قسط نمبر ۳۷
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۷
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"میں تو چاہ کر بھی خوش نہیں ہو پارہا نور..."
وُہ دونوں کُچھ دیر پہلے ہی ڈاکٹر کے پاس سے آکر بیٹھے تھے...
"کیوں خوش کیوں نہیں ہیں آپ..؟"
نور نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
"خوش ہوں بہت خوش ہوں اتنا کہ تُمہیں بتا نہیں سکتا مگر اِن حالات میں یہ خبر نجانے کیوں دِل بٹھائے دے رہی ہے ہم دونوں تو پھر بھی کسی طرح گزار رہے ہیں مگر اب تمہارے ساتھ ایک اور جان ہے جِس کے لئے اچھی غذا بہت ضروری ہے..."
وُہ اپنے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے مضطرب سا ہوکر بولا...
"اِس میں پریشانی کی کوئی بات ہے ہی نہیں علی جس نے ہمیں یہ خوشی دی ہے وہی اِس کی حفاظت بھی کرے گا..."
اُس نے علی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی...
"میں مسلسل ہر اچھی جگا اپلائی بھی کر رہا ہوں مگر کہیں سے بھی کوئی جواب نہیں آرہا.."
"پریشان ہونے سے کیا ہوجائے گا علی..؟ کیا حالات بدل جائیں گے چٹکی بجاتے ہی؟؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا البتہ آپ ضرور اندر ہی اندر گھلتے چلے جائیں گے اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے پس ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے اور وُہ آپ کر رہے ہیں اُس پر بھروسہ رکھیں بہترین نعم و بدل عطا کرے گا..."
"انشاءاللہ..."
دونوں نے بیک آواز ہوکر کہا...
"تمہارا بہت شکریہ نور اتنی اچھی خبر کے لئے میں ہمارے بچے کے لئے اور تمہارے لیے وُہ سب کُچھ کروں گا جو میرے اختیار میں ہوگا..."
اُس نے نور کو دیکھ کر مصمم ارادے سے کہا...
"آپکو کہنے ضرورت نہیں ہے کیا میں نہیں جانتی.."
نور کی اِس بات پر وُہ دِل سے مسکرا دیا...
"ایک اور بات تُم نیچے کسی کو کُچھ نہیں بتاؤ گی..."
اُس کا انداز یکدم تلخ ہوا...
"علی اتنا بھی ناراضگی اچھی نہیں ہوتی.."
"مُجھ سے آگے سے بحث مت کیا کرو تُم یار جب کہہ دیا نہیں تو نہیں ناں نورِ حیات..."
اُسے بولتے بولتے خود ہی احساس ہوا کہ وُہ اُس کے ساتھ بھی تلخ ہورہاہے اِسی لیے بات کے آخر میں نورِ حیات کہہ کر اُس کے چہرے پر مسکان بکھیر دی...
"ٹھیک ہے نور کے علی..."
اُس نے آنکھ دبا کر شرارت سے کہا...
"اچھا جی.."
علی نے مسکرا کر کہا...
"ہاں جی.."
وُہ اُسی کے انداز میں بولی پھر دونوں ہنس دیے...
"اچھا ایک کام کردو یار استری سے کپڑا گرم گرکے کندھے پر سکائی کردو تھوڑا درد ہورہاہے اِس سے پہلے مزید بڑھ جائے..."
"ٹھیک ہے آپ آرام سے لیٹ جائیں میں کرتی ہوں.."
اُس نے متانت سے کہا اور کھڑی ہوگئی...
_________________________________________
"تُم تو کہہ رہے تھے اب نہیں آؤ گے اور دیکھو جلدی آکر کھڑے ہوئے ہو سب سے پہلے اور دو دِن کہاں غائب تھے.."
علی نے اُسے بند پڑی برانچ کے باہر کھڑے دیکھ کر پوچھا..
"آگیا بس.."
اُس کی آواز بہت بوجھل تھی...
"سب ٹھیک ہے ناں عُمر..؟"
"ہاں ٹھیک ہے بس یونہی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں ہے..."
علی نے صاف محسوس کیا کہ وہ کترا رہا ہے...
"کل سے تو ویسے بھی ہمیں ڈی ایم سی جانا ہے.."
علی نے بات بدلی...
"ہاں.."
وُہ دونوں دروازے سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گئے...
"عُمر تُم بہت پریشان لگ رہے ہو.."
وُہ اُسے یونہی خاموش بیٹھا دیکھ کر بولا...
"سب ہی پریشان ہیں یہاں کون سکھی ہے.."
وُہ یاسیت سے گویا ہوا...
"اگر دوست مانتے ہو تو بتاسکتے ہو شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں..؟"
"نہیں تُم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے..."
اُس نے قطعیت سے کہا..
"اپنا دِل کا بوجھ ہلکا کرلو کہہ کر باتیں خود تک ہی رکھ کر ہم خود کے ساتھ بہت زیادتی کرتے ہیں وُہ چیخ رہی ہوتی ہیں اندر چلا رہی ہوتی ہمارے وجود میں ٹکریں مار رہی ہوتی ہیں وُہ ہمارے وجود میں نہیں سما پاتیں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ایک وقت آتا ہے وُہ خاموش ہوجاتی ہیں مگر تب اندر سب ٹوٹ چکا ہوتا ہے طوفان تھم تو جاتا ہے مگر بہت بری تباہی مچا کر..."
علی نے آسمان کی جانب نظریں کیے کہا..
"میں اِس اذیت میں پچھلے ایک سال سے ہوں اور ابھی تو میرے اندر وُہ چیخیں خاموش نہیں ہوئی تھیں کہ پھر وہی اذیت وہی کرب مُجھے پھر تحفے میں مِل گیا..."
عُمر کی آنکھوں کے کنارے اب بھیگنے لگے تھے...
"ہم ایک دوسرے کو صرف ایک دِن پہلے سے جانتے ہیں مگر ایسا لگتا نہیں ہے مُجھے لگتا ہے ہمارا ساتھ سالوں سے ہے میں نے کہیں سُنا تھا برے وقت میں ساتھ چھوڑ جانے والے دوست نہیں ہوتے بلکہ جو برے وقت میں آپکا ہاتھ تھامے وُہ ہی آپکا سچا دوست ہوتا ہے..."
عُمر ہارنے لگا تھا...
"مُجھے اپنا وہی دوست سمجھو اور بتاؤ کیا بات ہے گنجو.."
آخری بات اُس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مکمل کی...
ہمدردی کے دو بول واقعی بہت اثر کرتے ہیں جب آپ کسی کو اِس بات کا یقین دلائیں کہ ہاں آپ اُس کی بات سنيں گے سمجھیں گے تو بھلے اُس اِنسان سے آپکی واقفیت چند منٹ پُرانی کیوں نہ ہو آپ اُسے مسیحا دکھائی دیں گے...
عُمر نے بے اختیار ہوکر اُسے اپنے گلے لگالیا اور بری طرح رونے لگا اتنی بری طرح کہ عُمر کی خود کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں...
"کیا ہوا ہے؟؟ بتاؤ؟"
علی نے اُس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے پوچھا...
"میری بیوی کا میسکرج ہوگیا ہے.."
اُس نے علی سے الگ ہوتے ہوئے بتایا...
علی چُپ تھا اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا کن لفظوں میں اُسے تسلی دے...
"سب ٹھیک ہوجائے گا یہ وقت بھی گزر جائے گا اللہ پر بھروسہ رکھو..."
علی نے دوبارہ اُسے خود سے لگا کر کہا....
"نہیں ہوتا اب نہیں ہوتا یہ دوسرا میسکریج ہے اُس کا صرف اِس وجہ سے کہ ہمارے گھر میں کھانے کے لئے پیسے تک نہیں ہوتے اُسے وُہ غذا میں دے ہی نہیں پایا جو اُس کی ضرورت تھی تُم نہیں جانتے کن حالات سے گزر رہا ہوں میں علی تُم نہیں جانتے..."
وُہ بلکل کسی بچے کی طرح بلکتے ہوئے بولا...
"تُمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا عُمر.."
"کیسی ہمت کیسی اپنے اِن ہاتھوں سے میں نے اپنے دو مہینے کے بچے کو دفنایا ہے تُم نہیں جانتے وُہ میرے لیے موت تھی موت میں اپنے بچے کو نہیں بچا سکا کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ اُسے ڈاکٹر کو دِکھا سکتا وُہ بخار میں تڑپ تڑپ کر مرگیا میرے ہاتھوں میں جان دی اُس نے اِن ہاتھوں میں..."
وُہ اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سامنے کرتے ہوئے بولا...
"بچہ.." علی کو لگا جیسے کسی نے اُس کے دِل کو مٹھی میں لے کر بری طرح مسل ڈالا...
"ہاں ایک سال پہلے میرا بیٹا انس میرے ہاتھوں میں تھا میرا انس بہت اچھے سے ہماری زندگی گزر رہی تھی مگر پھر حالات نے پلٹی کھائی نوکری گئی ماں باپ تو پہلے ہی نہیں تھے اور غریب رشتےداروں سے کون تعلق رکھنا پسند کرتا ہے پھر وُہ بھلے سگے بھائی بہن کیوں نہ ہو
میں نے اپنے بچے کے لئے سب کُچھ کیا بے روزگاری کا یہ عالم تھا کہ گھر میں فاقے تک ہونے لگے مگر میں نے صرف اپنی بیوی اور بچے کی شکل دیکھی میں نے ہر ممکن کوشش کی علی مگر میں اُسے نہیں بچا سکا میرے ہاتھ میں کُچھ نہیں تھا کہنے کو تو یہ سرکاری ہسپتال مفت علاج کرتے ہیں مگر اِن کے پاس وقت نہیں تھا میرے انس کو دیکھنے کے لئے میں نے کھو دیا اپنی جان اپنے انس کو ابھی اُس کے جانے کے صدمے سے نہیں اُبھرا تھا دو مہینے بعد پھر سے ...پہلے کے زخم رسنا بند نہیں ہوتے اور پھر نیا زخم اُسی جگہ میں کیسے ہمت کروں..."
عُمر اپنا ہاتھ دیوار پر زور زور سے مارنے لگا...
"عُمر عُمر خود کو تکلیف دینے سے کُچھ نہیں ہوگا میرے بھائی.."
وُہ لمحہ اذیت سے کس قدر مشروط تھا یہ اب علی سمجھ سکتا تھا وُہ بھلے باپ نہیں تھا مگر بننے والا تھا اور اُس کی لاچارگی محسوس کرسکتا تھا...
"اور تُم کہتے ہو وُہ سب کا ہے نہیں وُہ صرف اور صرف امیروں کا ہے اُنہی کو دیتا ہے سب جھوٹ ہے فرضی باتیں ہیں وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا بھی امیر کے بچے کو ہی ہے..."
اُسّے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا اول فول بک رہا تھا...
"چھوڑو اِن باتوں کو تُم خود کو سنبھالو تُمہیں صرف اپنا نہیں بھابھی کا بھی خیال رکھنا ہے ناں تُم جس اذیت سے گزر رہے ہو تُم جس کرب میں ہو اُس سے کئی زیادہ تکلیف میں وُہ ہوں گی کیونکہ وُہ ماں ہیں اُن کے لیے خود کو سنبھالو سب ٹھیک ہوجائے گا ٹھیک ہے سب ٹھیک ہوجائے گا ایسی کوئی رات نہیں جس کی صبح نہ ہو وقت لگے گا مگر سب ٹھیک ہوجائے گا.."
اُس نے عُمر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا مگر آنکھوں میں آنسو اُس کے بھی تھے...
"وُہ تو بلکل چُپ ہوگئی ہے کُچھ نہیں کہتی ایک لفظ نہیں اِس بار کے میسکیرج نے اُسے بری طرح توڑ دیا ہے ایسا لگتا ہے کبھی کُچھ بولا ہی نہیں اُس نے بس میرے کندھے سے سر ٹکائے بیٹھی رہی مُجھے کہیں بھی نہیں جانے دے رہی تھی آج بھی میں کتنی مشکل سے .."
وُہ کہتے کہتے رُک گیا وُہ اذیت اور دُکھ وُہ مزید نہیں بتا سکتا تھا...
"ٹھیک ہوجائیں گی بھابھی انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا میں اپنی بیوی کو لے کر آؤں گا اُن سے ملنا ایسے وقت میں اِنسان کو صرف ہمت کی ضرورت ہوتی ہے فکر مت کرو عُمر..."
"میں کبھی کبھار سوچتا ہوں میں ہی کیوں؟ میں ہی کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ ایسا کیا گناہ کردیا ہے میں نے..."
وُہ رقت آمیز انداز میں بولا...
"ضروری تو نہیں ناں کہ ہر آزمائش کسی گناہ کے عوض ملے اللہ اپنے بندوں کو آزما بھی رہا ہوتا ہے ہوسکتا ہے یہ آزمائشیں آگے کی خوشحال زندگی کا صدقہ ہو..."
علی نے اُس کے ہاتھ کو دبا کر کہا...
"پتا نہیں کیا ہے؟ کیوں ہے؟ مگر جو بھی اب میری برداشت سے ..."
"اپنی فکریں اُسے سونپ دو وُہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.."
علی نے اُس کی بات کاٹ کر کہا عُمر مزید کُچھ نہ بولا...
"مینیجر بھی آگیا اب شاباش سنبھالو خود کو تُمہیں مضبوط رہنا ہی ہے عُمر کمزور لوگوں کی دُنیا نہیں ہے چاہے جیسے بھی حالات کبھی ہمت نہیں ہارنی ہم بعد میں بات کریں گے اِس بارے میں ٹھیک ہے.."
"ٹھیک ہے.."
عُمر نے بھی فوراً اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
_________________________________________
"امی کیا ضرورت تھی چھوٹے ماموں اور خالہ کو افطار پر بلانے کی..."
نمرہ نے تانیہ کا خیال کیے بغیر کہا...
"کیا مطلب کیا ضرورت تھی؟؟"
تانیہ نے تڑک کر پوچھا...
"مطلب یہ اب وُہ لوگ اکیلے تو آئیں گے نہیں سب کی پوری کی پوری فیملی آئے گی اور اتنی تیاریاں کون کرے گا میں کوئی پاگل نہیں ہوں جو چولہے میں مروں روزے میں میں کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی..."
نمرہ نے دو ٹوک انداز میں جواب دے دیا...
"ایسے کیسے نہیں کرے گی تو کوئی نواب کی بچی ہے کیا تُم دونوں ہی کرو گے مِل کر سارا کام..."
شفق خاتون نے ڈپٹ کر کہا...
"ہاں خالہ میں کرواؤں گی ناں اِس کے ساتھ کام..."
تانیہ نے فوراً کہا جس پر نمرہ نے شدید حیرت سے اُسے دیکھا..
"دیکھ یہ ہوتی ہیں کام والی لڑکیاں اور میں صاف کہہ رہی ہوں کل کی افطاری میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے..."
اُنہوں نے حکم صادر کیا اور کمرے سے چلی گئیں...
"آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے.."
نمرہ نے اپنی حیرت کے چلتے بے اختیار سوال کر ڈالا....
"کیا مطلب..؟"
تانیہ سمجھ کر بھی انجان بنی...
"کُچھ نہیں میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں کل صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے.."
اُس نے کندھے اُچکا کر کہا اور چلی گئی...
"میری طبیعت تو بلکل ٹھیک ہے نمرہ جانی تمہاری صاف کرنے ہی جب کل پورے دن اکیلی گرمی میں سڑو گی ناں کچن میں تب پتا چلے گا..."
اُس نے طنزیہ مسکرا کر خود سے کہا..
_________________________________________
"علی تمہارا فون بج رہا ہے.."
عُمر نے کنٹینر میں مایونیز کا پیکٹ خالی کرتے ہوئے علی سے کہا...
"دیکھو کس کا ہے یقیناً نور کا ہوگا..."
اُس نے دوسرا پیکٹ کھولتے ہوئے کہا...
"نہیں بھابھی کا نہیں ہے کوئی انجان نمبر ہے.."
عُمر نے ایک نظر اسکرین پر ڈالتے ہوئے اُسے بتایا...
"اچھا تو تُم یہ آخری پیکٹ خالی کردو اِس میں جب تک میں دیکھتا ہوں کون ہے..."
اُس نے پیکٹ بند کرکے پائلٹ پر رکھا اور نیچے رکھے اپنے موبائل کو اُٹھا لیا فون بج بج کر بند ہوگیا تھا...
"لو کال بھی بند..."
ابھی وُہ کہہ ہی رہا تھا فون دوبارہ بج اُٹھا وُہ برانچ سے باہر آگیا...
"ہیلو علی..."
دوسری طرف سے آنے والی آواز کو وُہ ہزاروں کی بھیڑ میں بھی پہچان سکتا تھا..
وُہ زونیہ ہی تھی...
"کون.." مگر حیرت انگیز طور پر اِس بار اُس کی آواز سُن کر نہ تو اُسے غصّہ آیا تھا نہ ہی کوئی یاد تازہ ہوئی تھی...
"ایسا ہو ہی نہیں سکتا تُم مُجھے بھول جاؤ..."
اُس کی کھنکتی ہوئی آواز اُسے اپنے کانوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئی...
"دیکھئے محترمہ میں آپکو واقعی نہیں پہچانا برائے مہربانی اپنا نام بتائیے..."
اُس نے بروقت اپنے منتشر ہوتے اعصابوں پر قابو پاتے ہوئے کہا...
"واقعی بھول گئے ہو مُجھے...؟"
اب کی بار آواز میں حیرت تھی...
"میں نے آپکو واقعی..."
"زونیہ بات کررہی ہوں علی زونیہ٬زونیہ.."
اُس نے علی کی بات کاٹ کر تقریباً چیختے ہوئے کہا...علی خاموش رہا...
"اب یاد آئی یا یہ بتاؤں کون سی زونیہ.." اُس کی آواز میں لرزش واضح تھی...
"کہاں آگئی ہو تُم زونيہ اب چیخ چیخ کر تُمہیں بتانا پڑ رہا ہے کہ تُم ہو..."
علی نے طنزیہ کہا...
"میں نے تمہیں پہلے بھی کال کی تھی مگر تب تُم نے میرا نمبر بلاک کردیا تھا میں نے اُس کے بعد تُم سے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میں عدت میں تھی اور پھر اپنے..."
"یہ سب تُم مُجھے کیوں بتا رہی ہو مُجھے یہ سب سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.."
اُس نے سختی سے ٹوک دیا...
"بہت ناراض ہو تُم مُجھ سے ہونا بنتا بھی ہے میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا علی بہت غلط..."
"میرا تُم سے ایسا کوئی تعلق نہیں باقی جس کے برتے پر میں تُم سے ناراض یا راضی رہوں تُم اجنبی ہو میرے لیے..."
اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا...
"اتنا سرد لہجہ تمہارا نہیں ہوسکتا میرے لیے وُہ بھی.."
آواز میں بے یقینی تھی...
"كل کیوں کی ہے..؟"
علی نے اُس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا...
"تُم سے ملنا چاہتی ہوں معافی مانگنا چاہتی ہوں پلیز منع مت کرنا.."
وُہ عاجزی سے بولی...
"سوری میں اجنبیوں سے نہیں مِلتا نہ مُجھے اُن کی باتیں بُری لگتی ہیں تو معافی کس بات کی بلکہ میں تو تمہارا شکرگزار ہوں کہ تُم نے مُجھے چھوڑ دیا اس کے لیے تو میں ہزار بار تمہارا شکریہ ادا کرسکتا ہوں..."
اُس کی آنکھوں کے سامنے نور کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا....
"علی بس ایک بار میری بات سُن لو پلیز پلیز..."
"اِس سے پہلے وُہ مزید کُچھ کہتی پیچھے سے نور کی کال آنے لگی...
"میں فون رکھ رہا ہوں اُمید ہے آئندہ تُم مُجھے کال نہیں کرو گی اللہ حافظ۔۔۔"
اُس نے زونیہ کی بات سنے بغیر فون رکھ دیا...
"جی نورِ علی.."
اُس نے فون دوبارہ کان سے لگا کر محبت سے کہا..
"کیا کہوں..؟" اُس کی آواز مدھم آئی...
"کُچھ بھی کہہ لو میں سُن لوں گا بھلے سے پھر بھرا بھلا کہہ دو.."
علی نے ہنستے ہوئے کہا..
"اچھا بور ہورہی تھی اب میں تمہاری بوریت دور کرنے کے لئے کیا فون پر گانا سناؤں..."
"آپ سے بات کرنا ہی بیکار ہے آپ اور آپکے طعنے..."
نور نےبُرا منایا تھا..
"ارے تُم تو ناراض ہی ہوگئی اچھا بتاؤ کیا کر رہی تھی بلکہ اگر میں پوچھوں کیا کام کر رہی تھی تو زیادہ بہتر ہوگا کیوں..؟"
اُس نے شرارت سے کہا...
"کوئی کام نہیں تب ہی تو آپکو کال کی ورنہ پریشان کرتی.."
دوسری طرف سے بیزار سی آواز سنائی دی...
"مطلب میں تمہارا ٹائم پاس ہوں.."
اُس نے مزید چھیڑنا چاہا...
"کہہ سکتے ہیں آپ.."
وُہ سمجھ چُکی تھی کہ علی اُسے تنگ کر رہا ہے...
"جلدی سے نو بج جائیں بس..."
نور نے بہت آہستہ سے کہا مگر اُس نے سُن لیا تھا...
"اتنی بے قراری خیریت تو ہے.."
وُہ شوخ لہجے میں بولا تو نور کو اپنی حماقت کا احساس ہوا...
"اچھا علی میرا بیلنس ختم ہو رہا ہے ٹو ٹو بج رہی ہے گھر آئیں گے تب بات کریں گے اللہ حافظ..."
اُس نے جلدی سے فون رکھنا چاہا جبکہ علی اُس کی ہڑبڑاہٹ پر مسکرا رہا تھا...
"ٹھیک ہے اللہ حافظ جانم اور فکر مت کرو جلدی بج جائیں گے نو بھی..."
اُس کے منہ سے بے اختیار ہی "جانم" لفظ ادا ہوا اُسے خود حیرانی تھی مگر دوسری طرف سے فون رکھا جاچکا تھا...
"ٹوں ٹوں بج رہی ہے ویسے کسی مسخرے سے کم نہیں ہے میری بیوی.."
اُس نے فون جیب میں رکھتے ہوئے خود سے کہا اور واپسی برانچ کی طرف چل دیا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro