قسط نمبر ۴۳
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۳
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"تُم آج کا روزہ نہیں رکھ رہی ہو..."
علی مسجد سے ابھی واپس آیا تھا..
"مگر میں تو نیت کرچُکی ہوں اور روزہ کیوں نہیں رکھوں؟..."
اُس نے نہایت سے سوال کیا..
"بغیر سحری کے روزہ رکھنے والی تمہاری حالت نہیں ہے باتوں میں پتا ہی نہیں چلا کب ٹائم نکل گیا..."
علی نے ٹوپی اُتار کر سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا..
"پر علی..."
"پر ور کُچھ نہیں بلکہ تُم ڈھیٹ ہڈی ہو بیٹھو اِدھر میں کھانا گرم کرکے لاتا ہوں کھا کر سوجاؤ تُم آج روزہ نہیں رکھ رہی مطلب نہیں اپنا نہیں تو کم از کم ہمارے بچے کا ہی خیال کرلو..."
علی نے اُسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا...
"ٹھیک ہے کھالوں گی بعد میں..."
اُس نے ٹالنا چاہا....
"مُجھے پتا ہے تُم کتنی ڈھیٹ اور اپنی کرنے والی ہو اِس لیے کوئی بات نہیں سنوں گا میں لا رہا ہوں میرے سامنے کھاؤ..."
علی نے سختی سے کہا....
"جب میں کہہ رہی ہوں بعد میں کھا لوں گی تو کھا لوں گی علی.."
نور کو اُس کی ضد سے چڑ تھی تھا بھی وُہ ایک نمبر کا ہٹ دھرم اپنی بات منوا کر رہتا تھا...
"نہیں..." علی نے قطعی انداز میں کہا۔۔۔
"یہ لیں دیکھیں نہیں رکھ رہی روزہ..."
غصّے میں کہتے ہوئے اُس نے فریج سے پانی کی بوتل نکل کر غٹک غٹک چار گھونٹ حلق میں اُتارے...
علی نے بے اختیار آتی ہنسی کو روکنا چاہا مگر وُہ ناکام رہا...
"ہاں اب ٹھیک ہے پھر بھی کھانا تو ابھی ہوگا تُم تو اپنا منہ بند کرکے بیٹھ جاؤ ایک لفظ نہیں نور..."
علی نے اُسے بولنے کے لئے منہ کھولتا دیکھ کر آخر میں تھوڑی سختی سے کہا جس پر وُہ منہ بسور کر رہ گئی اُس کا نور کہنا بھی غصّہ ہی تھا ورنہ وُہ ہمیشہ نور کے آگے حیات یاِ علی کا اضافہ کرتا تھا...
"دوپہر میں عمر کے ساتھ جاؤں گا ایک جگہ بات کی ہے اُس نے سیلری بھی بہت اچھی ہے پینتیس ہزار ہے کام بھی اچھا ہے ایک فیکٹری میں اسٹاف ہیڈ کی پوسٹ ہے عُمر بس اللہ کرے ہوجائے مگر میں یہ سوچ کر پریشان ہوں اُس کی تنخواہ تو مہینے کے بعد یا چلو عید سے پہلے جتنے دِن کام کیا اُسکے دے دیں گے مگر جب تک ہم کیا کریں گے وہاں سے اسٹاف فوڈ سے کم از کم تھوڑا بہت کچھ تو آ ہی جاتا تھا..."
اُس نے نور کے آگے ٹرے رکھتے ہوئے فکرمندی سے کہا....
"اللہ مالک ہے علی کُچھ نہ کُچھ ہوجائے گا مگر پریشان ہونے سے کُچھ نہیں ہوگا بس مایوسی ہوگی میں ایک بات بولوں اگر آپکو بُری نہ لگے.."
نور نے نرمی سے کہا...
"یہ تو بات پر منحصر کرتا ہے تمہاری بُرا لگتا ہے یا اچھا میں پہلے سے کسی چیز کی حامی نہیں بھرسکتا.."
اُس کا انداز دو ٹوک تھا..
"بڑے بے مروت ہیں آپ..."
"بات نا گھماؤ نورِ حیات کہو کیا کہنا ہے..."
علی نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا...
"علی میں سوچ رہی تھی سونے کی چین جو ہے میری وُہ بیچ دیتے ہیں رمضان تو.."
"تُم نے سوچ بھی کیسے کیا یہ مطلب تُم مُجھے اتنا بے غیرت سمجھتی ہو کہ اب اپنی بیوی کے زیور بیچ کر میں گھر چلاؤں گا یہ ہی بھروسہ ہے تمہارا مُجھ پر میں تو اب تک اُن دو سیٹ پر سخت غصّہ جو میرے گھر والوں نے تُم سے لیے صرف تمہاری دی ہوئی قسم کی وجہ سے میں نے وُہ واپس نہیں لیے اور اب تُم مُجھے یہ... میری ایک بات اچھے سے سُن لو تم ابھی میں صحیح سلامت ہوں زندہ ہوں مُجھ میں اتنی طاقت ہے کہ تمہاری ضروریات پوری کرسکوں تو آئندہ ایسا کُچھ بھی فضول سوچنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے..."
علی نے تا بمقدور اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے کہا ورنہ اُسے غصّہ تو بہت آرہا تھا نور پر..
"آپ میری بات کا غلط مطلب لے رہے ہیں علی میں ہرگز بھی ایسا کُچھ نہیں کہنا چاہتی جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اور زیور کا کیا ہے دوبارہ..."
"اپنی چونچ بند رکھو اور اِس خالی جگہ پر اتنا زور مت ڈالا کرو شاباش جلدی سے کھانا ختم کرو اور سوجاؤ مُجھے مزید تمہاری کوئی بکواس بات نہیں سُننی..."
علی نے اُس کی کنپٹی پر اُنگلی رکھتے ہوئے کہا اور کروٹ لے کر لیٹ گیا..
"ہر وقت اپنی مرضی بس.."
اُس نے منہ ہی منہ میں بڑبراتے ہوئے کہا اور ٹرے سائڈ کردی یہ اُس کا ناراضگی ظاہر کرنے کا طریقہ تھا..
"خبردار جو تُم نے کھانے پر اپنی بے جا غصّہ نکالا چُپ کرکے پورا کھاؤ ورنہ میں نے اگر خود کھلایا تو اچھی نہیں ہوگا..."
علی نے بغیر کروٹ لیے بھاری آواز میں کہا۔۔
"بھئی کیا ہے ہر چیز میں دادا گری ہے آپکی ضدی ،اڑیل ،ہٹیلے..."
اُس نے ایک لفظ چبا چبا کر کہا..
"بعد میں میری تعریفیں کرلینا ابھی جو کہا ہے وُہ کرو..."
جواب میں اُس کی ہنستی آواز سنائی دی...
وُہ اُس کی پیٹھ گھور کر رہ گئی اور جلدی جلدی نوالے توڑ توڑ کر منہ میں ڈالنے لگی..
"چبا کر کھاؤ نگلو نہیں خبطی لڑکی..."
علی نے مزید تنگ کرتے ہوئے کہا...
"میں سانپ نہیں ہوں جو نگلوں گی..."
وُہ تپ کر بولی...
"اچھا بس اب سونے دو مُجھے..."
علی نے اُسے ڈانٹ کر کہا...
_________________________________________
"یار جاب تو اچھی ہے بس کل یہ لوگ مثبت جواب دے دیں..."
وُہ دونوں فیکٹری سے باہر نکلتے ہوئے باتیں کر رہے تھے...
"ہاں اگر یہ جاب ہوگئی تو حالات بہتر ہوجائیں گے ہمارے باقی ہمارے مطلب کی جاب کے لئے کوششیں کرتے رہیں گے اللہ نے چاہا تو وُہ بھی مِل جائے گی..."
علی نے اُس کے ساتھ ہی چھاؤں میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
"ہاں انشاءاللہ اور سب سے اچھی بات یہاں کا مینیجر بہت اچھا اِنسان ہے عزت کرنے والا اور باقی اسٹاف بھی اچھا لگ رہا تھا..."
عُمر نے پتھر سامنے بیٹھے کتے سے تھوڑا ہٹ کر مارا جس سے وہ بھوں بهوں کرتا آگے چلا گیا...
"ہاتھوں کو چین نہیں تمہارے جب کاٹے گا نا تو امی امی کرتے پھرنا.."
علی نے اُس کے ہاتھ سے پتھر لے کر پھینکے...
"نہیں کاٹتا مُجھے..."
"کیوں تیرے مامے کا لڑکا ہے.."
علی نے اُس کی تپانی چاہی...
"نہیں وُہ میرے ساتھ بیٹھے اپنے بھائی کو جو پہچانتا ہے.."
اُس کا مقابلہ بھی عُمر سے تھا جو ٹہرا حاضر جواب...
"کمینے.." علی نے کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا...
"اچھا بتا صبح سے تُجھے دیکھ رہا ہوں موڈ ٹھیک نہیں ہے تیرا..."
عمر نے سنجیدگی سے پوچھا...
"کُچھ نہیں یار بس پریشان ہوں میں تُو جانتا ہے نور کی کنڈیشن اور اِس حالت میں اُسے اچھے سے اچھا کھانے کی ضرورت ہے مگر میں اُسے ٹھیک سے عام کھانا نہیں کھلا پا رہا...."
علی نے تاسف سے کہا...
"میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں تیری حالت کیونکہ میں اِس سے بارہا گزر چکا ہوں تو ایک کام کر میرے پاس کُچھ پیسے ہیں یہ رکھ لے اور دیکھ منع مت کرنا پلیز..."
عُمر نے اپنی جیب سے پندرہ سو روپے نکال کر اُسے دیتے ہوئے کہا...
"پاگل ہوگیا کیا میں نہیں جانتا کیا تیرے کیسے حالات ہیں..."
علی نے اُس پیسے اُس ہی کی مُٹھی میں بند کرتے ہوئے کہا....
"میرے یار یہ وقت اِن باتوں کا نہیں ہے ہرگز میرا اور بشریٰ کا کیا ہے ہم تو اکیلی جان ہیں گزارہ کرلیں گے ویسے بھی کُچھ پیسے اُس کے پاس بھی ہیں مگر تُم لوگوں کے ساتھ ایک ننھی جان بھی ہے اُسے کُچھ نہیں ہونا چاہیے علی میں اِس درد سے گزر چکا ہوں نہیں چاہتا کہ تُجھے بھی گزرنا پڑے... "
عُمر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی بخش انداز میں کہا...
"ایسا نہیں ہوگا اور تُو یہ پیسے اپنے پاس رکھ ابھی ایک دو جگہ سے ٹیوشن کی فیس کے پیسے رُکے ہوئے تھے جو مِلنے کا آسرا ہے اگر نہیں ہوا تو میں خود سامنے سے تُجھ سے مانگ لوں گا...."
علی نے مستحکم انداز میں کہا...
"پکی بات ہے..."
"ہاں پکی بات ہے یار.."
علی نے مسکرا کر کہا...
"ویسے تُم دوبارہ ٹیوشن کیوں نہیں پڑھا لیتے..؟"
"یار جو جو ٹیوشنز تھے ایکسڈنٹ کے باعث مہینے بھر کا وقفہ آیا تو اُنہوں نے نئے ٹیوٹرز ڈھونڈ لیے کوشش کی دوسری ٹیوشنز کی مگر نہیں ملے وُہ کہتے ہیں ناں مشکلیں بھی ایکدم ہی آکر پڑتی ہیں سب راستے بند.."
علی نے متاسفانہ انداز میں کہا...
"اچھا آج تُم اور بھابھی دونوں میرے گھر آؤ گے افطاری کے لئے اور کوئی بہانہ نہیں سننا میں نے تُم دونوں آرہے ہو تو آرہے ہو بشریٰ بھی نور بھابھی سے ملنا چاہتی ہے..."
عمر نے دھونس جما کر کہا...
"تمہیں پریشانی ہوگی..."
"کاہے کی پریشانی جو ہم کھائیں گے وہی تُم کھانا محبت تو ساتھ مِل جُل کر کھانے میں ہے ناں.."
عُمر نے اُس کی بات کا جواب متانت سے دیا..
"تُم میرے جیسے ہی ہو بالکل..."
وُہ ہولے سے ہنس کر بولا...
"استغفار میرا قد کہاں زرافے جیسا ہے اتنا بڑا اِلزام مُجھ پر..."
"تمہارا مطلب میرا قد زرافے جتنا ہے.."
علی مصنوئی خفگی سے بولا...
"چل نہ تیرا نہ میرا بانس جتنا لمبا تو تُو ہے.."
"گنجے ..."
علی دانت کچکچا کر بولا...
"اندھا بلکل اندھا چشمہ لگوا لے عُمر سے پہلے بڈھا ہوگیا ہے تُو کس اینگل سے میرے سر پر تُجھے چاند دکھ رہا..."
وُہ جلے بھنے انداز میں بولا...
"چل نہ تیرا نہ میرا موٹا تو ہے..."
علی نے ہنستے ہوئے کہا..
"میری بلی مُجھ ہی سے میاؤں بیٹا جی تُو کبھی اُس فیل کے ساتھ طعنہ مار ہی نہیں سکتا جیسے میں مارتا ہوں تیرے اندر شریف النساء کی روح ہے..."
"اور تیرے اندر کوئی بدروح جو تُجھے بے تکی ہانکنے پر مجبور کرتی اب دھرتی پر بوجھ اُٹھا اپنا اور بائک پر لاد ویسے ہی میرا رنگ دھوپ میں جل جل کر سانولے سے مزید سانولا ہوگیا ہے اور اِس دھوپ میں تُو مُجھے کوئلہ ہی بنانا چاہتا..."
علی نے اُسے تقریباً کھینچتے ہوئے اُٹھایا...
"تُجھے تو جو ملنی تھی ملِ گئی اب کس کی یہ کوجی شکل دکھانی جو رنگ کی فکر پڑ گئی انکل..."
عمر نے چوٹ کی...
"جو ملی ہے نا اُسی کو دکھانی ہے شکل ویسے بھی پرسوں بول رہی تھی "سنیں آپ کا رنگ بہت خراب ہوگیا ہے..." اور تیرا کیا ہے تُو تو ازل سے ہی کوجا ہے چاچو..."
علی نے اُسی کے انداز میں کہا..
"یہ منہ اور مسور کی دال..."
عُمر نے جیسے سُنا ہی نہیں...
"چل اب دفع بھی ہو شام میں میں افطار سے پہلے آ مریو مہمانوں کی طرح اینڈ ٹائم پر نہیں منڈائی کرنے برتن تو ہی دھوئے گا سارے.."
"اپنے کام نہیں بتا گدھے کے ہیومن ورژن..."
علی نے اُس کی پیٹھ پر دھموکا جڑتے ہوئے کہا اور جلدی سے بائک اسٹارٹ کرتا یہ جا وُہ جا....
"تُجھے اللہ ہی پوچھے پہلوانوں والا ہاتھ... اُوئی.."
وُہ اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا...
_________________________________________
"انشاءاللہ سب اچھا ہوگا..."
نور نے اُس کے ہاتھ سے بیگ لیتے ہوئے کہا...
"ہاں نور وُہ آج شام کو عُمر کی طرف جائیں گے اُس نے افطاری کے لئے بلایا ہے میں نے منع بھی کیا تھا مگر وہ مانا نہیں ڈھیٹ ہے..."
"ہاں دوست کس کا ہے.."
نور کو تو جیسے موقع مِل گیا سو تاک کر حملہ کیا...
"مُجھے یہ بڑا صحیح مِلا ہے اٹھائیس سالہ زندگی میں واحد ایسا دوست جو بہت ہی کم عرصے میں بہت قریب آگیا ہے میرے جیسے بہت پہلے سے جانتا ہوں مخلص دوست میرے مشکل وقت کا یار تو مطلب عُمر بھر کا ساتھ..."
علی نے محبت سے کہا..
"ہاں یہ تو ٹھیک کہا ورنہ میں نے تو آپکو کسی دوست سے اتنا قریب نہیں دیکھا بلکہ آپکے دوست ہی کہاں تھے اور عُمر بھائی کی آپ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے یقیناً کُچھ تو خاص ہیں وُہ..."
نور نے کمرے کا دروازہ بند کردیا ورنہ چھت سے آتی کڑک دھوپ سے پورا کمرہ تندور بنا ہوا تھا...
"کُچھ نہیں بہت خاص بھائیوں سے بھی زیادہ ہے وُہ اور تُمہیں پتا ہے بشریٰ بھابھی تُم سے ملنا چاہتی ہیں..."
"میں بھی مِلنا چاہتی ہوں اُن سے بہت ہمت والی لڑکی ہے وُہ.."
نور نے متانت سے کہا..
"سو فیصد درست بات ہے.."
علی نے برملا اعتراف کیا...
"بس اللہ ہمیں کسی ایسے امتحان میں نہ ڈالے..."
علی نے گہری سانس لے کر کہا...
"ایسا کُچھ مت سوچیں اچھا اچھا سوچیں..."
"مگر سچ تو سچ ہے ناں نور تُمہیں اِن دنوں بہت اچھی غذا کی ضرورت ہے تُمہیں خوش رہنے کی ضروت ہے مگر یہ ماحول تمہارے اور ہمارے بچے کے لئے سازگار نہیں مگر ہم مجبور ہیں..."
علی نے یاسیت سے کہا..
"خوشی کیا ہے؟ خوشی ملتی کیسے ہے؟ خوشی آئے گی کہاں سے؟ کیا ہم خوشی کو خرید سکتے ہیں؟ کیا خوشی کسی بازار میں ملتی ہے؟.."
نور نے ایک ساتھ کئی سوال کردیے...
"تُم بتاؤ.."
علی نے مکمل توجہ اُس کی جانب کرتے ہوئے کہا...
"یہ وُہ سوال ہیں جن کے جواب اگر انسان پا لے تو پھر کبھی بیروزگاری کو لے کر کوئی خود کشی نہیں ہوگی٬کبھی کوئی ماں اپنی اولادوں کو زہر نہیں دے گی ، کبھی کوئی اپنی بیٹی کو نہیں بیچے گا صرف چند پیسوں کی عوض..."
نور نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکر کہا...
"وُہ دیکھیں غفور انکل کو ویسے تو ہر وقت کمر درد ، ہاتھ درد پیر درد کی شکایت رہتی ہے اُنہیں مگر دیکھو کیسی ابھی اپنی پوتی کو کاندھوں پر اُٹھائے گھوم رہے ہیں.. کیوں؟ کیونکہ یہ اُن کی خوشی ہے....."
نور نے سامنے گھر کی چھت پر اپنی پوتی کو اُٹھائے غفور چچا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی سے کہا...
"صائم روز شام میں اپنے کبوتروں کو کھلا چھوڑ دیتا ہے کہ وُہ آزادی سے جاکر گھوم لیں اور اگر لوٹنا چاہیں تو اندھیرے سے پہلے لوٹ آئیں اور جب سورج ڈھلنے سے پہلے اُس کی مخصوص سیٹی بجانے سے سارے کبوتر لوٹ آتے ہیں تو اُس کے چہرے پر جو سکون ہوتا ہے وُہ اُس کی خوشی ہے..."
نور نے غفور چچا کے برابر والی چھت کی طرف اشارہ کیا جہاں صائم اپنے کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا...
"جب گلی میں کبھی مداری بندر کا ناچ دکھاتا ہے تو اپنے گرد لگا بچوں کا ہجوم دیکھ کر اُس کے چہرے پر جو سکون ہوتا ہے پیسے نہ بھی ملنے پر وُہ اُس کی خوشی ہے دھوپ میں جگہ جگہ گھومنا گلی گلی بچوں کو مسکراہٹیں بانٹنا یہ ہے خوشی اور ایسے ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوش رہنے کا راز پوشیدہ ہے خوشی ایک احساس، جذبہ اور ایک کیفیت کا نام ہے خوشی نہ تو خریدی جا سکتی ہے اور نہ کسی بازار میں ملتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قیمت ہے۔ یہ ایک انمول چیز ہے خدا کی عطا کردہ نعمت ہے۔ ضروری نہیں کہ خوش قسمت وہ ہے جس کا نصیب اچھا ہو بلکہ خوش قسمت تو وہ شخص ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا ’’جو چیز دوسروں کو دو گے وہی دگنی ہو کر واپس آئے گی۔‘‘ بالکل اسی طرح خوشیاں بانٹنے سے اپنے پاس بھی خوشیاں ہی پلٹ کر آئیں گی اور خوشی کو محدود رکھنے سے وہ ختم ہو کر مٹ جاتی ہے۔"
نور نے اُس کی پشت پر تھپکی دیتے ہوئے کہا...
"میں سمجھ گیا تمہاری بات..."
"اچھا کیا سمجھے..؟"
نور نے بازو سینے پر لپیٹے پوچھا...
" یہی کہ خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے نہ کہ امیری اور غریبی سے کیونکہ خوشی تو اطمینان اور جذبہ ہے جو شخص جیسے چاہے ویسے ہی اپنی زندگی میں بھرسکتا ہے۔ خدا کی اس خوبصورت عطا کردہ نعمت سے اپنی روح کی تسکین کرسکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم یہ خوشی حاصل کیسے کرسکتے ہیں۔"
علی کے اِس جواب پر وُہ دِل سے مسکرا دی....
زندگی کی سب سے قیمتی اور سب سے سستی چیز خوشی ہے۔ یہ ہم ہیں جنہوں نے خوشی کے پیمانے بہت اونچے کردیے ہیں اِنسان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی خوش ہوسکتا ہے خوشی کا احساس امیر ہو یا غریب سب میں برابر پیدا ہوتا ہے۔ فرق صرف مادی چیزوں کا ہوتا ہے غریب کی خوشی کا تعلق دو وقت کے کھانے سے ہوتا ہے اور امیر کا بچہ خوشی ایڈوانس ماڈل کا موبائل، کار، اے سی اور لیپ ٹاپ لینے پر محسوس کرتا ہے۔ خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے نہ کہ امیری اور غریبی سے اگر ہمیں اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں تو انہیں دوسروں کے ساتھ بانٹ کرکے خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کچھ نہیں ہے تو پھر آپ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ انہیں مسکراہٹیں دیں۔ اس سب کے بعد آپ خود اداس مت رہیں بلکہ مسکراتے رہیں اور خوش رہیں۔"
نور نے دِل سے مسکراتے ہوئے کہا...
"کتنے فارمولے ہیں تمہارے پاس خوش رہنے کے کاش مُجھے بھی آتے..."
علی نے یاسیت سے کہا...
"یہ سیکھنے سے نہیں آتی بس اِنہیں محسوس کرنا ہوتا ہے.."
نور نے اُس کے کندھے کو پکڑتے ہوئے کہا....
_________________________________________
"یار راستے پر پھنسا ہوا ہوں ٹریفک جام ہے بہت...ابے چھ بجے سے نکلے ہوئے ہیں گھر سے اب مُجھے پہلے تو پتا نہیں تھا کہ ٹریفک جام ملے گا۔۔۔ ہاں ہاں آرہے ہیں بس..."
علی نے ہارن دیتے ہوئے موبائل جیب میں رکھا...
"مسلسل عُمر کی کال آرہی ہے اور یہ ٹریفک.."
علی کوفت سے بولا...
"لیں اذان بھی ہوگئی..."
"افف عذاب ٹریفک جام..."
وُہ ہارن پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا تھا جیسے...
"علی بند کریں پیپ پیپ..."
نور نے اُس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا...
"شکر ٹریفک کھلا..."
علی نے بائک آگے بڑھائی...
"علی روزہ کھول لیتے ہیں..."
"ہاں سامنے سے کُچھ لاتا ہوں میں۔۔۔"
وُہ بائک سائڈ میں کھڑی کرکے سامنے حلوائی کی دُکان کی طرف چلا گیا واپسی پر اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جس میں تین سموسے تھے...
"میرے پسندیدہ ہیں سموسے میں تو امی کے سودے کے پیسوں میں سے تک ڈنڈی مار لیتی تھی اکثر کھانے کے لئے..."
اُس نے علی کے ہاتھ سے لفافہ لیتے ہوئے کہا..
"ہمیشہ سے چورنی رہی ہو تُم..."
اُس نے بائک دوبارہ اسٹارٹ کردی...
"آپکو یاد ہے شادی سے پہلے جب آپ نے میری تیل کی تھیلی پھاڑ دی تھی تب بھی میرے پاس سموسے تھے جو آپ نے گرا دیے تھے..."
اُس نے ہنس کر کہا..
"دوبارہ تیل لاکر بھی میں نے ہی دیا تھا.."
اُس نے احسان جتایا...
"ہنہہہ..."
"کیسے بھول سکتا ہوں میں وُہ بات اُسی کی وجہ سے تو امی نے میرے سامنے پہلی بار تمہاری بات کی تھی رشتے کی..."
علی نے آسودگی سے کہا...
"اور مُجھے مار پڑی تھی..."
نور نے منہ بناکر کہا..
"تب بھی میں ہی تھا تمہارے ساتھ نورِ علی..."
"ہاں ہمیشہ آپ ہی ہر مشکل میں ساتھ رہے میرے..."
اُس نے علی کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیا...
"علی گاڑی بچائیں۔۔"
نور بُری طرح چلائی پھر منظر سیاہ ہوگیا تھا اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro