Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۳۴

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۳۴
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"کونے والا باورچی خانہ تو بہت خراب ہورہا تھا.."
علی نے کمرے میں آکر اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا...
"آپ تھک گئے ہوں گے بس مُجھے ایک گھنٹہ دیں میں کھانا بناتی ہوں.."
"کہاں کہاں چلی سیدھی شرافت سے بیٹھو اِدھر میں باہر سے لے کر آرہا ہوں رات کا کھانا..."
علی نے اُسے باقائدہ اُسے بٹھا کر کہا اور بائک کی چابی اُٹھا کر نکل گیا..
"علی بات سُن میری..."
شفق خاتون جو شاید صحن میں پڑے تخت پر بیٹھی اُس ہی کے نیچے اُترنے کا انتظار کر رہی تھیں اُسے آتا دیکھ کر فوراً اُس کی طرف لپکیں...
وُہ اُن سے فی الفور کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر احترام آڑے آگیا اُس نے کُچھ کہا نہیں بس صحن کے بیچ میں پہنچ کر رُک گیا...
"اتنا بڑا ہوگیا کہ میں تُجھے ڈانٹ بھی نہیں سکتی..."
"تذلیل اور ڈانٹ میں فرق ہوتا ہے اماں..."
وُہ فوراً بولا...
"بھلا ماں کبھی اپنی اولاد کی تذلیل کرتی ہے.."
"کروائی ہے آپ نے میری بے عزتی اپنی ہی دوسری اولاد سے اور اُس کل کی آئی لڑکی سے میں آپ کی ہر بات کو نظرانداز کردیتا ہوں اماں یہ والی بھی کردیتا مگر آج دانیال نے جو مُجھے کہا ہے اُس کے بعد مُجھ سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہوگا جو اُس کا ایک پیسہ بھی لیا آپ میرے لیے دعا کیا کریں بس یہ سوچ کر کہ دانیال کے علاوہ بھی آپکا اور بیٹا ہے اور وُہ بھی آپ سے محبت کرتا ہے.."
اُس نے شفق خاتون کو خود سے لگا کر اُن کے ماتھے کا بوسہ لیا...
"میں سمجھاؤں گی اُسے وُہ تُجھ سے معافی مانگے گا پر یوں نہ کر.."
"ناممکن امّاں اِنسان غصّے میں ہی سچ بولتا ہے اور مُجھے اچھے سے پتا چل گیا ہے کہ وُہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہے اب بلکل نہیں گنجائش.."
اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا...
"یہ سب خناس تیرے دماغ بیوی بھر رہی ہے تیری پتا نہیں کیوں لے کر آ گئی میں اُسے اِس گھر میں.."
وُہ پھر پہلے والے انداز میں بولا...
"اُس نے اپنا کیا بگاڑا ہے امّاں وُہ تو کسی کو کُچھ نہیں کہتی پھر کیوں اتنی نفرت اُس سے.."
"ایسی لڑکیوں کو خوب جانتی ہوں میں کس کس طرح شوہروں کو قابو کرتی ہیں خود کا تو کوئی آگے پیچھے ہے نہیں کیا جانے اپنوں کی اہمیت.."
وُہ نخوت سے بولیں...
"اگر نور کو اپنوں کی اہمیت نہیں پتا تو ہم میں سے کسی کو بھی نہیں پتا پھر.."
علی نے فوراً کہا..
"تُو اُسّے چھوڑ دے طلاق دے کر رفع کر بیٹا وُہ ہمارے گھر میں رہنے کے لائق ..."
"آپ بول بھی کیسے سکتی ہیں ایسا دو دو بیٹیاں کی ماں ہوکر آپ مُجھے کسی کی بیٹی کے ساتھ نا انصافی کی ترغیب دے رہی ہیں یہ تو آپ نے ہمیں کبھی نہیں سکھایا تھا اماں... اتنا فضول لفظ کہا بھی کیسے آپ نے..."
وُہ اُن کی بات درشتی سے کاٹ کر کہا...
"کیونکہ وُہ ہی سارے فساد کی جڑ ہے جب سے آئی ہے سب کُچھ خراب ہو رہا ہے میرے بیٹے کو آخر کر ہی دیا اُس نے مُجھ سے دور بیٹا تو اُسے چھوڑ دے میرے لیے اپنی ماں کے لئے میں تیرے لیے اِس سے بھی اچھی لڑکی..."
"بس کردیں امّاں بس اتنی سفاک مت بنیں وُہ بھی اِنسان ہی ہے کیوں چھوڑوں میں اُسے کیوں؟ میری بیوی نیک ہے،وفادار ہے،میرے گھر والوں کو اپنا سمجھنے والی ہے اور ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑی ہے اور جہاں تک رہی بات مُجھے آپ سے دور کرنے کی تو کبھی آپ اپنے رویے پر غور کیجئے گا سب صاف دِکھنے لگے گا..."
علی نے اُن کے ہاتھوں کو جھٹک کر کہا اور چلا گیا...
"میں اپنا بیٹا کسی کو چھیننے نہیں دوں گی ہرگز نہیں.."
اُن کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے دہک رہے تھے...

_________________________________________

کُچھ دِن بعد....

رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اُس دِن پانچواں روزہ تھا..
"نمرہ یار جاکر دیکھو دروازے پر کون ہے مُجھ سے نہیں اُٹھا جاتا روزے میں.."
تانیہ نے اپنے ناخن فائل کرتے ہوئے کہا..
دروازہ متواتر بجتا رہا...
"عجیب عذاب ہے پتا نہیں کہاں ہے یہ نمرہ کام کا تو بولو ہی نہیں اِسے.."
اُس نے جھنجھلا کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"آرہی ہوں توڑو گے کیا..."
اُس نے تن فن کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا...
سامنے علی تھا جسے دیکھ کر اُس کا غصّہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا...
"عجیب عذاب ہے بھئی چولہا الگ کرلیا ہے تو راستے بھی الگ کرو کہیں کام دھام پر تو جانا نہیں ہوتا خود کو دوسروں کو روزوں میں خوار کرواتے ہیں.."
وُہ بولتی ہوئی اندر جانے لگی۔
علی کے ماتھے پر بل پڑ گئے ایسا نہیں تھا کہ اُس کے پاس جواب نہیں تھا بلکہ وُہ عورت کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا...
"مُجھ سے نہیں ہوتے یہ کام اپنی بیوی کروائیں اب تو کوئی کام بھی نہیں کرتی وُہ بس بیٹھی رہتی ہے اوپر مہارانی.."
"اپنی حد میں رہو تانیہ میں تمہیں کُچھ کہہ نہیں رہا تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں جو تمہارے دِل میں آئے گا کہتی چلی جاؤ گی.."
علی سے مزید برداشت نہ ہوا...
"مُجھ پر مت چلائے.."
تانیہ نے اپنی آواز یکدم تیز کرتے ہوئے کہا..
"آرام سے بات کرو میں چیخ کر بات نہیں کر رہا تُم سے.."
اُس نے تانیہ کو گھرکا...
"آپکو تو عورتوں سے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے توبہ کتنی بری طرح چیخ رہے ہیں مُجھ پر خالہ جان، خالو دیکھ لیں اپنے بیٹے کو..."
اُس نے علی کی بات کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے زور زور سے سب کو بلانا شروع کردیا...
"کیا کر رہی ہو تم.."
علی نے اُسے سرزنش کی...
"دیکھیں خالہ علی بھائی مُجھے کہہ رہے ہیں تُم ہو ہی فسادن گھر آتے ہی سب بیڑہ غرق کردیا.."
اُس نے دلیری سے اُس کے سامنے جھوٹ بولا...
"تمہارا دماغ تو ٹھیک کُچھ تو خوفِ کرو کم از کم رمضان کا ہی احترام کرلو اتنا جھوٹ..."
آواز سیڑھیاں اُترتی نور کی تھی...
"بیٹا تُجھے یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی علی کبھی عورت سے بدتمیزی نہیں کرسکتا.."
شفق خاتون نے قطعیت سے کہا...
"غلط فہمی کیا خالہ میں بہری نہیں ہوں بھائی نے یہی الفاظ بولیں ہیں مُجھے۔۔۔"
اُس نے پھر دھٹائی سے اپنے جھوٹ کو نبھایا...
"ابو یہ جھوٹ بول رہی ہے میں تو اوپر جارہا تھا اِس نے اُلٹی سیدھی باتیں شروع کی..."
وُہ حیرت زدہ سا تانیہ کو دیکھ کر بولا جس کی آنکھوں میں ذرا بھی شرمندگی نہ تھی بلکہ مزید اپنا جھوٹ نبھا رہی تھی...
"میں نے اوپر کھڑکی سے تمہاری اور اِن کی ساری باتیں سنی ہیں اِس لیے میرے منہ پر تو جھوٹ بولنا مت تانیہ..."
نور کا انداز سب کو حیران کرگیا تھا...
"تمیز سے بات کر.."
شفق خاتون نے اُسے لتاڑا...
"امی انہوں نے تو اِس سے کوئی بات کی ہی نہیں ہے یہ تو خود ہی شروع ہوگئی تھی کہ کام دھام پر جانا ہوتا نہیں دوسروں کو روزے میں خوار کرواتے ہیں... یہ تو اُس بات کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے آرہے تھے..."
اُس نے نرمی سے شفق خاتون سے کہا...
"جھوٹ مت بولو نور.."
"بھابھی... نور بھابھی.. راستے الگ ہوئے ہیں رشتہ نہیں بدل گیا میرا تُم سے..."
نور نے اس کی بات کاٹ کر کہا...
"واہ چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ہیں.."
شفق خاتون نے مضحکہ اُڑایا...
"نہیں بولتی جو کرنا ہے کرلو.."
تانیہ کا انداز چیلنج کرتا تھا...
"میں توکُچھ نہیں کروں اپنے اعمال ناموں میں لکھواؤ مزید گناہ..."
نور نے ہاتھ پر ہاتھ باندھے کہا...
علی پُر سکون سا کھڑا اب اُسے بولتا دیکھ رہا تھا اُس کی باتوں کا اثر دیر سے ہیں سہی مگر ہوا ضرور تھا نور پر...
"ایک لفظ اور نہیں.."
تانیہ نے اُنگلی دِکھا کر کہا..
"چلیں اِس سے بحث کرنا بیکار ہے.."
اُس نے علی سے کہا جو ایک متاسف نظر شفق خاتون پر ڈالتا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا...

_________________________________________

"آپ نہا لیں پسینے میں ہورہے ہیں پورے.."
اُس نے علی کے ہاتھ سے اُس کی شرٹ لیتے ہوئے کہا۔۔۔
"آج تو تُم نے مجھے حیران کردیا نور.."
اُس نے تکیہ کمر کے پیچھے برابر کرتے ہوئے کہا..
"کیوں؟.." وُہ یکسر ہی انجان بن کر بولی...
"بھئی آخر کار تُم بھی بولی.."
علی نے فوراً کہا..
"مُجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے علی اور وُہ صاف جھوٹ بول رہی تھی اور آپ پر اگر کوئی جھوٹا الزام لگائے گا تو میں ہرگز بھی چُپ نہیں رہوں گی... جہاں آپ پر بات آئے گی میں بولوں گی.."
اُس نے مصمم کہا...
"ویسے لوگ کیسے دیدہ دلیری سے سامنے کے سامنے جھوٹ بول دیتے ہیں.."
علی نے حیرت سے کہا..
"خوفِ خدا ختم ہوگیا ہے لوگوں کے دلوں سے اور کُچھ نہیں..."
نور نے گہری سانس لے کر کہا..
"خیر چھوڑیں یہ بتائیں جاب ملی.."
نور نے نرمی سے پوچھا جواب میں اُس کے چہرے پر پھیلتی مایوسی دیکھ کر سب سمجھ گئی...
"مل جائے گی آپ مایوس نہ ہو.."
نور نے متانت سے کہا...
"میں سوچ رہا ہوں کب تک اِن بڑی بڑی جابز کے چکر میں خوار ہوتا رہوں گا اور رمضان میں تو ویسے بھی بہت مشکل سے ہی رکھتے ہیں نئے ایمپلائیز کو میرا ایک دوست ہے اُس نے بتائی تو ہے ایک جاب مگر..."
وُہ کہتے کہتے رُکا...
"مگر کیا.."
نور نے رسانیت سے پوچھا...
"تنخواہ بہت کم ہے بہت اور کوئی دوسری جاب بھی نہیں فی الحال مگر..."
اُس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا...
"کتنی ہے..؟"
نور نے فوراً سے اُس کے ہاتھ ہٹا کر خود سر دبانا شروع کردیا...
"سولہ ہزار..."
آواز بہت آہستہ تھی...
"بہت ہے کُچھ نہ ہونے سے کُچھ تو بہتر ہے ناں اور ہم دو اکیلی جان کا خرچہ ہی کتنا ہے آپ کو آگے بہت اچھی جاب مِل جائے گی مگر ہاتھ آئی ہوئی کو نہ چھوڑیں ویسے کام کیا ہے.؟"
"کام کا مسئلہ نہیں ہے مُجھے جو بھی ہوگا کرلوں گا بس تنخواہ کا ہے۔"
اُس نے نور کی بات مکمل ہوتے ہی کہا...
"کوئی بات نہیں ہے علی ہوسکتا ہے اسی میں کوئی بہتری ہو ہماری آپ بسم اللہ کریں..."
نور نے نرمی سے کہا..
"ہاں کل جاتا ہوں.."
"کام ہے کیا وہ تو بتائیں.."
"ایک فاسٹ فوڈ کمپنی ہے اُس میں کیشیر کی جاب ہے دو ٹائمنگز ہیں ایک دوپہر تین سے رات نو بجے تک اور رات نو سے دیر رات تین بجے تک روز کا اسٹاف فوڈ بھی ہے ڈیڑھ سو روپے صرف رمضان میں لیکن ویسے ستر روپے ہے..."
اُس نے ساری تفصیل سے بات بتائی...
"تو آپ نے کون سی ٹائمنگ لینی ہے..؟"
"دوپہر تین سے نو والی اُس کے بعد وہی پر نو بجے کی شفٹ میں ڈیلیوری مین کی دو جابز ہوجائیں گی تو آسانی ہوجائے گی تھوڑی.."
علی نے اُس کے ہاتھ اپنے بند آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا...
"ہرگز نہیں آپ کا ہاتھ ابھی بلکل ٹھیک نہیں ہوا ہے اور پھر مسلسل بائک چلانے سے خُدا نخواستہ کُچھ مزید بڑھ گیا تو بلکل بھی نہیں آپ صرف تین سے نو والی جاب کریں گے..."
اُس نے چھوٹتے ہے کہا...
"پر نور..."
"میں نے کہہ دیا ناں پر ور، اگر مگر، لیکن ویکن، یہ وہ، فلانا ڈھمکانا کُچھ نہیں آپ صرف ایک ہی نوکری کریں گے ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی.."
اُس نے آخری حربہ آزمایا...
"اچھا میری ماں نہیں کرتا.."
"توبہ توبہ استغفار نکاح فاسد کرنا ہے کیا.."
وُہ اُسّے چھیڑنے کی غرض سے بولی..
"تُم اور تُمہاری پُھس جگتیں..."
اُس نے نور کے چہرے پر جھول رہی زلف کھینچ کر شرارت سے کہا...
"اب جائیں آپ میں ذرا دیکھ کر آؤں سالن روزے کا بھی ٹائم ہونے والا ہے پھر روٹی بھی بنانی ہے آٹے کو بھی رکھے ہوئے آدھا گھنٹہ تو ہوگیا.."
اُس نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا...
"ہماری تو افطاری اور رات کا کھانا ایک ہی ہے.."
وُہ یاسیت سے بولا...
"ہاں تو ٹھیک ہی ہے ویسے بھی تلی ہوئی چیزیں ہضم نہیں ہوتیں اور آپکا پیٹ بھی بڑھ رہا ہے کافی..؟"
"اندھی ہو یقیناً تُم کوئی پیٹ نہیں بڑھ رہا اُس نے فوراً سانس اندر کرکے کہا..."
"ارے آپ تو دِل پر ہی لے گئے میں تو مذاق کر رہی تھی.."
اُس نے ہنستے ہوئے کہا...
"اچھا بس زیادہ کھی کھی مت کرو بیڈ پر پڑے رہ رہ کر وزن بڑھنا ہی تھا اب رمضان ہے ناں سیٹ ہوجاؤں گا پہلے کی طرح.."
اُس نے مصنوئی خفگی سے کہا...
"ایسے بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں یہ تو میں بول رہی ہوں کہ وزن بڑھ گیا ہے ورنہ اوروں کے لئے تو آپ اب بھی فٹ ہیں.."
اُس نے محبت سے کہا...
" اچھا کیا بنایا ہے..؟"
وُہ واشروم جاتے جاتے پلٹا...
"آلو بینگن آپکو بہت پسند ہے ناں..؟"
وُہ چڑا کر بولی...
"خیر ہے پیٹ تو بھرے گا ابھی وُہ حالات نہیں جو فرمائشیں چلیں گی مگر وُہ وقت بھی آجائے گا بہت جلد تب دیکھنا کتنا تھکاؤں گا تمہیں۔۔"
وُہ بھی آنکھ دبا کر اُسی کے انداز میں بولا...
"انشاءاللہ اب جائیں آپ۔۔۔"
وُہ علی کو کہہ کر کمرے سے نکل گئی...

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro