Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۴

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۲۴
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"بھابھی آپکو بھائی بُلا رہے ہیں اُنہیں اپنی کُچھ مِل نہیں رہا شاید.."
نمرہ نے باورچی خانے کے اندر داخل ہونے تک کی زحمت اُٹھائے بغیر ہی صحن میں کھڑے ہوکر کہا..
"اچھا اُنہیں بولو آرہی ہوں بس بریانی دم پر رکھ کے.."
اُس نے چاولوں کی تہہ لگاتے ہوئے کہا..
"کیسے جاؤں اِن کے سامنے بہت غصّہ ہوں گے مُجھ پر یا اللہ.."
وُہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی..
عین اُسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تو وہ دروازہ کھولنے کے لئے جانے لگی...
"بیٹا تُم رہنے دو میں کھول دیتا ہوں.."
سبحان صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے منع کرتے ہوئے کہا..
وُہ ہاتھ دوپٹے سے صاف کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی علی کمرے میں نہیں تھا شاید واشروم میں تھا یہ اندازہ اُس نے پانی گرنے کی آواز سُن کر لگایا..
"جی کہیں.."
اُس نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا..
"میری ریڈ اور بلو چیک والی شرٹ نکال دو.."
اندر سے اُس کی آواز آئی...
وُہ شرٹ نکال کر بیڈ پر رکھ کر واپس باہر آگئی...
"جلدی جا مہمانوں کے لئے شربت لے کر آ.."
اُسے صحن میں روک کر شفق خاتون نے کہا اور واپسی لاؤنج میں چلی گئیں...
اُس نے جلدی جلدی شربت بنایا اور نمرہ کو آواز دینے لگی کے وُہ آکر لے جائے کیونکہ اِس حالت میں وُہ اُن لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی اُس کا لباس مکمل شکن آلود تھا ذرا دور کے فاصلے پر بھی مسالوں کے بو محسوس کی جاسکتی تھی بال اُلجھے ہوئے تھے مگر نمرہ کو نہ آنا تھا وُہ نہ آئی چار ناچار اُسے ہی ٹرے اُٹھا کر جانا پڑا..
"اسلام و علیکم.."
اُس نے کمرے میں داخل ہوکر اجتماعی سلام کیا...
"وعلیکم اسلام بیٹا کیسی ہو..؟"
زرینہ (علی کی خالہ)  نے اُسے بغور سرتاپا دیکھتے ہوئے پوچھا..
"میں بِلکُل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں..؟"
اُس نے شربت کا گلاس اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے خوشدلی سے پوچھا...
علی بھی اُسی وقت لاؤنج میں داخل ہوا اور سلام کرتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا...
"وعلیکم السلام بیٹا ماشاللہ ماشاللہ دیکھ تو آپا کتنا پیارا لگ رہا ہے علی.."
زرینہ نے رشک بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہاں موجود سب کی نظریں اُس کی جانب اُٹھیں سوائے نور کے...
"ہاں بھائی آپ پر یہ کٹنگ بہت سوٹ کر رہی ہے اور یہ خط بھی.."
دانیال نے سچے دل سے کہا...
"اِس شربت میں سے پیاز کی اِسمیل آرہی ہے بھابھی مُجھے نہیں پینا شکریہ.."
رانیہ نے گلاس واپس اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے تحقیر آمیز انداز میں کہا...
علی نے ضبط کیا..
"پچھلی بار کے شربت میں لہسن کی آرہی تھی اِس بار پیاز کی آپ کیا ہر وقت اِنہی چیزوں میں رہتی ہیں.."
اب کی بار کہنے والا شعیب تھا...
"نہیں وُہ میں بس مسالا تیار کر رہی تھی شاید اِسی لیے میں دوسرا بنا لاتی ہوں.."
اُس نے خفت سے کہا..
"ہاں بیٹا یہ کیا حال بنا رکھا ہے تُم نے اپنا شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے تمہاری اچھے سے تیار رہا کرو سجی سنوری رہا کرو یوں اُجاڑ حال نہیں دیکھو اپنے شوہر کو کیسا نمایاں ہورہاہے سب میں .."
زرینہ نے طنزاً کہا..
"گھر کے کام کر رہی تھی بچی اِسی لیے ٹائم نہیں ملا ہوگا.."
سبحان صاحب نے فوراً اُس کی حمایت کی...
"جاؤ بیٹا جاکر کپڑے بدل کر آؤ باقی کا کام نمرہ دیکھ لے گی.."
شفق خاتون کو مجبوراً کہنا پڑا..
"جی ٹھیک ہے.."
نور سر ہلاتی ہوئی چلی گئی..
"کُچھ تو سوچ کر بولا کرو رانیہ.."
رانیہ کے والد نے اُسے گھرکا...
"امی میں آتا ہوں.."
علی کہہ کر سیدھا نکل گیا شفق خاتون پیچھے سے اُسے آوازیں دیتی رہ گئیں..
"آپا لگتا ہے علی کو برا لگ گیا.."
"لگتا ہے تو لگے ارے سب چونچلے ہیں شوہر کو قابو میں رکھنے کے بس یہی دکھانا چاہتی ہے کہ اُس پر کتنا ظلم کرتے ہیں ہم لوگ .."
وُہ نخوت سے بولیں..
"ہاں ٹھیک کہتی ہو تُم ویسے شکل سے کتنی کوئی معصوم ہے اور حرکتیں دیکھو .."
زرینہ نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی...
___________________________________________

وُہ کپڑے نکال کر پیچھے مڑی تو علی کو بازو سینے پر لپیٹے کُچھ دور کھڑا پایا وُہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا..
"میں نہا کر آتی ہوں.."
وُہ اُس کے برابر نکلتے ہوئے بولی..
علی نے اُس کے کلی سختی سے پکڑ کر اُسے اپنے سامنے کیا ..
"تو آج تُم نے ثابت کردیا کہ تمہاری نظر میں میری کیا اوقات ہے جب منع کیا تھا تو کیا ضرورت تھی نور.."
"آپ ابھی تک اسی بات کو لے کر بیٹھے ہیں علی چھوڑیں اور اچھا ہی ہوا میں چلی گئی بہت کام تھے علی.."
بغیر دیکھے کہا گیا...
"میں تمہارے لیے ہی کہہ رہا تھا ناں نور میرا کیا فائدہ تھا اِس میں اگر تُم میری بات مان لیتی تو مُجھے اچھا لگتا.."
اُس نے نرمی سے کہا..
"علی آپکو یاد ہو یا نہ ہو مگر مُجھے شادی کی رات کو  کہے جانے والے آپکے سارے الفاظ یاد ہیں مُجھے آپ کے گھر والوں کا ہر طرح سے خیال رکھنا ہے کیونکہ میں امی کی پسند پر اِس گھر میں آئی ہوں اور میں وہی کر رہی ہوں میری ذات سے کسی کو کوئی شکایت نہ ہو بس یہی کوشش ہے میری.."
اُس نے علی کو دیکھ کر متانت سے کہا..
"ہاں کہا تھا میں نے مگر اِس کا یہ مطلب تو نہیں نہ کے تُم اپنا ہی خیال نہ رکھو تُم ٹھیک ہوگی تو ہی سب کا خیال رکھ سکو گی وُہ پہلے کی بات تھی تب میں تمہیں جانتا نہیں تھا مگر اب جان گیا ہوں اپنی غلطیاں مانتا ہوں میں نے دیکھا ہے نور صرف میری عدم توجہی کی وجہ سے تُم کن مشکلات میں گھری ہو یہ میری ہی کمزروی ہے کہ تمہیں اپنی بیوی تو مان لیا مگر کبھی یہ کوشش نہیں کی اپنے گھر میں خاندان میں تُمہیں وُہ مقام دلواؤں جس کی تُم حقدار ہو .."
"آپ کے دِل کے بدلتے موسموں کے ساتھ میں اپنا قبلہ نہیں بدل سکتی علی آپ کا کیا ہے آج مہربان ہیں تو کل شاید کسی بات پر پہلے کی طرح ہوجائیں.. مگر میں آپکو اپنی طرف سے شکایت کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی کہ کل کو کُچھ بھی غلط ہوا تو آپ اُس کا الزام مجھ پر لگادیں کہ میری ہمدردی کا تُم نے ناجائز فائدہ اُٹھایا اِس لیے مُجھے اعتدال سے چلنے دیں آپ میں آپکو بھی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی نہ ہی گھروالوں کو ..."
اُس نے مصمم ارادے سے کہا...
"اتنی بدگمان ہو مُجھ سے بلکل بھروسہ نہیں ہے مُجھ پر.."
"آپ میری بات کا غلط مطلب نکال رہے ہیں علی اللہ کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ آپکی ذات پر ہے مگر ہم اِنسان ہی ہیں ناں خُدا نہیں اور ذرا پیچھے ہو مُجھے تو دیکھنے دیں کیسے لگ رہے ہیں آپ سب تعریفیں ہی کیے جارہے آپکی..."
اُس نے مسکرا کر کہا تو علی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیلتی گئی...
وُہ واقعی بے حد وجیہہ لگ رہا تھا باکمال شخصیت کا مالک اُس کا اور صرف اُس ہی کا علی..
"واہ جی آپ تو میری سوچ سے بھی زیادہ اچھے لگ رہے ہیں بس اِسی طرح میری مانتے رہیں عیش کریں گے..."
وُہ ہنستے ہوئے بولی..
"سچ بتاؤں مُجھے کسی سے بھی تعریفی کلمات سُننے کی کوئی طمع نہیں تھی میں بس تُمہیں اچھا لگنا چاہتا تھا جیسے اب تُم میری مرضی کے مطابق تیار ہوگی تاکہ مُجھے اچھی لگو چلو شاباش رکھو یہ جوڑا.."
اُس نے نور کو سائڈ میں کرتے ہوئے الماری دوبارہ کھولی..
"تمہارے پاس سارے ایسے گھوسی والے کپڑے ہیں اتنے زرق برق کوئی سادہ نہیں.."
وُہ الماری میں ہینگ اُس کے کپڑے ادھر اُدھر کرتے ہوئے بیزاری سے بولا..
"یہ نادیہ آپی نے لیے تھے اُن کا کہنا تھا نئی نویلی دلہنیں ایسے ہی کپڑے پہنتی اور مُجھے خود نہیں پسند ایسے کپڑے اِسی لیے ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں.."
وُہ پُر شوق نگاہیں اُس پر جمائے بولی...
"تُم یہ والا ڈریس پہنو گی..."
اُس نے کافی دیر کی تگ و دو کے بعد بالآخر ایک ڈریس پسند کر ہی لیا پیچ کلر کا سادہ شیروانی کالر والی گھیر دار فراک اور چوڑی دار پاجامہ...
"بہت اچھا ہے.."
نور کو بھی کافی پسند آیا تھا..
"میں نے پسند کیا ہے اچھا تو ہوگا ہی.."
وُہ ذرا اترا کر بولا..
"ایویں خوش فہم.."
وُہ کہہ کر رُکی نہیں سرعت سے واشروم میں جا گھسی۔۔
"نور کی بچی.."
"ابھی نہیں ہوئی جب ہوگی تو بتادوں گی.."
اندر سے اُس کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی...
"پاگل لڑکی.."
اُس نے مسکرا کر سر کو خفیف سی جنبش دی اور باہر چلا گیا...

___________________________________________

"آپا میری ساس کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے.."
زرینہ نے اُداسی سے بتایا..
"اوہ یہ تو بہت افسوس کی بات ہے فکر مت کریں اللہ سب بہتر کرے گا اِن موۓ ڈاکٹروں کا تو كام ہی ہے لوگوں کو ڈرا ڈرا کر یہ لمبی چوڑی فیسیں وصول کرنا.."
اُنہوں نے زرینہ کو شوہر سے تسلی آمیز انداز میں کہا..
"جی بہن آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں زندگی دینے اور لینے والی ذات تو اُس کی ہے مگر ہم آپ سے جو بات کرنے آئے ہیں وہ بھی ضروری ہے.."
اُنہوں نے تحمل سے کہا..
"ارے بشیر ہچکچائیں مت.."
سبحان صاحب نے رسان سے کہا..
علی بھی آکر بیٹھ گیا تھا..
"بھائی صاحب امی جان کی آخری خواہش ہے کہ وُہ تانیہ کی شادی میں شریک ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں اُن کی اکلوتی اولاد ہوں اور امی جان کو اپنے پوتے پوتیوں سے بے حد لگاؤ ہے تو بس وُہ کہتی ہیں میں نے ایسے ہی نہیں جانا ..."
بشیر صاحب نے اپنی بات مکمل کی...
"پر بھائی دانیال تو ابھی پڑھ رہا ہے آخری سال ہے اُس کا پھر جاب بھی نہیں کوئی اور ابھی مہینہ ڈیڑھ پہلے علی اور فرح کی شادی پر خاصا خرچہ ہوگیا ہے اب اتنی جلدی ہم کیسے.."
"آپ حق بجانب ہیں میری بہن مگر میں اپنی امی جان کی وجہ سے پریشان ہوں خُدا نخواستہ اگر اُنہیں کُچھ ہوگیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا کہ اُن کی آخری خواہش بھی میں پوری نہیں کرسکا..."
وُہ دِل گیر لہجے میں بولے...
"اللہ نے کرے ایسا کُچھ ہو خُدا آپکی امی کو صحتِ کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.."
سبحان صاحب نے فوراً کہا جس پر سب نے آمین کہا..
"ابو اگر اجازت ہو تو میں کُچھ بول سکتا ہوں.."
علی نے جھجکتے ہوئے پوچھا...
"ہاں بولو بیٹا.."
"ابو ہمیں خالو کی پریشانی سمجھنی چاہیے ہم ایسا کرتے ہیں زیادہ دھوم دھام نہیں کریں گے ایک مناسب سی تقریب کرواکے تانیہ کو رُخصت کروا لاتے ہیں نکاح تو ہو ہی چکا ہے باقی ولیمے کی ذمے داری میری ہے پوری  آپ فکر مت کریں میری کُچھ سوینگز ہیں اللہ بہتر کرے گا اللہ آسانی کرے گا مگر اگر نانی ماں کو کُچھ ہوگیا تو یہ کتنے دُکھ کی بات ہوگی کہ وُہ یہ خواہش لیے ہی دُنیا سے چلی جائیں اگر آپکی اجازت ہو تُم رجب کے بعد کی تاریخ رکھ لیتے ہیں..."
اُس نے فوراً سے حل نکالا..
"مُجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بیٹا اگر تمہیں یقین ہے کہ تُم بخوبی یہ فرض پورا کر سکو گے..."
سبحان صاحب نے یقین دہانی چاہی..
"انشاءاللہ ابو.."
اُس نے مصمم ارادے سے کہا تو وہاں موجود تمام نفوسوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی...
"تو پھر ٹھیک ہے ایک دو دِن میں آپ لوگ بارہ رجب کے بعد کی کوئی بھی تاریخ طے کرکے ہمیں بتا دیجئے گا.."
سبحان صاحب نے با آوازِ بلند کہا..
"کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟.."
اُنہوں نے حاضرین سے پوچھا...
سب نے نفی میں گردن ہلائی...
"ابا نور کو بھی آنے دیں.."
علی نے آہستگی سے کہا..
"اُس کا کیا کام یہ بڑوں کے معاملے ہیں.."
شفق خاتون چڑ کر بولیں...
"وُہ اِس گھر کی بڑی بہو ہے شفق مت بھولو اِس بات کو.."
اُنہوں نے تنبیہی انداز میں کہا...
"آ گئی نور بیٹی بھی..."
بشیر صاحب نے ملائمت سے کہا...
"چشمِ بدور ماشاللہ بس ذرا سے سنگھار سے دیکھو تو کیسا روپ آیا ہے لڑکی پر آپا اور پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی بخوبی ہے.."
کو زرینہ کُچھ دیر پہلے اُس پر طنز کر رہی تھی اب وہی اُس کی تعریف میں کوشاں تھی...
"بھابھی آپکا یہ شیروانی کالر والا ڈریس تو بہت اچھا ہے.."
نمرہ نے رشک سے اُسے دیکھ کر کہا...
"بیٹا ہم نے دانیال اور تانیہ کی شادی کی تاریخ طے کردی ہے ربیع الاول کے بعد آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ہے.."
سبحان صاحب نے شفقت سے پوچھا...
"نہیں ابو مُجھے بھلا کیا اعتراض ہوگا یہ آپ بڑوں کے فیصلے ہیں.."
اُس نے متانت سے کہا تو سبحان صاحب نے ایک تمسخر اڑاتی نظر شفق خاتون پر ڈالی...
"جیتی رہی اب سب کا منہ میٹھا کروا دو شاباش..."
اُنہوں نے محبت سے کہا...
"ابھی لاتی ہوں .."
وُہ اٹھ کر کچن میں آگئی اور فریج میں رکھی مٹھائی پلیٹ میں سجانے لگی...
"میں کُچھ مدد کروں آپکی..."
رانیہ نے کچن میں داخل ہوکر کہا...
"نہیں تُم جاکر بیٹھو میں کرلوں گی.."
نور نے مسکرا کر کہا...
"ویسے بھابھی آپ اپنے بالوں میں کیا لگاتی ہیں ماشاللہ کتنے پیارے ہیں لمبے،گھنے ،ریشمی اور آپکی اسکن کتنی اسموتھ ہے.."
اُس نے پلیٹ سے گلاب جامن اُٹھاتے ہوئے پوچھا...
"کُچھ نہیں لگاتی میں تو ایسے ہی ہیں شروع سے.."
اُس نے پوری سچائی سے کہا..
"ایسا تو نہیں ہوسکتا اتنی پیاری اِسکن وُہ بھی بغیر کُچھ لگائے.."
"ارے سچی میں کُچھ نہیں لگاتی.."
اُس نے یقین دلانا چاہا...
"نور آ بھی جاؤ.."
لاؤنج سے علی کی آواز آئی تو وُہ پلیٹ اُٹھا کر چلی گئی...

(جاری ہے )

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro