قسط نمبر ۲۸
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۸
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"نور.. نور.."
علی نے وہی کھڑے ہوکر اُسے آواز لگائی..
"جی جلدی بولیں میری پیاز جل جائے گی.."
وُہ دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی اور انتہائی عجلت میں بولی...
"بھاڑ میں گئی تُمہاری پیاز جاؤ ابھی کے ابھی اپنے سارے وُہ سیٹ لے کر آؤ جو تُمہیں تُمہاری بہن اور بہنوئی نے دیے تھے.."
اُس نے تابمقدور اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی...
"کیوں.." وُہ لکنا کر بولی..
"ایسے ہی دیکھنے ہیں مُجھے تم جاؤ لے کر آؤ ابھی.."
"کیا ہوا ہے بیٹا تُم اتنی زور سے کیوں بول رہے ہو.."
سبحان صاحب کے ساتھ ساتھ نمرہ اور شفق خاتون بھی لاؤنج میں داخل ہوئیں...
"تُمہیں سنائی نہیں دے رہا میں کیا بول رہا ہوں.."
وُہ اُس کو اِنچ بھر بھی نہ ہلتا دیکھ کر غصّے سے بولا...
"بھائی آرام سے.."
فرح نے اُس کا بازو پکڑ کر کہا..
"کیا آرام سے ہاں تُمہیں سنائی نہیں دے رہا نور میں کیا بھونک رہا ہوں کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا.؟"
وُہ اب کی بار چلایا تو نور حقیقتاً ڈر کے پیچھے ہٹی...
"ہوا کیا ہے کیوں چلا رہا ہے اُس پر آواز نیچی رکھ کر بات کر.."
سبحان صاحب نے اُسے ڈانٹ کر کہا...
"ابو مُجھے اِس سے بات کرنے دیں جاؤ نور لے کر آؤ.."
علی نے اپنی آواز ہلکی کرتے ہوئے کہا...
"کیا ہوگیا ہے زیور زیور لگا رکھا ہے کب سے بعد میں دیکھ لیو پہلے کارڈ بانٹ آ زیور کون سا کہیں بھاگے جارہے ہیں.."
شفق خاتون نے بھی مداخلت کی...
"امی آپ کُچھ نہیں بولیں گی ابھی میں آپ کی طرف بھی آتا ہوں پہلے اِس سے بات کرنے دیں..تُم بہری ہوگئی ہو کیا نور سنائی نہیں دے رہا تُمہیں کہ میں تمہیں کب سے کیا کہہ رہا ہوں بلکہ چھوڑو تُم فرح جاکر ہمارے کمرے سے نور کی جیولری لے کر آؤ صرف وُہ جو اسے اِس کے میکے سے ملی تھی.."
اُس نے اب کی بار فرح سے کہا...
"ٹھیک ہے بھائی میں لاتی ہوں.."
اُس نے علی کا بازو چھوڑا اور چلی گئی...
نور چور نظروں سے شفق خاتون کی طرف دیکھنے لگی جو خود پریشان دکھائی دے رہی تھیں...
"یہ لیجئے بھائی.."
فرح نے ایک جیولری بکس سامنے رکھتے ہوئے کہا...
"ہاں نور تُمہیں تو تین سیٹ ملے تھے ناں باقی دو کہاں ہے؟"
علی نے اپنی سرد نظریں اُس پر جمائے کہا..
"وُہ میں نے آپی کو پالش..."
"جھوٹ مت بولو مُجھ سے نفرت ہے مُجھے جھوٹے لوگوں سے.."
وُہ دھاڑا...
"علی ہوش کرو یہ طریقہ ہے بات کرنے کا.."
سبحان صاحب نے سہمی ہوئی نور کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"علی میری بات سنیں میں آپکو سب..."
"نور بس اب تُم کُچھ نہیں بولو گی مُجھے بات کرنے دو اب.."
علی نے اُسے اپنے پیچھے کرتے ہوئے کہا اور جاکر شفق خاتون کے سامنے جا کھڑا ہوا...
"امّاں میں نے کہا تھا آپ سے کہ میں اپنی ساری ذمے داریاں نبھاؤں گا تو آپکو کیا ضرورت تھی نور سے اُس کے زیورات مانگنے کی کتنی شرم کی بات ہے یہ کہ ایک بہو کو دینے کے لئے دوسری بہو سے لینا اور تانیہ کے لیے آپ نے پہلے ہی تین سیٹ بنا رکھے ہیں کپڑے لتے کسی حساب میں نہیں اور نہ ہی مُجھے کوئی حساب چاہیے میرے پیسے آپکے پیسے ہیں آپ جلا بھی دیں تو میں کُچھ نہیں کہوں گا کیونکہ آپکا مُجھ پر حق ہے نور پر نہیں آپ مُجھ سے مانگیں نور سے نہیں کیونکہ جو نور اُس کے میکے سے ملا وُہ صرف اُس کا ہے..."
علی نے مہذب انداز میں اپنی بات مکمل کی...
"شفق کیا تُم نے واقعی نور سے اُس کے زیورات لیے ہیں.."
سبحان صاحب کی آواز تند تھی...
"میں کُچھ پوچھ رہا ہوں شفق.."
"لگا دی آگ میسنی کہیں کی نہ دینے تھے تو اُسی وقت منع کردیتی اب دیکھو میرے بیٹے کو کیسے میرے سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے جس نے آج تک مُجھ سے کسی چیز کا پلٹ کر جواب نہیں مانگا آج میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مُجھ سے باز پرس کر رہا ہے تو ہے ہی منحوس وہیں تیری ماں کے گھر پھینک کر آؤ گی تُجھے صحیح پیٹتی تھی وُہ تُجھے تو ہے ہی اِسی لائق..."
شفق خاتون سبحان صاحب کی بات کو قطعی نظرانداز کرکے نور کو دیکھ کر زہر خنداں کہا...
"امی میں نے کُچھ.."
اُس نے کُچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ شفق خاتون نے آگے بڑھ کر شدید طیش کے عالم میں اُس کے گال پر ایک چاٹنا رسید کرنا چاہا مگر فرح نے بیچ میں ہی اُن کا ہاتھ پکڑ لیا...
"بند کر اپنا منہ بدذات کہیں کی نا ہنجار..."
"امی.."
علی زندگی میں پہلی بار اُن پر چلایا تھا...
"شفق..."
سبحان صاحب نے اُنہیں پکڑ کر بُری طرح جھنجھوڑ ڈالا...
"ہوش میں تو ہو تُم یہ کیا کِیا ہے تُم نے اپنی نفرت میں اتنی اندھی ہوگئی ہو تُم..."
"امی آپ اتنی جاہل تو کبھی نہ تھیں کیا ہوگیا ہے آپکو.."
فرح نے افسوس سے کہا...
نور بس اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے حق دق سی اُنہیں دیکھ رہی تھی...
"امی مُجھے آپ سے اِس حرکت کی اُمید ہرگز نہیں تھی بالکل نہیں اتنی نفرت اتنا بغض وُہ بھی اتنی بے ضرر سی لڑکی کے لئے..."
علی کا انداز ملامتی تھا...
"اور آپکی اطلاع کے لیے بتادوں علی بھائی کو زیورات والی بات میں نے بتائی تھی بھابھی نے نہیں..."
فرح نے نور کو گلے لگاتے ہوئے کہا...
"تو بھی جا اپنے گھر وہی کی نپیڑ یہاں مرنے کی ضرورت نہیں ہے جب سے آئی ہے بھائی بھابھی ،بھائی بھابھی کوئی انوکھا نہیں کر رہا یہ جو ہمدردی ہی ختم نہیں ہورہی تیری اور انہیں دیکھو بیوی کے پیچھے مرے جارہے ہیں پتا نہیں ایسی کیا انوکھی بیوی ہے اِن کی ایسی اولاد سے اچھا تو گلا گھونٹ کر مار دیتی تُجھے میں اور اسے تو اپنی بہو بناکر پچھتا رہی ہوں میں اِس سے اچھی تو وُہ زونیہ ہی ہوتی کم از کم ڈبل ڈھولکی تو نہیں تھی یہ تو بہت بڑی ڈرامے باز ہے..."
اُنہیں نہیں اندازہ تھا غصّے میں وہ کیا کیا کہہ رہی تھیں...
"میں نے آپکو ہمیشہ اپنی ماں کا درجہ دیا ہے امی.."
نور نے روتے ہوئے کہا...
"ہٹ اِدھر سے ماں کا درجہ دیا ہے والی... ہاں میں کروں گی سب کروں گی تانیہ کے لئے میری بهانجی ہے وُہ اکلوتی بہن کی بیٹی ہے تو بولتی ہے ناں اِس کے ساتھ زیادتی کی تو سُن سب سے پہلے تو اِسی اپنے گھر کی بہو بنا کر احسان کیا ورنہ اب تک جوتیاں کھا کھا کر مر ہی چُکی ہوتی وہاں اِس کی اوقات کے مطابق اسے سب دیا تھا اب اوقات سے بڑھ کر مِل رہا ہے ناں تو عزت راس نہیں اِسے تانیہ تو میری بھانجی ہے اِس کا اور اُس کا کیا مقابلہ..."
اُنہوں نے انتہائی تضحیک آمیز انداز میں کہا...
وہاں موجود ہر شخص دنگ تھا یہ دیکھ کر کہ نور کے لئے اُن کے دِل میں کتنا زہر بھرا ہے...
"تُمہاری ماں پاگل ہوگئی ہے اور کُچھ نہیں تُم نور کو کمرے میں لے کر جاؤ.."
سبحان صاحب نے نور کی طرف دیکھے بغیر کہا اُن کی ہمت ہی کہاں رہی تھی اُس کی طرف دیکھنے کی خود علی اُس سے نظریں چُرا رہا تھا...
"فرح.."
علی نے آنکھ کے اشارے سے اُسے نور کو وہاں سے لیجانے کو کہا...
"چلیں بھابھی کمرے میں چلیں..."
اُس نے نور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ میکانکی انداز میں اُس کے ساتھ چل دی....
___________________________________________
"نور جاگ رہی ہو.."
علی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے پوچھا..
وُہ کافی دیر بعد کمرے میں آیا ہمت ہی نہیں تھی اُس کا سامنہ کرنے علی کے اندر...
"جی۔۔" اُس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں...
"ٹھیک ہو..؟" اُسے خود بھی احساس تھا کہ اُس کا سوال احمقانہ تھا مگر وُہ بس اُس سے بات کرنا چاہتا تھا...
"میں ٹھیک ہوں مُجھے کیا ہونا.."
اُس کا انداز نارمل تھا جیسے کُچھ ہوا ہی نہ ہو..
"کھانا کھایا آپ نے..؟"
اُس نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا..
"نہیں بھوک نہیں اور ضد مت کرنا میں نہیں کھاؤں گا.."
علی نے اُس کے کُچھ بھی بولنے سے پہلے ہی ٹوک دیا...
"باہر چلیں کہیں کُچھ دیر کے لئے سکون کے لیے بہت گھٹن ہورہی ہے مُجھے آج ایسا لگ رہا ہے کہ میں کسی کے لئے واقعی کُچھ نہیں ہوں یا صرف ایک مشین ہوں جسے سب نے اپنی ضرورت کے حساب سے استعمال کیا بارہ سال نور بارہ سال.."
وُہ رقت آمیز انداز میں بولا..
"علی ایک چیز مانگوں آپ سے۔۔"
"مانگو تُم نے بھی تو میری طرح آج تک کسی سے کُچھ نہیں مانگا مُجھ سے ہی مانگو شاید تُمہاری خواہش ہی پوری کرکے مُجھے سکون ملے تھوڑا..."
علی نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا...
"آپ مُجھے نادیہ آپی کے گھر چھوڑ دیں.."
اُس نے سپاٹ انداز میں کہا علی کے لئے بہت ہی غیر متوقع تھا...
"کیوں ؟ میرا مطلب کیا تُم بھی؟؟ نہیں میرا مطلب میں تُمہیں چھوڑ آؤں گا مگر کیا تُم تھک گئی ہو مُجھ سے کہیں پچھتا تو نہیں رہی اپنے فیصلے پر..."
اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا وُہ کیا کہے..
"تھک تو گئی ہوں واقعی آپکے بارہ سال ہیں تو میری اب تک کی پوری زندگی کیا اب بھی نہ تھکوں کیا میں انسان نہیں ہوں.."
اُس نے علی کے کندھے پر اپنا سر رکھتے ہوئے کہا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے..
"دوسرا علی نہ بنو نور.."
اُس نے یہ بات دِل میں کہی...
"چھوڑ کر جارہی.."
"ہرگز نہیں علی بلکل نہیں میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی نہ ہی کوئی پچھتاوا ہے نہ ہوگا بس میں یہ محسوس کرنا چاہتی ہوں کہ میں اِس دُنیا میں اکیلی نہیں ہوں میری بہن ہے ابھی میں یتیم ہوں مگر بلکل بے سہارا نہیں کہ جس کا دِل کرے کُچھ بھی سنا دے مارنے کے لیے کھڑا ہوجائے میں اِس لیے تو نہیں رہ گئی ہوں نا ۔۔"
"تُم اکیلی نہیں ہو نور میں ہوں تمہارے پاس تمہارے ساتھ.."
علی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا....
"جانتی ہوں آپ ہیں اور آپ ہی تو ہیں مگر اسے میری ضرورت سمجھ کر پورا کردیں..."
اُس نے التجا کی...
"ہاں ضرورت تو ہے ٹھیک ہے تُم تیار تیار ہوجاؤ میں چھوڑ آتا ہوں تُمہیں.."
علی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"میری ایک بات اور مانیں گے.."
نور نے پُر اُمید نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"کہو.."
"آپ امی سے وُہ سیٹ واپس نہیں لیں گے مُجھے کوئی شوق نہیں ہے اِن چیزوں کا ویسے بھی مادی چیزیں رشتوں میں دوری کا ہی سبب بنتی ہے اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتی..."
"میں تمہاری یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا نور..."
"پلیز یہ بات بھی مان لیں میری ایک بار دی ہوئی چیز واپس نہیں لیتے.."
اُس نے علی کا ہاتھ دبا کر کہا۔..
"تُم نے ہر بار مُجھے حیران ہی کیا ہے تُم کیا ہو آخر ؟.."
بات مکمل کرکے اُس نے گہری سانس لی۔۔
نور دِل سے مسکرا دی...
"واپس کتنے دِن بعد آؤ گی.."
"کتنے دِن بعد کیا کل شام میں آفس سے آتے وقت لینے آجائے گا گھر میں ہزار کام ہیں شادی والا گھر ہے آخر کو.."
نور نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا..
"اتنی جلدی مسلط ہوجاؤ گی پھر تُم کم از کم ہفتہ تو رہو مُجھے بھی سکون رہے گا.."
اُس نے شرارت سے کہا...
"آہاں ہو ہی نہ جائے یہ خواہش پوری آپکی سیدھی شرافت سے کل لینے آجائے گا ..."
اُس نے حکم صادر کیا..
"اچھا جی جو حُکم.."
"کہاں جارہی ہو.."
اُس نے باہر جاتی نور سے پوچھا...
"امی سے اجازت لینے.."
اُس نے سادہ انداز میں کہا...
"مگر جب مُجھے کوئی مسئلہ نہیں تو امی سے کیا ضرورت ہے پوچھنے کی.."
"بڑی وُہ ہیں آپ نہیں علی اِس لیے اُن سے پوچھنا ضروری ہے.."
نور نے متانت سے جواب دیا اور چلی گئی...
"اِس کا کوئی حال نہیں.."
وُہ سر جھٹک کر کپڑے بدلنے چلا گیا...
___________________________________________
"بھائی آپ اپنے اور بھابھی کے بارے میں بھی سوچیں پلیز.."
وُہ کروٹیں بدلتے بدلتے تھک گیا تھا نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھا اتنا کُچھ جو ہوگیا تھا ایک ہی دِن میں اور پھر فرح کی وُہ باتیں جنہیں اُس وقت اُس نے سنجیدگی سے نہیں کیا مگر اُسی دن ہونے والے دوسرے واقعے کے باعث اب وُہ سوچ رہا تھا...
اُس کے اندر بہت سی باتیں تھیں جو وُہ کہنا چاہتا تھا اپنا دل ہلکا کرنا چاہتا تھا نور کے ساتھ اُسے واقعی آج اُس کی بہت ضرورت تھی مگر اُس نے یہ بات اُس پر آشکار نہیں ہونے دی کیونکہ وہ خود غرض نہیں تھا اُس کی یہی خواہش تھی کہ وہ مطمئن رہے اور اگر وُہ کُچھ وقت کے لیے یہاں سے جاکر خوش تھی تو علی نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا تھا...
"کوئی انوکھا نہیں کر رہا یہ جو تیری ہمدردی ہی ختم نہیں ہورہی اِس سے... ایسی اولاد سے اچھا تو گلا گھونٹ کر مار دیتی تُجھے .."
شفق خاتون کی ان باتوں نے اُسے توڑ دیا تھا بُری طرح وُہ ہمیشہ سے ایک ایسا بچہ رہا تھا جسے نظرانداز ہی کیا گیا جس پر سولہ سال کی عمر نے میں ہی ساری ذمے داریاں ڈال دی گئی تھیں اُسے آج بھی یاد تھا جب اُس کے ابو اُسے گلے کے کونے پر بنی پرچون کی دُکان پر روز کی دو سو روپے دیہاڑی پر چھوڑ آئے تھے وُہ اُس وقت بہت چھوٹا تو نہیں تھا مگر بہت بڑا بھی نہیں تھا یوں پچھلی زندگی بھی اُس کی کُچھ خوشگوار نہ تھی اور اُس دِن کے بعد سے علی سبحان حقیقتاً ایک کام کرنے کی مشین بن کر رہ گیا اُسے جہاں کوئی اچھا کام مِلتا وُہ کرتا ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی ٹھیک دو سال بعد زونیہ آئی اُس کی زندگی میں سبز آنکھوں والی گُڑیا جیسی بلکل اُس نے بھی خواب دیکھا تھا پھر زونیہ سے شادی کا مگر وہ وہاں بھی بدقسمت ہی رہا...
کچی عُمر کے خواب جب پکی عُمر میں آکر ٹوٹتے ہیں تو اُن کی اذیت نرالی اور منفرد ہوتی ہے جان کنی جیسی ،صحرا میں ننگے پیر چلنے سی,برف کی سل پر برہنہ لیٹے ہونے سی کیونکہ یہ آپکو جلاتی بھی ہی اور احساسات کو جماتی بھی ہے مگر وُہ اُن سب سے بھی اُبھر آیا معاون نور ثابت ہوئی جس سے اُسے محبت نہ تھی مگر عزت ،احترام اور دوستی کا ایک انوکھا رشتہ تھا اُس کے ساتھ...
کبھی خواہش نہیں جاگی تھی اُس کے اندر کہ اپنا آپ کسی کے سامنے کھول کر رکھے مگر آج شدید خواہش تھی نور سے سب کہہ دینے کی مگر ابھی وقت تھا ابھی کُچھ وقت اور تھا چند آزمائشیں باقی تھیں....
(جاری ہے )
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro