قسط نمبر ۴۴ (حصہ دوم)
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۴
(حصہ دوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"مُجھے بہت اچھا لگا تُم سے مِل کر نور بہت دنوں بعد میں اتنا خوش ہوئی ہوں ورنہ پچھلے ایک سال میں جو جو ہوا ہے اُس کے بعد مُجھے نہیں لگتا تھا کہ میں اِس سب سے اُبھر پاؤں گی..."
بشریٰ نے چائے چھانتے ہوئے کہا...
"تُم بہت ہمت والی ہو بشریٰ بہت زیادہ اللہ پر بھروسہ رکھو اُس کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے ہوسکتا ہے اُس نے تُم دونوں کے لیے مزید بہتر کُچھ سوچا ہو..."
نور نے متانت سے کہا...
"ہمارا بیٹا چلا گیا ہمارے دو بچے اِس دُنیا میں آنے سے پہلے ہی چلے گئے کیا بہتری ہوسکتی ہے اِس میں نور..."
اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے...
"یہ تو اللّٰہ جانتا ہے ناں میں جانتی ہوں اولاد کا دُکھ سہنا آسان نہیں ہوتا اپنی کوکھ میں نو مہینے رکھا تھا تُم نے تمہارے ہاتھوں میں کھیلا تھا وُہ نہیں آسان بھول پانا میں کہہ بھی نہیں رہی کہ تُم اُسے بھول جاؤ بس اِسی طرح صبر کرو..."
نور نے اُس کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے تسلی بخش انداز میں کہا...
"اللہ تمہارے بچے کو اپنی امان میں رکھے نور..."
"انشاءاللہ..."
نور نے اُس کے چہرے کو پیار سے تھپکتے ہوئے کہا...
"اچھا چلو باہر چلتے ہیں یہ لوگ چائے کا انتظار کر رہے ہیں شاباش حلیہ درست کرو اپنا فوراً اور ایک مسکرا کر دکھاؤ.."
نور نے اُس کے بال سنوارتے ہوئے کہا تو وُہ ہلکے سے مسکرا دی..
"تُم بہت پیاری ہو بشریٰ مگر مسکراتے ہوئے اور حسین لگتی ہو عُمر بھائی اور تُم دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگتے ہو..."
اگر عُمر نہیں ہوتا میرے ساتھ تو میں کبھی خود کو سنبھال نہ پاتی..."
"میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے ایک کمزور پڑ رہا ہے تو دوسرے کو مضبوط بننا ہی پڑتا ہے..."
نور نے مسکرا کر کہا...
"بشریٰ کیا پائے پکا رہی ہو لے بھی آؤ اب..."
عُمر کی آواز پر وُہ دونوں مسکراتی ہوئی کچن سے نکل گئیں....
"نہ بھائی میں نہیں مانتا شادی تو پسند سے ہی کرنی چاہیے "لو میریج" مُجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کیسے کسی ایسے اِنسان سے شادی کرلیتے جسے وُہ ٹھیک سے جانتے تک نہیں شادی عُمر بھر کا رشتہ ہے تو کم از کم آپ اپنے شریکِ حیات کو اچھے سے جانتے تو ہوں..."
عُمر نے چائے کا کپ اُٹھاتے ہوئے علی سے کہا وُہ دونوں شاید اسی پر بحث کر رہے تھے...
"ارینج میریج ہو یا لو میریج رشتے کی کامیابی کا انحصار ایک دوسرے کے لئے عزت اور احترام پر کرتا ہے تُم نے ٹھیک کہا ہم جس اِنسان کو ٹھیک سے جانتے بھی نہیں اُس کے ساتھ ساری عُمر کا رشتہ جوڑ لینا واقعی عجیب لگتا بھی مُجھے بھی مگر جب کی تو جانا کہ یہ بہت خوبصورت سفر ہے شادی کے بعد اپنے ہمسفر کو اُس کی چھوٹی سی چھوٹی بات کو جاننا اُسے سمجھنا کُچھ اُس کی سننا کُچھ اپنی سنانا
کُچھ اپنی منوانا کُچھ اُس کی ماننا اور یہ سفر میرے لیے زندگی کا سب سے خوبصورت سفر ہے اور اِس کی خوبصورتی مزید نکھر جاتی ہے جب آپکی زندگی میں نور جیسا کوئی ہو..."
علی نے نور کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے کہا تو اُس نے بے اختیار جھینپ کر اپنا رُخ بدلا جبکہ عُمر کے کھانسنے پر اُسے بھی اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا...
"اچھا بس بڈھا بننے کی ضرورت نہیں پتا ہے تیری عُمر ہوگئی ہے.."
علی نے زبردستی کھانستے عُمر کو گھوری سے نوازا...
"علی بھائی جیسا کہ آپ نے کہا آپ دونوں کی ارینج میریج تھی ( جو کہ بالکل نہیں لگتی) تو جب آپ نے پہلی بار نور کو دیکھا کیا آپکو تب آپکو کیسا لگا تھا..؟"
بشریٰ نے اشتیاق سے پوچھا...
جبکہ نور آنکھوں ہی آنکھوں میں بشریٰ کو منع کر رہی تھی..
"پہلی بار تو میں نے اِسے جب چھوٹی بچی تھی تب دیکھا تھا اور بخدا میں بہت شریف تھا اپنے بچپن میں..."
علی نے نور کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ دبائی...
"کتنی چھوٹی.."
اب کی بار عُمر نے بولا...
"دو یا تین سال کی..."
"اور تو کتنے سال کا تھا...؟"
عُمر نے شرارت سے پوچھا...
"میں تیرا سر پھوڑ دوں گا عُمر مسئلہ کیا ہے سب کو میری عُمر سے کیا جاننا کیا چاہتا ہے..."
وُہ سخت تپے ہوئے انداز میں بولا تو عُمر اور بشریٰ سمیت نور بھی ہنسنے لگی...
"اچھا یہ چھوڑیں یہ بتائیں نور سے شادی کا سُن کر پہلا کیا خیال آیا تھا ذہن میں..."
بشریٰ نے پلیٹ سے پکوڑے اُٹھاتے ہوئے پوچھا...
"پہلا خیال کُچھ اچھا نہیں تھا.."
اُس نے رُک کر نور کی طرف دیکھا جہاں حیرت واضح تھی۔۔۔
"مطلب ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے اکثر آمنا سامنا ہوتا تھا مگر میں نے کبھی نور کو اِس نظر سے نہیں دیکھا تھا جب امی نے نور کی بات کی تو ذہن میں یہی ہے ایک ناسمجھ،کم عقل بچہ دِماغ والی لڑکی.."
وُہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا جبکہ نور کے چہرے پر ناگواری پھیل رہی تھی جسے دیکھ کر بشریٰ اور عُمر کافی محظوظ ہورہے تھے...
"اب یار غصّہ کرنے کی بات نہیں میں تب تُمہیں جانتا نہیں تھا اب تُم لوگ بتاؤ اپنے سے دس سال چھوٹی لڑکی کے بارے میں کیا سوچتا. ۔ فطری سوچ تھی کہ ہوگی عام سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی ام میچیور سی..."
وُہ بے دھیانی ہے وُہ بات کہہ گیا تھا جسے وُہ چھپا رہا تھا...
"تو دس سال بڑا ہے بھابھی سے..."
عُمر کی آنکھیں حیرت کے باعث پھیل گئیں...
نور نے متاسفانہ نظروں سے اُسے دیکھا...
"بڑا ہی کمینہ ہے تُو..."
علی کا کہیں بس نہیں چلا تو عُمر کی گردن ہی پتلی نظر آئی ایک زوردار دھپ رسید کی تھی اس کی کمر پر...
"ہاہاہاہا... تُو نے خود بتادیا میری کیا غلطی..."
وُہ ہنستے ہوئے بولا...
"ہاں تو اِس میں کیا ہوا کوئی انوکھی بات نہیں.."
علی نے متانت سے کہا..
"ہاں بھائی کوئی بڑی بات نہیں اور عُمر خود کو بھول گئے مُجھ سے پورے چھ سال بڑے ہو.."
بشریٰ نے علی کو چھوڑ اب عُمر کا پیچھا لیا...
"ششش... توبہ ہے بڑی حمایتی بن رہی ہو بھائی کی..."
عُمر بدمزہ ہوکر بولا تو علی زور سے ہنس دیا...
"تُو کیا پہلے بھابھی کو بہن سمجھتا تھا جو کہہ رہا کبھی اِس نظر سے دیکھا نہیں..."
عُمر نے اُسے دوبارہ زچ کرنا چاہا...
"استغفار اب بہن جیسا بھی کُچھ نہیں تھا.."
علی نے تنک کر جواب دیا..
"مطلب تیری نیت میں شروع سے فتور تھا.."
عُمر نے جلانے والی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا...
اُن تینوں میں سے مزید کوئی کُچھ کہتا اُس سے پہلے نور کی ہنسی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا...
"آپ بہت مذاق کرتے ہیں عُمر بھائی مطلب کُچھ بھی "نیت میں فتور"..."
وُہ کہہ کر پھر ہنسنے لگی تو ساتھ ہی وہ تینوں بھی ہنس دیے...
علی نے پہلی بار اُسے یوں کُھل کر ہنستے ہوئے دیکھا تھا اُسے خود کا مذاق بنائے جانے کا پھر ذرا افسوس نہ رہا..
وُہ لوگ پھر کُچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر علی نے جانے کی اجازت مانگی...
"اچھا یار بس اب چلیں گے کافی دیر ہوگئی ہے.."
علی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"یار صرف دس ہی بجے ہیں تھوڑا اور بیٹھ بڑا مزہ آرہا ہے.."
عُمر نے اصرار کیا..
"پھر کبھی ابھی مُجھے نیند بھی آرہی ہے پھر سحری میں بھی اٹھنا ہے ..."
علی نے معذرت خواہ انداز میں کہا...
"چلیں ٹھیک ہے مگر آپ دونوں جلدی آئیے گا پھر..."
بشریٰ نے مسکرا کر کہا..
"انشاءاللہ بھابھی..."
نور اور علی دونوں یک زبان ہوکر بولے...
"چلیں جی.."
علی نے نور کے پاس آکر کہا..
"جی.."
نور نے مسکرا کر کہا...
_________________________________________
"صرف گھر کی کام کاج کو لے کر تُم عورتوں نے اتنا بڑا بکھیڑا کھڑا کردیا ہے..."
سبحان صاحب نے افسوس سے اُن تینوں کو دیکھتے ہوئے کہا...
دانیال چُپ بیٹھا ہوا تھا...
"ابو مُجھے کام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے میرا گھر ہے یہ کیوں نہیں کروں گی مگر مجھے بھی اِنسان ہی سمجھا جاتا پورے گھر کا جھاڑو پوچھا برتن کھانا پکانا کپڑے دھونا سب میں اکیلے کیوں کروں نمرہ نے یونیورسٹی سے دو بجے تک آجاتی ہے چلیں صفائی اور صبح کا ناشتہ میں کرلوں گی مگر کپڑے دھونا اور استری کرنا تو یہ کرے رات اور دوپہر کا سالن بھی بنالوں گی یہ میرے ساتھ مدد ہو کروا دے اب یہاں کہاں کا اِنصاف ہوا کہ میں اکیلے سارا کام کروں آپ ہی بتائیں..."
تانیہ نے بہت تحمل سے اپنی بات اُن کے سامنے رکھی...
"کہیں غلط نہیں ہو تُم..."
اُنہوں نے فوراً کہا...
"نمرہ تھک ہار کے آکر گھر کے کام بھی کرے پھر اُسے پڑھائی بھی کرنی ہوتی ہے.."
شفق خاتون نے بھی سرعت سے کہا...
"شفق کام مِل بانٹ کر آرام سے ہوسکتے ہیں ہمارا کوئی میلوں پر پھیلا بنگلہ نہیں ہے دو س چالیس گز کا مکان ہے..."
سبحان صاحب نے پرسوں کی لڑائی کی بعد سے اُنہیں اب مخاطب کیا تھا...
"پر ابو مُجھے پڑھنا بھی ہوتا ہے..."
نمرہ شفق خاتون کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بیچ میں بول پڑی...
"پورا دِن تُم موبائل پر لگی ہوتی ہو موبائل سے ہٹی تو لیپ ٹاپ وہاں سے ہٹی تو پھر موبائل مُجھے تو کبھی پڑھائی کرتی نہیں دِکھی.."
سبحان صاحب نے اُسے جھوٹا پٹخ دیا...
"تُم کُچھ نہیں بولو گے..؟"
سبحان صاحب نے کب سے خاموش بیٹھے دانیال کو ٹہھوکا..
"کیا کہوں ابو مُجھے تو حیرت ہورہی ہے صرف تین ہفتے صرف تین ہفتے اِن لوگوں سے گھر نہیں سنبھلا سب کو کام بوجھ لگ رہا ہے نور بھابھی تو ہر ایک کام اکیلے کرلیتی تھیں بغیر کُچھ کہے صبح فجر کے وقت اُٹھ جاتی تھیں مشین میں اُن کے ہوتے ہوتے میں نے ایک دفع بھی کپڑے نہیں دیکھے روز صبح ہی ہاتھ سے دھوکر سُکھا دیتی تھیں پھر سب کو ناشتہ دینا گھر کے مردوں کے جاتے ہی گھر کی صاف صفائی کرنا پھر دوپہر کےکھانے کی تیاری کرنا نمرہ آجاتی تو اُس کے لیے الگ روٹیاں بنانا شام میں ہمارے لیے الگ پھر رات کا کھانا اور رات سونے سے پہلے بھی لاؤنج کی صفائی کرکے سوتی تھیں وُہ مگر میں نے کبھی اُنہیں شکایت تو دور کی بات کبھی اُن کے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں دیکھی اور اب دیکھیں دوپہر کے وقت اُٹھتی ہیں تقریباً روز ہی میں ناشتہ کیے بغیر چلا جاتا ہوں بھابھی کے ہوتے ہوئے ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا دوپہر کے دو دو تین تین بجے تک گھر یونہی گندا پڑا رہتا ہے آخری دفع مشین بھی شاید بھابھی نے ہی لگائی تھی اب دیکھیں ڈھیر جمع ہے کپڑوں کا اتنے کہ مشین سے باہر گر رہے میں تین دِن سے ایک ہی پینٹ پہن کر جا رہا ہوں آفس بھابھی نے میرے لیے ترتیب بنا کر رکھی ہوئی تھی ہفتے کی جب یونیورسٹی میں تھا تب بھی جب جاب پر لگا تب بھی اور اب دیکھیں میری بیوی سمیت کسی کو احساس ہی نہیں بس ہر کسی کو اپنی فکر جس کو جو سوٹ پہننا ہوا مشینیں سے نکال کر دھولیا ایسے کوئی گھر چلتا ہے... پتا نہیں امی آپکو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ نور بھابھی کے بغیر یہ گھر کُچھ نہیں ہے میں اِس لیے نہیں کہہ رہا کہ وُہ سارے کام کرتی تھیں بلکہ اِس لیے کہ اُن کا دِل بہت صاف تھا کسی کے لئے کوئی بغض ،حسد نہیں تھی اُن کے دِل میں آپ بھی جانتی ہیں یہ بات مگر کبھی مانیں گی نہیں....."
دانیال نے افسوس ناک لہجے میں کہا...
"بس مجھے ایک اور حمایتی نہیں چاہیے اُس کا تیرے ابو ،فرح اور وُہ جورو کا غلام علی کم تھے جو تو نیا اُس کا حمایتی بن کر آرہا..."
شفق خاتون نے ہاتھ اُٹھا کر نخوت سے کہا...
اوپر جاتے نور اور علی لاؤنج سے آتی آواز سُن کر رُکے تھے...
"امی اچھائی اپنے آپ کو منوا لیتی ہے نور بھابھی ایک بہترین بہو،بھابھی،بہن اور بیوی ہیں گھر جوڑ کر رکھنے والی عورت ہیں وُہ مگر آپ بھائی سے نفرت میں بہت اندھی ہوچکی ہیں مُجھے تو خود پر افسوس ہوتا ہے بار بار میں نے کیسے بھائی کو وُہ سب کہہ دیا جبکہ اُنہوں نے ہمارے لیے کیا کیا نہیں کیا میں خود کو ملامت کرتا ہوں ابھی تک کہ میں نے بھابھی پر ہاتھ اُٹھانے جیسی گھٹیا حرکت کی بھی کیسے... بھائی نے ہم سب کے لیے اپنی جان اور ہمت سے بڑھ کر کیا ہے میں پاگل ہوگیا تھا جو اُنہیں باعث شرمندگی سمجھتا رہا میں آج جو بھی ہوں صرف اُن کی وجہ سے ہوں اُنہوں نے اپنا مفاد نہیں دیکھا اُنہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو پالا ہے ابو سے زیادہ اُنہوں نے ہماری خواہشیں پوری کی ہیں مُجھے خود پر غصّہ آتا ہے بہت غصّہ آتا ہے کیسے میری ہمت بھی ہوئی اُن کے سامنے بکواس کرنے کی مُجھے اپنی غلطیوں کا احساس تب ہوا جب بھابھی نے میری اتنی گھٹیا حرکت پر بھی مُجھے معاف کردیا اُن کا ظرف بہت بڑا ہے..."
دانیال کے لہجے میں پچھتاوا صاف ظاہر تھا...
نور اور علی نے ہے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا علی کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک تھی...
"تُم بھی کس سے کہہ رہے ہو بیٹا.."
سبحان صاحب نے شفق خاتون پر طنز کیا...
"آپ بھی نور نور کرنے لگ گئے ہیں جسے دیکھو اِس گھر میں نور کے نام کی ہی تسبیح پڑھ رہا ہے نور بھابھی نہیں ہوگئی فرشتہ ہوگئی اُس کا یہی تو کام ہے مردوں کو اپنے پیچھے لگانا پھنسا لیا آپکو..."
علی سخت غصّے میں اندر بڑھ ہی رہا تھا تھپڑ کی زوردار آواز نے اُس کے قدم روک دیے...
"اپنی بکواس بند کرو بہنوں کی طرح ہیں وُہ میری اور تُم نے اتنا گھٹیا اِلزام ارے پچھتا رہا ہوں تُم سے شادی کرکے بلکہ شاید میرے ہی گناہوں کی سزا ہے جو مُجھے تُم جیسی بیوی ملی ورنہ علی بھائی کی طرح مُجھے بھی کوئی نور بھابھی جیسی بیوی ملتی تُمہیں اپنے شوہر تک کی عزت کا خیال نہیں ہے پڑھ لکھ کر جاہل ہو تُم سراسر گنوار..."
دانیال غصّے سے دھاڑا تھا...
"یہ آپکا کیا ہی آپ پر لوٹ کر آرہا ہے اور چاٹیں اپنی بھانجھی اپنی بھانجی کہہ کہہ کر اُن دونوں کو دیکھیں وُہ ہر حال میں خوش ہیں پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اُن دونوں کے بیچ محبت ہے احترام ہے اور ہمیں دیکھیں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے سکونی..."
شفق خاتون نے آگے بڑھ کر تانیہ کو خود سے لگا لیا...
"فالتو کی آئی ہے کیا میری بچی اُس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے تُو نے اِس پر ہاتھ اٹھایا..."
"دانیال یہ بہت غلط کیا تُم نے.."
سبحان نے ملامتی انداز میں کہا..
"مُجھ سے نہیں برداشت ہوتے ایسے اِلزام میں اُنہیں اپنی بہن مانتا ہوں جیسے نمرہ اور فرح اور یہ اُس رشتے گندہ کر رہی ہے میں گھر واپس آؤں اُس سے پہلے تُم دفع ہوجانا اپنی ماں کے گھر دکھائی نا دو مُجھے تو..."
وُہ تانیہ کو دھکا دے کر باہر نکل گیا...
علی اور نور کو دیکھ کر کُچھ دیر کے لئے رُکا...
"سوری بھابھی..."
پھر بس دو لفظ کہہ کر چلا گیا...
"چلو..."
اُس نے نور کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے کہا تو وہ افسوس سے سر جھٹکتی اُس کے ساتھ چل دی...
_________________________________________
"کیا بات ہے بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں..؟"
وُہ دونوں سحری کر رہے تھے جب ہی عُمر کی کال آئی تھی فون بند کرنے کے بعد اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
"ابھی عُمر کی کال آئی تھی کہہ رہا ہے کل سے جانا ہے جاب پر اُس کی بھی ہوگئی ہے اور میری بھی..."
"بہت بہت اچھی بات ہے یہ تو علی.."
نور نے مسکرا کر کہا...
"ہاں اب بس اللہ نے چاہا تو جلد اِس عذاب خانے سے جان چھڑواؤں گا..."
وُہ خود سے بولا...
"کُچھ کہا آپ نے..."
"نہیں کُچھ نہیں تُم کھاؤ آذان ہونے والی ہے ویسے بھی.."
وُہ نور کو ابھی گھر چھوڑنے والی بات بتا کر اُس کا ِمل جُل کر رہنے پر لیکچر سُننے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا...
"بشریٰ بھابھی نے منع کرنے کے باوجود کھانا پیک کرکے دے دیا کہ اب کہاں تُم جاکر سحری بناؤ گی..."
نور نے آخری لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا...
"اچھا ہی ہوا ورنہ گھر میں تو کُچھ نہیں تھا بنانے کو پتا نہیں کل کیا کریں گے ٹیوشن کی جہاں فیسیں پھنسی ہیں وُہ بھی کوئی جواب نہیں دے رہے..."
علی نے افسوس سے کہا...
"کوئی نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا.."
نور نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا...
"ہاں اب تو ہو ہی جانا چاہیے..."
اُس کے لہجے میں شکوہ تھا...
"دانیال بھائی کو تانیہ پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا..."
"ہاں یہ غلط کیا اُس نے مگر میں دانیال کو جانتا ہوں وُہ ایسی بات برداشت نہیں کرسکتا..."
علی نے ہموار لہجے میں کہا...
"مگر پھر بھی کُچھ بھی ہوجائے عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے..."
نور نے فوراً کہا..
"میں نے بھی تو اُٹھایا تھا تُم پر.."
"آپ نے روک لیا تھا خود کو اور غصے میں ہوجاتا ہے..."
اُس کی بات سُن کر علی بے ساختہ ہنس دیا...
"میرے لیے سارے جواز ہیں تمہارے پاس.."
اُس نے جان کر نور کو چھیڑا...
"اچھا تو سنیں آپ بہت بُرے ہیں بہت خراب ہیں بہت بدتمیز ہے اب خوش ہیں آپ..."
نور نے حسبِ توقع جلے بھنے انداز میں کہا جس پر علی کے جاندار قہقہے نے کمرے سے باہر نکلنے تک اُس کا پیچھا کیا تھا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro