Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۹



قسط نمبر ۱۹

"جیسا ڈاکٹر نے کہا ہے تُم وہی کرو گی کُچھ دِن آرام کرو گی تمہارا پسلی کی ہڈی ابھی صحیح طرح سے نہیں جُڑی ہے زیادہ کام کرنے سے اُس پر زور پڑتا ہے اور اِسی وجہ سے تمہیں بخار چڑھا تھا..."
اُس نے رسان سے کہا...
"ٹھیک ہے.."
اُس نے برقع اتارتے ہوئے مختصر جواب دیا...
"کھانا لاتی ہوں میں آپکے لئے بغیر کھائے ہی جانے کی جلدی کی ہوئی تھی آپ نے پھر ابھی آدھے گھنٹے میں آپکو ٹیوشن کے لئے بھی نکلنا ہے آرام بھی نہیں کرسکے جبکہ میں کہہ رہی تھی کہ میں ٹھیک ہوں مگر آپ کسی کی مان لیں ہرگز نہیں ڈاکٹر نے بھی یہی کہا کہ یہ نارمل ہے ۔۔۔"
اُس نے نروٹھے پن سے کہا...
وُہ بے اختیار ہنستے ہوئے بولا..
"ویسے تو بولتی نہیں ہو اور جب بولتی ہو تو نان اسٹاپ بولے ہی جاتی ہو.."
"اور آج نہیں جانا ٹیوشنز کے لئے چھٹی دی ہے میں نے بچوں کو تو تُم میرے آرام کی فکر مت کرو ابھی ایک آدھ گھنٹہ لیٹ جاؤں گا پھر باہر چلیں گے جب سے شادی ہوئی ہے گھر ہی گھر میں ہو بس تُم.."
اُس نے بیڈ پر پیر پسارتے ہوئے متانت سے کہا...
"میں کھانا لاتی ہوں.."
وُہ اپنا خوشی چھپاتے ہوئے بولی اور کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ علی کو یک گونہ سکون محسوس ہوا تھا نجانے کیوں؟...

_________________________________________

"گھومنے پھرنے ابھی تو اِس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی.."
شفق خاتون نے کڑی نظروں سے اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا..
"ہاں تو اچھا ہی ہے نا شفق بچی گھر سے باہر جائے گی کُچھ دیر تو طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا ویسے بھی جب سے شادی ہوئی ہے کہیں باہر نہیں گئے دونوں..."
سبحان صاحب نے فوراً کہا جس پر اُنہیں بھی گھوری سے نوازا گیا..
"ہاں تو میں کون سا منع کر رہی ہوں میں بھی اِس کی طبیعت کا خیال کرکے ہی کہہ رہی ہوں..."
اُنہوں نے بُرا سا منہ بناکر کہا۔۔...
"امی ویسے بھی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے سنیں ہم کسی اور دِن چلیں گے.."
نور نے اُن کی ناراضگی کے پیشِ نظر علی سے کہا...
"ارے نہیں بیٹے میں تو صرف تیری فکر میں کہہ رہی تھی باقی یہی تو دِن ہے تُم لوگوں کے گھومنے پھرنے کے.."
اُنہوں نے جس دِل سے کہا تھا یہ وہی جانتی تھیں کیونکہ وُہ علی کو خود سے بدظن نہیں کرنا چاہتی تھیں...
"تُم لوگ جاؤ بیٹا.."
سبحان نے ٹی وی کا والیوم آن کرتے ہوۓ کہا...
"آپ میرے معاملات میں مت بولا کریں میں جانتی ہوں کتنی ڈھیل دینی ہے کتنی نہیں اتنا کھلا نہیں چھوڑ دینا چاہیے بیٹے کو کہ بہو کے کھونٹے سے ہی بندھ کر رہ جائے.."
اُن دونوں کے جانے کے بعد وُہ سبحان صاحب کے سر ہوئیں...
"شفق بی بی اتنی بھی لگامیں مت کسو کہ بچے رسی تُڑوا کر بھاگنے پر تُل جائیں ابھی اُس بچی کو آئے صرف مہینہ ہوا ہے تُم نے ابھی سے اُس پر روک ٹوک اور پابندیاں لگا دی ہیں پورے گھر کا بوجھ اُس کے سر پر ڈال دیا ہے اور وُہ صابر و شاکر بچی زبان پر حرف لائے بغیر سب کر رہی ہے اب کُچھ اُس کی خوشی کا بھی خیال رکھو اُس کی بھی خواہش ہوگی اپنے شوہر کے ساتھ گھومنے پھرنے کی گھر کی فکر سے آزاد کُچھ وقت گزارنے کی تمہاری اپنی بھی دو دو بیٹیاں ہیں کل کو دوسرے گھر میں اگر اُن کے ساتھ بھی یہی سب ہوگا تو کیا تمہیں تکلیف نہیں پہنچے گی... تمہیں اُس لڑکی کا کوئی احساس ہی نہیں تُم سمجھتی ہو وُہ تمہاری نوکرانی ہے بہو نہیں تمہارے اِسی رویے کو دیکھ کر گھر آنے والے رشتے داروں کا رویہ بھی اُس کے ساتھ عجیب ہی ہوتا ہے اولادوں نے تمہاری اُسے مشین سمجھا ہوا ہے بشمول اُس کے شوہر نے آج صاحبزادے نے اپنی مرضی سے ٹیوشنز کی چھٹی کرلی اور اُس پر احسان کرکے لے کر چلا گیا باہر ورنہ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صرف اُس کی عدم توجہی کی وجہ سے اُس کی بیوی اُس کے اپنے ہی گھر والوں اور باہر والوں کے لئے محض مذاق بن کر رہ گئی ہے ... خدا کا واسطہ ہے تُمہیں شفق اگر وہ یتیم ہے تُم تو ابلیس نہ بنو بیٹی نہیں سمجھ سکتی اِنسان ہی سمجھ لو..."
وُہ جو اتنے دنوں سے سب کُچھ دیکھتے ہوئے برداشت کر رہے تھے آج اُن پر پھٹ پڑے مگر شفق خاتون نے بے نیازی سے اُن کی بات کاٹ کر بولیں...
"یہ میرا گھر ہے اور میں جانتی ہوں مجھے اپنا گھر کس طرح چلانا ہے..."
"تمہیں کہیں پچھتانا نہ پڑ جائے اس شفق کیونکہ جتنے اچھے سے میں علی کو جانتا ہوں تُم نہیں جان ہی نہیں سکتی وُہ بہت اُصول پسند آدمی ہے میں تو اُس کے رویے پر حیران ہوں وہ اپنی بیوی کے معاملے میں اتنا بے حس کیوں ہوگیا ہے مگر میں اتنا بھی جانتا ہوں آج نہیں تو کل اُسے اِس بات کا احساس ضرور ہوگا کہ خاندان میں ایک عورت کی عزت اُس کا شوہر ہی کروا سکتا ہے بس تُم اُس وقت سے ڈرو جب تمہارے اِس رویے کو دیکھ کر وہ تمہارے سامنے آکھڑا ہوگا اور بِلکُل صحیح ہوگا..."
ا اُنہوں نے سمجھانا چاہا...
"وُہ میرا بیٹا ہے اور اُسے قابو کرنا میں جانتی ہوں آپ اس بات کی فکر مت کریں..."
انہوں نے پُر سوچ انداز میں کہتے ہوئے بنایا ہوا پان منہ میں ڈالا...

_________________________________________

"ہم کہاں جارہے ہیں؟؟"
نور نے اُس سے پوچھا...
"کسی اچھے سے ریسٹورنٹ اور پھر سی ویو چلیں گے.."
اُس نے بائک کی رفتار بڑھاتے ہوئے کہا...
"علی آہستہ چلائیں پلیز.."
اُس نے دونوں ہاتھ سے اُس کے دونوں کندھے مضبوطی سے پکڑ کر کہا...
"اتنا آہستہ تو چلا رہا ہوں یار..."
"نہیں آپ بہت تیز چلا رہے ہیں پلیز آہستہ چلائیں.." اُس نے زور سے کہا...
"اچھا اچھا اب رو مت.."
وُہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولا...
"میں کوئی نہیں رو رہی.."
اُس نے بُرا منایا..
"ہاں وہ تو دِکھ رہا ہے.."
"آپ آگے دھیان دیں کہیں کسی دوسری بائک یا گاڑی میں نا جا گُهسیں..."
"اچھا نور ڈنر میں ہمارے ساتھ ایک لڑکی ہوگی میری آفس کولیگ ہے بہت اچھی دوست بھی ہے اُسے تُم سے مِلنے کا بہت شوق ہے.."
اُس نے موڑ کاٹتے ہوئے بتایا...
"لڑکی دوست.."
اُس کا انداز ایسا تھا کہ علی کو بے ساختہ ہنسی آگئی...
وُہ واقعی بہت اچھے موڈ میں تھا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب نور نے اُسے یوں ہنستے ہوئے دیکھا تھا...
"ایسا ویسا کُچھ نہیں ہے وُہ صرف میری بہت اچھی دوست اور آفس کولیگ ہے.."
"کیا نام ہے؟"
اُس کی تشویش اب بھی دور نہیں ہوئی...
"فضہ نام ہے اُس کا..."
علی نے بائک ایک ریسٹورنٹ کے آگے روکی تھی..
"ٹھیک ہے.." اُس نے بائک سے اُترتے ہوئے رسان سے کہا...

_________________________________________

وُہ لوگ ریسٹورنٹ میں داخل تو فضہ پہلے سے وہاں موجود تھی..
اُس نے علی کو دیکھا اور اُس کے ساتھ عبائے میں آتی
خوبصورت اور نازک سی نور کو دیکھا تو بے اختیار اُس کی نظروں میں ستائش اُتر آئی...
"السلامُ علیکم ..."
اپنی طرف آتا دیکھ کر فضہ نے کھڑے ہوکر سلام کیا..
"وعلیکم اسلام.."
نور نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے فضہ نے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ تھام لیا...
نور نے کہیں پڑھا تھا
" کائنات کی سب سے خوبصورت شے انسان کا چہرہ ہے " اور وہ واقعی خوبصورت تھی گول بڑی آنکھوں کے درمیان پیشانی پہ ذہانت کی ابھرتی رگ کو سجائے ، پتلی ناک کے تیکھے پن پر نازک سے گلاسز لگائے چہرے پہ شرم و حیا کے تمام مشرقی پن کو اوڑھے وہ اپنی مثال آپ تھی..
سفید حجاب، لیمن کلر کی شارٹ شرٹ سفید چوڑی دار پاجامہ ، سیاہ رنگ کی لمبی چادر کو اچھی طرح اطراف میں لپیٹے ہوئے تھا جو ٹخنوں تک آرہی تھی.. اُس پر پہلی نظر پڑتے ہی نظریں خود بخود مرعوبیت کا اعتراف کرلیتی تھیں...
"جس سے تُمہیں ملنے کی بہت خواہش تھی یہ ہے میری بیوی نور اور نور یہ ہے میری بہت اچھی دوست
فضہ بتول"
اُس نے ایک بار پھر بالمشافہ تعارف کروایا...
"ویسے مُجھے ذرا یقین نہیں اِس نے تُم سے میرا تعارف اچھے لفظوں میں کیا ہوگا یہی کہا ہوگا ایک فارغ لڑکی ہے مصنفہ بھی ہے اور لوگوں کی دُکھتی رگوں کو چھیڑنے والی اور انتہا کی بور.."
اُس نے بدگمان نظروں سے علی کو دیکھا...
"وُہ تو میں نے بتایا ہی نہیں یہ بہت اچھی مصنفہ بھی ہیں کیونکہ اِس کے پاس اور کوئی کام دھندا جو نہیں سدا کی فارغ لڑکی.."
علی نے ازراہِ مذاق کہا...
"تو آپ وُہ والی فضہ بتول ہیں جن کا ناول "اہلِ دِل" آج کل کافی متنازعہ بنا ہوا ہے ہمارے ہندوانہ سوچ رکھنے والے معاشرے میں.."
نور نے پُر جوش ہوکر پوچھا...
"ہاں میں وہی ہوں تو کیا تُم بھی مُجھے سے لڑنا چاہتی ہو اِس پر..."
فضہ نے مسکرا کر کہا...
"تُم نے اِس کے ناولز پڑھے ہوئے ہیں..؟"
علی میں حیرانگی سے پوچھا...
"ہاں نادیہ آپی کو بہت شوق ہے ناولز پڑھنے کا تو اُن کے پاس ڈھیروں پڑے ہیں اُن میں سے اِن کے بھی ہیں کافی.."
نور نے اُسے دیکھ کر نرمی سے جواب دیا..
"آپکا پہلا ناول "آؤ ہم تُم دونوں ساتھ چلیں" اور "فراق" میرا پسندیدہ ہے سب سے.."
اُس نے متانت سے کہا...
"آؤ ہم تُم دونوں ساتھ چلیں والا سین تو تُم دونوں کا بھی ہی.."
اُس نے آنکھ دبا کر ذو معنی خیز انداز میں نور سے کہا تو وہ بھی ہنس دی...
"کیا مطلب..؟"
اُن دونوں کو ہنستا دیکھ کر علی نے پوچھا...
"کُچھ نہیں مطلب تُم نور سے گھر جاکر پوچھنا فی الحال کُچھ آرڈر کرو..."
فضہ نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا...
"اچھا نور مُجھے تمہاری ایک بات بہت اچھی لگی تُم نے جیسے کہا کہ ہندوانہ سوچ رکھنے والے معاشرہ اِس بات سے مُجھے لگا کہ تُم اُن عورتوں سے مختلف ہو..."
فضہ نے سادہ انداز میں کہا...
"الگ کا تو نہیں پتا البتہ آپکی سوچ سے متفق ضرور ہوں.."
اُس نے مستحکم انداز میں جواب دیا..
"تُم دونوں کیا لو گے؟؟"
علی نے مینو کارڈ پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا...
"پیزا تو ملے گا نہیں یہاں تُم کلب سینڈوِچ منگوا لو اور نور تُم..."
اُس نے علی کو اپنا بتاکر نور سے پوچھا...
"مُجھے فاسٹ فوڈ نہیں پسند بِلکُل بھی..."
اُس نے مسکرا کر کہا..
"عادتیں ملتی ہیں اِسے بھی فاسٹ فوڈ نہیں پسند بلکہ اِسے باہر کا کھانا ہی نہیں پسند کیوں علی.."
"ایک کام کرتے ہیں چکن شاشلک منگوا لیتے ہیں.."
علی نے فضہ کی بات نظر انداز کی..
ہاں تو ہم کہاں تھے.."
فضہ دوبارہ اُس کی طرف متوجہ ہوئی..
"دوسری شادی.."
نور نے سرعت سے جواب دیا جبکہ علی کو اب تک اُن کے درمیان ہونے والی سب باتوں میں سے اِس بات نے متوجہ کیا تھا...
"تمہاری بات کرتے ہیں اگر کبھی زندگی میں ایسا ہوا کے علی نے تُم سے دوسری شادی کی اجازت مانگی تو تُمہارا کیا جواب ہوگا..؟"
وُہ اُسے گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی..
"اول بات اجازت کی ضرورت نہیں مرد کو دوسری بات ہاں اگر بتایا تو وقتی طور پر دُکھ تو ہوگا ظاہر ہے میرا فرشتہ تو نہیں ہوں عام لڑکی ہوں.."
اُس کی اِس بات نے علی کے ساتھ ساتھ فضہ کی بھی چونکا دیا تھا...
"تو کیا تُم عام عورتوں کی طرح تماشے نہیں کرو گی روؤں گی نہیں...؟"
"میں یہ ہرگز نہیں کہوں گی کہ میں بہت اچھی ہوں بہت نیک مگر ہاں جس چیز کی اجازت اللہ نے دی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اُس پر سوال اٹھانے والے.."
اُس نے بڑے تحمل سے جواب دیا جبکہ علی اُس کا اطمینان دیکھ کر حیران تھا...
"مگر اکثر دیکھا گیا ہے دوسری شادی کے بعد مرد اپنی پہلی بیوی سے دور ہوجاتے ہیں.."
فضہ نجانے کیا جاننا چاہ رہی تھی...

اللہ نے صاف کہا ہے اگر انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو ہرگز نہ کرو ایک ہی پر اکتفا کرو..."
"محبت اور دوسری شادی کو کیسے دیکھتی ہو تُم.."
وُہ اب گہری سانس لے کر بولی...
"نکاح کا محبت سے کوئی تعلق نہیں یہ تو معاشرتی معاہدہ ہے جو بے راہ روی کے تدارک کا ذریعہ ہے..
شادی میں محبت عورت کیلیے ضروری ہوسکتی ہے مرد کیلیے نہیں
وہ اس سے بھی شادی کرے جس سے محبت کرتا ہے اور اس سے بھی کرے گا جس سے محبت نہیں کرتا تو شادی چاہے پہلی ہو یا دسویں ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مرد محبت کرتا ہے یا نہیں..."
علی کو لگا آخری والی بات نور نے اُس کے لئے ہی کہی تھی..
"تمہاری سوچ بہت اچھی ہے نور میں کافی متاثر ہوں تُم سے دِکھنے سے تو بالکل بھی نہیں لگتا کہ یہ پیاری سی گڑیا جیسی لڑکی اندر سے اتنی گہری ہے.."
اُس کے چہرے پر مرعوبیت واضح تھی..
"ایک سوال اور پوچھوں تُم سے.."
"جی ضرور"..
اُس نے خوشدلی سے اجازت دی..
"جو مرد دوسری شادی کی خواہش رکھتے ہوئے بھی خود کو صرف اِس لیے روک لیتے ہیں کہ گھر کا خراب ہوگا، وغیرہ کیا واقعی مرد اتنا کمزور ہوتا ہے.."
اُس نے متانت سے پوچھا..
"اگر کوئی شخص مالی اوربدنی طور پر دوسری شادی اورعدل کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے شادی کی رغبت بھی ہو اس کے لیے دوسری شادی کرنا مشروع ہے عورتوں کے ہنگاموں سے ڈر جانے کی وجہ سے مردوں نے اپنا مقام چھوڑ دیا عورتوں کو گھر کا مرد بنادیا ہے جن کی مردانگی صرف گھر میں خوں خاں کرنے تک ہی ہوتی ہے باہر جاکر دھوپ میں خوار ہونے سے انہیں اپنی نسوانیت یاد آجاتی.."
اُس کا لہجہ اُس کی مثبت سوچ کی واضح غماز تھا...
"عورتیں تماشہ کرتی ہے کیوں ہیں.؟"
علی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سوال کیا ..
ہمارے ہندوانہ سوچ رکھنے والے معاشرے کی وجہ سے یہاں ہندو مذہب کی طرح دوسری شادی کو سب نے گناہ سمجھ لیا ہے مرد کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی طبیعت بہت ہی غیرت والی ہے وہ یہ نہیں چاہتی کہ اس کے علاوہ کوئی اورعورت بھی اس کے خاوند میں اس کے ساتھ شرکت کرے اورخاوند کی محبت تقسیم ہوکر رہ جائے ، اورعورت کے اندر یہ غیرت پائی جانی کوئی ملامت والی چيز نہیں جس پر اسے ملامت کی جائے یہ ایک فطری بات ہے اور اُسے فطرت بنانے والا بھی معاشرہ ہی ہے ہمارا.."
اُس نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں جواب دیا...
علی انگشت بدنداں تھا اور فضہ سرشار اُسے خوشی تھی اُس کے جیسی سوچ رکھنے والے لوگ اب بھی ہیں...
"بہت بہت خوشی ہوئی مُجھے تمہاری سوچ جان کر نور اور علی دوست میں تمہاری ہوں مگر تُم سے اتنا ضرور کہوں گی تُم واقعی بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں نور جیسی جیون ساتھی مِلی بس کبھی اِس کا دِل مت دکھانا یہ بہت سلجھی ہوئی بہت سمجھدار واقعی تُم جیسے آدمی کے ساتھ یہی چل سکتی ہے خوبصورت کے ساتھ خوب سیرت کا بہترین امتزاج جس کی طبیعت میں علم انگڑائیاں لیتا تھا .."
اُس نے صدقِ دل سے کہا...
"بہت شکریہ.." نور نے احترام سے کہا...
یہ وُہ پہلا لمحہ تھا جب علی کو بھی یقین ہوگیا تھا بھلے اُس کی شادی کسی سے بھی ہوجاتی وُہ زندگی گزار لیتا مگر نور کے ساتھ اُس نے زندگی کو جینا تھا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مُجھے نہیں پتا تھا تُمہیں نثر پڑھنے کا اتنا شوق ہے..."
ایک ہاتھ میں نور کا ہاتھ پکڑے دوسرے ہاتھ میں اپنے جوتے اُٹھائے وُہ گیلی اور ٹھنڈی ریت پر چلتے ہوئے بولا...
"آپکو کُچھ بھی نہیں پتا میرے بارے میں.."
اُس نے دِل میں کہا..
"آگے تو پڑھ نہیں سکی کتابوں میں ہی دُنیا گھوم لی..."
وُہ ہلکے سے مسکرا کر بولی...
"کیسی لگی تمہیں فضہ..؟"
اُس نے جان کر موضوع بدلا...
"بہت اچھی اُنکی تحریریں پڑھ کر جو خاکہ تیار کیا تھا ظاہری طور پر تو اُس سے بے حد مختلف مگر ذہنی طور پر اتنا ہی مضبوط پایا..."
"ظاہری طور پر مختلف کیسے..؟
علی نے حیرت سے پوچھا...
"مطلب جیسی اُن کی سوچ ہے جیسا وُہ لکھتی ہیں اُس حساب کسی ادھیڑ عمر عورت کا عکس اُبھرتا ذہن میں مگر وُہ تو بہت چھوٹی اور بہت پیاری سی ہیں.."
اُس نے محبت سے کہا...
"یہ بات بھی ٹھیک ہے.."
علی نے تائید کی...
"مگر میں نے آج جانا میچیورٹی کا تعلق عُمر سے نہیں ہوتا یہ تو حالات،مشکلیں،پریشانیاں،دُکھ،درد کے ساتھ آتی جاتی ہے میرے سامنے تمہاری مثال ہے نور..."
اُس نے آنکھیں بند کرکے لہروں کو شور کو سُنتے ہوئے کہا...
"پہلے مُجھے خدشات تھے اِس رشتے کے حوالے سے خود سے دس سال چھوٹی لڑکی سے شادی کرنا ،اُس کی سوچ مُجھ سے قدرے مختلف ہوگی ،اُس کی اُمیدیں الگ ہوں گی ،اُس کی خواہشات الگ ہوں گی... کیا میں اور تُم یہ رشتہ باحسنِ وجوہ نبھا سکیں گے؟ اور ایسے کئی سوال تھے میرے ذہن میں مگر تُم نے ایک ایک کرکے ہر خدشے کو دور کیا ہے.."
اُس نے اپنا بایاں ہاتھ اُس کے کندھے پر پھیلاتے ہوئے کہا اور اُسے اپنے کندھے سے لگا لیا...
"دوسری شادی کے بارے میں میرے خیال جان کر اتنا بدلاؤ.."
اُس نے شرارت سے کہا...
"نہیں ایسی بات نہیں ہے میں ایک ہی میں بہت خوش ہوں.."
پُر شوق نگاہیں اُس کے چہرے پر جماتے ہوئے کہا

"واقعی۔۔"

"کوئی شک ہے۔۔"

علی کا انداز چیلینج کرتا تھا۔۔..
"ویسے وُہ تُم دونوں کیا باتیں کررہی تھیں جس پر اُس نے بولا تھا کہ نور تُمہیں گھر جاکر بتا دے گی اور ہم دونوں کا کیا سین ہے ..؟"
علی نے رسان سے پوچھا..
"وُہ آپ چھوڑیں.."
اُس نے بچنا چاہا...
"یار بتاؤ نا ورنہ میں سوچتا ہی رہوں گا ایسی کون سے بُرائی کر رہے تھیں تُم دونوں میری.."
اُس نے بے چینی سے پوچھا..
"علی آپ ناراض ہوجائیں گے.."
"نہیں ہوتا وعدہ اب بتاؤ.."
اُس نے مستحکم انداز میں کہا..
"وُہ آپکی اور میری عُمر کو کو لے کر ذرا سا مذاق..."
"ایک تو پتا نہیں لوگوں کو کیا مسئلہ ہے سب نے بڈھا ہی سمجھ لیا ہے مُجھے جسے دیکھو تُم سے اظہارِ ہمدردی کرنے لگ جاتا ہے جیسے کوئی بہت ہی بڑا ظُلم ہوگیا تمہارے ساتھ دس سال کا فرق کوئی اتنا بڑا بھی نہیں..."
وُہ بات پوری سنے بغیر ہی پھٹ پڑا جب سے اُن دونوں کی شادی ہوئی تھی وُہ بہت سوں کے منہ سے یہ باتیں سُن چُکا تھا..
"دس سال کا فرق.."
اپنی بات دہراتے ہوئے وُہ خود ہی ہنس پڑا..
"مگر آپ تو مُجھے ایسے ہی پسند ہیں.."
نور کے بے ساختہ کہے جانے والے جملوں نے اُس کی ہنسی کو بریک لگا آنِ واحد میں اُس کی آنکھیں نور کی نیلگوں آنکھوں میں جا ٹھہری بڑا ہی فسوں خیز لمحہ آ رُکا تھا اُن دونوں کے درمیان...
علی نے مزید مضبوطی سے اُسے اپنے کندھے سے لگا لیا..
چاند اپنا سفر جاری رکھے افق کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا ۔وُہ محویت کے عالم میں سر اٹھا کر بدلیوں کے بیچ تکتی۔ رات کا ایک پہر بیت چکا تھا ہوا میں خنکی بڑھنے لگی تھی ۔ سمندر کے پانی کے عکس میں چمکتے چاند سے پھر گویا ہوئی ۔
مجھے کس راہگزر پر جانا تھا ؟
اُس نے خود سے سوال کیا...
چاند مسکراتا ہے...
"جس راہ پر تم چاہو.."
اُس نے پھر مسکرا کر مزید مضبوطی سے علی کاندھا پکڑ لیا۔۔۔۔

...

یہیں کبوتر کے اِس بسیرے کے دید باں سے

روانہ ہو کر

اِسی سمندر کے پار اُتریں

اُفق کے ساحل پہ اُس کی آنکھیں

یہیں پہ دیکھا نئے زمانے کا خواب اُس نے

یہ پاک دربار پانیوں کا

وہی ہے جس میں

ملی اسے خلوتِ بصیرت' عنان برداریِ تغیر

یہیں پرانی حویلیوں کے کھنڈر سے اُس نے

نئی سحر کا طلوع دیکھا

یہیں سحر کا طلوع دیکھا

یہیں مصور کی آنکھ میں نقش خواب اُبھرا

وہ خواب۔۔۔۔تعبیر بن کے جس کی

ہزاروں برسوں کی جبر خوردہ زمیں سے

یوم حساب اُبھرا

(آفتاب اقبال شمیم)

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro