قسط نمبر ۲۹
محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۹
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"نور کوئی بات ہوئے ہے کیا علی بھائی بھی چُپ چُپ سے تھے تُم بھی چُپ چُپ ہو اور اِس طرح اچانک تُم یہاں .."
"کیا میں نہیں آسکتی..؟"
اُس نے فوراً سوال کیا..
"میں نے ایسا کب کہا بیٹا تمہارا میکہ ہے جب دِل چاہے آؤ کوئی تُمہیں کُچھ نہیں کہے گا میں تو بس فالتو میں ہی پریشان ہوگئی تھی خیر چھوڑو اِن باتوں کو یہ بتاؤ شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں اب تو تُمہیں تھوڑا آرام مِل جائے گا دیورانی جو آرہی ہے.."
نادیہ نے اُسے چھیڑتے ہوئے پوچھا...
"آپی ایک بات پوچھوں .."
نور نے اُس کی گود میں سر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا...
"ہاں پوچھو تُمہیں کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی مُجھ سے.."
اُس نے نور کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا...
"جن کے ماں باپ نہیں ہوتے اُنہیں کیوں کوئی اِنسان نہیں سمجھتا یہ کیوں نہیں سوچتے لوگ کہ اُس کے سینے میں بھی دِل ہے اُسے بھی اچھا لگتا ہے بُرا لگتا ہے وُہ اُداس ہوتا خوش ہوتے ہیں اگر ماں باپ دُنیا سے چلے جائیں تو کیا اُن کے پیچھے رہ جانے والے اُن کی بچوں کی زندگیوں ہر جگہ صرف رُلنا لکھا ہوتا ہے کوئی کیوں اُنہیں محبت نہیں دیتا مانا کہ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا مگر شفقت تو دکھائی جاسکتی ہے ناں.."
اُس کا کرلا رہا تھا آج شفق خاتون کا رویہ دیکھ کر...
"کیا بات ہوئی ہے نور تُم مُجھے ڈرا رہی ہو بتاؤ ناں میری جان.."
نادیہ نے محبت سے پوچھا...
"امی ابو کی بہت یاد آرہی ہے آج بہت اور اُن کی کمی بھی بہت محسوس ہورہے ہے آپی بہت..."
وُہ سارے باندھ توڑتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی...
"ایسے نہیں کرتے میری جان ایسے نہیں کرتے.."
نادیہ کے لئے اُس کو سنبھالنا مُشکل ہورہا تھا بہت وُہ بلک بلک کر رو رہی تھی...
"کیا ہوا ہے تُم مُجھے دہلا رہی ہو نور کیا بات ہوئی ہے..."
نادیہ خود بھی روتے ہوئے بولی...
"آپی میری امی میری امی کو بلا دیں میں اُنہیں دیکھنا چاہتی ہوں مُجھے محسوس کرنی ہے ماں کی شفقت کیا ہوتی ہے میں نے صرف اُنہیں تصویروں میں دیکھا ہے میں کیوں اتنی بد قسمت ہوں ہر معاملے میں کہیں سے لے آئیں کہیں سے لے آئیں میری امی کی آپی لے آئیں.."
اُس نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہا...
"نور بس کرو بس کرو میرا دِل پھٹ جائے گا نور زبیر دیکھیں کیا ہوگیا ہے اِسے زبیر.."
نادیہ نے اُسے سختی سے خود سے لگائے زور زور سے آوازیں لگانا شروع کردی...
"مُجھے رونے دیں آج مُجھے آج اپنی ماں کو رونے دیں.."
اُس کی ہچکیاں بندھنے لگی تھیں...
"نور کیا ہوا ہے بیٹا نور.."
زبیر نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوگیا...
"دیکھیں کیسی باتیں کر رہی ہے مُجھ سے نہیں برداشت ہورہا زبیر سمجھائیں اسے.."
نادیہ نے اُس کی پیٹھ پر پھیرتے ہوئے کہا...
"میں علی کو فون کرتا ہوں پوچھوں اُس سے کیا کِیا ہے اُس نے میری بہن کے ساتھ جو وُہ یوں رو رہی ہےاور اگر اُس نے کُچھ کیا ہوگا تو میں اُسے چھوڑوں گا نہیں.."
زبیر نے جلدی سے موبائل نکالا اور علی کو کال لگانے لگا مگر اُس کا نمبر بند تھا..
"یا اللہ کیا کِیا اُنہوں نے اِس بچی کے ساتھ نمبر بھی بند جارہا ہے اُس کا نور خُدا کے واسطے کُچھ تو بولو بچے.."
زبیر نے تڑپ کر پوچھا...
مگر اُس کی ہچکیاں ہی نہیں رُک رہی تھیں کیا جواب دیتی...
"میں پانی لے کر آتا ہوں.."
وُہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور کُچھ ہی لمحوں بعد گلاس لیے کمرے میں آیا..
"شاباش پانی پیو بیٹا.."
نادیہ نے گلاس اُس کے منہ سے لگاتے ہوئے کہا جسے اُس نے ہچکیوں کے ساتھ پیا...
"زبیر آپ اُن کے گھر جائیں اور خبر لے کر آئیں کیا کِیا ہے اُنہوں نے میری بہن کے ساتھ وُہ لوگ کیا سمجھتے ہیں اِس کا کوئی ولی وارث نہیں ہے.."
"ہاں میں جاتا ہوں.."
زبیر نے جلدی سے کھڑے ہوکر کہا نور جب تک کُچھ حواسوں میں لوٹی تھی...
"نہیں بھائی.."
ہچکیوں کے درمیان اٹکتے اٹکتے کہا گیا..
"تو پھر بتاؤ ہمیں کیا بات ہوئی ہے تُم رو کیوں رہی ہو اتنی بری طرح سچ سچ بتانا نور اگر میں نے تمہاری کسی بات میں بھی ذرا سا جھوٹ پکڑ لیا ناں تو میں تمہاری ایک بات نہیں سنوں گا اور اگلی بات علی سے ہوگی پھر..."
وہ بے لچک انداز میں بولا...
"میں آپکو سب بتاؤں گی بس مُجھ سے ایک وعدہ کریں آپ علی سے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ اُن کی کوئی غلطی نہیں ہے اور میں بھی اتنی بیوقوف ہوں بلا فضول میں آپ دونوں کو بھی پریشان کردیا..."
اُس نے خود کو ملامت کے..
"بیوقوفی نہیں اچھا کیا اور مُجھے بہت اچھا لگا کہ تُم نے ایسا کیا ہمیں اپنا سمجھا ہم پر یہ مان دِکھایا.."
زبیر نے برجستہ جواب دیا...
"اب شاباش بتاؤ کیا ہوا ہے.."
نادیہ نے اُسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا..
نور نے آج ہوا پورا واقعہ اُنہیں بتا دیا جسے سن کر دونوں کے چہروں پر ناگواری کے وُہ شدید تاثرات تھے کہ نور کو ڈر لگنے لگا...
"اتنے ہلکے لوگ اتنے ہلکے اتنی سطحی آج مُجھے افسوس ہورہاہے کہ ایک بھائی ہونے کے ناطے میں نے اُس وقت تُم پر سختی کیوں نہیں کی جب تُم یہ حماقت کر رہی تھی ذیشان ایک بہت اچھا لڑکا تھا تمہیں پھولوں کی طرح رکھتا بِلکُل کیونکہ تُم اُسی لیے ہو بہت بڑی غلطی ہوگئی مُجھ سے..."
زبیر نے متاسفانہ انداز میں کہا...
"علی ایسے نہیں ہیں بھائی وُہ بہت اچھے ہیں وہ میرا ساتھ دیتے ہیں.."
وُہ فوراً بولی...
"جو محبت صرف کمرے کی چار دیواری تک محدود ہو وہ صرف ضرورت ہے نور اِس رشتے کو عزت کی ضرورت ہے یہ کافی نہیں کہ وُہ صرف اکیلے میں تُم سے وعدے وعید کرے بلکہ سب کے سامنے تمہارے لیے کھڑا بھی ہوجائے.."
نادیہ نے گہری لے کر کہا..
"تو وہ کرتے ہیں میرے لیے..."
بلا توقف کہا گیا..
"تو پھر یہ آنسو کیوں بچے..؟"
زبیر نے رسان سے پوچھا....
"بس ایسے ہی آج نجانے کیوں دِل بھر آیا گزری جتنی عمر نہ روئی آج پھوٹ پھوٹ کر رونے کا دِل کر رہا ہے دِل کر رہا ہے کوئی احساس دلائے کے چاہے جیسے بھی حالات ہو چاہے کُچھ بھی ہوجائے وہ میرے ساتھ ہے میں راہگزر پڑی ہوئی کوئی ناکارہ چیز نہیں جس کے پیٹ پر کوئی بھی راہی ٹھوکر مارتا آگے بڑھ جائے وُہ احساس جو آپکو اندر سے مضبوط بنائے کہ ہاں میرا تُم سے ناطہ اٹوٹ ہے اُسے نہ تو جڑنے کے لیے تین لفظوں کی ضرورت ہے نہ ٹوٹنے کے لیے..."
اُس نے موتی بھری آنکھوں سے نادیہ کو دیکھا تو اُس کا دِل تڑپ اُٹھا...
"میرا تُم سے وہ رشتہ ہے میری جان میں تمہیں یقین دلاتی ہوں زندگی کے ہر موڑ پر میں تمہیں تمہارے ساتھ کھڑی ملوں گی چاہے کُچھ بھی ہوجائے کیسے بھی حالات ہو میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی ابو سے کیا وعدہ نبھاؤں گی..."
نادیہ نے اُسے سینے سے لگا کر مضبوط لہجے میں کہا...
"تُم آج نور کے ساتھ ہی سوجاؤ اِسے واقعی ضرورت ہے تمہاری اور ہاں نور صرف تمہاری آپی نہیں میں بھی تمہیں ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑا ملوں گا.."
زبیر نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...
"اور ہاں علی سے تو میں بات کروں گا.."
"بھائی پلیز.."
نور نے سہم کر کُچھ کہنا چاہا...
"تُم بے فکر رہو ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے تُم دونوں کے رشتے میں کسی بھی قسم کے کھٹاس آئے بس اُس کے یہ اُس کے گھروالوں کے ذہن میں کہیں بھی یہ خیال ہے کہ تُم اُن کے رحم و کرم پر ہو تو یہ بات غلط ثابت کرنی ہے تمہارے اپنے لوگ موجود ہیں تمہارے ساتھ یہ بات یاد کروانی ہے اُسے تاکہ آئندہ کے لیے احتیاط کرے اور کروائے بھی...تمہیں مُجھ پر بھروسہ تو ہے ناں؟؟"
آخری بار کہہ کر اُس نے پُر اُمید نظروں سے نور کو دیکھا...
"آپ پر پورا بھروسہ ہے مُجھے بھائی آپ وہی کریں گے جو میرے لیے بہتر ہوگا اِس لیے اب مُجھے کسی بات کی فکر نہیں..."
نور نے متشکر انداز میں کہا...
"خوش رہو.."
وُہ سر پر ہاتھ رکھ کر چلا گیا....
"آج ہم دونوں بہنیں خوب باتیں کریں گے.."
نادیہ نے اُس کا گال تھپک کر کہا...
" آپی یہ لفظ ’’یتیم‘‘ کتنا عجیب وغریب ہے۔ اس لفظ کو سنتے ہی دل میں احساس محبت جنم لیتا ہے۔ یتیم بچے یا بچی کے لیے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کوئی یتیم نہ ہو۔ اس کے ماں باپ سلامت رہیں ۔
یقیناً یہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔ اللہ نے تو حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔
ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کو چومتا ہے، گلے سے لگاتا ہے۔ اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتا ہے۔ گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے۔ وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے۔ بچے توتلی زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں۔ کبھی شکایت لگاتے ہیں۔ والد بچوں کی باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے۔ خوش ہوتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔آپکو یاد ہے ہم تینوں بھی تو ایسا ہی کرتے تھے جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے نہیں صبا آپی اُن کے ایک کندھے پر جھول رہی ہوتی تھیں میں اُن کی گود میں اور آپ ابو کے ارد گرد گھومتی رہتی تھیں رات جب تک وہ سو نہیں جاتے تھے میں اُنہیں بتاتی تھی کہ اسکول میں آج یہ سکھایا وُہ سکھایا تو وہ بس مسکراتے ہوئے مُجھے دیکھتے چلے جاتے تھے کبھی ہنس دیتے تھے کبھی پیار کرتے تھے کبھی ٹیسٹ میں اچھے نمبر آنے پر گھمانے لے جاتے تھے.."
نور کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے تو خشک آنکھیں نادیہ کی بھی نہ تھی...
"میں ابو سے گڑیا کا گھر منگواتی تھی اور پھر دو دن میں توڑ کر الزام تمہارے یا صبا کے سر ڈال کر پھر معصوم سی شکل لے کر اُن کے سامنے آجاتی اور وُہ اگلے دن مُجھے دوسرا لادیتے تھے.."
"اور آپ اُسے بھی ہفتہ بھی میں ٹھکانے لگا دیتی تھیں..."
نور نے ہنس کر کہا...
"ہاں اور پھر کبھی تو امی پر اِلزام..."
اُس نے قہقہ لگایا...
"وُہ دِن واپس نہیں آسکتے اب میرا بہت دِل چاہتا ہے کے ابو کے گلے لگا کر ہی سوجاؤں جیسے بچپن میں وُہ مُجھے گود میں اٹھائے ٹہلتے رہتے تھے اور میں سوجاتی تھی..."
یاسیت سے کہا گیا...
"ماں کی گود میں سر رکھنے کا کیا سکون ہوتا ہے میں تو اِس سے نابلد ہوں ہمیشہ سے
ماں کاشیریں لفظ اپنی تکوین و تجسیم کے دامن میں اقوام عالم کے بیکراں معانی و تفاہم سمیٹتے ہوئے ہیں یہ کہنا بے جا نہیں کہ ’’ماں‘‘ اہل زمیں کیلئے رب کریم کا تحفہ ہے۔ یہ درد مندی کا گرانقدر نسخۂ کیمیا اور ناامیدی کے اندھیروں میں روشن چراغ ہے۔ ماں کی ممتا جہان احساسات کا لطیف ترین جذبہ ہے ۔ ماں جیسی بھی ہو اس کی چھاؤں اولاد کیلئے گھنا سایہ اور سرمایہ ہے۔ "
نور نے کئی آنسو اپنے اندر اُتارے...
خاموشی سمیٹے کئی منٹ یونہی گزر گئی اُن دونوں میں سے کوئی کُچھ نہیں بولا..
"بس میری جان اتنا مت سوچوں صرف اذیت ہوگی اللہ کی رضا میں راضی رہو.."
نادیہ نے اُس کا سر تھپکتے ہوئے کہا نور سوچکی تھی...
"اللہ تمہیں ہر وہ خوشی دے جس کی تُم حقدار ہو.."
اُس نے نور کی پیشانی چومتے ہوئے کہا اور احتیاط سے اُس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا....
_________________________________________
"آئیے بیٹھئے ناں علی بھائی میں نور کو اُٹھا دیتی ہوںَ۔"
نادیہ نے ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔۔۔
"نور سو رہی ہے ۔۔"
اُس کے لہجے میں شدید حیرت در آئی تھی۔۔
"جی رات بھر ہم لوگ باتیں کرتے رہے صبح فجر کے بعد سوئے مُجھے تو اُٹھنا پڑا کیونکہ زبیر کو آفس جانا تھا تو ناشتہ وغیرہ بنانے کے لئے وُہ صبح تقریباً گیارہ بجے اُٹھی میرے منع کرنے کے باوجود گھر کا کام کروایا میرے ساتھ اور دوپہر کا کھانا کھا کر پھر سوگئی ۔۔۔"
نادیہ نے متانت سے کہا۔۔
"بہت حیرت کی بات ہے میرےلیےتو یہ کیونکہ میں نے تو شادی کے بعد سے آج تک کبھی بھی نور کو دوپہر میں سوتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی وُہ دوپہر کا کھانا کھاتی ہے ۔۔"
وُہ واقعی حیران تھا۔۔
"میکے میں ہر لڑکی کو ایسی ہی میٹھی نیند آتی ہے کُچھ وقت کے سُسرال کی فکر سے آزاد وُہ اپنا وقت جیتی ہے۔۔"
نادیہ نے مُسکرا کر کہا۔۔۔
"واقعی یہ بات سُنی تھی مگر آج دیکھ بھی لیا۔۔"
علی نے اُس کی بات کی تائید کی۔۔۔
"زُبیر آئے ہوں گے۔"
ڈور بیل کی آواز سُن کر نادیہ نے کہا اور دروازہ کھولنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"اسلام علیکم ۔۔"
"وعلیکم اسلام یہ پکڑو سامان سارا نور کیا کر رہی ہے؟"
اُس نے ہاتھ میں پکڑے کئی شاپرز نادیہ کو پکڑاتے ہوئے کہا اور نیچے بیٹھ کر اپنے جوتے اُتارنے لگاَ۔۔
"علی بھائی آئے ہوئے ہیں نور کو لینے۔۔"
"کیوں یہ کیوں آیا ہے اتنی جلدی ۔۔"
زبیر نے ناگواری سے کہا۔۔
"آہستہ بولیں زبیر وُہ سُن لیں گے۔۔"
نادیہ نے اُسے سرزنش کی۔۔
"سُنتا ہے تو سُن لے ویسے بھی جو حال اِس کے گھر والوں نے اُس کا کیا ہےاُس کے بعد تُم کم از کم مُجھ سے تو یہ اُمید ہرگز نہیں رکھنا کے میرا رویہ اُس کے ساتھ برادرانہ ہوگا َ۔"
زبیر نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا۔۔
"نور نے کیا کہا تھا علی بھائی اُس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اِسی بات کا مان رکھ لیں نور کی ہی خاطر پلیز ۔۔"
نادیہ نے خواستگاری سے بولی۔۔
"لڑکی کا معاملہ ہے جذباتی ہوکر بات بگڑ سکتی ہے۔۔"
"بھئی میں کسی ایسی چیز کو نہیں مانتا اُس کی دو روٹیاں مُجھ پر بھاری نہیں ہے جو سب جانتے ہوئے بھی اُسے ذلیل ہونے دوں۔۔"
وُہ کسی طور سمجھنے پر آمادہ نہیں تھا۔۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کل تو ٹھیک ہوگئے تھے اب لڑائی کس گھر میں نہیں ہوتی جہاں چار برتن ہونگے تو وُہ تو بجیں گے ہی اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم رشتے ختم کرلیں پلیز آپ چل کر بیٹھیں اُن کے ساتھ میں چائے لاتی ہوں۔۔۔"
نادیہ بہت آہستہ بات کر رہی تھی مبادا علی نہ سُن لے مگر ڈرئینگ روم مین گیٹ سے بالکل ساتھ تھا آواز صاف جارہی تھی اُس تک مگر علی کو بُرا نہیں لگا البتہ نور کے لیے فکر اچھی لگی۔۔
"اسلام علیکم کیسے ہو علی۔۔"
زبیر نے اندر داخل ہوکر نارمل سے انداز میں سلام کیا۔۔
"وعلیکم اسلام تُم کیسے ہو ۔۔؟"
اُس نے شرمندہ شرمندہ سے انداز میں کہا۔۔۔
"اور سُناؤ کیسے آنا ہوا۔۔؟"
زبیر کا انداز تفشیشانہ۔۔۔
"نور کو لینے۔۔"
یار اتنی بھی کیا جلدی ہے ایک دِن بھی نہیں ہوا اور تُم لینے آگئے میرا مطلب یہ کہ کُچھ دِن رُکنے دو اُسے شادی کے بعد پہلی بار آئی ہے ۔۔"
نادیہ کی کسی با ت کا اُس پر کوئی اثر نہیں اُس کے لہجے میں تندی در ہی آئی۔۔
" نہیں میں نے تو نور سے کہا بھی تھا بھلے سے ہفتہ رُک جاؤ مُجھے کوئی مسئلہ نہیں ہےَ۔"
اُس نے اپنا انداز نرم ہی رکھا۔۔
"ایک ہفتہ کیوں بھئی۔"
زبیر نے تیکھی نظروں سے اُسے دیکھا۔۔
"میرا مطلب سُکون سے کُچھ دِن گُزار لے یہاں۔۔"
اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا کیا بولے کیا نہ بولے کیونکہ وُہ تو ہر بات پر اُسے گھوری سے نواز رہا تھا۔۔
"جان چھڑانا چاہ رہے ہو اُس سے ۔۔"
زبیر کا سوال بالکل غیر متوقع تھا وُہ گڑبڑا گیا۔۔
"کیسی باتیں کر رہے ہو یار۔"
علی نے سنبھل کر کہا ۔۔
"دیکھو علی میں زیادہ گُھما پھرا کر بات کرنے کا عادی نہیں ہوں میں نے نور کو صرف بہن کہا نہیں بلکہ وُہ میری بہن ہے بھی یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ وُہ اکیلی نہیں ہے اور نا یہ سمجھنے کی غلطی کرنا کہ اُس کا کوئی نہیں جو تُم سے کھڑے ہوکر اُس کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا حساب نہیں لے گا ۔۔"
"زبیر کوئی بات ہوئی ہے کیا نور نے کُچھ کہا کیا مُجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے صاف بات کرو یار۔۔"
علی نے اُلجھ کر کہا۔
"نہیں وُہ بچی کیا کہے گی یہ میں کہہ رہا ہوں بحیثیت ایک بھائی ہونے کا ناطے ایسے ہی بس خیال آیا تُمہیں یہ بات بھی باور کروا دوں تاکہ آئندہ کے لیے بات دھیان میں رہے تُمھارے ورنہ یہ باتیں اگلی بار تمہارے گھر کے بڑوں سے ہوگی۔۔۔"
"میں تُمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔"
"علی نے مستحکم انداز میں جواب دیا ۔۔
"میں اُمید بھی یہی کرتا ہوں تُم سے کہ کبھی وُہ وقت نہیں آنے دو گے تُم جب مُجھے پچھتاوا ہو کہ کیوں میں نے نور کی بات مانی َ اور ہاں ایک اور بات یہ بات جو بھی ہمارے بیچ ہوئی اِسے یہی تک رکھنا نور سے اِس بارے میں کسی قسم کی بازگشت کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ورنہ تُم نے ابھی تک مُجھے جانا نہیں ہے بس میں نے تُمہیں کُچھ سمجھانا تھا عقلمند ہو تُم توسمجھ گئے ہو گے ورنہ ایک تلخ اور صاف بات یہ بھی ہے کہ میری بہن مُجھ پر بوجھ نہیں ہے ۔۔۔ لو علی یار تُمہاری چائے بھی آگئی َ۔۔"
اُس نے نادیہ کو آتا دیکھ کر فوراً اپنا انداز بدل کر دوستانہ کِیا۔۔
جبکہ علی اِس کھُلم کھلا دی گئی دھمکی پر متحیر سا اُسے دیکھتا رہ گیا ۔۔
"کیا ہوا علی بھائی آپ ایسے ہونق سے کیوں بیٹھے ہیں۔۔"
نادیہ چائے کی پیالی اُسے دیتے ہوئے تشویش سے بولی۔۔
"ارے ابھی تو ٹھیک تھا تُمہیں دیکھ کر چُپ ہوگیا ڈر گیا ہمارا جوان ۔۔"
وُہ شرارت سے بولا۔۔
"کیوں علی ایسا ہی ہے ناں ؟"
اُس نے علی کی حالت سے حظ لیا ۔۔
"ہاں۔۔" وُہ فوراً سنبھل کر بولا۔۔
"کیا علی بھائی آپ بھی اِن کی ہاں میں ہاں مِلا رہے ہیں اِنہیں تو عادت ہے مخول کرنے کی آپ یہ ربڑی کھائیں۔۔"
"مگر ہر بات مذاق نہیں ہوتی کیوں علی؟..."
اُس نے دوبارہ اُسے مخاطب کیا...
"نادیہ نور کو بلا دو مُجھے اُسے گھر چھوڑ کر کیٹرنگ والے کے پاس بھی جانا ہے.."
وُہ اب زبیر کی تیز نظروں کے حصار میں مزید نہیں بیٹھ سکتا تھا...
"کیوں اُٹھا دو سو رہی ہے تو سونے دو ویسے بھی وہاں کہاں ٹائم ملے گا اُسے.."
ایک اور طنز کا تیر پھینکا گیا...
"اچھا تو میں رات میں ٹیوشنز سے چھٹی پر اُسے لے لوں گا ابھی چلتا ہوں..."
اُس نے جلدی سے کھڑے ہوکر کہا...
"آنے سے پہلے کال ضرور کر لینا ہوسکتا ہے نور مزید رُکنا چاہے پھر یہاں آکر ذلیل ہوگے میرا مطلب خوار ہو گے.."
زبیر نے تاک کر حملہ کیا جس پر وہ محض جل بھن کر رہ گیا..
"آپی آپکا فون بج رہا ہے.."
نور جو سمجھ رہی تھی گھر میں کوئی نہیں ہے بغیر دوپٹے کے ہی کامن میں کھڑی ہوکر بولی بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں بوجھل تھیں غالباً ابھی ابھی اُٹھی تھی اور یقیناً فون کی ہی آواز پر کیونکہ چہرے پر بیزاری واضح تھی...
زبیر نے فوراً اپنی نظریں دوسری طرف کر لیں جبکہ علی اُس لاباؤلی سی نور کو دیکھتا رہ گیا...
"نور.."
نادیہ نے ذرا زور سے کہا تو اُس نے اپنی آنکھیں پوری کھولیں تو کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی...
"میں آتا ہوں.."
زبیر نے سائڈ سے نکلتے ہوئے کہا مگر جاتے جاتے صوفے پر پڑی چادر اُٹھا کر نادیہ کو دے گیا..
"آپ کب آئے..؟"
اُس نے نادیہ کے ہاتھ سے چادر لے کر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹی...
"ابھی تھوڑی دیر پہلے تُم چل رہی ہو یا رُکنے کا ارادہ ہے ."
اُس نے متانت سے پوچھا...
"میں بس کپڑے بدل کر آتی ہوں.."
اُس نے جلدی سے کہا اور چلی گئی...
"آپ بیٹھیں میں ذرا اِن کی خبر لے کر آؤں.."
نادیہ نے شرارت سے کہا..
"اچھا سے لینا۔۔"
وُہ پہلے ہی زبیر پر تپا ہوا تھا سو برجستگی سے بولا....
تھوڑی ہی دیر بعد نور تیار ہوکر اُس کے ساتھ کھڑی تھی...
"صرف ایک ہی دِن کے لئے آئی ہو اگر تمہارے سگے بھائی کا گھر ہوتا تو زیادہ رُکتی یا تمہارے شوہر کو کوئی مسئلہ ہے یہاں چھوڑنے میں.."
اُسے نور کا اتنا جلدی جانا ذرا اچھا نہیں لگ رہا تھا...
"ایسا کیوں سوچ رہے آپ رشتے خون کے محتاج ہرگز نہیں یہ تو احساس اور عزت سے بنتے ہیں ناں تو یہ سگے پرائے کی بات آئندہ مت کیجئے گا آپ میرے لیے یہ گھر میری بہن سے زیادہ بھائی کا گھر ہے میں آؤں گی فرصت سے بس شادی کے کام نپٹ جائیں پھر کُچھ ہی مہینے ہیں میں پھوپھو اور خالہ بھی بن جاؤں گی تو لمبا ہی ڈیرا ڈالوں گی.."
نور نے ہموار لہجے میں کہتے ہوئے نادیہ کو دیکھ کر آنکھ دبائی جس پر وُہ جھینپ گئی...
"اور جہاں تک تُم نے میرا ذکر کیا ہے زبیر تو اپنے حصے کا جواب میں خود دوں گا ہاں یہ سچ ہے کہ تُم نور کے سگے بھائی نہیں ہو مگر میں اِنسان کی پرکھ رکھتا ہوں تو میری طرف سے نور کو یہاں آنے یا رہنے کے لئے کبھی کسی پابندی کا سامنہ نہیں کرنا پڑے گا اور آج کے بعد تو بلکل بھی نہیں.."
اُس نے زبیر کو یقین دہانی کروائی...
"کوئی بھی بات بری لگی ہو تو معاف کرنا مگر بات یاد رکھنا..."
اُس نے علی سے گلے ملتے ہوئے دوبارہ سرزنش کی..
"ضرور.."
وُہ چبا کر بولا...
"اللہ حافظ بھائی...'"
اُس نے زبیر کے آگے سر جھکا کر کہا جس پر اُس نے شفقت سے ہاتھ رکھ دیا..
"اللہ کی امان میں.."
اُس نے ملائمت سے کہا...
_________________________________________
"آپکا کیوں منہ بنا ہوا ہے...؟"
اُس نے مسلسل چُپ چاپ بائک چلا رہے علی سے کہا...
"کس نے کہا منہ بنا ہوا ہے کہو تو گردن کو پیچھے گھما کر دکھا دوں."
جواب میں اُس کی شوخ آواز نے نور کو ہمت دی...
"ویسے ناں میں بڑا خوش تھا میرا کوئی سالہ نہیں ورنہ اُن کے ہزار نخرے ہوتے مگر نہیں میرا بھی سالہ ہے اور وُہ واقعی "سالہ " ہے.."
اُس نے جلے بھنے انداز میں کہا...
"کیوں خوش تھے بھئی زبیر بھائی ہے ناں آپکے سالے.."
اُس بات سمجھ نہ آئی...
"ہاں وہ ہی تو "سالہ.." ہے.."
انداز مزید تپا ہوا تھا...
"آپکی کوئی بات ہوئی بھائی سے.."
وُہ بالآخر کسی نتیجے پر پہنچ کر بولی...
"نہیں ایسے ہی بول رہا تھا.."
زبیر کی علانیہ دی گئی دھمکی اُسے یاد تھی...
"بھائی بھگو بھگو کر مارتا ہے اور بہن اللہ میاں کی گائے کہاں پھنس گیا تو علی کنوارہ ہی ٹھیک تھا.."
وُہ بڑبڑایا...
"کچھ کہا کیا آپ نے..؟"
"نہیں میں نے کیا کہنا ہے مار تھوڑی کھانے سالے سے اور تُم چُپ کرکے بیٹھو بائک چلانے دو دھیان سے کُچھ ہو گیا تو تمہارا بھائی میرے سر ہوگا.."
اُس نے نور کو گھرکا جس پر اُس نے علی کی پیٹھ پر غصے سے ہلکا سا ہاتھ مارا اور چپکی ہوکر بیٹھ گئی..
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro