قسط نمبر ۲۵
#Surprise episode on demand mgr mujhe agr is par bhi nice next ka comment Mila toh ainda kisi surprise ki tawaqa na rkhi jaae....
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"علی آپکو کیا ضرورت تھی اِس طرح سب کے سامنے مُجھ سے پوچھنے کی یہ چیزیں تو گھر کے بڑے طے کرتے ہیں ناں..؟"
اُس نے بیڈ کی چادر جھاڑتے ہوئے کہا...
"تو امی ابو کے بعد اِس گھر کے بڑے ہم ہی ہیں جب وہاں نمرہ سے لے کر شعیب تک سے پوچھا جارہا تھا تو تُم تو اِس گھر کی بڑی بہو ہو تمہارا حق ہے.."
اُس نے اپنی طرف کی چادر بیڈ کے کونے میں پھنساتے ہوئے جواب دیا..
"پر.."
"کیا پر دیکھو نور تُم صرف عمر میں چھوٹی ہو رُتبے میں نہیں تو پلیز خود کو اپنے رُتبے کے حساب سے جانو نہ کہ عمر کے حساب سے اور جہاں تک رہی امی کی بات تو اِس کی یقین دہانی میں تُمہیں کرواتا ہوں کہ جب تک تُم حق بجانب ہو میں تمہارا ہر طرح سے ساتھ دوں گا تو تُم بے فکر رہو..."
وُہ تکیے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا...
"تُم نے مُجھ سے کوئی سوال یا شکایت نہیں کرو گی..؟"
اُس نے بات دوبارہ شروع کی..
"کیسی شکایت کیسا سوال..؟"
نور نے اُسی کے انداز میں پوچھا...
"مطلب میں نے تُم سے پوچھے بغیر شادی کا ساری ذمے داری خود پر لے لی اپنی ساری سييونگز اِسی میں خرچ کر رہا ؟؟؟.."
وُہ بغور اُسے دیکھتے ہوئے بولا...
"تو یہ تو آپکی ذمے داری ہے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے میں کیا کہوں گی علی اور جہاں تک رہی بچت کی بات وُہ تو پھر ہوجائیں گی ابھی خالہ کا مسئلہ حل کرنا تھا.."
اُس نے رسان سے کہا...
"تُمہاری جگہ اور کوئی ہوتی تو شاید اب تک مُجھ سے لڑ کر بیٹھی ہوتی..."
"کسی اور کا تو مُجھے نہیں پتا مگر مُجھے اتنا ضرور پتا ہے اگر آج میں ایسا کُچھ کروں گی تو کل میری اولاد بھی میرے ساتھ ایسا کرسکتی ہے..."
اُس نے متانت سے جواب دیا...
"دوائی لی تُم نے..؟"
اُس نے باتوں کا رُخ بدلا ایک منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوا تھا..
___________________________________________
"شادی پر تو بہت خرچہ ہوگا پھر علی.."
زونیہ نے عجیب انداز میں پوچھا..
"ہاں وُہ تو ہوگا آخر ہم لڑکی والے ہیں اور پھر گھر کی پہلی شادی بھی ہوگی ہمارے تو کسی بھی قسم کی کوئی کجی نہ رہے بس.."
علی نے پُر سوچ انداز میں جواب دیا...
"تو تُم کیا کرو گے کیسے مینج کرو گے سب.."
"ہوجائے گا کُچھ نہ کُچھ اور کون سا ابھی شادی ہے ابھی رشتہ تو طے ہونے دو ہیں میرے پاس کُچھ سیوینگز
تقریباً لاکھ ڈیڑھ کے قریب پھر اور سرجانی کا پلاٹ بھی کُل ملا کر کوئی نو دس لاکھ ہوں گے..."
اُس نے حساب لگا کر بتایا...
"تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہے علی بلکہ میں پوچھ کیا رہی ہوں تمہارا دِماغ تو واقعی میں خراب ہے علی کل کو ہماری شادی ہوگی ہمارے مستقبل کا سوچو ساری زندگی کیا اپنے گھر والوں کے ہی بھکڑ بھرنے ہیں تُم نے؟"
وُہ تقریباً چیخی تھی...
"اِس میں بھکڑ بھرنے والی بات کہاں سے آگئی میں اپنے گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہوں اور مُجھ پر بہت ذمے داریاں ہیں جو مُجھے ہر حال میں پوری کرنی ہیں.."
اُس نے سختی سے کہا...
"ہاں سب کُچھ لُٹا کر تُم نے پتا نہیں کون سا تمغہ حاصل کرنا ہے مُجھے تو کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہاں پھنس گئی ہوں میں.."
اُس کا تاسف سے کہنا سب کُچھ ہی تو یاد تھا اُسے اور اب اُسی چیز کے متعلق نور کے خیالات سُن کر وُہ نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں کا موازنہ کرنے لگا تھا لاریب نور اُسے زونيہ سے کئی گنا بڑی دکھائی دی...
"کہاں کھو گئے .."
نور نے اُس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ حال میں واپس لوٹا...
"کہیں نہیں.."
وُہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا...
"کُچھ یاد آگیا کیا..؟"
اُس نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا..
"ہاں شاید مگر تُم چھوڑو ضروری تو نہیں ہر یاد آنے والی بات خوشگوار ہو.."
اُس نے سر جھٹک کر کہا..
"دو مہینے بھی نہیں ہے شادی میں اب تو ساری ذمے داری بڑے بیٹے پر ہے تو بڑی بہو پر بھی ہوگی..."
علی نے ہلکے پھلکے انداز میں اُس سے کہا۔۔۔
"اور میری یہی کوشش ہے کہ اپنی یہ ذمے داری بخوبی نبھا پاؤں میں.."
اُس نے گہری سانس لے کر کہا...
"انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا ہم دونوں اپنی ذمے داری بہت اچھے سے نبھائیں گے.."
علی نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی...
___________________________________________
۱ مہینے بعد...
شادی کے دِن جیسے جیسے قریب آرہے تھے نور کی پریشانی مزید بڑھتی جارہی تھی کام ہزار تھی وقت بہت ہی کم تھا آج بھی سب سے علی کے تمام کزنز نے گھر میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا جس میں لڑکے لڑکیاں دونوں شامل تھے...
وُہ صبح سے گھن چکر بنی ہوئی تھی ایک پیر کچن میں دوسرا لاؤنج میں اوپر سے ستم لائٹ بھی نگوڑی آج گھنٹہ گھنٹہ کرکے چار بار جاچکی تھی...
"بھابھی جلدی لے آئیں بڑی بھوک لگ رہی ہے..."
لاؤنج سے علی کے ہی کسی کزن کی آواز آئی ...
وُہ صبح ان گنت چائے کے کپ بنا چکی تھی تو کسی کو ساتھ پکوڑے تو کسی کو سموسے کسی کو شربت تو کسی کو کُچھ کسی کو کُچھ اُس کا سر بُری طرح دُکھنے لگا تھا....
"یہ لیں حسان بھائی آپکی کافی.."
اُس نے مگ حسان کے سامنے کرتے ہوئے کہا آواز بہت آہستہ تھی کوئی اُس کی طرف ایک نظر دیکھ کر بھی بتا سکتا تھا کہ وہ بُری طرح سے تھکی ہوئی ہے مگر کوئی دیکھتا تو سبحان صاحب کی طبیعت کُچھ ناساز تھی سو وُہ سورہے تھے اور علی آفس میں تھا...
"بھابھی آپ بیٹھ جائیں دیکھیں تو پسینہ پسینہ ہورہی ہیں..."
بالآخر کسی کو اُس کا بھی خیال آ ہی گیا...
"نہیں میں چاول اُبالنے کے لئے رکھ کر آئی ہوں وُہ دیکھ کر آتی ہوں.."
اُس نے گھڑی دیکھتے ہوئی کہا اور واپس باورچی خانے میں آگئی...
"چار بج رہے ہیں علی کے آنے کا وقت بھی ہورہاہے اُنہوں نے اگر مُجھے اِس حال میں دیکھ کیا تو خیر نہیں میری.."
اُس نے خود سے کہا..
جلدی جلدی اُس نے چاول چھنی میں نکالے اور بھاجی کا چولہا بند کرکے برتن سمیٹے...
"جاکر جلدی سے نہا لیتی ہوں.."
آخری پلیٹ دھوتے ہوئے اُس نے سوچا...
"نور بیٹا اپنے ابو کے لئے کھچڑی بنا دو وُہ اُٹھ گئے ہیں.."
شفق خاتون نے اتنے پیار سے کہا وُہ کُچھ کہہ ہی نہ سکی...
"ٹھیک ہے امی .."
اُس نے سر ہلا کر کہا...
"اللہ یا تو علی آج دیر سے آئیں یا پھر میرا کام جلدی ہوجائے ورنہ آج خیر نہیں.."
اُس نے بھرنی سے ٹوٹا چاول پرات میں اُلٹتے ہوئے دعا کی...
شومئی قسمت اُس دن علی پانچ بجے کا آتا ساڑھے چار بجے ہی آگیا وجہ مگر اُسے نہیں پتا چلا تھا کہ وہ آگیا ہے..
"بھائی آج آپ جلدی آگئے.؟"
نمرہ نے پوچھا...
"ہاں بس سردرد تھا اور کام بھی نہیں تھا کوئی تو آگیا تُم سب کب آئے.."
نمرہ کو جواب دے کر اُس نے باقیوں سے پوچھا.
"ہم تو صبح گیارہ بجے ہی آ گئے تھے شیروانی بھی لے آئے اور اِن لڑکیوں نے بھی اپنی شاپنگ کرلی.."
حسان نے جواب دیا...
"بھابھی ایک کپ چائے اور بنادیں پلیز.."
یہ آواز اُس کے ہی کزن کی تھی...
"مُجھے پتا تھا آپ لوگوں کو چاہیے ہوگی اِسی لیے چڑھا کر ہی رکھی تو یہ لیں.."
نور اپنے اُسی ابتر حلیے میں چند منٹ بعد چائے کی پیالی اُٹھائے داخل ہوئی...
آواز پر علی کی نظریں فوراً اُس کی طرف گئیں اور اُسے صرف لمحہ لگا یہ اندازہ لگانے میں کہ وہ کتنی بُری طرح سے تھکی ہوئی تھی اُس کی یہ حالت دیکھ علی کا خون کھول اٹھا مگر نور نے اب تک علی کو نہیں دیکھا تھا...
"نمرہ باقی بس تُم چولہا بند کردینا کھچڑی کا میں کپڑے بدل لیتی ہوں تمہارے بھائی آنے والے ہوں گے اور مُجھے یوں دیکھ کر برسیں گے مُجھ پر..."
"میں آچکا ہوں نور.."
علی نے اُس کی بات کاٹ کر ہر لفظ چبا چبا کر کہا..
وُہ کرنٹ کھا کر پیچھے پلٹی تو علی آنکھوں میں سرد مہری لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا...
وُہ منٹ وہاں نہیں رُکی فوراً کمرے سے چلی گئی...
___________________________________________
علی کمرے میں آیا تو نور واشروم میں تھی اُس نے ٹائی نکال کر بیڈ پر پھینکی اور ٹہلتے ہوئے اُس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا...
"اِس نے پتا نہیں میری بات کو کیا سمجھا ہوا ہے کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی محترمہ.."
وُہ شدید غصّہ میں دکھائی پڑتا تھا...
اُسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور وُہ اُسے اچھی خاصی ڈانٹ پلانے کے لئے خود کو تیار کرنے لگا...
(جاری ہے )
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro