قسط نمبر ۴۴ (حصہ اول)
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۴
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
اُس نے فوراً بائک دائیں طرف سے نکالی...
"نور تُم ٹھیک ہو..."
علی نے بائک سائڈ میں روکتے ہوئے کہا...
"جی میں ٹھیک ..."
ابھی وُہ کہہ ہی رہی تھی کار میں سے لڑکی چلائی...
"دھیان سے چلائیں انکل..."
لڑکی کوئی تقریباً اٹھارہ انیس سال کی تھی...
نور کے تو تلوؤں پر لگی تو سر پر جا کے بُجھی..
"یہ تُمہیں انکل دکھتے ہیں..."
وُہ علی کے ہاتھ جھٹک کر گاڑی کے پاس آکر غصّے سے بولی...
"یہ لڑکی پاگل ہے کیا..."
وُہ منہ ہو منہ بدبداتے ہوئے اُس کے پیچھے بھاگا...
"نور کیا کر رہی ہو.." علی نے دبی ہوئی آواز میں کہا...
"ہاں کہاں سے انکل دکھتے ہیں یار اندھی ہو تُم پوری.."
برابر والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے پُر شوق نظروں سے علی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"بہن میرے متھے کیوں آرہی ہو جو ہے وہ کہہ دیا.." ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے جھنجھلا کر کہا...
"ارے ارے ارے تُم تو ابھی پھر بیبی ہو ننھی کاکی ہو فیڈر کہاں ہے تمہارا..."
نور نے سخت تپے ہوئے انداز میں کہا...
"کیا ہوگیا ہے نور کیوں تماشہ کر رہی ہو..."
وُہ مسلسل نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے لیجانے میں لگا تھا مگر وہ ڈھیٹ ہڈی...
" "اور تُم اِدھر اُدھر دیکھنا بند کرو اِسے سنبھالو.."
نور نے علی کو گھورتی لڑکی کو گھرکا...
"آپکی بیوی کے ساتھ کوئی دماغی مسئلہ ہے کیا..."
اُسی لڑکی نے نور کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے علی سے ہمدردانہ غور میں پوچھا...
"بی اِن یور لمٹس..."
اُسے کہاں برداشت ہوتی نور کے خلاف بات...
"مسئلہ تو تُم دونوں کے ساتھ لگتا ہے دونوں کو اچھے آئی اسپیشلسٹ کی ضرورت ہے تاکہ دیکھ سکے رانگ وے میں گھسی چلی آرہی ہیں دوسری کی تو نظر ہی قرآن خراب ہے تب ہی دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا پڑتا ہے چلیں آپ..."
اُس نے نخوت سے اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا اور علی کا بازو پکڑ کر اُسے لیجانے لگی..
"پاگل کہیں کی..."
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لڑکی شیشے گراتے ہوئے بولی...
"تُم دونوں خود نفسیاتی ہو پاگل ہو پاگل..."
نور کی زبان کو پھر کھجلی ہوئی سو پلٹ کر بولی..
"اچھا بس اب چُپ کیا تھا یہ..؟"
علی نے شاکی نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے پوچھا...
"آپ بائک چلائیں چُپ چاپ ایک لفظ نہیں بولیں گے ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا..."
وُہ اُس کی سرد نظروں سے ذرا بھی خائف ہوئے بغیر اُلٹا اُس پر گرم ہوئی..
علی نے مزید کُچھ کہنے کا ارداہ ترک کیا کیونکہ وُہ واقعی بہت غصّے میں دکھائی دیتی تھی ایسا نا ہو کہ سارا غصّہ اُسی پر نکال دے....
"آئی بڑی انکل کی بچی خود تو چوسنی چوستی ہے ناں ابھی تک زبردستی کی شوہدیاں رئیس ماں باپ کی کی بگڑی ہوئیں اولادیں ایک اندھی ایک کی نیت میں فتور..."
وُہ بائک پر بیٹھی ہوئی بھی مسلسل خود کلام تھی...
"صرف مُجھے انکل کہہ دینے پر تُم اُن بیچاریوں سے لڑ پڑیں...
"تھوڑی دور جانے کے بعد علی نے کہا...
"بڑا ترس آرہا ہے آپکو اُن دونوں پر.."
انداز اب بھی کاٹ کھانے والا تھا...
"ہوا کیا تھا تُمہیں..."
"کیسے گھور گھور کے دیکھ رہی تھی آپکو وُہ چھپکلی کی شکل والی لمچیڑ کہیں کی ہمٹی ڈمٹی کی آنکھوں والی..."
اُس کا بس نہیں نہیں چل رہا تھا اُس لڑکی کو اندھا کر آئے...
"کون دیکھ رہی تھی..."
علی کے لئے یہ بلکل نئی خبر تھی کیونکہ اُس نے کُچھ نوٹ ہی نہیں کیا تھا...
"وہی دوسری والی جو مُجھے پاگل کہہ رہی تھی..."
"اچھا وہ یار پہلے بتاتی میں بھی دیکھ لیتا اُسے تھوڑا.."
وُہ اداکاری کرتے ہوئے بولا...
"آہ... جلاد لڑکی..."
نور نے اُس کی سینے پر چُٹکی کاٹی...
"اب بولیں کیا کرلیتے ہاں.."
"کُچھ نہیں بھئی کُچھ نہیں معاف رکھو مُجھے..."
وُہ ڈرنے کے سے انداز میں بولا..
"تُم کتنی پوزسیو ہو نور مُجھے لے کر..."
"تو کوئی مسئلہ ہے کیا؟؟.."
"توبہ ہے بھئی میری کیا غلطی ہے جو تمہارا سارا نزلہ مُجھ پر گر رہا ہے..."
علی نے اُکتا کر کہا...
"کوئی ضرورت نہیں آئندہ شیو وغیرہ کروانے کی اور وزن بڑھتا ہے تو بڑھنے دیں اور رنگ صحیح ہے سانولا پھر دیکھتی ہوں کون دیکھتی ہے آپکو..."
وُہ حکم سنانے کے سے انداز میں بولی...
"کیا..؟" اُسکی آواز میں حیرت واضح تھی..
"ہاں میرے کہنے پر ہی ایسا کیا تھا ناں خود کو اب میں ہی کہہ رہی ہوں جیسے پہلے تھے ویسے ہی بہت اچھے تھے.."
وُہ اُس کے لہجے کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے بولی...
"تُم پاگل ہوگئی ہو میں ایسا کُچھ نہیں کرنے والا..."
"کیوں نہیں کرنے والے میں بھی دیکھتی ہوں کیسے نہیں کرتے آپکے تو اچھے بھی کریں گے کس چڑیل کو دکھانی ہے یہ شکل جاکر ہاں..."
وُہ مسلسل اُس کا کندھا اپنے ناخنوں سے نوچ رہی تھی...
"چڑیل تو تُم ہو دیکھو تو کیسے نوچ رہی ہو اپنے بڑے بڑے ناخنوں سے..."
علی بُری طرح جھنجھلا کر بولا...
"جو میں نے کہہ دیا وہی ہوگا یہ بات اچھی سے سُن لیں میں آپکی ہر بات مانتی ہوں آپ میرے لیے اتنا نہیں کرسکتے..."
وُہ اب ایموشنل بلیک میلنگ پر اُتر آئی تھی...
"یہ ڈرامے مت کرو میں ایسا کُچھ نہیں کرنے والا تُم پاگل ہوگئی ہو بلکل یا اللہ کہاں پھنس گیا میں نہیں بولتی تھی تو ٹھیک تھا اب بولتی ہے تو رُکتی ہی نہیں..."
اُس نے بیچارگی سے کہا...
میں بھی دیکھ لوں گی کیسے نہیں کرتے..."
وُہ مصمم ارادے سے بولی....
________________________________________
"یہ کِس انداز میں بات کر رہی ہو مُجھ سے.."
شفق خاتون نے تند لہجے میں تانیہ سے کہا..
"صحیح کہہ رہی ہوں خالہ آپکی یہ بیٹی نواب نہیں ہے جو کوئی کام نہیں کرے گی میں بہو ہوں نوکرانی نہیں جو لگی رہوں بس میں صاف کہہ رہی ہوں گھر کے کام یہ میرے ساتھ کروائے گی برابر تو ہی میں بھی کُچھ کروں گی ورنہ مُجھ سے بھی آپ کوئی اُمید نہ رکھیں..."
تانیہ نے اُن کے غصّے کی کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا...
"میں کُچھ بھی نہیں کروں گی سُن لیں امی آپ..."
نمرہ نے بھی دو ٹوک انداز میں کہا..
"مت کرو پڑی رہو مہارانی بن کر مگر میں بھی کُچھ نہیں کرنے والی سُن لیں آپ دونوں اِنسان ہوں میں کوئی مشین نہیں اور مُجھے باؤلی نور سمجھنے کی غلطی کوئی نہ کرے میرے پاس دماغ ہے چُغد نہیں ہوں جو لگی رہوں لگی رہوں اور آخر میں باتیں بھی سنوں..."
تانیہ کا انداز تضحیک آمیز تھا...
"آنے دے دانیال کو فیصلہ کرواتی ہوں میں یہ کوئی تمیز ہے بڑوں سے بات کرنے کی.."
"بڑے بھی تو بڑا پن دکھائیں اپنا.."
وُہ ترکی بہ ترکی بولی...
"کیا مطلب ہے تیرا..."
وُہ سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر چلائیں...
"خالہ میں یہیں آپکے سامنے کھڑی ہوں گلا پھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے آپکو.."
وُہ اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر ناگواری سے بولی۔۔
"یہ آپ کس طرح بات کر رہی ہیں امی سے.."
نمرہ بیچ میں کودی...
"او ہیلو زیادہ آگ لگانے کی ضرورت نہیں ہے چُپ کرکے بیٹھی رہو اتنا مت اُچھلو یہ نا ہو منہ کے بل زمین پر گرو۔۔۔"
تانیہ نے اُسے اُنگلی سے پیچھے کیا...
"بہت نہیں بول رہی تُم.."
شفق خاتون نے دانت پیسے...
"ہاں مگر مُجھے لگتا ہے آپکے ساتھ یہ سب بہت پہلے ہی ہوجانا چاہئے تھا وُہ نور تو بونگی تھی مگر میں نہیں ہوں میں اپنا کام جانتی ہوں اور منع نہیں کر رہی کام کرنے سے مگر میں سارے کام کسی صورت نہیں کروں گی چاہے کُچھ بھی ہوجائے..."
تانیہ کا لہجہ کسی بھی قسم کی رعایت سے عاری تھا...
"ہاں دیکھ لوں گی میں تُجھے بھی.."
"خالہ میں آپکی عزت کرتی ہوں مگر برائے مہربانی اِسے اتنا نکما مت بنائیں اِس نے بھی دوسرے گھر جانا ہے اور مکافات عمل تو ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو آپکی زیادتیوں کا بدلہ اِس سے لیا جائے..."
وُہ اُن کے ضمیر پر کاری ضرب لگاتی چلی گئی...
"دیکھ لوں گی۔۔۔"
شفق خاتون کی آواز اب بھی بے لچک تھی...
_________________________________________
"کہا بھی تھا وقت سے پہلے آجانا اینڈ ٹائم پر صرف کھانے مت آجانا مگر صاحب تو پونے آٹھ بجے تشریف لے رہے ہیں بھئی ہم نے افطاری پر بلایا تھا تُم ایسا کرتا سحری میں آجاتے.."
عُمر علی سے گلے ملتے ہوئے مصنوئی خفگی سے بولا...
"ہاں اُڑ کر آجاتا سپر مین ہوں ناں میں.."
علی نے اُس کا ہاتھ زور سے دبا کر کہا...
"بھابھی کی وجہ سے تُجھے چھوڑ رہا ہوں اسلام علیکم بھابھی.."
عُمر نے نور کو دیکھتے ہوئے مہذب انداز میں کہا...
"وعلیکم السلام بھائی کیسے ہیں آپ.."
نور نے مسکرا کر کہا..
"تیرے یہاں مہمانوں کو گھر کی دہلیز پر ہی کھڑا رکھتے ہیں کیا..؟"
علی نے ازراہِ مذاق کہا..
"سوری سوری میں بھول ہی گیا بلکل ساری غلطی تیری ہے آتے ہی شروع ہوگیا.."
وُہ اُن دونوں کو اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے بولا...
"میں بشریٰ کو بلاتا ہوں وُہ کچن میں ہے.."
"بھائی آپ رہنے دیں مُجھے بتادیں کچن کس طرف ہے میں خود چلی جاتی ہوں آپ دونوں بیٹھ کر باتیں کریں.."
"نہیں بھابھی آپ کہاں کچن میں جائیں گی.."
"کوئی بات نہیں ہے ویسے بھی میں یہاں اکیلی بیٹھ کر بور ہی ہوں گی.."
"یہ تو ٹھیک کہا تُم نے اور گنجے بتادے ناں کہاں ہے کچن ورنہ اِس کے پیروں میں سکون نہیں آنے والا جب تک ہر گھر کے کچن میں نہیں چلی جاتی۔۔۔"
علی نے نور پر طنز کیا جس پر وُہ منہ بناکر رہ گئی...
"بھابھی دفع کریں اِسے وُہ آگے جو گلی جیسی جارہی ہے اُس کے کونے پر ہی کچن ہے.."
"شکریہ بھائی..."
وُہ متانت سے کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی...
"گھر تو بہت اچھا ہے ماشاللہ سے تیرا..."
علی نے سچے دِل سے تعریف کی...
"والد صاحب کا احسان ہے یہ کہ سر پر چھت تو اپنی ہے میں اس تو بشریٰ سے بارہا کہا بیچ دیتے ہیں تاکہ کوئی اپنا کام شروع کرسکوں مگر وہ کہتی ہے آجکل کے دور میں کراچی میں اپنا گھر ہونا کسی نعمت سے کم نہیں اللہ نہ کرے کاروبار میں نقصان ہوگیا تو چھت تو گئی ناں سر پر سب جانتے بوجھتے جوا کیوں کھیلنا..."
عُمر نے سنجیدگی سے کہا..
"ٹھیک کہتی ہیں بھابھی بِلکُل اپنا گھر ہونا واقعی نعمت ہے.."
علی کا انداز یاسیت لیے ہوئے تھا...
"کیا بات ہے میں نے کل بھی تُجھ سے پوچھا تھا تو ٹال گیا دیکھ دوستی میں کُچھ نہیں چھپایا جاتا بتا مُجھے..."
عُمر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا...
"بس یار گھر کے مسئلے ہیں امی اور چھوٹے بھائی کی بیوی کو نور کے ساتھ اور وُہ دونوں جو باتیں کرتی ہیں وُہ بہت ہی گری ہوئی ہیں.."
علی نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے افسوس سے کہا..
"مُجھے پتا ہے تُو کیا سوچ رہا ہے یہی کہ میں نور کی فیور کیوں کر رہا ہوں مُجھے اپنی امی کی طرف ہونا چاہیے تھا یہی سوچ رہا ہے ناں..؟"
علی نے اُس کے چہرے پر پھیلی اُلجھن دیکھ کر پوچھا جواب میں عُمر نے اثبات میں سر ہلایا...
"میں یہ نہیں کہوں گا میں شروع سے نور کے ساتھ ایسا رہا میں نے بھی عام مردوں کی طرح پہلے بیوی کو ہی غلط سمجھا مگر پھر نے غور کیا باتوں کو سمجھا نور کو جانا تب مُجھے پتا چلا کہ ضروری نہیں کہ ماں باپ ہمیشہ ٹھیک ہوں کُچھ جھوٹ بولے گئے تھے امی کی طرف سے جس پر میں میں نے نور پر ہاتھ تک اُٹھا لیا تھا مگر پھر وہ سچائی بہت جلد ہی میرے سامنے آگئی تب سے میں نے ہر چیز کو سمجھا اور جانا کہ نور بلکل بے قصور ہے میں نے اُس کے لیے بولنا شروع کیا تو سب کو مُجھ سے پریشانیاں شروع ہوگئیں امی تو شروع سے ہی مُجھ سے نالاں رہتی تھیں اب مزید کھٹکنے لگا اُنہیں اور امی کیوں نالاں رہتی تھیں یہ بہت لمبی بات ہے بعد میں کبھی بتاؤں گا تُجھے نور کو تو نہیں بتائی کیونکہ اُس کے سامنے تو اپنی ماں کا بھرم رکھنا ہے..."
علی نے مایوسانہ لہجے میں کہا...
"یہ بہت اچھی بات ہے کہ تُم نے صحیح کا ساتھ دیا ہر مرد ایسا نہیں کرپاتا.."
عُمر نے متاثر کن انداز میں کہا۔۔
"مُجھے نور کی ایک بات نے بہت متاثر کیا ہے عُمر اُس نے کبھی بھی مُجھے میرے گھروالوں سے بدگمان کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ مُجھے سمجھاتی ہے جس فیز میں میں تھا ناں وُہ چاہتی تو ایسا کرسکتی تھی مگر اُس نے ہمیشہ میرے گھر والوں کی عزت کی امی کی ہر زیادتی برداشت کی کیونکہ وُہ اُنہیں ماں کی جگہ نہیں ماں ہی مانتی ہے میرے بہن بھائیوں سے ہمیشہ وُہ شفقت سے پیش آئی اپنے رشتے کا پورا حق ادا کیا ہے اُس نے..."
علی کے ہر لفظ سے نور کے لئے عزت مترشح تھی...
"اب کیا سوچا ہے تُو نے..."
"میں اُس گھر میں مزید اپنی بیوی کو ذلیل نہیں ہونے دے سکتا جہاں لوگ اُس کے کردار کو نشانہ بنائیں اُس کے مرحوم والدین کو غلط کہیں جب وُہ میرے ماں باپ کی اپنے ماں باپ کی طرح عزت کرتی ہے تو میرا بھی یہ فرض ہے کہ اُس کے ماں باپ کی عزت کروں اور کرواؤں اب اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وُہ اِس دُنیا میں ہیں یا نہیں میں بس انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی اچھی جاب ملے اور جلد از جلد میں اُسے لے کر دوسرے گھر میں شفٹ ہوجاؤں ابھی میں ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی افورڈ نہیں کرسکتا اُسے کہاں سڑکوں پر لے کر پھروں گا..."
علی نے مستحکم انداز میں کہہ...
"ہمارا یہ سامنے والا کمرہ بیکار پڑا رہتا ہے بلکل تُم دونوں جب تک یہاں شفٹ ہوجاؤ اچھا ہے ناں تُمہیں اور بھابھی کو ذہنی سکون تو ملے گا..."
عُمر نے فوراً کہا..
"تُو نے اتنا کہہ دیا کافی ہے یار مگر میں اپنے بل بوتے پر اُسے ایک بہت اچھا گھر دینا چاہتا ہوں جو صرف اُس کا اور میرا ہوگا جہاں صرف ہم دونوں ہوں گے ہمارے بچے ہوں گے..."
اُس کی آنکھیں حسین خوابوں سے پُر نور تھیں...
"انشاءاللہ.."
عمر نے مسکراتے ہوئے اُس کے کندھے پر تھپکی دی...
_________________________________________
"اسلام علیکم..."
نور نے سموسے کڑاھی میں ڈالتی بشریٰ کو سلام کیا...
"وعلیکم السلام آپ لوگ آگئے اور دیکھیں عُمر نے مُجھے بتایا بھی نہیں.."
"بس ابھی ابھی آئیں ہیں اور میں آپ سے ملنے آگئی.."
نور کو وُہ پیاری سی لڑکی پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی دھان پان سے خوش شکل اور خوش مزاج...
"آپ یہاں کیوں آگئیں گرمی میں باہر بیٹھیں میں بس یہ تل کر آرہی ہوں جب عُمر نے بتایا کہ آپ لوگ ٹریفک میں پھنس گئے ہیں تو میں نے سب تلنے والا سامان ایسے ہی رکھ دیا کہ جب آئیں گے تو گرم گرم تلوں گی.."
اُس نے کڑاھی میں چمچ چلاتے ہوئے کہا...
"کوئی گرمی نہیں ہے ویسے بھی وُہ لوگ اپنی باتیں کر رہے ہیں اور میں بور ہی ہوتی.."
نور نے مسکرا کر کہا...
"میں کُچھ مدد کرواؤں آپکی.."
نور نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا...
"کیوں شرمندہ کرتی ہیں آپ.."
بشریٰ نے سموسے نکالتے ہوئے کہا...
"میرے خیال میں ہمیں یہ "آپ" کا تکلف ترک کردینا چاہیے میں یہاں یہ سوچ کر آئی ہوں کہ ایک دوست بناؤں گی ویسے بھی میری کوئی دوست نہیں ہے..."
نور نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا...
"ہاں دوست تو ویسے میری بھی کوئی نہیں ہے چلو آج سے تُم میری دوست.."
بشریٰ نے نرمی سے کہا...
"تو پھر دوستوں میں مہمان وغیرہ جیسے تکلف نہیں ہوتے..."
نور نے شربت کا جگ اُٹھاتے ہوئے کہا بشریٰ نے بھی چولہا بند کیا اور اُس کے ساتھ باہر نکل گئی...
"ہاہاہا ٹھیک کہا بلکل تُم نے.."
وُہ دونوں کسی بات پر ہنستی ہوئیں آرہی تھیں عُمر اور علی نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا...
"واہ کیا بات ہے اتنی جلدی آپ دونوں میں دوستی بھی ہوگئی..."
عمر نے لقمہ دیا...
" اسلام علیکم علی بھائی...اور تُمہیں کیا مسئلہ ہے.."
بشریٰ نے عُمر کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا..
"توبہ کبھی تو آپ بول دیا کرو۔۔۔"
وُہ بُرا مان کر بولا...
"کیوں بھئی میں تُمہیں جیسے بلاتی ہوں ویسے ہی بلاؤں گی ویسے بھی یہ لوگ کون سے مہمان ہیں کیوں نور..."
بشریٰ نے نور کی طرف دیکھ کر کہا..
"ٹھیک کہہ رہی ہیں بھابی ویسے بھی تُم کہنے میں کوئی برائی بھی نہیں مزید اپنائیت سی لگتی ہے میں تو کہتا ہوں تُم بھی مُجھے "تُم" ہی کہو.."
علی نے نور کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ دبائی۔۔۔
"اچھا شروع کر یار باتیں ہوتی رہیں گی..."
عمر نے علی کے کندھے پر تھپکی دے کر کہا...
"آپ دونوں کی شادی کو کتنا ٹائم ہوگیا ہے..؟"
بشریٰ نے علی اور نور دونوں سے پوچھا...
"چھ مہینے..."
وُہ دونوں ایک ساتھ بولے...
"ماشاءاللہ سے آپ دونوں کی جوڑی بہت پیاری ہے میڈ فار ایچ اددر..."
اُس کے لہجے میں ستائش تھی...
"شُکر خُدا کا کسی نے تو عُمر کا رونا نہیں رویا..."
علی نے نور کی طرف دیکھ کر کہا جس پر وُہ نظریں چرا گئی...
"عُمر کا رونا.."
بشریٰ نے ناسمجھی سے پوچھا...
"بھابھی میں نور سے کُچھ سال بڑا ہوں تو اسی لیے اکثر لوگ کہہ جاتے ہیں.."
اُس نے جان کی عمر کے ہندسے سینسر کیے...
"ہاں لگتا بھی تو دو بچوں کا باپ ہے تُو..."
عمر نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا جس پر علی نے اُس کے پیٹھ پر زوردار مکا جڑا جس اُس کی ہنسی کو بریک لگا...
(جاری ہے)
دوسرا حصّہ ایک دو دِن میں آجائے گا..
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro