Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۱

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۱۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"امی میں ایک بات بولوں.."
صبا نے اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگاتے ہوئے کہا..
"ہاں بول.."
"امّاں میرا خیال ہے یوں کُچھ غلط بھی نہیں ہے اگر اِس کرم جلی نور کی شادی شفق آنٹی کے بیٹے سے ہوجائے ہماری جان تو چھوٹے گی اور وہاں کون سا اِس نے عیش کرنا ہے صرف ایک شکل کا ہی اچھا ہے وُہ باقی ہے تو كنگلا اور اوپر سے ماں باپ چھوٹے بہن بھائی تیس کا ہونے والا ہے مگر ابھی تک شادی نہیں کی اِسی وجہ سے شاید بس اگر وہ لوگ رشتہ مانگنے آئی تو آپ نے کُچھ نہیں کہنا بس ہاں کردینی ہے ہمارے سروں سے کم از کم یہ بلا تو اُترے گی.."
اُس نے اپنی تئین میں ایک بہترین مشورہ دیا تھا جو عافیہ کو ٹھیک بھی لگا...
"ہاں کہتی تو تُو بلکل ٹھیک ہے یہ نری تو عذاب بن گئی ہے مگر لڑکا بڑا پیارا ہے وُہ میرا دِل نہیں کر رہا کہ اِس کو بیاہ دوں یہی تو ایک موقع ہے کہ اِس کی ماں کے کیے کانڈوں کا بدلہ لے سکوں اِس سے.."
وُہ تاسف سے بولی..
"تو یہ کیا کم ہے یہ وہاں بھی سسکتی ہوئی زندگی ہی گزارے گی ایک تو عُمر میں تقریباً کوئی دس گیارہ سال بڑا پھر کماتا کُچھ خاص نہیں پورے گھر کی زمے داری اُس کے سر پر وہاں بھی اُن لوگوں کی نوکرانی ہی بنے رہنا اِس نے.."
وُہ نخوت سے بولی...
"مگر میرا دِل نہیں مانتا.."
آہستہ سے کہا گیا..
"میری بات مان لیں ورنہ اِسی طرح ہوتا رہے گا جب تک یہ حور پری اِس گھر میں رہے گی..."
وُہ کینہ پروری سے بولی...

          ________________________________________

"کیسی ہے اب نور.."
زبیر نے فروٹس،جوس کے ڈبوں،میڈسنز اور ربڑی کی شاپرز نادیہ کو پکڑاتے ہوئے پوچھا..
"اللہ کا شکر ہے پہلے سے بہتر ہے مگر بہت تکلیف میں ہے وُہ.."
رنجیدگی سے بولی..
"واقعی تمہاری ماں اور بہن نے ظلم کی انتہا کردی ہے مُجھے تو سوچ سوچ کر ہول آرہے ہیں کتنی تکلیف میں ہوگی وُہ اُس کے لیے ہر سانس لینا کتنا مشکل ہوگا..."
زبیر نے باقائدہ جھرجھری لے کر کہا...
"ہاں اور کہیں نہ کہیں اِس میں میری بھی غلطی ہے میں اُس کے ساتھ لاکھ اچھی اُس کا بہت خیال رکھنے والی مگر میں نے بڑی بہن ہونا کا فرض پوری طرح نہیں نبھایا میں نے اُسے وہ تحفظ دیا ہی نہیں جس کی وہ حقدار تھی .."
اُس کا گلا رندھنے لگا تھا...
"انسان سے ہی ہوتی ہیں غلطیاں کوئی بڑی بات نہیں یہ اچھی بات ہے کہ تمہیں احساس ہوگیا ہے اور تُم نے اُس کے لئے اسٹینڈ لیا یہ بڑی بات ہے..."
زبیر نے رسان سے کہتے ہوئے اُس کی ندامت دور کرنی چاہی...
"تُم سے کُچھ بات بھی کرنی ہے.."
زبیر نے اُس کے ساتھ کچن میں داخل ہوتے کہا..
" جی کہیں.."
"ذیشان کو تو جانتی ہو تُم..؟"
اُس نے تصدیق چاہی..
"ذیشان...غالباً یہ وہی ذیشان ہے ہمارے آفس والا مارکیٹنگ منیجر ہیڈ اور آپکا بہترین دوست..؟"
اُس نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"ہاں وہی ذیشان اُس نے کل مُجھ سے نور کے لیے بات کی ہے وُہ نور سے شادی کرنا چاہتا ہے.."
"نور...مگر اُس نے کب نور کو دیکھا میرا مطلب ہے..."
وُہ انگشت بدنداں سی اُسے دیکھتے ہوئے بولی تو زبیر نے اُس کی بات کاٹی..
"ہمارے نکاح والے دن دیکھا تھا اُس نے نور کو اور ذیشان نے مُجھے یہ بھی بتایا وُہ اُسے پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی بس وُہ مُجھ سے بات کرنے میں کترا رہا تھا مگر جب میں نے اسے نور کے ساتھ ہوئے حادثے کا اور اُس کے پیچھے کی وجہ بتائی تو اُس نے مُجھ سے صاف بات کی۔۔۔"
اُس نے تفصیل سے ساری بات اُسے بتادی..
"ذیشان اچھا لڑکا ہے زبیر ہر لحاظ سے شریف ہے، سیٹلڈ ہے ، گڈ لوکنگ ہے اپنا اپارٹمنٹ ہے کلفٹن میں کوئی فیملی کا چکر نہیں ہے پیچھے اور آپکا بہت اچھا دوست بھی ہے اور سب سے بڑی بات وُہ نور کو پسند بھی کرتا ہے اگر آپ مطمئن ہیں تو اُسے ہاں کردیں اور امی کی فکر مت کریں اُنہیں سمجھانا میرا کام ہے.."
نادیہ نے متانت سے کہا..
"ہاں یہاں سے اُس کے گھر ہی جاتا ہوں بس جلد از جلد اِس بچی کی جان چھوٹے یہاں سے.."
وُہ درد مندی سے بولا۔۔۔
"اگر بالفرض یہاں بات نہیں بھی بنی تو دو تین رشتے اور ہیں میری نظر میں بہت اچھے.."
وُہ ہموار لہجے میں بولا..
"ہاں آپکو میں بتانا بھول گئی ہمارے برابر والی آنٹی نے بھی نور کے رشتے کی بات کی ہے اپنے بیٹے سے وہی جو نور کو ہسپتال بھی لے کر گئی تھی آپ ملے بھی ہیں اُس لڑکے سے ہسپتال میں."
اُس نے سیب کی قاشیں پلیٹ میں سجاتے ہوئے کہا..
"میرے خیال سے علی نام ہے اُس کا.."
اُس نے یاد کرنے کی کوشش کی..
"ہاں علی.." نادیہ نے فوراً کہا..
"مگر وُہ تو نور سے کافی بڑا لگتا ہے میرے برابر ہوگا.."
"ہاں یہ تو ہے دس گیارہ سال کا فرق تو ہوگا مگر وُہ لڑکا بہت اچھا ہے نیک، شریف پڑھا لکھا شکل و صورت میں بھی بہترین ہے بس تھوڑی عمر زیادہ ہے اٹھائیس اُنتیس کے قریب ..."
اُس نے زبیر کی بات کی تائید کرتے ہوئے علی کی خوبیاں بھی گنوا دی..
"بس اللہ نصیب اچھے کرے بچی کے جتنی دُکھ تکلیفیں دیکھ لی ہیں اللہ دوگنی خوشی اور سُکھ دے آمین .."
وُہ صدقِ دل سے بولا...
"ثم آمین یارب العالمین..."
نادیہ نے برجستہ کہا...
"نور اُٹھ گئی ہوگی آپ جائیں اُس سے مِل لیں میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں.."
اُس نے جوس نکالنے کے لئے مشین کا تار ساکٹ میں لگاتے ہوئے کہا زبیر سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا...
"السلامُ علیکم بیٹا.."
زبیر نے کمرے میں داخل ہوکر گُم سُم سی بیٹھی نور سے کہا تو اپنی سوچوں میں بہت دور نکل چُکی نور یکدم حال میں لوٹ آئی..
"وعلیکم اسلام زبیر بھائی.."
اُس نے جلدی سے دوپٹہ سے پر اچھی طرح جماتے ہوئے جواب دیا اور سر جُھکا لیا..
زبیر کو اُس کا یہی احترام تو بھاتا تھا ورنہ مجال ہے کہ صبا نے اُسے دیکھ کر کبھی دوپٹہ تک لیا ہو...
زبیر نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیا..
"کیسی طبیعت ہے اب بچے.."
"ٹھیک ہوں بھائی.."
اُس نے نظریں جھکائے ہی کہا..
"اچھی بات ہے اور فکر تو کرنی ہی نہیں ہے تُم نے بہت جلد ٹھیک ہوجاؤ گی.."
زبیر نے رسان سے کہا...
"لو جی آگئی ٹھنڈی ٹھنڈی ربڑی ساتھ میں کینو کا جوس اور سیب.."
نادیہ نے کمرے میں داخل ہوتے  ہوئے مسکرا کر کہا..
حقیقتاً اُس کے چہرے پر ربڑی سنتے ہی ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی سموسوں کے بعد واحد وُہ چیز تھی جو اُسے بے حد پسند تھی..
""چلو شاباش پہلے جوس ختم کرو اور یہ سب کھاؤ پھر آرام سے کھاتی رہنا ربڑی میں نے باقی فریج میں رکھ دی ہے.."
اُس نے ٹرے نور کے سامنے رکھتے ہوئے ملائمت سے کہا تو وہ اُس نے چُپ چاپ گلاس اُٹھا کر منہ سے لگا تھا..

________________________________________

"کیوں بلایا ہے مُجھے یہاں میں نے تمہیں صاف صاف کہہ دیا تھا مجھے آئندہ کال مت کرنا.."
زونیہ نے اُس پر چلاتے ہوئے کہا..
علی کا چہرہ سپاٹ تھا...
"اب بولو بھی یا یونہی تکتے رہو گے مُجھے.."
وُہ شدید بیزاری سے بولی...
"کیا واقعی تُم نے مُجھ سے کبھی محبت نہیں کی.."
اُس کی آواز بلکل سرد تھی...
"تمہیں ایک دفعہ کی بات کیوں نہیں سمجھ آجاتی میں نے تُم سے کبھی محبت نہیں کی اور تُم ہے ہی کیا سوائے شکل کے.."
وُہ طنزاً بولی تو علی کے دِل پر گھونسا پڑا تھا...
"پھر وُہ سب کیا تھا جو اتنے سالوں سے چل رہا تھا.."
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوگیا وُہ اپنی کوئی کیفیت اُس پر آشکار نہیں کرنا چاہتا تھا مگر سامنے زونیہ تھی جسے وہ پوری شدت سے چاہتا تھا...
"او کم آن کم کوئی ٹین ایجر نہیں ہو تُم اچھے خاصے میچیور مرد ہو تُم حقیقت پسندی سے سوچو.."
اُس نے بری طرح جھڑکا...
"میں تمہارے لئے صرف وقت گزاری تھا  صرف ٹائم پاس.."
وُہ دھاڑا تو لمحے کو زونیہ بھی سہم گئی مگر پھر سنبھل کر بولی...
"اپنی حد میں رہو علی دو ٹکے کی تمہاری اوقات نہیں ہے اور تُم مُجھ سے شادی کے خواب دیکھتے ہو اپنے آپ کو دیکھو اور مُجھے دیکھو تُم زمین ہو تو میں آسمان میں روشنی ہوں تو تُم اندھیرا.."
اُس کے لہجے میں اتنی حقارت تھی کہ علی خود کے ہونے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی وہ متحیر سا اُسے دیکھتا رہ گیا..
"مہینے کی پچاس ہزار تنخواہ میں تُم اپنے ٹبر کی سنبھالو گے یا مُجھے تُم مُجھے دے ہی کیا سکتے ہو میرے ڈرائیور کی تنخواہ تمہاری تنخواہ کی نصف ہے شکل کا وُہ بھی اچھا ہے تو کیا اُس سے بھی شادی کرلوں جس گھر میں بجلی کے بل سے لے کر کھائی جانے والی روٹیوں تک کا حساب رکھا جاتا ہے اُس گھر میں "میں" جاؤں گی "میں"... شمریز کے ڈیڈ کا لندن میں بزنس ہے وہاں گھر ہے اپنا کراچی میں دو بنگلے گاڑیاں نوکر چاکر عیش و آسائش تُم مُجھے سات پردوں میں چھپا کر ایک دو سال بعد اپنے بچوں کی ماں بنانے کے علاوہ اور کیا دے سکتے ہو..کُچھ نہیں سوائے سسکتی بلکتی زندگی کے جیسی تُم گزار رہے ہو روپے روپے کو ترستے ہوئے دانتوں سے پیسے پکڑنے والی زندگی کنوئیں کے مینڈک والی تمہاری سوچ ہے پڑھے لکھے ہوتے ہوئے بھی وہی ٹیپیکل مردوں والی گھٹیا سوچ بیوی کو بڑی سی چادر میں ڈھانپ کر کونے میں پھینک دینے والی اور ہر رات اپنے مطلب کے لیے اُسے...."
"بس ایک لفظ اور نہیں..."
یہ وہی جانتا اُس نے یہ الفاظ بھی کتنی دقت سے کہے تھے ورنہ اِس تذلیل نے اُس کی قوتِ گویائی ہی سلب کرلی تھی وُہ ہکا بکا رہ گیا تھا وُہ چُپ تھا حقیقت کا آئینہ جو سامنے تھا واقعی وُہ زمین تھا اور وُہ آسمان پر اُونچے سے اونچا اُڑنے کی خواہش رکھنے والی زمین کی ہی باسی اُسے کیا حق تھا کہ وہ اُس کی خواہش کرتا اُس کا کیا اوقات تھی وُہ کُچھ بھی تو نہیں تھا...
ایک حقیر ترین اِنسان...
نجانے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ احساس کی دولت ملتی ہے تو انسان دولت کے احساس سے بھی نکل جاتا ہے۔ اسے معلوم پڑ جاتا ہے کہ غریب ہو کر بھی انسان خوش رہ سکتا ہے اور امیر ہو کر بھی آدمی تکلیف میں ہو سکتا ہے۔ اِنسان کو اپنی ضرورت کا احساس نہیں ہو پا رہا کہ احساس ہی ہماری ضرورت ہے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے کی زندگی کو مشکل نہ بنایا جائے۔ محبت کا یا کم از کم برداشت کا رشتہ ترک نہ کیا جائے۔ اپنا اور صرف اپنا احساس تو خود غرضی کہلاتا ہے۔ جب اس احساس کے اندر انسان دوسروں کو شامل کر لیتا ہے تو اس کا اجر خود شناسی کے طور پر ملنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔ احساس کی آنکھ کھلتی ہے تو ادراک کی آنکھ بھی کھلنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر انسان ستاروں سے آگے بھی جہاں دیکھ سکتا ہے مگر کوتہ اندیش اِنسان کہاں سوچتا ہے اور نا ہر نفس کو احساس کی دولت ملتی ہے..
"یہ ہے تمہاری حقیقت  اور آئندہ مُجھ سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کی کوشش مت کرنا ورنہ اگلی بات میرے بھائی کریں گے تُم سے..."
اُس نے وارن کرنے والے انداز میں کہا..
"میری خواہش ہے تُم خوش رہو سچے دِل سے.."
اُس نے ضبط کی حدوں کو چھوتے ہوئے کہا..
"خوش ہی رہوں گی میں تُم جیسے پھٹیچر سے شادی نہ کرکے.."
وُہ زہر خنداں بولی..
" سنا ہے تمہاری امی نے تمہارا رشتہ اُس بارہویں پاس مولون سے طے کردیا ہے اچھا ہی ہے یو نو واٹ تُم جیسے ٹیپیکل مڈل کلاس مردوں کے لیے مُجھ جیسی ماڈرن لڑکی نہیں بلکہ نور جیسی کسی گنوار کی ہی ضرورت ہے جو تُم جیسے قدامت پرست مرد کے ساتھ چل سکے تم ڈیسرو ہی نہیں کرتے مُجھ جیسی لڑکی کو بالکل ٹھیک میچ ہے تمہارا اور اُس کا ایک دم پرفیکٹ ارے وُہ تمہارے کہے بغیر ہی اتنی بڑی بڑی چادریں ڈالے پھرتی ہے نقاب کیے اُس کا مجازی خدا آگے اُسے بول دے گا تو وہ تو تنبو لپیٹ لے گی بلڈی ایڈیٹ..."
وُہ خود پرستی اور نخوت فروشی کے حد پر تھی...
"یہ واحد تحفہ جو میں نے تُم سے لیا تھا جو تُم نے مُجھے اُس پیار کا واسطہ دے کر دیا تھا جو تمہارے دِل میں ناپید تھا تو یہ لو تمہاری امانت میں نے اب تک ایک بار بھی استعمال نہیں کیا نہ مُجھے پتا ہے اِس میں کیا ہے ویسے کا ویسا ہی ہے تمہاری چیز تمہارے حوالے اور مُجھے میرا دِل لوٹا دو.."
اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا مگر آخری بات سُن کر زونیہ بے اختیار ہنس دی..
"بس کرو یہ فلمی باتیں علی پریکٹیکل لائف میں آؤ سمجھے میرے پاس تمہارا کُچھ نہیں ہے اب خُدایا مُجھے دوبارہ پریشان مت کرنا ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے."
اُس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ بھی دیے تھے..
"ہاں تمہارے پاس کیسے ہوگا میں بے وقوف ہو غلط جگہ پوچھ لیا ساری غلطی میری ہی تو ہے میں نے کبھی اپنے دل کی کبھی نگاہ بانی کی ہی نہیں یہ واپسی کا راستہ ہے جاتے ہوئے نگاہ کروں گا کہیں سرِ راہ پڑا ہوگا شکستہ مرمت طلب اُٹھاکر اور اُس دِل کو شہرِ خموشاں میں دفن کردوں گا کیونکہ اِس در سے دوا نہیں ملے گی میری کیا اوقات ہے آج ہی تو پتا چلی مُجھے..."
اُس نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا اور واپسی کے لیے مڑ گیا..
زونیہ علی سبحان کو اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لئے جاتا دیکھ رہی تھی... واپسی تو ہونی تھی مگر "علی" ہمیشہ کے لیے جاچکا تھا...

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro