Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۳



قسط نمبر ۲۳

 "میں کیا اب پورے دِن ایسے ہی بیڈ پر لیٹی رہوں مُجھ سے نہیں ہوتا علی اتنا آرام بس رات کی نیند کافی ہے.."

وُہ سخت بیزاری سی اُس سے الگ ہوکر بولی..
"میں کون سا کہیں جارہا ہوں میں بھی تو یہیں ہوں تمہارے ساتھ اور یہ پردے برابر کردو روشنی پڑ رہی ہے منہ پر.."
اُس نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔۔
"علی مُجھے جانے دیں پتا نہیں سب کیا سوچیں گے دروازہ بند کرکے ہم..."
"نور ہم میاں بیوی ہیں اور ہمیں ایک ساتھ وقت گزارنے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اور اِس حالت میں تو میں تُمہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا کوئی بھی کام کرنے کی گھر میں اور لوگ بھی ہیں.."
اُس کا انداز اٹل تھا..
"ہم لوگ ایک جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں اور اِس بات کا ہمیں خیال رکھنا ہوگا..."
"جوائنٹ فیملی میں رہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہماری اپنی کوئی پرائیویسی ہی نہیں.."
جواب برجستہ تھا..
"آپ سے بحث کرنا بیکار ہے بالکل.."
اُس نے ہار مان کر بیٹھتے ہوئے کہا...
"جب جانتی ہو تو پھر مت ضد کیا کرو مُجھ سے.."
"ہاں کیونکہ آپ سب سے زیادہ ضدی ہیں.."
اُس نے تڑاخ جواب دیا...
"اچھا بس بریانی نہ بنانے کا ماتم بعد میں کرلینا.."
وُہ اُسے چڑانے کی غرض سے بولا...
"ایک بات پوچھوں.."
علی نے اُس کے بالوں میں آہستہ آہستہ اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا...
"جیسے میں نہیں بولوں گی تو آپ پوچھیں گے نہیں.."
"نہیں پوچھتا..."
اُس نے ہولے سے ہنس کر کہا...
"اچھا ناں پوچھیں میں سُن رہی ہوں.."
اُس نے نرمی سے کہا...
"سچ سچ بتانا بِلکُل."
"آپ پوچھیں تو میں آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی..."
"یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے.."
اُس نے نور کے بالوں کو ہلکا سا جھٹکا دے کر کہا..
"میں نے کب جھوٹ بول دیا آپ سے..."
"کل رات جب تُم نے کہا تھا تُم کھانا کھا چُکی جو تمہیں بھوک نہیں ہے وغیرہ وغیرہ.."
اُس نے مصنوئی خفگی سے کہا..
"آپ غالباً کُچھ پوچھ رہے تھے.."
اُس نے اپنی خفت مٹانے کی خاطر کہا...
"چالاک لڑکی.."
"پوچھیں بھی علی .."
وُہ جھنجلا کر بولی...
"مُجھ سے پہلے تمہارے لئے ایک اور رشتہ آیا تھا غالباً ذیشان نام تھا اُس لڑکے کا شکل و صورت کا بھی اچھا تھا، تُم سے زیادہ بڑا بھی نہیں تھا،بہت اچھا کماتا تھا اپنا خود کا گھر خود کی گاڑی تھی فیملی میں اُس کے کوئی تھا نہیں تمہیں پسند بھی کرتا تھا اور اُسی اِثنا میں میرا بھی رشتہ آگیا تو تُم نے اُسے چھوڑ کر مُجھے کیوں چُنا کیونکہ بظاھر تو وُہ رشتہ ہر لحاظ سے اچھا تھا.."
اُس نے نور کے بالوں سے اُٹھتی خوشبو کو گہری سانس لے کر اندر اُتارا...
"آپکو کس نے بتائی یہ بات.."
اُس نے حیران ہوکر پوچھا..
"وُہ تُم چھوڑو یار مُجھے بات کا جواب دو جو بِلکُل سچ ہو.."
اُس نے بات کاٹتے ہوئے کہا...
"کیا میری اپنی پسند نہیں ہوسکتی؟"
"بِلکُل ہوسکتی تھی مگر تُم قطعی مُجھ سے محبت نہیں کرتی ہوگی اُس وقت اِس لیے وجہ جاننا چاہتا ہوں اِس عنایت کی.."
علی میں نے اُس اِنسان کو ایک بار بھی دیکھا تک نہیں یا دیکھا ہو تو یاد بھی نہیں کہ اُس نے مُجھے کب اور کیسے دیکھ لیا اور اگر میں آپکی بات کروں تو بچپن سے میں آپکو دیکھتی ہوئی بڑی ہوئی ہوں۔۔"

ایک منٹ یہ اب تُم بھی مُجھے خود سے بڑے ہونے کا طعنہ دے رہی ہو۔۔" "

اُس نے مصنوئی خفگی سے کہا۔۔

"مذاق نہ کریں ورنہ میں نہیں بولتی۔۔"

اُس نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا۔۔۔

"اچھا بولو ۔۔"

اُس نے مصلحتاً چُپ ہوکر کہا۔۔

"آپکا کردار میرے سامنے تھا اور سب سے بڑی بات آپکو دیکھ کر مُجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے جیسے ایک دفعہ میں صبا آپی کا کُچھ سامان لینے باہر نکلی تھی اور گلی کے کُچھ لڑکے مُجھ پر فقرے کس رہے تھے عجیب عجیب طرح سے بُلا رہے تھے تب آپکو یاد ہو یا نہیں مگر میں نے صاف دیکھا تھا نادانستہ طور پر آپ میرے سامنے آکھڑے ہوئے تھے اور صرف آپکی کی پُشت میری طرف ہونے کی وجہ سے اُن لڑکوں کی نظروں کو میں نے مرعوبیت سے نیچے ہوتے دیکھا تھا صرف آپکے ذرا سا میرے آگے کھڑے ہوجانے کی وجہ سے او ایسے کئی واقعات ہیں میری ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ جس اِنسان سے بھی میری شادی ہو وُہ بھلے مُجھ سے محبت نا کرے مگر میرے وجود کو اپنی چھاؤں میں پناہ دے دے مُجھے تحفظ دے مُجھے عزت دے اور میری عزت کروائے بھی اور آپ مجھے تحفظ کا وُہ احساس دے چُکے تھے پھر جب زبیر بھائی نے میرے سامنے آپکا اور اُس کا رشتہ رکھا تو میں نے صرف لمحہ بھر سوچا اور اُس لمحے میں میں نے سوچا جس شخص کا اجنبی بن کر ساتھ چلنا بھی آپکو آپکی ہی نظروں میں اُونچا کردے اگر وہی شخص آپکا جیون ساتھی بن جائے تو اِس سے اچھی اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی آپ نے مُجھے اُس لڑکے کی جو چند خوبیاں گنوائیں ہیں وہ برطرف میں آپکو آپکی لاتعداد خوبیاں بتاؤں...؟"
اُس نے علی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بھیگے لہجے میں کہا...
"مت گنواؤ ویسے ہی تُم نے اپنے لفظوں سے میرا مول لگادیا ہے اب کُچھ سننے کی حاجت نہیں دنیا تو کہتی ہے مگر آج میں بھی کہتا ہوں میرے لئے تُم سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتی تھی اور میں خوش قسمت ترین اِنسان ہوں.."
اُس نے فرطِ جذبات سے چور ہوکر اُس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا...
"آپ میرا غرور ہیں علی میرا مان.."
اُس نے اپنی بھیگی پلکیں صاف کرتے ہوئے کہا....
کُچھ لمحے یوں ہی سرک گئے دونوں میں سے کسی نے کُچھ نہیں کہا ایک پُر سکون خاموشی تھی اُن دونوں کے درمیان ...
"آج وُہ بلیک کلر والے ہی شلوار قمیض پہننا بہت خوبصورت لگتی ہو اُن میں تُم.."
اُس نے محبت بھری فرمائش کی تھی..
"جیسا آپ کو ٹھیک لگے ویسے ہی تیار ہوں گی کیونکہ مُجھے سجنا سنورنا صرف آپکے لئے ہی تو ہے اور کس کے لئے.."
متانت سے کہتے ہوئی وُہ اُس سے الگ ہوئی...
"کہاں جارہی ہو.."
اُس نے نور کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا...
"یہیں ہوں ہیئر بین اُٹھانے جارہی تھی جو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہے لمبے بال ہونا بھی عذاب ہے ایک اتنی اُلجھن ہوتی ہے کہ دِل چاہتا ہے گنجی ہوجاؤں ٹنٹا ہی ختم جی.."
اُس نے کوفت سے کہا...
"ہاہاہاہا گنجی کیسی لگو گی تُم.."
اُس نے مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہا..
"آپکا تو پتا نہیں میں ضرور پُر سکون ہوجاؤں گی اور اوپر سے آپ بار بار بال کھول دیتے ہیں.."
وُہ خشمیگیں نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی...
"میرے سامنے تو انہیں باندھ کر رکھنے کا سوچنا بھی مت ویسے بڑی ناقدری ہو تُم اتنے خوبصورت بال بھلا ہر کسی کو تھوڑی ملتے ہیں.."
اُس نے ملامت کی ...
"آپکے ہوتے تو پتا چلتا اور گرمیوں میں تو قطعی میرا دِل کرتا ہے کاٹ کاٹ کر پھینک دوں.."
علی نے اُٹھنے نہیں دیا تو وہ ہاتھ سے ہے بالوں کو جوڑے کی شکل دینے لگی..
"اتنی ضدی کیوں ہو تُم بھئی جب کہہ دیا میرے سامنے یہ بال نہ بندھے ہوں مطلب نہ بندھے ہوں.."
اُس نے نور کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دائیں ہاتھ کے نیچے دبا کر سختی سے کہا...
"اُففف علی اُففف آپ پہلے ہی ٹھیک تھے اکڑو کھڑوس سے مُجھے سے نہیں برداشت ہوتے آپکے شدت پسندانہ التفات..."
ناراض نظریں اُس کے چہرے پر جما کر کہا گیا...
"شدت پسندی دیکھی کہاں ہے تُم نے ابھی.."
انداز چیلنج کرتا ہوا تھا...
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے نہیں باندھ رہی اب میرے ہاتھ تو چھوڑیں.."
اُس نے التماسی لہجے میں کہا....
"نہ چھوڑوں تو.."
وُہ بذاتِ خود اپنے لہجے میں گُھلتی اُس کے لئے محبت پر حیران تھا وُہ ہرگز بھی ایسا نہیں تھا مگر وہ لڑکی اُسے ایسا بنا رہی تھی...
"تو میں کیا کرسکتی ہوں کُچھ نہیں؟؟"
بے بسی اُس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھی اور وُہ اُس کی حالت سے حظ لے رہا تھا...
"اچھا میں تُمہیں کیسا پسند ہوں.."
سوال بِلکُل غیر متوقع تھا اُس ک لئے...
"مطلب..."
"مطلب یار یہ کے دیکھو جیسے تُم مُجھے سیاہ شلوار قمیض کُھلے بال میں بہت خوبصورت لگتی ہو ویسے میں تُمہیں کیسا اچھا لگتا ہوں.."
اُس نے سوال کیا...
"آپ جیسے ہیں ویسے ہی اچھے لگتے ہیں.."
نہایت سادگی سے جواب آیا...
"نہیں نا مطلب تمہاری بھی تو خواہش ہوگی کے تمہارا شوہر ایسے بال کٹوائے تو ایسی داڑھی رکھے یہ پہنے وُہ نہ پہنے صحت بناؤں یا کم کروں مطلب تُم اپنی خواہش بتاؤ ناں یار.."
وُہ اُس پر اپنا مطمع نظر صاف کرنے کی کوشش میں جھلا کر بولا...
"مطلب آپ خود کو میری پسند کے مطابق سنوارے گے؟؟"
اُس نے بے یقین کے عالم میں پوچھا..
"کوئی مضائقہ تو نہیں اِس میں اب تُم جلدی سے بتاؤ اپنی پسند آج چھٹی ہے تو چلے جاؤں گا نائی شائی کے پاس۔۔"
"پکی بات ہے.."
کیوں کوئی شک ہے تمہیں.."
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا..
"اچھا تو سُنیں سب سے پہلے اپنے بال آپ فوجی کٹنگ کروائیں مُجھے بِلکُل اچھے نہیں لگتے ماتھے پر گرتے بال آپکے اور یہ منی پلانٹ کی طرح بے ترتیب سے انداز میں بڑھتی شیو ٹرم کروا کر خط بنوائیں آپ پر بہت سوٹ کرے گی اور صحت کم یا زیادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ ایسے ہی دسوں پر بھاری ہیں اور کپڑے تو آپ پر سب ہی اچھے لگتے ہیں مگر مجھے بھی آپ پر بلیک شرٹ، گرے پینٹ اور براؤن شوز بہت اچھے لگتے ہیں الگ ہی طنطنہ ہوتا ہے آپکی شخصیت کا جب وُہ پہنتے ہیں..."
اُس نے اپنی بات اُس کے سر کے بال کو کھینچتے ہوئے مکمل کی...
"استغفر اللہ استغفر اللہ ویسے بہت ہی منافق ہو تُم پہلے بول رہی تھی کہ آپ ایسے ہی اچھے لگتے ہیں اور اب جب خامیاں گنوانے کا کہا تو اتنے نقص نکالے اور سیریئسلی منی پلانٹ مطلب مطلب تُم نے اخیر ہی کردی بے عزتی کی.."
وُہ بُرا سا منہ بناکر مصنوئی خفگی سے بولا..
"نقص نہیں بس میں نے اپنی پسند بتائی..."
"تو پہلے کیوں نہیں بتائی تھی.."
"پہلے کبھی آپ نے یہ احساس ہی نہیں کروایا تھا کہ آپ خود کو میری پسند کے مطابق ڈھالیں گے.."
بلا توقف جواب آیا..
"اچھی جی..."
اُس نے ہلکا س تبسم ہونٹوں میں چُھپائے کہا...
"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں.."
وُہ نظریں چراتے ہوئے بولی...
ٹھک ٹھک دروازے پر دستک ہوئی جس سے نور گھبرا کر فوراً پیچھے ہوئی اور علی کو اُس کی اِس حرکت نے طیش دلایا تھا...
"کیا یوں ڈر رہی ہو محبوبہ نہیں ہو تُم میری بیوی ہو..."
اُس نے تند خو لہجے میں کہا اور دروازہ کھولنے اُٹھ کھڑا ہوا...
دروازے کھولا تو باہر شفق خاتون تھیں...
"کوئی شرم لحاظ ہے یا نہیں گھر میں جوان بھائی بہن ہے اور تُم دونوں میاں بیوی بھری دوپہر میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے پڑے ہو رات نہیں ملتی کیا..."
اُن کے منہ سے اتنے بے باک الفاظ سُن کر اُس کا دِماغ بھک سے اُڑ گیا...
"امّاں ہوش میں تو ہو کیا بول رہی ہو."
وُہ چیختے ہوئے بولا..
"حرکتیں خود دیکھتے نہیں اور ہوش میں کروں واہ بھئی واہ.."
اُنہوں نے ایک کاٹ دار نظر نور پر ڈالتے ہوئے کہا..
"کیا حرکتیں مُجھے بتائیں کیا حرکتیں.."
اُس نے بمقدور اپنا لہجہ دھیما رکھنے کی کوشش کی..
"میں فضول کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتی سیدھے سیدھے اسے باہر بھیج سو کام پڑے ہیں.."
اُنہوں نے اُس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا...
"نور کہی نہیں جائے گی امی آپ سن لیں یہ بات..."
"ایسے کیسے نہیں جائے گی گھر کی بہو ہے یہ کام نہیں کرے گی تو کون کرے گا..."
وُہ بھی بلا توقف کے بولیں...
"بہو ہے نوکرانی نہیں اور نور کبھی اپنی ذمے داریوں سے پیچھے نہیں ہٹی پر امی ابھی اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اگر وُہ آرام نہیں کرے گی تو مزید بگڑ جائے گی طبیعت..."
اُس نے رسان سے سمجھانا چاہا..
"میں ٹھیک ہوں بالکل چلیں امی آپ میں آتی ہوں.."
اُس نے گفتگو میں حصہ لینا ضروری سمجھا ورنہ بحث رکتی نہیں دکھ رہی تھی...
"جوروں کا غلام .."
وُہ علی پر طنز کرتیں چلی گئیں...
"علی میری بات.."
"مُجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی تُم نے دکھا دیا تُمہاری نظر میں میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو بات کرنے کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں تُم جاؤ میں پاگل کتا ہوں جو بلاوجہ بھونکے جارہا ہے تُم جاؤ اپنے عزیزوں کے پاس.."
اُس نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مزید کہنے سے روکا.
"میں کیا کروں علی ایک طرف آپ نے ہے مُجھے کہا تھا کہ میں آپ سے زیادہ گھروالوں کا خیال رکھوں اور جب میں وہی کررہی ہوں تو بھی آپکو مُجھ سے شکایت.."
اُس کی جانب دیکھتے ہوئے نور نے تاسف سے سوچا اور کمرے سے باہر چلی گئی..

___________________________________________

"کہاں جارہا ہے..؟"
اُنہوں نے پیچھے سے آواز دے کر علی کو روکا..
"بال کٹوانے جارہا ہوں کیوں کوئی کام ہے؟.."
اُس نے پیاز کاٹتی نور پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا..
"ہاں ہے تو پر جا پہلے ہو آ.."
اُنہوں نے واپسی تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا ..
"ٹھیک ہے اور باہر سے کُچھ منگوانا ہے..؟"
خشمگیں نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا..
"نور کُچھ لانا ہے.؟"
اُنہوں نے علی کو دیکھے بغیر اُس سے پوچھا...
"جی میں کچری قیمہ کے لیے کچا پپیتا اور چپلی کباب کے لئے انار دانہ.."
اُس کی ہمت نہیں تھی علی کی طرف دیکھ کر کُچھ بھی کہنے کی سو نظریں نیچے کیے ہی بولی...

کچا پپیتا انار دانہ آہ نور تُمہیں اللہ پوچھے۔۔" "
وُہ دانت کچکچا کر کہتے ہوئے چلا گیا جبکہ نور نے سکون کا سانس لیا۔۔...

___________________________________________

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro