قسط نمبر ۱۰
قسط نمبر ۱۰
"نور آج سے میرے کمرے سوۓ گی اور گھر کا وُہ کوئی کام نہیں کرے گی.."
اُس نے لاؤنج میں بیٹھی صبا اور عافیہ کے سامنے قطعیت سے کہا..
"ایسے کیسے نہیں کرے گی مفت کی روٹیاں تھوڑی توڑنے دوں گی اُس منحوس کو میں.."
اُنہوں نے نخوت سے کہا..
"امی آپ اِنسان ہی ہیں یا پھر.... اُس لڑکی کی پسلی کی ہڈی توڑ دی آپ دونوں نے اُس کا پورا جسم زخمی ہے یار وُہ بھی اِنسان ہے اور کسی کی نہیں آپکے شوہر کی ہی بیٹی ہے اُس کی ماں نہیں ہے تو آپ نے اُسے جانور سے بدتر سمجھ لیا ہے مُجھے شرم آتی ہے آج یہ کہتے ہوئے کہ میں آپ کی بیٹی ہوں..."
دِل گیر انداز میں کہا گیا...
"ہاں اب اُس آوارہ لڑکی کے لئے اپنی ماں کے سامنے زبان لڑائے گی تو بس یہی تو دیکھنا رہ گیا تھا.."
اُن کا واویلا شروع ہوچکا تھا...
"آپ سے نا بات کرنا ہی فضول ہے امی بِلکُل فضول اور میں دوبارہ کہہ رہی ہوں آئندہ اگر کسی نے بھی نور پر ہاتھ اُٹھایا تو میں خود پولیس کو بلاؤں گی اور اِسے دھمکی مت سمجھیے گا صرف بلکہ میں ایسا کرکے دکھاؤں گی..."
وُہ وارن کرنے والے انداز میں کہہ کر چلی گئی...
"امی اِس لڑکی کو جلد سے جلد ٹھکانے لگاؤ ورنہ جتنی ہمدردی اِس نادیہ کے دِل میں اِس کے لئے پھوٹ رہی ہے نا یہ ٹھیک نہیں ہے.."
"ٹھیک کہہ رہی ہے تُو اب اِس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا..."
وُہ پُر سوچ انداز میں بولیں...
_________________________________________________
"آئیں بیٹھیں ..."
ثمینہ نے اپنے کشادہ ڈرائنگ روم کا سلائڈ دوڑ کھولتے ہوئے نرمی سے کہا...
کریم کلر کا صاف اور چمکتا فرش اور کمرے کے وسط میں چوکور شکل میں نصب ہلکے بھورے ٹائلز کتھٔی اور سفید رنگ کے خوبصورت صوفوں، قیمتی شوپیسس فینسی چھت سے بیچ میں لٹکتے قیمتی فانوس اور اللہ کے نام کی خوبصورت دیوار گیر کیلیگرافی پینٹنگز سے سجا وُہ کمرہ پہلی ہے نظر میں اُنہیں خفت اور احساسِ محرومی کا شکار کرگیا تھا وُہ تزئین و آرائش دیکھ کر کُچھ دیر کے لئے بھول ہی گئیں تھیں کہ وہ یہاں کیا بات کرنے آئی تھیں...
"آپ ابھی تک کھڑی کیوں ہے بیٹھئے نا پلیز.."
ثمینہ نے ہنوز اُنہیں یوں ہی کھڑا دیکھ کر کہا...
"بہت خوبصورت سیٹ کیا ہے آپ نے ڈرائنگ روم.."
وُہ صدق دل سے بولیں..
"کہاں یہ ڈیزائن تو مُجھے بِلکُل نہیں پسند زونیہ اور احسن کی شادی سے پہلے پورے گھر کا انٹیریئر چینج کرنا ہے..."
وُہ ناز بازی سے بولیں...
"لیجئے ناشتہ بھی آگیا.."
اُنہوں نے دروازے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے ملازمہ ٹرالی گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہورہی تھی..
"اِس تکلف کی کیا ضرورت تھی.."
وُہ شرمندگی سے بولیں..
"کوئی بات نہیں پڑوسی ہیں آپ ہماری اور ہمارے گھر آئی ہیں مہمان نوازی تو کریں گے نا.."
مسکرا کر کہا گیا..
کُچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد شفق خاتون اصل بات پر آئیں...
"دراصل میں اپنے بیٹے کے لئے آپکی بیٹی زونیہ کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں مُجھے علی نے ہی بھیجا ہے یہاں بس..."
وُہ کہتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔۔
"کیا...؟"
دوسری طرف سے ثمینہ کی آواز خاصی نرم تھی تو اُنہیں ہوصلہ ہوا...
"دیکھیں بہن بہت اچھی بات ہے آپ میرے گھر آئیں آپکی میری بیٹی پسند ہے اور آپکا بیٹا بھی ماشاللہ بہت اچھا ہے مگر بات یہ ہے کہ زونیہ کی بات تو ہم نے ایک سال پہلے ہی طے کردی تھی اور اگلے ہفتے اُس کا نکاح بھی ہے.."
اُنہوں نے نہایت تحمل سے جواب دیا..
شفق خاتون کو جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا تھا بالآخر اُن کے بیٹے کا دِل ٹوٹنے والا تھا..
"مگر زونیہ اور علی تو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور علی نے مُجھے کہا تھا کہ اُسے زونیہ نے ہی کہا ہے کے وُہ اپنے گھر والوں کو بھیجے اُس کے گھر.."
اُنہوں نے اپنی خفت پر قابو پاتے ہوئے کہا...
"حیرت ہے زونیہ نے آج تک مُجھ سے علی کا کوئی ذکر ہی نہیں کِیا اور مُجھے تو آج پتا چل رہا ہے کہ وُہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں..."
وُہ تعجب سے بولیں...
"میں پہلے ہی سمجھاتی تھی اِس لڑکے کو۔۔۔"
وُہ بڑبڑائی...
"میں زونیہ کو بلا کر پوچھ لیتی ہوں شاید وہ مُجھ سے کہنے میں ہچکچا رہی ہو..."
وُہ کافی فہم و فراست والی خاتون تھیں اور اپنی اولاد کو تو ہر کوئی جانتا ہے...
کُچھ ہی دیر بعد مضطرب سی زونیہ اُن کے سامنے کھڑی تھی۔۔
"بیٹا یہ علی کی امی ہیں ان کا کہنا ہے آپ اور علی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو اور آپ کے ہی کہنے پر علی نے اِنہیں یہاں بھیجا ہے..."
وُہ بڑی گہری نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں...
زونیہ شدید اُلجھن کا شکار تھی وُہ سمجھی تھی علی نے صرف اُسے دھمکی دی تھی مگر اب اُسے اِس سچویشن سے بچنا تھا اُس نے خود کو بولنے کے لئے تیار کیا..
"علی وہی جو شاید میری یونیورسٹی والا جو ہمارے ہی محلے میں رہتا ہے..؟
وُہ یکسر انجان بن کر بولی شفق خاتون کو حیرت کا جھٹکا لگا...
"امی میں تو اُسے جانتی تک نہیں ہوں ہاں البتہ معذرت کے ساتھ آنٹی آپکا بیٹا مجھے گلے میں آتے جاتے تنگ کرتا ہے اور پتا نہیں کہاں سے اُس کے پاس میرا نمبر آگیا تو مجھے میسجز کالز کرتا رہتا ہے میں تو اُس سے تنگ ہوں اپنے امی ابو کو اِس لیے نہیں بتایا کیونکہ مُجھے لگتا تھا میں اکیلے ہینڈل کرلوں گی بہت بار اُس نے مُجھ سے پیسے بھی مانگے یہ کہہ کر وُہ میرے گھر آکر میرے ابو اور بھائی سے جھوٹ کہے گا کہ ہم دونوں کے بیچ کوئی رشتہ ہے اور میں نے صرف اِس ڈر سے اُسے پیسے بھی دیئے اور یہ دیکھیں اُس کا رات کو بھی میسج آیا تھا.."
وہ کہہ کر جلدی جلدی موبائل میں سے اُس کے بقیہ میسج ڈیلیٹ کرکے ایک میسج کو چھوڑا اور اُن کے سامنے کیا جو یوں تھا...
"کل میری امی آئیں گی تمہارے گھر اور تُم نے ہاں کرنی ہے ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا زونی..."
شفقق خاتون کی نظریں نہیں اُٹھ رہی تھیں اِس لیے نہیں کہ اُنہیں علی پر شک تھا بلکہ اِس لیے وُہ اپنی اتنی بے عزتی برداشت نہیں کر پارہی تھیں...
"دیکھیے بہن شکر کریں زونیہ کے والد اور بھائی گھر پر نہیں ہے ورنہ کیا ہوتا میں خود نہیں جانتی اور کم از کم آپکو تو کُچھ سوچ کے آنا چاہیے تھا کہاں آپ اور کہاں ہم بھلا کوئی جوڑ ہے اور ہم اپنی بیٹی کیوں دیں گے آپکے آوارہ بیٹے کو اور آپ اُسے سمجھائے گا کہ یہ حرکتیں چھوڑ دے ورنہ مجبوراً مجھے عرفان کو سب بتانا ہوگا جو آپکے بیٹے کے لئے بلکل اچھا نہیں ہوگا.."
اُن کا شائستہ لہجہ یوں غائب ہوا جیسے تھا ہے نہیں اب اُن کے انداز میں صرف حقارت تھی..
"میں علی جیسے لڑکے کو پسند بھی کیوں کروں گی ایک تو وُہ انتہا کا بدمعاش اور پھر اُس میں ہے ہی کیا وُہ جتنا مہینے میں کماتا ہے اُتنا میں ایک وقت میں شاپنگ میں اُڑا دیتی ہوں چیپ مڈل کلاس بوائے..."
وُہ حقارت کی نظر سے شفق خاتون کو دیکھ کر بولیں...
وُہ زمین میں گڑھی جارہی تھیں...
"اب آپ جاسکتی ہیں اور امی آپ کوئی بھی ایرا غیرا گھر میں آکر آپکی بیٹی کے بارے میں کُچھ بھی کہے گا تو آپ اِن جیسوں کے لئے مُجھے بلا کر پوچھیں گی.."
اُس نے بدتمیزی کی ہر حد پار کردی...
شفق خاتون سے کُچھ نہ بولا گیا وُہ غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے معذرت کرتی آگئیں....
____________________________________________
"کیسا محسوس کر رہی ہو اب چندا.."
نادیہ نے اُس کے سرہانے بیٹھتے ہوئے محبت سے پوچھا...
نور نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں وا کیں..
درد کی لہر اُس کی پسلیوں سے شروع ہوکر پورے جسم میں دوڑ گئی...
"آپی میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے امی غلط سمجھ رہی ہیں.."
وُہ اب بھی وہی کہہ رہی تھی...
"بس بیٹا مُجھے پتا ہے اور تُم زیادہ بولو مت تُمہیں تکلیف ہوگی بس آرام سے لیٹی رہی شاباش.."
وُہ اُس کی گردن کے نیچے تکیہ برابر کرتے ہوئی بولی...
"تمہاری پسلی کی ہڈی ٹوٹی ہے اور گھبرانے کی بات نہیں ہے سب ٹھیک ہوجائے گا مگر تُم نے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانا ہے صرف آرام کرنا ہے مکمل آرام سمجھی۔۔"
"ہڈی ٹوٹ.."
اُسے یقین نہیں آیا وہ کسی ایک جگہ درد محسوس نہیں کر پا رہی تھی پورا جسم ہی ٹوٹ رہا تھا...
"ہاں مگر گھبراؤ مت بیٹا یہ ٹھیک ہوجائے گا بس تُم نے آرام کرنا ہے میں نے ایک کام والی سے بات کی ہے وُہ کل سے آجائے گی تُم نے بس لیٹے رہنا ہے زیادہ ہلنے جلنے سے تمہیں تکلیف ہوگی اور امی کی فکر مت کرنا میں اُن سے بات کرلوں گی ٹھیک ہے۔۔"
وُہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر نہیں بول رہی تھی اُس کی ہمت ہی نہیں تھی...
نور چُپ چاپ لیٹی رہی...
"تھوڑا درد ہوگا مگر ضروری ہے.."
جیسے ہی آئس بیگ نے متاثرہ جگہ کو چھوا نور کی چیخ نکل گئی...
"آپی بہت تکلیف ہورہی ہے بہت..."
آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگے تھے...
"پر چندا ضروری ہے نا تھوڑا برداشت کر لو.."
وُہ خود بھی رونے کے در پر تھی۔۔
"آپی یہ درد نہیں برداشت ہورہا ایسا لگا رہا اندر کُچھ چُبھ رہا ہے بہت بری طرح.."
وُہ بہت ضبط سے کام لے رہی تھی مگر بالاآخر رودی...
"مُجھے معاف کردو نور میرے اختیار میں تھا مگر میں نے پھر بھی کُچھ نہیں کیا اپنی طرف سے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرکے میں خود کو مطمئن کرتی رہی کہ میں بہت اچھی ہوں مگر نہیں میں بھی اُن جیسی ہی ہوں ظالم جابر میں تمہیں تمہارا مقام دلا سکتی تھی مگر میں نے نہیں دلایا آج تُم جس اذیت میں ہو اُس کی پوری پوری ذمےدار میں بھی ہوں مُجھے معاف کردو بیٹا..."
وُہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولی وہ شروع سے اُسے چندا بیٹا کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی وُہ اُس سے چھ سال بڑی تھی چوبیس سال کی اور وہی تھی ہمیشہ اُس کی ڈھال بننے والی...
"آپی ایسے نہیں کہیں آپ نے تو ہمیشہ مُجھے بہت محبت اور مان دیا ہے.."
وُہ اُس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو کھول کر بولی...
"میں اب تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی بس بہت ہوگیا مگر اب اور نہیں تُم میرے باپ کی اولاد تمہاری رگوں میں بھی وہی خون دوڑ رہا ہے جو کہ میری رگوں میں جانتی ہوں میں نے بہت بہت دیر کردی ہے مگر اب میں تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گی.."
وُہ مصمم بولی...
"پر چندا ابھی تھوڑا برداشت کرو ایسے تمہیں تکلیف تو ہوگی مگر جلدی ٹھیک ہوگی نا بیٹا.."
وُہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے بولی.
"زبیر بھی آئیں گے تُم سے مِلنے وُہ کل ہسپتال بھی آئے تھے مگر تب تُم بے ہوش تھی.."
وُہ اُسے باتوں میں لگا رہی تھی تاکہ اُس کا دھیان بٹ جائے..
زبیر نادیہ کا شوہر تھا اُن دونوں کا نکاح ہوچکا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی...
"میں نے بولا تھا اُنہیں کے آتے ہوئے تمہارے لیے حاجی کی ربڑی بھی لے آئیں تُمہیں پسند ہے نا بہت پتا ہے تمہیں جب تُم چھوٹی تھی تو ایک دفعہ پاپا ربڑی کا دو کلو کا ڈبہ لائے تھے میں نے نہیں کھائی تھی بعد کے لیے رکھ دی تھی مگر پھر بعد میں پتا چلا وُہ تو ہماری نور کے پیٹ میں جاچکی تھی.."
وُہ ہلکے سے ہنس کر بولی تو نور بھی مسکرا دی...
"لو جی تمہارے بھائی کا میسج بھی آگیا پوچھ رہے ہیں اور کُچھ لانا ہے نور کے لیے.."
اُس نے میسج پڑھ کر اُسے سُنایا...
"تو بتاؤ بیٹا جی کُچھ اور منگواؤں اپنے بیٹے کے لئے.."
نور کو احساس بھی نہیں ہو رہا تھا وہ آئس بیگ آہستہ آہستہ اُس کی پسلیوں پر پھیر رہی تھی...
"آہ..." وُہ یکدم کراہی...
"بس بس ہوگیا دیکھو پتا بھی نہیں چلا لو یہ پین کلرز بھی لے لو درد کم ہوجائے گا مزید میں نے آفس سے دس دِن کی چھٹی لی ہے تب تک تُم مزید بہتر ہوجاؤ گی اور میں تمہیں کم از کم اِس حالت میں اِن لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر آفس نہیں جاسکتی.."
اُس نے دو گولیاں اور پانی کا گلاس اُسے تھمایا اور اُسے بیٹھنے میں مدد دی..
"آپ نے بلا وجہ تکلیف کی آپی میں ٹھیک ہوجاؤں گی.."
"ہاں تو میں بھی وہی کہہ رہی ہوں انشاءاللہ تُم بہت جلدی ٹھیک ہوجاؤ گی.."
اُس نے رسان سے کہتے ہوئے کمبل اُس پر برابر کیا..
"چلو اب سوجاؤ تھوڑی دیر زبیر بھی شام تک ہی آئیں گے میں جب تک ذرا امی سے نپٹ لوں جو واویلا مچا رکھا اُنہوں نے.."
اُس نے لائٹ بند کرتے ہوئے پردے برابر کیے اور دروازہ بند کرتی باہر آگئی...
_________________________________________________
علی شدید کبیدہ خاطر نظر آرہا تھا اُس کے چہرہ غصّے کے مارے لال ہورہا تھا شفق خاتون نے دیکھ لیا تھا کہ وہ بہت ضبط سے کام لے رہا تھا وُہ دونوں مُٹھیاں سختی سے بھینچے دانتوں کو پیس رہا تھے کان سے ماتھے کی طرف جاتی رگ اُبھری ہوئی تھی اُنہوں نے مکمل بات بتائی بھی نہیں تھی منہاشدہ باتیں بتائیں تھیں..
"میں تُجھے پہلے ہی کہتی تھی ایسی امیر زادیاں صرف دوستیاں کرتی ہیں مگر نہیں اُس وقت تو ماں تُجھے بڑی زہر لگتی تھی آج بھی صرف تیرے کہنے پر میں اُس بدذات کے گھر گئی تھی پھر جو اُس نے اور اُس کی ماں نے میری بے عزتی کی ہے ایسے گراں مایہ لوگ بھلا کیوں ہم جیسے روز کنواں کھودنے والوں کو اپنی بیٹی دیں گے..."
وُہ تقریباً روتے ہوئے بولیں..
"بیٹا دیکھ میں اِسی چیز سے ڈرتی تھی میں جانتی تھی اِس سب کے آخر میں تُجھے ہی دُکھی ہونا ہے.."
وُہ اُس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں علی چُپ چاپ بیٹھا رہا...
"بھائی وُہ اچھی لڑکی نہیں ہے میں نے آپکو پہلے نہیں بتایا تھا مگر میں نے اُسے اکثر سفید رنگ کی کرولا میں ایک لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا ہے..."
فرح نے اُس کے اندر جلتے بھانبڑ کو مزید ہوا دی تھی...
"اور تُم نے کیسے دیکھا اُسے.."
یہ سوال برجستہ تھا دانیال کی طرف سے..
"یونیورسٹی سے آتے ہوئے دیکھا ہے اکثر.."
اُس نے لاپرواہی سے جواب دیا..
"دفع کرو کہاں دیکھا کس نے دیکھا.."
شفق خاتون اس بے مطلب کی بحث سے اُکتا کر سختی سے بولیں تو وہ دونوں چُپ ہوگئے...
"بس علی دیکھ اب اُسے بھول جا میرے بیٹے کو کمی تھوڑی ہے لڑکیوں کی.."
اُنہوں نے بہت نرمی سے کہا تھا...
اُس کے اندر غیض وغضب ٹکرے مار رہا تھا اتنی ذلت اتنی رسوائی کیا محبت واقعی "فضول" ہے یہ ایک سوال اُس کے دماغ میں مسلسل گردش کر رہا تھا..
"محبت وحبت سب بیکار ہے یہ بھی مادیت پرست ہے اُس ہی کی دسترس میں آتی ہے جو ثروت مند ہو دِل کے تونگر ہونے سے اِس کا کوئی واسطہ ہی نہیں محبت کو ظاہری دولت سے نتھی کردیا گیا ہے دل کی وسعت کسی کام کی نہیں ہوتی..."
آج جواب مِل گیا تھا اُسے...
"ہاں نہیں تو اور کیا میرا بھائی کروڑوں میں ایک ہے وُہ عجیب سی سوٹ بھی نہیں کرتی تھی کہاں میرا بھائی اتنا ہینڈسم کہاں وُہ آٹے کی بوری..."
فرح نے محبت بھرے انداز میں کہا...
"ہاں نہیں تو اور کیا.."
نمرہ نے جھٹ اُس کی تائید کی..
"بس میں اب کل ہی جاکر نور کا رشتہ مانگ لوں گی علی کے لیے خیر سے نوکری بھی لگ گئی ہے اب تو اور فرح کو بھی دیکھنے آج لڑکے والے آئیں گے اگر بات بن گئی تو فرح اور تیری ساتھ شادی کردوں گی..."
وُہ اُسے آگے کے منصوبوں سے آگاہ کر رہی تھیں مگر اُس کا ذہن
بس اُن لفظوں میں اُلجھا ہوا تھا جو شفق خاتون نے حرف بہ حرف اُسے بتائے تھے جو زونيہ نے اُس کے لیے کہے تھے...
"امی میں تو اُسے جانتی تک نہیں ہوں ہاں البتہ معذرت کے ساتھ آنٹی آپکا بیٹا مجھے گلے میں آتے جاتے تنگ کرتا ہے اور پتا نہیں کہاں سے اُس کے پاس میرا نمبر آگیا تو مجھے میسجز کالز کرتا رہتا ہے میں تو اُس سے تنگ ہوں بہت بار اُس نے مُجھ سے پیسے بھی مانگے یہ کہہ کر وُہ میرے گھر آکر میرے ابو اور بھائی سے جھوٹ کہے گا کہ ہم دونوں کے بیچ کوئی رشتہ ہے..."
واقعی اُس کا دِل بہت دُکھا تھا بہت ٹھیس پہنچی تھی اُسے مگر وُہ اپنے ہر احساس کو چھپانے کا ہُنر اچھے سے جانتا تھا..
"پر اماں نور تو بھائی سے بہت چھوٹی ہے میرے خیال سے سترہ اٹھارہ کی ہوگی اور بھائی اٹھائیس کے ہیں دس سال کا فرق بہت ہوتا ہے..."
دانیال نے خدشہ ظاہر کیا..
"کوئی نہیں میں تیرے ابا سے گیارہ سال چھوٹی تھی شادی کے وقت.."
اُنہوں نے فوراً کہا...
"وُہ زمانہ اور تھا امّاں جان.."
دانیال نے اُن کی بات کی تردید کی...
علی سے مزید وہاں نہیں بیٹھا گیا وُہ اُٹھ کر چلا گیا..
"امّاں بھائی بہت اُداس ہیں.."
فرح نے تاسف سے کہا۔۔۔
"وقتی ہے سب بیوی آئے گی تو سب بھول جائے گا اور اچھا ہی ہوا اِس زونيہ کا قصہ ختم ہوا ورنہ مُجھے اپنے بیٹے سے ہاتھ دھونا پڑتا..."
وُہ اطمینان سے بولیں..
"کیا مطلب..؟"
دانیال نے نا سمجھی کی کیفیت میں پوچھا..
"مطلب صاف ہے اگر کو بالفرض اُس نواب زادی کی شادی علی سے ہوجاتی تو تُم لوگوں کو کیا لگتا ہے وُہ اس گھر میں ہمارے ساتھ رہتی کبھی نہیں وُہ شادی سے پہلے ہی علی سے الگ گھر کا مطالبہ کرتی اور جتنا تخيط یہ لڑکا اُس کے پیچھے ہے نا یہ وُہ بھی کر گزرتا جبکہ اِس کے بر عکس نور ایک سادہ لوح چُپ چاپ رہنے والی بونگی سی لڑکی ہے وُہ کیا اِس کے سامنے زبان کھولے گی اور یہ ٹھہرا زونيہ کی محبت کا اسیر نور کو کبھی وُہ مقام دے گا نہیں اور وُہ بیچاری تو ویسے ہی حالات کی ستائی ہوئی ہے اتنے کو ہی پورا جان لے گی کہ عزت کی روٹی مِل جائے اور گھر...."
اُنہوں نے دور اندیشی سے کہا...
"واہ امّاں آپ نے تو بہت دور کی سوچ رکھی ہے.."
دانیال،نمرہ اور فرح دونوں ایک ساتھ بولے...
"رکھنی پڑتی ہے بیٹوں کی ماؤں کو رکھنی پڑتی ہے..."
ا اُنہوں نے پان منہ میں رکھتے ہوئی رسان سے کہا....
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro