حصہ سوم
#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۶ (2nd last episode)
(حصہ سوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
علی چُپ چاپ چلتا ہوا اُس کے ساتھ بیڈ پر سامنے کی طرف بیٹھ گیا...
نور نے نہ آنکھیں کھولیں نا ہی رُخ بدلا ایسے ہی لیٹی رہی...
کافی دیر تک وُہ یونہی اُسے دیکھتے رہا نہ نور کے چہرے کے تاثرات میں کوئی فرق آیا نہ علی کی نظروں میں ایسا نہیں تھا وُہ خود کو تکتی اُس کی نظروں سے انجان تھی مگر وُہ کُچھ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی...
علی نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تب بھی وہ یونہی لیٹی رہی جیسے بے جان ہو..
"میں جانتا ہوں تُم جاگ رہی ہو..."
علی کی آواز اُسے اپنے بہت قریب سنائی دی....
"نور نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں تو اب وُہ اُس کے برابر میں بیٹھا ہوا اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہا تھا آنکھیں مستقل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے چہرے پر ٹکی تھیں...
"کیسی ہو..؟"
"ٹھیک ہوں..."
نور نے بے تاثر لہجے میں مختصر جواب دیا...
"تُم نے مُجھے بِلکُل ڈرا دیا تھا نورِ علی..."
علی نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"حیرت ہے مُجھے یہ ڈر میرے مرنے کا تھا یا اپنی اولاد کے.."
وُہ طنزیہ انداز میں بولی...
"میرے لیے سب سے اہم تُم ہو کیونکہ تُم ہو تو سب ہے ورنہ کُچھ نہیں اللہ نہ کرے اگر ہمارے بچے کو کُچھ ہوجاتا..."
"چُپ ہوجائیں ایسا بولیں بھی مت میں ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتی..."
اُس نے بے اختیار علی کو ٹوک دیا...
"پھر مت کرو ایسی باتیں مُجھے تکلیف ہوتی ہے نور تمہاری بے اعتبار نظریں مُجھے گھائل کر رہی ہیں ہم نے اتنا وقت ساتھ گزار لیا ہے ایک دوسرے کو اچھے سے جان چُکے ہیں اپنے دِل سے بتاؤ کیا تُمہیں سچ میں لگتا ہے کہ میں تمہیں دھوکہ دے سکتا ہوں تمہارے ساتھ بیوفائی کرسکتا ہوں..."
علی نے پُر اُمید نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا...
نور چُپ رہی...
"تُم فضہ سے پوچھ سکتی ہو جس دِن اُس کا آخری دِن تھا آفس میں اُس ہی دِن اُس کی کال آئی تھی مگر میں..."
"اُسی دِن آپ نے مُجھ پر ہاتھ بھی اُٹھایا تھا علی شادی کے پانچویں دِن وُہ آپ سے ٹکرائی تو آپ نے مجھے میرے میکے والوں کے سامنے شرمندہ کیا جب اُس کی کال آئی تو آپ نے مُجھ پر ہاتھ اُٹھایا ہر بار ہی تو آپ نے اپنی ناکام محبت کا بدلہ مُجھ سے لیا ہے کیوں یقین کروں میں آپکا...."
وُہ اُس کی بات کاٹ کر درشتی سے بولی...
"وُہ پہلے کی بات تھی تب میں تُمہیں نہیں جانتا تھا اور تُم پر ہاتھ اُٹھانے جیسی گھٹیا حرکت کے لئے میں آج بھی شرمندہ ہوں۔۔"
وُہ فوراً بولا ۔۔
"آپ ابھی بھی نہیں جانتے مُجھے..."
وُہ اُس کا ہاتھ ہٹا کر بولی...
"وُہ مُجھے دھمکیاں دے رہی تھی کہ اگر میں نے اُس سے شادی نہیں کی تو وہ گھر آکر میرے بارے میں جھوٹ بولے گی کہ میرے اور اُس کے بیچ تعلقات ہیں اور دیکھو اُس نے وہی کیا تُم نے اُس کی بات کا یقین بھی کرلیا کیسے نور کیسے..؟"
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا...
"میرے پاس یقین نا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر یقین کرنے کی بہت تھیں..."
وُہ بھی اُسی کے انداز میں بولی...
"میری محبت، میری رفاقت کیا یہ وجہ بھی کافی نہیں تھی مُجھے تُم پر بہت مان تھا نور تُم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہارے علاوہ کسی اور کو..."
شدتِ غم کے باعث اُس کا گلا رندھ گیا...
"آپ نے میرا بھروسہ توڑا ہے علی اِس کے لئے میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی..."
وُہ مغموم لہجے میں بولی...
"میں نے کوئی بھروسہ نہیں توڑا میں کل بھی صرف تمہارا تھا آج بھی تمہارا ہوں اور صرف تمہارا ہی رہوں گا اگر توڑا ہے کُچھ تو تُم نے توڑا بہت بے دردی سے میرا مان میں تُم سے ناراض بھی نہیں ہوسکتا اتنا بے بس ہوں پھر بھی تُمہیں مُجھ پر یقین نہیں..."
آزردہ لہجے میں کہتے ہوئے وُہ اُس سے الگ ہوا...
"علی...." نور نے تڑپ کر اُسے پُکارا...
"میں نے کہا ناں میں تُم سے ناراض نہیں ہوسکتا فکر مت کرو یہی ہوں تمہارے پاس مگر ساتھ نہیں کیونکہ میرے قرب سے اب تمہیں گھن آتی ہے... حیران مت ہو تُم نے ہی کہے ہیں یہ الفاظ "گھن"..."
وُہ اُس کی چہرے پر پھیلی حیرت کو دیکھتے ہوئے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور سامنے صوفے پر جاکر لیٹ گیا...
"گھن"..کیا میں نے اتنا گھٹیا لفظ کہاں اِن سے..."
اُسے قطعی یاد نہیں تھا کہ وه غصّے میں اُسّے کیا کیا بول چُکی تھی...
_________________________________________
تین دِن بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اِن تین اُن دونوں کے درمیان پھر ٹھیک سے بات نہ ہوئی نور تو اُسے مخاطب کرتی نہیں تھی علی کُچھ بھی پوچھتا تو ہاں یا ناں میں جواب دے دیتی..
علی مسلسل تین راتوں سے ٹھیک سے نہیں سویا تھا ہر ایک لاکھ اصرار کرنے پر بھی وُہ ایک بار بھی گھر نہیں گیا دانیال سے کپڑے منگوا لیتا تھا نور یہ سب دیکھتے ہوئے بھی چُپ تھی چاہ کر بھی اِس سب کو دکھاوا نہیں کہہ سکتی تھی محبت ماننے پر دماغ راضی نہ تھا...
شفق خاتون روز ہسپتال آتیں اُسے طرح طرح کی ہدایات کرکے جاتیں مگر علی سے کلام نہ کیا نا ہی علی نے ایسی کوئی کوشش کی حتیٰ کہ اُس نے سبحان صاحب سے تک ڈھنگ سے بات نہیں کی صرف نمرہ،دانیال اور عمر تھے جس سے وہ ٹھیک بول لیتا ہوں ہر ایک نے اِس بات کو محسوس کیا تھا کہ نور اور علی کے درمیان کُچھ ٹھیک نہیں ہے عُمر کے پوچھنے پر اُس نے ٹال دیا عُمر نے بھی دوبارہ نہیں پوچھا کیونکہ وُہ سمجھ چکا تھا علی بتانا نہیں چاہتا..
تین دِن بعد ڈاکٹر کی اجازت سے وُہ لوگ نور کو گھر لے آئے وُہ بہت بہتر تھی....
"کیا ہم اب بات کرسکتے ہیں..؟"
سب کے نیچے چلے جانے کے بعد وُہ نور کے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولا..
"کیا بات کرنے کو کُچھ رہ گیا ہے.؟؟"
اُس نے اُلٹا سوال کیا...
"بہت کُچھ ہے نور میں ہاسپٹل میں چُپ ہوگیا صرف اِس لیے کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں میں قصوروار ہوں .."
علی نے سختی سے کہا...
"چور نے کب کہا ہے کہ اُس نے چوری کی ہے.."
نور نے طنز کا تیر اُچھالا...
"تُم اتنی سفاک کیسے ہوسکتی ہو نور مسلسل تُم مُجھے تکلیف پہنچا رہی ہو اپنے لفظوں سے بس کرو میری بات بھی سنو..."
"میں خود نہیں جانتی میں اتنی سفاک کیوں ہوگئی ہوں مگر جب جب میں یہ سوچتی ہوں کہ میرے علی نے میرے علاوہ اِن ہاتھوں سے کسی اور لڑکی کو چھوا ہے تو میرے اندر آگ لگتی ہے آگ میں خود جل رہی ہوں مسلسل میں اپنے شوہر کو نہیں بانٹ سکتی مگر علی آپ نے خود کو بانٹ لیا ہے میں آپکے لیے دُنیا سے لڑ سکتی ہوں مگر آپکے لیے آپ سے ہی نہیں لڑ سکتی..."
اُس نے علی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں سختی سے پکڑتے ہوئے کہا....
"تو میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتی ہو جب میں کہہ رہا ہوں میں نے ایسا کُچھ نہیں کیا ہے جس سے تُمہیں تکلیف پہنچے تو مان لو اِس بات کو..."
"نہیں مان سکتی اُس کے لیے آپکی محبت کی گواہ پچھلے کئی سالوں سے ہوں میں.."
نور نے آواز تیز کی..
"تو کیوں شادی کی مجھ سے پھر جب سب جانتی تھی تمہارے پاس مُجھ سے بہتر رشتے تھے..."
وُہ مرد تھا آخر کہاں تک برادشت کرتا...
"مان لیا آپ نے کہ آپ اُس سے آج بھی محبت کرتے ہیں.."
وُہ نم آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے خود سے بولی...
"چُپ مت رہو بولو کیوں کی پھر مُجھ سے شادی کیوں مُجھ سے محبت کی کیوں مُجھے خود کا عادی بنایا؟ کیوں مُجھے بے بس کیا؟ کیوں مُجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کیا؟ کیوں میری ہر زیادتی پر چُپ رہی؟ کیوں میرے دِل میں بس گئی ہی؟ کیوں مُجھے اپنی محبت میں پاگل کیا؟ کیوں مُجھے اتنا مجبور کیا کہ میں تُم سے ناراض تک نہیں ہوسکتا؟؟ آخر کیوں کیوں کیوں؟؟؟"
وُہ بُری طرح چلاتے ہوئے بولا..
"آپ جھوٹے ہیں کوئی محبت نہیں کرتے آپ مُجھ سے..."
وُہ اب تک اڑی رہی..
"ہاں نہیں کرتا تُم سے محبت یہی سننا چاہتی ہو تُم تو سُن لو تم اِس لائق ہی نہیں کہ تُم سے کوئی محبت کرے تُم ایک پاگل لڑکی ہو جسے صرف اِس بات سے فرق پڑتا تھا کہ تُم کیا سوچتی ہو سامنے والا پاگل ہے تمہاری نظر میں نہیں چاہئے مُجھے تمہاری بے اعتبار محبت سنبھال کر اپنے پاس رکھو اسے..."
وُہ اُسے حقیقت کا آئینہ دکھا رہا تھا...
"بھاڑ میں جاؤ تُم.."
وُہ غصّے میں کہتا ہوا کمرے سے نکل کر چھت پر آگیا....
"کیا ہوگیا ہے مُجھے وُہ کم عقل ہے میں تو نہیں کیا بول کر آیا ہوں اُسے تف ہے تُجھ پر علی مرا جارہا ہے اُس کی محبت میں اور اُسے ہی کہہ کر آیا ہے کہ وُہ اس لائق نہیں کوئی اُس سے محبت کرے.."
اُسے فوراً ہی اپنے لفظوں کی زیادتی کا احساس ہوا..
"اُس نے بھی تو کتنا کُچھ کہا ہے مُجھے..."
کہیں اندر سے آواز آئی...
"محبت میں بدلہ تو نہیں ہوتا..."
دِل نے صدا دی...
"زونیہ تُم نے میری ہنستی مسکراتی زندگی برباد کردی ہے تمہیں میری نور کے ہر ایک آنسو کا حساب دینا ہوگا اور میں اب مزید اِس پاگل لڑکی کو خود سے بدگمان نہیں رکھ سکتا مُجھے صاف لفظوں میں اُسے بتانا ہوگا کہ میں صرف اُس سے محبت کرتا ہوں..."
علی نے لمحے میں فیصلہ کیا اور اندر جانے لگا تب ہی اندر سے کُچھ ٹوٹنے کی آواز آئی...
"تُم اِس لائق ہی نہیں ہو کہ کوئی تُم سے محبت کرے..."
علی کے الفاظ نور کے کانوں میں سیسے کی مانند اُترے تھے اُس کا خود پر اختیار کھو رہا تھا اپنی اِس حالت پر وُہ خود حیران تھی...
"مُجھے نہیں فرق پڑتا کوئی مُجھ سے محبت کرے یا نہیں مگر مُجھے صرف آپکی محبت چاہیے صرف آپکی کیونکہ وُہ میری ہے صرف میری.."
جنونی انداز میں خود سے کہتے ہوئے اُس نے پاس پڑا گلاس اُٹھا کر فرش پر پھینک دیا پھر جگ اُٹھا کر پھینکا جس سے دروازے سے اندر داخل ہوتا علی بمشکل بچا...
"نور پاگل ہوگئی ہو کیا چھوڑو اِسے..."
علی نے سرعت سے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھوں سے گلدان لے کر واپس رکھا....
"چھوڑیں مُجھے میں تو اِس لائق ہی نہیں ہوں کوئی مُجھ سے محبت کرے تو چلے جائیں چلے جائیں.."
وُہ بُری طرح چلائی...
"میری بات سنو نور.."
"مُجھے کُچھ نہیں سننا..."
وُہ اُس کے جھٹک کر بولی...
"تُمہیں میری بات سننی ہوگی بہت ہوگئی تمہاری من مانی.."
علی نے اُس کے دونوں بازوؤں پر زور ڈالتے ہوئے کہا...
"چھوڑیں مُجھے علی.."
"نہیں چھوڑتا کرلو جو کرنا ہے.."
وُہ ڈھیٹ ہوا...
"بس یہی تو آتا ہے آپکو ضد کرنا زور زبردستی کرنا.."
وُہ بے بس ہوکر بولی...
"تُمہیں مُجھ پر ذرا بھروسہ نہیں ہے نور کوئی کُچھ بھی آکر کہے گا اور تُم سچ مان لو گی.."
علی نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا...
"کیونکہ میں جانتی ہوں.."
"کیا جانتی ہو اور میری طرف دیکھ کر بات کرو بہت زہر پال رکھا ہے تُم اپنے ذہن میں میرے خلاف مگر میں تُمہیں تمہاری بچکانہ سوچ کی وجہ سے مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا بتاؤ کیا جانتی ہو..؟"
علی نے اُس کی تھوڑی کے نیچے اُنگلی رکھ کر چہرہ اونچا کیا...
"آپ اُس سے محبت کرتے ہیں.."
"میں صرف اور صرف تُم سے محبت کرتا ہوں یار بخدا میں نے زندگی میں اگر کسی سے محبت کی ہی تو وُہ صرف تُم ہو میری زندگی کا نور میرے جینے کی وجہ ہو تُم بہت بہت محبت کرتا ہوں تُم سے ہاں اقرار کرنے میں دیر کردی مگر میں تو کب سے تمہارے محبت کا اسیر ہوں میری محبت تُم پر پڑتی ہر نظر کے ساتھ بڑھتی ہے کیوں نہیں دکھتا تُمہیں..."
علی کی اِس بات پر نور نے بے ساختہ اُس کی آنکھوں میں دیکھا سنہری آنکھوں میں اُسے صرف اپنا عکس دکھا....
"جھوٹ.."
وُہ ہارنے لگی تھی..
"میری زندگی کی سب سے خوبصورت سچائی ہے یہ.."
اُس کا لہجہ جذبوں کا آئینہ تھا...
"میں تمہارے سامنے اِس فساد کی جڑ کو کال ملاتا ہوں چُپ رہنا بِلکُل.."
علی نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا اور زونیہ کو کال ملائی...
تیسری بیل پر ہی کال اُٹھا لی گئی...
"زہے نصیب آج تُم نے خود سے مجھے کال کی ورنہ پچھلے چار دنوں سے تُمہیں مسلسل کال کر رہی ہوں مگر تُم اُٹھا ہی نہیں رہے تھے..."
وُہ اپنے مخصوص انداز میں بولی...
"بکواس بند کرو اور صاف صاف بتاؤ تُم نے میری بیوی سے کیا کہا ہے.."
علی نے اُسے ڈپٹ کر کہا...
"وہی جو سچ ہے.."
وُہ ڈھٹائی سے بولی تو نور نے اُس کے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹانے چاہے مگر علی نے اُس کے ہاتھوں کو سختی سے پکڑ لیا اور سرد نظروں سے اُسے گھورا اور پہلی بار اُسے علی سے خوف محسوس ہوا تھا کیونکہ اب تک جس علی سے وُہ واقف تو وہ سراپا محبت تھا مگر یہ کوئی اکھڑ مرد تھا...
"اپنی بکواس بند کرو زونیہ تُم اتنی گھٹیا اور گری ہوئی نکلو گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا مُجھے بھاڑ میں ڈالو اپنی عزت کا تو خیال کرلیتی کُچھ اتنا گندہ جھوٹ بولنے سے پہلے تُمہیں ڈوب کر مرجانا چاہئے تھا.."
نور نے کبھی اُس کو اِس طرح کے الفاظ استعمال کرتے نہیں سُنا تھا آج واقعی وُہ الگ تھا...
"تو سیدھے سیدھے کہہ رہی تھی جب مُجھ سے شادی کرلو تو کرلیتے ورنہ میں نے کہا تھا اتنا بدنام کروں گی تُمہیں کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہو گے تُم زونیہ کو جانتے نہیں ہو ابھی جو چیز مُجھے نہیں ملتی نہ میں اُسّے کسی اور کی بھی نہیں رہنے دیتی شادی تو تُمہیں مُجھ سے کرنی ہی ہوگی..."
وُہ بے شرمی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بے باکی سے بولی...
نور نے بے اختیار علی کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا مگر اُس کو نظروں میں ایسا کچھ تھا جس کی وہ تاب نا لا سکی شرمندہ نظریں جُھکا لیں...
"تُمہاری سوچ ہے ایسا کبھی ہوگا..."
علی نے تند خو لہجے میں کہا...
"ضرور تُمہاری بیوی نے تُم سے سوال کیے ہونگے میرے سامنے تو بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی شوہر پر یقین محبت کے میرے ہیں علی صرف میرے اینڈ آل ہے ناں وہی عام عورت بڑے دعوے کر رہے تھے اُس سے محبت کے "کہ میری بیوی کو مُجھ پر پورا بھروسہ ہے...."
وُہ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولی..
"بہت شکریہ.."
علی نے مزید اُس کی کوئی بکواس سنے بغیر فون بند کردیا اور بغیر کُچھ کہے نور کے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا....
چند لمحے یونہی گزر گئے مگر وُہ چاہ کر بھی اپنی نظریں نہیں اُٹھا سکی علی سے کہا ایک ایک لفظ اُسکی سماعتوں میں گونج رہا تھا اُسے اپنے ہونے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی....
"کُچھ نہیں کہو گی جانم..."
وُہ یہ لہجہ سُننے کی اُمید نہیں رکھتی تھی وُہ تو کچھ سخت جملے سُننے کی منتظر تھی مگر وہ شاید بھول گئی تھی مقابل علی تھا جو اُسے بے پناہ چاہتا تھا...
نور نے اوپر دیکھے بغیر اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے...
"میں معافی کے لائق تو نہیں ہوں مگر مُجھے معاف کردیں علی میں نے آپکو..."
"یہ کیا کر رہی ہو یار.."
علی نے فوراً سے اُس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو کھول کر اُسے اپنے سینے سے لگالیا...
"مُجھے معاف کردیں علی میں نے آپکو کیا کیا نہیں کہا میں نے آپ پر بھروسہ نہیں کیا کسی اور کی باتوں میں آکر میں نے آپکو گنوانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی مُجھے معاف کردیں پلیز..."
"ایسے کیسے تُم مُجھے گنوا دیتی ایک بات یاد رکھنا نور تُم مُجھے مار بھی دو گی تو بھی تُمہیں کچھ نہیں کہوں گا بہت محبت کرتا ہوں تُم سے بس یقین رکھنا مُجھ پر ہمیشہ میں تمہاری ناراضگی برداشت نہیں کرسکتا میری جان.."
علی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے کہا...
"غلطی میری بھی تھی مُجھے تُم سے چھپانا نہیں چاہئے تھا جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا کیونکہ جھوٹ بذاتِ خود ایک بڑی کثافت ہے اِس سے دِل آلوده ہوتے ہیں روحیں آلودہ ہوتی ہیں اور آلودہ روحیں پورا ماحول آلودہ کرتی ہیں..".
"میری غلطی اتنی چھوٹی تو نہیں کہ آپ نے مُجھے یوں معاف کردیا..."
نور نے اُس سے الگ ہوکر کہا...
"معافی وہاں ہوتی ہے جہاں ناراضگی ہو اور میں نے تُم سے کہا تھا میں تُم سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتا..."
علی نے اُس آنکھیں نرمی سے صاف کرتے ہوئے کہا...
"پھر کیوں کہا تھا میں محبت کے لائق نہیں.."
وُہ اُس کے کندھے سے سر ٹکاتے ہوئے نروٹھے پن سے بولی...
"ابے یار اب تُم ہوجاؤ میرے بدلے کا ناراض میرا تو کام ہی ہے اپنی نورِ حیات کو منانا.."
وُہ بیچارگی سے بولا تو نور بے ساختہ ہنس دی...
"میں ہر وقت تُم سے اُٹھتے بیٹھتے اظہارِ محبت نہیں کرسکتا نور تُمہیں خود سمجھنا ہوگا ہر بات کہی تو نہیں جاتی ناں یار.."
علی نے اُس کے ہاتھ پر اُنگلی پھیرتے ہوئے کہا...
"نہیں کریں اظہار میں تو جان گئی ہوں ناں بس کافی ہے.."
اُس نے ہموار لہجے میں کہا...
"اپنا فون گھر پر چھوڑ کر جائیں گے آپ کل فیکٹری.."
نور نے فیصلہ سنایا...
"کیوں..؟"
"سوال نہیں کریں بھروسہ رکھیں مُجھ پر بس کُچھ حساب پورے کرنے ہیں ایسے اتنی آسانی سے تو میں چھوڑوں گی نہیں..."
نور نے ہموار لہجے میں کہا...
"نہیں پوچھتا اور بھروسہ تو خود سے بھی زیادہ ہے تُم پر.."
علی نے متانت سے کہا تو وہ مزید اُس میں سمٹ گئی...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro