں نور..."
اُس کے اندر سے آواز آئی...
"وُہ صرف میری عزت کرتے ہیں..."
اُس نے اپنی ہی سوچ کو نکارا...
"وُہ تُمہیں اپنی زندگی کا حاصل کہتے ہیں کیا یہ محبت نہیں..."
وُہ خود سے لڑ رہی تھی دِل مان چُکا تھا کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے مگر دماغ انکاری تھا...
"اُس وقت وُہ بہت ٹوٹے ہوئے تھا جذبات میں کہہ دیا تھا اُنہوں نے..."
نور نے خود سے کہا...
"جب اِنسان ٹوٹا ہوا ہوتا ہے تب اُسی کو پُکارتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہو.."
نور نے اپنے ذہن میں چل رہی تمام سوچوں کو جھٹکنا چاہا مگر ناکام رہی..
بہتی آنکھوں کے ساتھ اُس کی چھوڑی ہوئے روٹی توڑ کر کھانے لگی آنسؤوں میں مزید روانی آتی گئی...
(جاری ہے)
نوٹ: ناول پر آپ سب لوگوں کا رسپانس کم ہوگیا ہے حیرت انگیز طور پر جبکہ میرا خیال تھا کرنٹ ٹریک آپ لوگوں کو کافی پسند آئے گا مگر شکایت آرہی کے بور ہوگیا ہے جبکہ مُجھے تُو ایسا نہیں لگتا اب تک کہانی کو تفصیل سے لکھا گیا ہے اور ایک فلو بن چُکا ہے اب ہر قسط میں دھماچوکڑی تو نہیں ہوسکتی ناں ویسے بھی دو قسطیں ہی رہ گئی ہیں اب صرف برائے مہربانی پہلے کی طرح ہی ساتھ رہیں آخر میں آخر ساتھ نہ چھوڑیں صرف نائس نیکسٹ کی تکرار دکھتی مُجھے اب کمنٹس باکس میں اجتناب کریں....
شکریہ...
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro