Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۴۱

Mega Episode
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"میں تُمہیں طلاق..."
"ابو یہ کیا کر رہے ہیں آپ..."
علی نے مزید کوئی لفظ سبحان صاحب کے منہ سے نکلنے سے پہلے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...
"ابو آپکو خُدا کا واسطہ ہے چُپ ہوجائیں.."
دانیال نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ دیے...
"آپ اندر چلیں باجی..."
زرینہ نے شفق خاتون کو شانوں سے پکڑ کر کہا...
"سُنا تُم نے یہ مُجھے طلاق دے رہے ہیں صرف تیری وجہ سے..."
وُہ نور کو دیکھ کر نفرت سے بولیں...
"اِسے لے جاؤ میرے سامنے سے علی ورنہ پھر مُجھے کوئی نہیں روک پائے گا لے جاؤ اِسے..."
وُہ علی کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا کر چلائے...
"اندر جائیں آپ سنائی نہیں دے رہا آپکو کیا کیوں نقصان کرنا چاہتی ہیں اپنا بھی اور ہمارا بھی دانیال تُم ابو کو سنبھالو..."
علی نے سبحان صاحب کو چھوڑ کر اب شفق خاتون کو پکڑا اور تقریباً کھینچتے ہوئے لے جا کر کمرے میں جاکر بند کردیا مگر اُن کی زبان مسلسل زہر اُگلتی رہی...
"میں تھک گیا ہوں ساری عمر میں نے اِس عورت کے پیچھے خوار کردی مگر اِس نے کبھی میری قدر نہیں کی..."
وُہ گرنے کے سے انداز میں صحن میں پڑے تخت پر بیٹھتے چلے گئے...
"ابو یہ بہت انتہائی قدم ہے وُہ ہماری ماں ہے اور اِس حرکت کی مُجھے آپ سے ہرگز اُمید نہیں تھی.."
علی نے سبحان صاحب کو ملامت کی...
"تُم کُچھ نہیں جانتے کُچھ نہیں..."
اُنہوں نے افسوس سے کہا...
"تو پھر بتائیں اگر بات آپ دونوں میاں بیوی کے بیچ کی ہوتی تو میں کبھی نہیں پوچھتا مگر پورا حق ہے یہ مُجھے جاننے کا کہ کیوں میری ماں مُجھ سے نفرت کرتی ہے اپنی سگی اولاد سے..."
علی نے تیز آواز میں کہا...
"میں نہیں بتاسکتا کُچھ بھی..."
"ابو میری تکلیف سمجھنے کی کوشش کریں آپ..."
وُہ اُن کے سامنے دو زانوں بیٹھ کر اُن  دونوں ہاتھ پکڑ کر گڑگڑا کر بولا مگر سبحان صاحب نے اپنا رُخ پھیر لیا...
"تو پھر ٹھیک ہے میں بھی آپکی کوئی بات نہیں سنوں گا میں اِس گھر میں نہیں رہ سکتا اتنی نفرت کے ساتھ آپ چاہیں ہاتھ جوڑیں یا کُچھ بھی کریں جیسے آپکے برداشت کی حد ہے میری بھی برداشت کی حد ہے جب سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا ہوں میں یہ سب برداشت کرتا آرہا ہوں کبھی کسی سے شکایت نہیں کی میں نے مگر آج جو ہوا ہے وُہ بس ہے وُہ اخیر ہے جب دِلوں میں جگہ نہیں تو ایک ساتھ رہنے سے مکان گھر نہیں بن جاتا فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے یا تو سچ بتائیں یا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ گھر چھوڑ کر جارہا ہوں اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا زندگی میں کبھی آپکو اپنی شکل دوبارہ نہیں دکھاؤں گا سمجھ لیجئے گا علی مرگیا..."
وُہ اُن کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتا ہوا کھڑا ہوگیا...
"یہ مت کرنا علی تُمہیں میری قسم ہے..."
"تو پھر سچ بتائیں مُجھے..."
اُن کی خاموشی نے اُسے مشتعل کردیا وُہ اضطرابی کیفیت میں اپنے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا صحن میں اِدھر سے اُدھر گھومنے لگا...
"تو پھر آج مُجھے بھی آپکی کوئی قسم نہیں روک سکتی سُن لیں آپ یہ بات..."
وُہ اُنہیں اُنگلی دکھا کر بولا لہجہ کسی بھی قسم کی رعایت سے عاری تھا..
"جاکر سامان باندھو.."
وُہ اب نور سے بولا...
"علی آپ ابھی بہت غصّے میں.."
"نور جاکر سامان باندھو مُجھے تمہارے منہ سے دوسری کوئی بات نہیں سننی..."
اُس نے قطعی انداز میں کہا...
"نور اِس گھر کی بہو ہے یہ کہی نہیں جائے گی.."
سبحان صاحب نے نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے پیچھے کیا...
"یہ صرف میری بیوی ہے گھر کی بہو پر گھر کے بیٹے ہاتھ نہیں اُٹھاتے..."
اُس نے دانیال کی طرف دیکھ کر نخوت سے کہا...
"تُمہیں جو کہنا ہے کہہ لو..."
وُہ ڈھیٹ ہوئے...
"میں ہی جاکر کہیں مرجاتا ہوں سب کو مُجھ سے ہی مسئلہ ہے بھاڑ میں جائے سارے میں بھی اِنسان ہوں میرا بھی دِل ہے پتھر نہیں مُجھے بھی تکلیف ہوتی ہے..."
وُہ کسی طور ماننے کو تیار نہ تھا...
"علی میرے بیٹے..."
"مُجھے بات بتائیں ورنہ مُجھ سے کوئی بات نہیں کریں..."
وُہ ہرگز مصالحت پر راضی نہ تھا...
سبحان صاحب پھر چُپ ہوگئے..
"میری طرف سے بھاڑ میں جائیں سارے پھر..."
اُس نے گملے کو ٹھوکر مار کر کہا جس سے وہ ٹوٹ کر بکھر گیا...
وُہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا مگر نور نے اُسے بیچ میں جا لیا...
"علی میری بات سنیں..."
"تُم میری بات سنو ابھی جاکر تُم سامان باندھ رہی ہو ورنہ میرا اور تمہارا رشتہ بھی ختم..."
اُس نے نور کو بازو سے سختی سے پکڑ کر کہا...
"علی مُجھے بہت درد ہورہاہے..."
اُس کی آنکھیں بہنے لگی تھیں...
"مُجھے بھی ہوتا ہوگا جب تُم میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہی کام کرتی ہو..."
اُس کی آنکھیں دہک رہی تھیں...
"میں بھی چل رہی ہوں آپکے ساتھ جیسا آپ بولیں گے ویسا کروں گی میں بس صرف ایک بار میری بات سُن لیں.."
"کُچھ سننا سنانا نہیں ہے میں واپس آؤں تب تک تیار رہو..."
وُہ اُس کا بازو جھٹکے سے چھوڑتا دروازہ بچھیڑتا باہر نکل گیا....

_________________________________________

وُہ سامان پیک کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اُس نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو وہ دانیال کھڑا تھا نظریں جھکائے...
نور کی پیشانی پر بل پڑ گئے آنکھوں کے سامنے ایک ایک منظر رونما ہوگیا تھا...
"جی اور کُچھ رہ گیا سنانے کو ..." اُس نے سپاٹ انداز میں پوچھا...
"بھابھی میں نے بہت بہت زیادہ گھٹیا حرکت کی ہے بہت نیچ حرکت کی ہے آپ پر ہاتھ اُٹھا کر میں ہرگز بھی ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا میں آپکی دِل سے عزت کرتا ہوں مگر اُس وقت جب آپ نے میری جاب کے بارے میں کہا تو مُجھے ایسا لگا کسی نے مُجھے انگاروں میں پھینک دیا ہے میں آپے سے باہر ہوگیا اور... پلیز مجھے معاف کردیں مُجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے میں بہت شرمندہ ہوں میں نے بہت غلط کیا بہت زیادہ مُجھے تو آپ سے اُونچی آواز تک میں بات کرنے کا حق نہیں ہے پلیز مُجھے معاف کردیں..."
اُس نے نظریں نیچے کیے ہی اُس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے...
اُس کے چہرے کے تاثرات لمحے میں نرم پڑے وُہ جانتی تھی کہ اِنسان وُہ بھی بُرا نہیں تھا...
"منہ بند بالکل بند تانیہ اِس معاملے میں تُم ایک لفظ نہیں بولو گی سُنا تُم نے یہ ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے امی کی طرف سے کسی کے کردار پر لانچھن لگانا بہت سخت گناہ ہے امی میری لاکھ نفرت لڑائی سہی بھائی بھابھی سے مگر یہ الزام ناقابلِ فراموش ہے..."
اُسے یاد تھا جب لوگ اُس کی کردار کشی کر رہے تھے تھا ایک وُہ بھی تھا جِس نے اُسے عزت دی تھی ایک لفظ نہیں بولا تھا اُس کے کردار پر بلکہ اپنی بیوی تک کو روکا تھا اور غلطی تو ہر اِنسان سے ہوتی ہے....
"میں اِس گھر میں کسی کو بھی کسی سے دور کرنے ہرگز نہیں آئی ہوں بھائی اگر مُجھے ایسا کُچھ بھی کرنا ہوتا تو بہتیرے موقعے آئے تھے جب میں ایسا کرسکتی تھی یہ میرے ساتھ تھے مگر میں ایک گھر چاہتی ہوں پُر سکون الگ جاکر دو لوگ رہ تو لیتے ہیں مگر وہ جگہ کبھی گھر نہیں بن پاتی گھر ماں باپ سے ہوتا ہے اور یہ بات مُجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا..."
"میں شرمندہ ہوں بہت میں بھائی سے بھی معافی مانگ لوں گا ..."
وُہ مزید منفعل ہوکر بولا...
"بھابھی ماں کی جگہ ہوتی ہے،بہن جیسی ہوتی ہے اور بخدا میں نے ہمیشہ آپکو اپنا بھائی ہی سمجھا ہے اِنسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور وُہ ہوتی رہیں گی مگر غلطی کا احساس ہونا بہت ضروری ہے مُجھے اچھا لگا آپکو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ نے اپنی انا کو چھوڑ کر اُسے مانا بھی اگر اب بھی میں آپکو معاف نہ کروں تو یہ میری کم ظرفی ہوگی..."
نور نے متانت سے کہا...
"بہت شکریہ بھابھی بہت شکریہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں آئندہ آپکو شکایت کا کبھی کوئی موقع نہیں دوں گا آپ نے مُجھے بھائی سمجھا ہے تو میں بن کر بھی دکھاؤں گا..."
دانیال نے ایک نئے عزم کے ساتھ کہا...
"مُجھے خوشی ہوگی..."
وُہ مسکرا دی...
"میں آپ سے تانیہ اور امی کی طرف سے..."
"نہیں بھائی وُہ الزام ناقابلِ فراموش ہیں بات میرے کردار پر آئی ہے اور یہ میں اتنی آسانی سے نہیں بھول سکتی..."
نور نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے ٹوک دیا...
"مُجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اُس وقت میرا ساتھ دیا..."
"بھابھی میرے مسئلے بھائی سے ہیں آپ سے نہیں اتنے مہینے ہوگئے ہیں آپکو اِس گھر میں آئے اِنسان فطرت اور عادت پہچان جاتا ہے میں نے آج جو بھی آپ سے بدتمیزی کی اُس پر میں بہت شرمندہ ہوں..."
اُس نے ہموار لہجے میں کہا...
"امی کیسی ہیں اب.؟؟"
نور نے بلا ارادہ ہی پوچھ لیا...
"وُہ خالہ کے ساتھ چلی گئیں ہیں اور تانیہ بھی میں بھی بس نمرہ کو اُس کی دوست کے گھر سے لینے ہی جارہا ہوں چلتا ہوں پھر میں..."
دانیال نے نیچے جاتی سیڑھیاں اُترتے ہوئے کہا...
"یہ علی کہاں رہ گئے ہیں اتنے غصے میں گھر سے نکلے تھے اللہ اُن کی حفاظت کرنا..."
اُس نے زور زور سے دھڑکتے دِل کے ساتھ دُعا کی...

_________________________________________

"علی رُکو..."
سبحان صاحب نے خاموشی سے اُوپر جاتی سیڑھیاں چڑھتے علی کو روکا...
"مُجھے کوئی بات نہیں کرنی ابو..."
اُس کا انداز جوں کا توں تھا وُہ دوبارہ سیڑھیاں چڑھنے لگا...
"سچ بھی نہیں سننا چاہتے..."
اُس کے قدم خود بخود رُک گئے..
"کمرے میں چلو میرے ساتھ..."
اُنہوں ساکت کھڑے علی سے کہا تو وُہ چُپ چاپ اُن کے پیچھے چل دیا..
اُس کا دِل پوری شدت سے دھڑک رہا تھا کئی خیال،وسوسے اُسے ڈرائے دے رہے تھے...
"دروازہ بند کردو..."
اُنہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو علی نے بغیر کُچھ کہے دروازہ مقفل کیا اور اُن کے برابر میں آکر بیٹھ گیا...
کُچھ لمحے یونہی گزر گئے وُہ جو بات جاننے کے لئے بے قرار تھا اب اُس کا دِل کسی سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا نجانے کون سا راز اُس پر کُھلتا...
"شفق ریحان احمد تمہارے دادا کے سب سے بہترین دوست ریحان احمد کی بیٹی تھی صرف کہنے کو وُہ گھر الگ تھے ورنہ وُہ دونوں  سگے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے دونوں نے شروع سے طے کیا ہوا تھا اپنے بچوں کا رشتہ آپس میں طے کریں آپ مگر جب شادی کے بارہ سال بعد بھائی ریحان احمد کے گھر اولاد نہ ہوئی تو وُہ مایوس ہوگئے تھے مگر پھر شفق اُن کی زندگی میں آئی خوب جشن منایا گیا متمول دونوں  ہی تھے اُن کے گھر اگر بیٹی ہوئی تھی تو ہمارے لیے ہمارے گھر پر بہو پیدا ہوئی تھی سب بہت خوش تھے... شفق تین سال کی ہوئی تو تمہاری دادی نے باقاعدہ اُس کی اُنگلی میں میری نام کی انگوٹھی پہنا کر اُسے میرا کردیا تھا میں اُس وقت چودہ سال کا تھا اور جب سے شفق پیدا ہوئی تھی مُجھے ہر کسی نے صرف ایک ہی بات سمجھائی کہ یہ تیری بیوی ہے یہ تیری ہے تیری منگیتر اور اِسی سوچ کے ساتھ میں بڑا ہوتا گیا جوان ہوگیا اُنیس سال کا اور شفق آٹھ سال کی   ہم دونوں میں بہت دوستی تھی وُہ بہت معصوم تھی اُسے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ جسے وُہ بھائی بھائی کہتی تھی وُہ اپنے دِل میں اُس کے لیے کیا جذبات رکھتا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے دِل میں اُس کی محبت اندر تک اپنی جڑیں پھیلاتی رہی ریحان احمد کا کہنا تھا جب تک شفق سولہ سترہ سال کی نہیں ہوجاتی تب تک شادی نہیں کریں گے جو بات ٹھیک بھی تھی میں نے مزید صبر کیا کیونکہ اُس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا میں..."
اُنہوں نے رُک کر علی کے تاثرات دیکھنے چاہے مگر اُس کا چہرہ ہر قسم کے احساس اور جذبات سے عاری تھا...
"شفق ابھی سولہ کی ہوئی ہی تھی کہ میں نے اپنے گھر والوں پر زور دینا شروع کردیا شادی کے لیے وجہ یہ نہیں تھی کہ میں انتظار سے تھک گیا تھا وجہ کُچھ اور تھی..."
اُنہوں نے گہری سانس لے کر کہا پھر کُچھ دیر خاموش رہے جیسے ہمت جمع کر رہے ہو مزید کُچھ بتانے کے لئے...
"تُمہیں طفیل محمد یاد ہے..."
سبحان صاحب نے علی سے پوچھا...
"طفیل محمد... وُہ جو امی کے کزن تھے جن کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھا میرے پیدا ہونے سے بھی پہلے شاید امی اُن کا ذکر بہت کرتی تھیں..."
علی نے اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا...
"ہاں وہی..."
سبحان صاحب کے لہجے میں تلخی اُتر آئی...
"وُہ شفق کو پسند کرتا تھا اور شفق بھی اُسے پسند کرتی تھی..."
وُہ بہت ضبط سے کام لے رہے تھے...
علی کنگ تھا بلکل چُپ اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا کیا کہے کیا نا کہے...
"مُجھے یہ بات پتا چل گئی تھی اِسی وجہ سے میں نے شادی پر زور دینا شروع کردیا تھا شفق بھی میرے اور اپنے بیچ کے تعلق کے بارے میں جان گئی تھی اُس نے مُجھ سے بات تک کرنا چھوڑ دی تھی جہاں کہیں میں اُس کے سامنے آجاتا وُہ اپنے چہرے پر میرے لیے نفرت سجائے وہاں سے جتنا جلدی ہوسکتا چلی جاتی اگر کبھی مجبوراً مخاطب بھی کرنا پڑتا تو میرے اور اپنے بیچ کے تعلق سے واقف ہونے کے باجود وُہ قصداً صرف مُجھے تکلیف دینے کی خاطر "بھائی" کہتی تھی اور یہ میری برداشت سے باہر تھا میں کیسے اُسّے کسی اور کا ہوتا دیکھ لیتا جسے میں بچپن سے چاہتا آرہا تھا میری غیرت یہ بات ہرگز گوارہ نہیں کرتی تھی اور جب واقعی سب میری برداشت سے باہر ہوگیا تو میں نے بالمشافہ خود ریحان احمد سے بات کی وُہ خود بھی شرمندہ تھے مُجھ سے سو دوران میری بات مان لی اور دو دِن کے اندر اندر شادی طے کردی اور مُجھے یقین دلایا کہ شفق کی شادی مُجھ سے ہی ہوگی اور مُجھے کیا چاہیے تھا جہاں تک شفق کی نا پسندیدگی کی بات تھی تو میں نے سوچا تھا ایک بار شادی ہوجائے میں اُسے بھی منالوں گا اپنی محبت سے مگر..."
اُن کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے علی تڑپ گیا تھا اپنے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر...
"ابو رہنے دیں میں آپکو یوں نہیں دیکھ سکتا آپ چاہتے ہیں میں نہیں جاؤں میں نہیں جاؤں گا اور مُجھے کُچھ نہیں جاننا بس آپ خود کو سنبھالیں..."
اُس نے سبحان صاحب کی آنکھیں چھلکنے سے پہلے صاف کر ڈالیں....
"آج ہمت کرپایا ہوں مت روکوں تُمہیں بھی حق ہے جاننے کا کیونکہ سب تُم سے جڑا ہے..."
اُنہوں نے علی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کرب سے کہا...
علی کو زندگی میں پہلی بار وُہ واقعی بوڑھے لگے تھے ورنہ اُس نے ہمیشہ اُنہیں ایک مضبوط شخصیت پایا تھا اِس عُمر میں بھی اُن کے ہاتھوں کی سختی قابلِ دید تھی مگر آج وُہ ہاتھ کانپ رہے تھے....
"ابو رہنے دیں..."
"علی کہنے دو.."
اُنہوں نے جیسے اِلتجا کی...
وُہ اُن کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑوا کر کھڑکی کے پاس جاکھڑا ہوا...
"شادی سے ایک دِن پہلے شفق مُجھ سے مِلنے آئی میرے کمرے میں پتا نہیں کس طرح مگر آئی اور ایک عرصے بعد اُس نے مُجھ سے بالکل اُسی طرح بات کی جیسے وُہ ہمیشہ کیا کرتی تھی پہلے مُجھے خوش ہونا چاہئے تھا مگر میں تو مر رہا تھا کیونکہ وُہ مُجھ سے  اُسے چھوڑنے کی درخواست کرنے آئی تھی وُہ چاہتی تھی میں شادی سے انکار کردوں بڑی بے رحمی سے اُس نے میرے سامنے اپنے اور طفیل محمد کی محبت کی داستان سنائی اور مُجھے کہا میں نے آپکو ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کی طرح سمجھا ہے اور یہ بات مُجھے پاگل کر رہی تھی میرا ذہن ماؤف ہورہا تھا مُجھے کُچھ نہیں سمجھ آرہا تھا میں کیا کروں مگر اُس وقت میں نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا وُہ صاف لفظوں میں کہہ چُکی تھی یا تو میں شادی سے انکار کردوں ورنہ نتائج کا ذمے دار بھی میں خود ہوں گا..
میں نے سوچا جو لڑکی اتنی دیدہ دلیری سے میرے سامنے کھڑی ہوکر کسی اور کے لئے اپنی محبت کا اعتراف کرسکتی ہے وُہ اُس کے ساتھ بھاگ بھی سکتی ہے اور یہ مُجھے ہرگز منظور نہیں تھا میں اُس سے بہت محبت کرتا تھا بہت بہت بہت زیادہ..."
"آپ نے کیا کِیا ابو..."
علی کی آواز میں اب تلخی تھی...
"جو تُم سوچ رہے ہو ویسا کُچھ نہیں کیا تھا میں نے میں اُس سے محبت کرتا تھا ایسا کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا..."
سبحان صاحب نے رندھتی آواز میں کہا...
"پھر وُہ کیوں مُجھ سے نفرت کرتی ہیں؟؟."
علی اب کی بار چلایا...
"میں نے اُس سے کہا میں شادی سے انکار نہیں کرسکتا دونوں گھروں کی عزت کا سوال ہے (حالانکہ میرے لئے کوئی مشکل نہ تھا اگر وُہ میری محبت نہ ہوتی) میں نے اُسے سمجھایا کہ ابھی مُجھ سے شادی کرلو بعد میں میں تُمہیں طلاق دے دوں گا پھر تُم طفیل محمد سے شادی کرلینا... جس پر پہلے تو اُس نے صاف منع کیا مگر آخر میں نے اُسے رام کر ہی لیا ہر طرح سے اُسے یقین دہانی کروائی اپنی بات کی وُہ مطمئن ہوکر چلی گئی واپس مُجھے پورا یقین تھا طفیل محمد ہرگز بھی اب سے شادی نہیں کرے گا اگر اُس سے میری شادی ہوجائے گی مگر وُہ بے غیرت اِس بات پر بھی مان گیا خیر مرے ہوئے کو کیا بُرا کہنا... جب شادی کی رات کو شفق نے مُجھے بتایا کہ وُہ اسا بات کے لیے بھی راضی ہے تو مُجھے لگا جیسے کسی نے مُجھے اُٹھا کر کیلوں سے بھرے راستے پر پھینک دیا ہو ..
"شفق مُجھ سے کہہ رہی تھی اب آپ مُجھے دو دِن بعد طلاق دے دینا یہ کہہ کر کہ آپ نے شادی مُجھ سے مجبوری میں کی تھی ورنہ یہ حقیقت جاننے کے بعد کے میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں آپ ہرگز بھی مُجھے اپنے نکاح میں نہ لاتے..."
وُہ سب کُچھ طے کرکے بیٹھی تھی کیونکہ پیچھے اُسے طفیل محمد کی پُشت پناہی حاصل تھی وُہ اب میرے نکاح میں تھی مگر مُجھ سے طلاق لینے کی باتیں کر رہی تھی اور میں کسی صورت بھی اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا اور میرے پاس صرف ایک راستہ تھا اُسے خود سے باندھ لینے کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور میں وُہ بھی کرگزرا جو میں چاہتا ضرور تھا  مگر اِس طرح نہیں میں نے اُس کی کوئی بات نہیں سنی اُس کی کسی چیخ پر کام نہیں دھرے میرے ذہن میں صرف ایک بات تھی وُہ میری ہے صرف اور کسی کی نہیں عام زبان میں اسے "میریٹل ریپ"...."
"بس کردیں ابو بس مُجھے شرم آرہی ہے بس بس.."
علی باقاعدہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا اُس میں مزید سُننے کی ہمت قطعی نہیں تھی...
"میں اِس لیے نہیں چاہتا تھا کہ تمہیں یہ بات پتا چلے تُم مُجھ سے نفرت کرو گے..."
سبحان صاحب نے رقت آمیز انداز میں کہا...
"مُجھے لگا تھا اب وُہ طفیل محمد کبھی بھی شفق کو نہیں اپنائے گا جبکہ وُہ ماں بننے والی تھی یعنی کہ تُم ہماری زندگی میں آنے والے تھے.. مگر اُس نے پھر بھی شفق کو قبول کرنے کی حامی بھر لی شرط یہ رکھی کہ وُہ تُمہیں ختم کردے اور تمہارا وجود تو ویسے بھی شفق کے لئے کسی گالی کی مانند تھا وُہ تُمہیں گروانے کے لئے جس ہسپتال میں گئی تھی وہاں میرا دوست ڈاکٹر تھا اُس نے فوراً مُجھے بتادیا اور شفق کو انکار کردیا مگر مُجھے پتا تھا وُہ ہرگز چُپ نہیں بیٹھے گی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائے گی تو میں نے اُسے کمرے میں بند کردیا باہر جاتا تو کمرے کو تالا لگاکر جاتا گھر میں سے کسی کی میرے سامنے کُچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی اکلوتا تھا سب سے لاڈلا تھا تو وُہ لوگ بھی چُپ رہے شفق کے گھر والوں کو کہہ دیا کہ وہ اور میں گھومنے کے لئے دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں... میں جب بھی آتا وُہ روتی میرے سامنے گڑگڑاتی مگر جس طرح وُہ اپنی محبت کو چھوڑنے پر تیار نہ تھی میں کیسے چھوڑ دیتا کسی اور مرد کے لئے جبکہ وُہ میری بیوی تھی بات اب غیرت کے بھی تھی اور محبت کی بھی ...
بات کب تک چھپی رہتی بالاخر تمہارے نانا نانی تک پہنچ گئی اور شفق کو لینے آگئے اِس لیے نہیں کہ وُہ طفیل محمد سے اُس کی شادی کروا دیں بلکہ اُن سچی جھوٹی باتوں کو سُن کر جو شفق نے اُنہیں بتائی تھی کہ میں اُس کے کردار پر شک کرتا ہوں میں بچے کو مروانا چاہتا ہوں اِس لیے کیونکہ مُجھے لگتا ہے کہ یہ بچہ طفیل محمد کا ہے اور میں اُس پر تشدد کرتا ہوں مارتا ہوں بُری طرح جبکہ خُدا گواہ ہے میں نے تو اُسے کبھی پھولوں کی چھڑی سےبھی نہیں چھوا میں تو اُس دِن کے بعد سے اُس کے قریب بھی نہیں گیا مُجھے بس اُسے روکنا تھا اور جو مُجھے ٹھیک لگا وُہ میں نے کیا.. اُس نے خود کو مظلوم دکھانے کے لئے اُس نے میرے آنکھوں کے سامنے خود کو کانچ سے کاٹا جگہ جگہ سے اتنی نفرت کرتی تھی وُہ مُجھ سے تمہیں مارنے کی بہت کوشش کی اُس نے مگر جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے تُمہیں آنا تھا...
میں نے تمہارا نانا نانی کو اچھی طرح سمجھا دیا اور اُن سے اُن گناہوں تک کی معافی مانگ لی جو میں نے کیے ہی نہیں تھے اور وُہ بھی صرف اِس لیے مان گئے کیونکہ اب بچہ ہونے والا تھا اور اِس بات نے شفق کے دِل میں تمہاری نفرت مزید بڑھا دی...
وقت یونہی گزرتا گیا آٹھواں مہینہ تھا ایک دِن خبر آئی طفیل محمد نے چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی میں اُس وقت گھر سے باہر تھا مگر شفق تک خبر پہنچ چُکی تھی اور اُس نے ... اُس نے اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لی.. ڈاکٹرز کا کہنا تھا ماں یا بچے میں سے کوئی ایک ہی بچ سکتا ہے میں نے شفق کو بچانے کا کہا میں جانتا تھا اب وُہ میرے ساتھ ہرگز نہیں رہے گی نا ہی اب کوئی وجہ باقی رہنی تھی اُسے اپنے ساتھ رکھنے کی مگر میں اپنی محبت کے ہاتھوں  مجبور تھا میں اُسے یوں کھونے کو تیار تھا مگر ہمیشہ کے لیے نہیں مگر پھر جیسے کسی نے مُجھے زندگی کی نوید سنادی وُہ بھی بچ گئی اور تُم بھی میری گود میں آگئے لیکن تمہارے لیے شفق کی نفرت مزید بڑھ گئی اُس کے نزدیک تُم وُہ اِنسان تھے جس نے اُسے روک دیا جس کی وجہ سے طفیل محمد نے خود کشی کی کیونکہ وُہ تُمہیں اپنانے کو تیار نہ تھا اور شفق اُسے چھوڑنے پر اور میں تُمہیں کُچھ ہونے نہیں دے سکتا تھا  تمہاری وجہ سے اُس کے ماں باپ نے اُس کا ساتھ چھوڑ دیا ورنہ وُہ اُسے لے جاتے تمہاری وجہ سے طفیل محمد سے وُہ شادی نہ کرسکی ورنہ وُہ تیار تھا شادی کے لیے سب ہونے کے بعد بھی بشرطیکہ تمہارا خاتمہ اور یہ میں نے ہونے نہیں دیا۔۔۔ اُس کی نفرت اتنی شدید تھی کہ اُس نے تمہیں دودھ تک پلانے سے انکار کردیا تھا تُم نے پہلا دودھ اپنی ماں کا نہیں بلکہ اپنی بڑی خالہ رشیدہ کا پیا تھا...."
سبحان صاحب کی ہچکیاں کُچھ تھمیں تُو اُنہوں نے نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا علی کے چہرے پر صرف ویرانی تھی خطرناک ویرانی سرد نظریں اجنبی چال....
"وُہ تُم سے کبھی محبت نہیں کر پائی یہاں تک کہ اُس نے تُمہیں غلط دوائی پلا کر تک مارنے کی کوشش کی اور یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اُس پر ہاتھ اُٹھایا تھا...."
"اتنی نفرت...اتنی نفرت کیوں  مُجھے زندہ رکھا..."
علی کے ہونٹ کانپ رہے تھے اب چہرہ جیسے سیاہ بادلوں کی زد میں تھا بلکل تاریک...
" اُس رات کے علاوہ شادی کے دو سال تک میں پھر کبھی اُس کے قریب نہیں گیا اور وُہ تو جیسے چُپ تھی بلکل گونگی جیسے...
ابا جان کا اِنتقال ہوگیا اور امی جان کی دماغی حالت تھوڑی خراب رہنے لگی اور اُن کے زیرِ عتاب رہی شفق وُہ اُسے خوب بُرا بھلا کہتیں یہاں تک مار بھی دیتیں وُہ چُپ رہتی اُس نے ایک بار بھی مُجھ سے شکایت نہیں کی پورا پورا دِن تُم امی جان کے پاس ہوتے رات میرے پاس اور شفق کو ایک اور وجہ مِل گئی تُم سے نفرت کی کیونکہ تُم میرے قریب تھے اور اُسے مُجھ سے جڑی ہر چیز سے نفرت تھی اُس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا میرے اور تمہارے معاملے میں مگر امی جان کو کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا اُس نے ایک دِن میں دفتر سے جلدی گھر آگیا تو دیکھا امی جان اُسے ڈنڈے سے مار رہیں تھیں صرف اِس بات پر کہ کھانے میں نمک زیادہ ہوگیا تھا میں نے اُنہیں جاکر سُنایا تو وُہ اُلٹا مُجھ سے اُلجھ پڑیں کہتیں کہ اسے طلاق دے یہ منحوس ہے آتے ہی میرا شوہر کھا گئی ہم کنگال ہوگئے اور میں نے اُن کی بات ماننے سی انکار کردیا اور شفق اور تُمہیں لے کر دوسرے گھر میں شفٹ ہوگیا اُس کے دو تین مہینوں بعد ہی امی جان کا بھی اِنتقال ہوگیا مگر اِس عرصے میں میں نے شفق میں کافی مثبت تبدیلی دیکھی اب وُہ مُجھے سے کھنچی کھنچی نہیں رہتی تھی نا ہی تُم سے ہاں کبھی کبھار بلکل ہی ہتے سے اُکھڑ جاتی تو مانو سب ختم کردے گی ٹھیک ہوتی تھی بلکل ہی ٹھیک رہتی میری جانب پیش قدمی خود اُسی نے کی تھی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ تُم سے یا مُجھ سے محبت کرنے لگی تھی وجہ یہ تھی کہ وہ جان گئی تھی اب کسی چیز کا کوئی فائدہ نہیں تھا سو اُس نے سمجھوتہ کرلیا دانیال کے آنے کے بعد وہ کافی نارمل ہوگئی تھی اُس کا دانیال سے رویہ بالکل ویسا تھا جیسا ایک ماں کا ہونا چاہیے تھا کیونکہ اُس اولاد میں اُس کی مرضی شامل تھی اور تُم وُہ وجہ جس نے اُنہیں اِس مقام تک پہنچایا تھا کہ وہ ایک ناپسندیدہ اِنسان کے ساتھ ساری زندگی گزارنے پر راضی ہوئی..."
سبحان صاحب نے اپنی بات مکمل کرکے علی کو دیکھا جو اپنی اُنگلی دانتوں کے درمیان پھنسائے ضبط کی حدوں کو چھو رہا تھا وُہ اپنی اُنگلی زخمی کرچکا تھا...
"علی میرے بچے..."
اُنہوں نے اُسے گلے لگانا چاہا مگر وُہ بدک کر دور ہوا....
"میری کیا غلطی تھی اِس سب میں میری ماں مُجھے دُنیا میں آنے سے پہلے مارنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی میرے دُنیا میں آنے کے بعد بھی اُنہوں نے مُجھے مارنا چاہا اتنا ناقابلِ برداشت کہ مُجھے اپنا دودھ تک نہیں پلایا ایک نے اپنی محبت کے لئے مجھے مارنا چاہا ایک نے اپنی محبت کے لئے بچایا مگر مُجھ سے کسی کو محبت نہیں سب نے اپنا مطلب پورا کیا بس..."
وُہ کُچھ بھی سُننے پر راضی نہیں تھا....
"میری غلطی ہے یہ مُجھے شفق کو اپنی محبت سے اپنی طرف مائل کرنا چاہیے تھا مگر میں نے وہی کیا جو ہر مرد کرتا ہے... کوئی بھی عورت ہو بھلے بیوی ہی کیوں نہ ہو اُس کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا زیادتی ہے اور یہ بات ایک عورت کبھی نہیں بھولتی کبھی بھی نہیں وُہ برداشت کرلیتی مگر بھولتی نہیں ہے مگر مُجھے یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی جب تک میں اُسے خود سے بدگمان کرچکا تھا اور عورت صرف ایک ہی بار نفرت کرتی ہے اور ایک ہی بار محبت نفرت وُہ مُجھ سے کر چُکی تھی اور محبت وُہ کسی اور سے مگر میں مجبور تھا بیٹا اپنی محبت کے ہاتھوں مُجھے معاف کردو میں تمہارا بھی گنہگار ہوں...."
اُنہوں نے روتے ہوئے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے جسے اُس نے فوراً کھول کر اپنے بوڑھے باپ کو اپنے مضبوط سینے سے لگا لیا کُچھ دیر وُہ دونوں یونہی ایک دوسرے کے گلے لگے رہے پھر سبحان صاحب اُس سے الگ ہوئے اور اُس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولے....
"اگر وُہ تُم سے اِس وجہ سے نفرت کرتی ہے کہ وُہ مُجھ سے الگ نا ہوسکی تو میں تُم سے اِس وجہ سے دوگنی محبت کرتا ہوں کہ تمہاری وجہ سے وُہ میری ہوکر رہ گئی..."
وُہ اُس کا ماتھا چوم کر بولے....
"میں نے شفق کی ہر زیادتی پر خاموشی اختیار کی تمہارے معاملے میں بھی کیونکہ میں اُس کا گنہگار تھا مگر نور کے لئے میں نے پھر بولا پھر آواز اُٹھائی کیونکہ وُہ مُجھے شفق کی طرح لگتی ہے جس طرح وُہ میری ماں کی ہر بات ہر زیادتی پر چُپ رہتی تھی مُجھ سے کبھی کُچھ نہ کہتی تھی  نور بھی اُسی طرح ہے شفق اُس سے بھی اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتی ہے وُہ اپنا غصہ نور پر نکالتی ہے وُہ تُم دونوں  کو خوش دیکھ کر جلتی ہے کیونکہ اپنی تئیں میں اُس نے تمہاری شادی نور سے کرواکر تُمہیں خوشیوں سے دور کردیا تھا مگر تُم پھر بھی خوش ہو اُس کے ساتھ اور یہ بات اُس کے اندر کی محبت میں ہاری ہوئی شفق کو برداشت نہیں ہے..."
سبحان صاحب نے اُس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو بغور دیکھا...
"مُجھے کیوں روکتے ہیں پھر میرے بھی فرض ہیں کُچھ اپنی بیوی کے میں یوں اُسے ذلیل نہیں ہونے دے سکتا..."
علی درشتی سے بولا...
"میری آخری خواہش سمجھ کر رُک جاؤ.."
"جو سب میں نے آج جان لیا ہے اُس کے بعد بہت مشکل ہے مگر کوشش کروں گا..."
اُس نے جانے کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
سبحان چُپ رہے...
"بس وقت کا انتظار کر رہا ہوں یہاں سب کو اپنے اپنے مفاد کے لیے مُجھ سے محبت ہے کسی کی بھی محبت میرے لیے خالص نہیں ابو..."
اُس نے بغیر پلٹے کہا اگر اُن کی طرف دیکھ کر کہتا تو کمزور پڑ جاتا...
"میں تُم سے سچی محبت کرتا ہوں اولاد ہو تُم میری..."
"رہنے دیں آپ نے ابھی خود اعتراف کیا ہے کہ آپکو مُجھ سے محبت اِس لیے ہے کیونکہ میری وجہ سے آپکی محبت آپکے پاس رہی... ماں باپ اِنسان ہی ہوتے ہیں فرشتے نہیں ہے لوث محبت صرف اللہ کرتا ہے بندے کی محبت میں مفاد ہوتا ہے پھر فرق نہیں پڑتا کوئی بھی رشتہ ہو..."
وُہ کرب انگیز لہجے میں کہتا ہوا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا اور وُہ وہیں کھڑے اُس کے کڑوے مگر کھرے لفظوں کی سچائی محسوس کرنے لگے....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro