Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

(حصہ دوم)

#محبت_ہوگئی_آخر
قسط نمبر ۴۶ (2nd last episode)
(حصہ دوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"اب کیوں منہ لٹکایا ہوا ہے تُو نے.."
عُمر نے خاموش بیٹھے علی سے کہا...
علی چُپ رہا ...
"بھابھی کو ہوش آگیا ہے جاکر مِل..."
عُمر نے اُسے ہلاتے ہوئے کہا...
"ہمت نہیں میری اُس کا سامنہ کرنے کی.."
وُہ یاس زدگی سے بولا...
"کیوں ہمت نہیں تُو نے کیا کِیا ہے ایسا..."
"مگر وُہ تو مجھے غلط مانتی ہے مُجھ سے نفرت کرتی ہے اور میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے میں اُسّے اپنی بے گناہی کا یقین دلا سکوں میں بُری طرح پھنس چکا ہوں اُسے تکلیف نہ دینے کی شعوری کوشش میں لا شعوری طور پر اُسے اذیت میں مبتلا کرچکا ہوں وُہ مُجھے چھوڑ کر جاتے جاتے واپس آئی ہے صرف میرے جھوٹ کی وجہ سے جو میں نے ہرگز بھی کسی غلط ارادے سے نہیں بولا تھا...."
وُہ خود کو ملامت کر رہا تھا مُسلسل....
"کیا تیرا واقعی زونیہ کے ساتھ کوئی تعلق تھا ایسا..؟"
"کیا بکواس کر رہا ہے.."
علی نے بے اختیار اُسّے ڈانٹ دیا...
"پھر کس لیے ملامت کر رہا ہے خود کو تُو نے کُچھ غلط نہیں کیا بات چھپائی مگر اُن کے بھلے کے لئے ہی ناں تو  اُنہیں سمجھا پیار سے غصّے میں اِنسان ویسے ہی اندھا ہوجاتا ہے اُسے خود نہیں پتا ہوتا وُہ کیا کیا بول رہا ہوتا ہے..."
عُمر نے اُس کی پیٹھ تھپتھاتے ہوئے اُسے حوصلہ دیا...
"یار تُو نہیں جانتا جب اُسے غصّہ آتا ہے تو اُس پر جیسے کوئی جن آجاتا ہے مجھے تو اُس کے غصّے سے بڑا ڈر لگتا ہے..."
علی نے جھرجھری لے کر سے کہا تو عُمر کی ہنسی نکل گئی...
"کتنا ڈرپوک ہے تُو.."
"ایسی بات نہیں ہے بس جہاں میرا معاملہ ہو تو وہ بِلکُل پاگل ہوجاتی ہے اور پھر میرا ڈرنا تو لازم ہے.."
"چچ چچ چچ...."
عُمر نے مضحکہ اُڑایا...
"اچھا بس زیادہ پھیل مت .."
علی بُرا سامنہ بناکر بولا...
"اچھا اب تُو بھی گھر جا رات بہت ہوگئی ہے.."
علی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"نہیں میں تیرے ساتھ ہی رُکوں گا اور بشریٰ بھی بھابھی کے پاس ہی رُکنا چاہتی ہے..."
عُمر نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اُس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا..
"اگر تُم لوگ یہاں رہو گے تو میں کیسے نور سے بات کر پاؤں گا یار.."
علی نے سختی سے بولا..
"اچھا اچھا غصّہ تو نہ کر میں بھول گیا تھا بلکل فکر نہ کر میں نکلتا ہوں اپنی والی کو لے کر اوراگر..."
"اگر کسی بھی چیز کو ضرورت ہوئی یا کوئی مسئلہ ہوا تو وقت کی فکر کیے بغیر تُجھے کال کروں یہی کہنا چاہتا ہے ناں..؟"
علی نے اُس کی بات کاٹ کر خود مکمل کرتے ہوئے ابرو اُچکا کر کہا تو عُمر مسکرا دیا...
"کیسی ہیں بھابھی آپ.؟؟"
عمر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا...
"ٹھیک ہوں بلکل.."
دزدیدہ نظر علی پر ڈالتے ہوئے جواب دیا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا...
"تُمہیں اپنا بہت خیال رکھنا ہے نور ڈاکٹرز نے کہا ہے تُم نے کسی بات کا اسٹریس لیا ہوا ہے تمہاری صحت بھی دن بہ دن گر رہی ہے اور پھر پورا دِن تُم اکیلی گرمی میں ہوتی ہو علی بھائی اب سے روز صبح فیکٹری جانے سے پہلے آپ نور کو ہمارے طرف چھوڑ دیجئے گا اور شام میں فیکٹری سے آتے وقت پک کرلیجئے گا.."
وُہ بیک وقت نور اور علی دونوں  سے مخاطب تھی..
علی محض سر ہلا کر رہ گیا...
"چلو بشریٰ بھابھی کو آرام کرنے دو ہم گھر چلتے ہیں صبح پھر آجائیں گے.."
"میں نور کے پاس رُکنا چاہتی ہوں بلکہ تُم ایک کام کرو علی بھائی کو لے کر گھر چلے جاؤ وُہ بھی تھوڑا آرام کرلیں گے کب سے ایک ٹانگ پر کھڑے ہیں ادھر بھاگ رہے اُدھر بھاگ رہے.."
بشریٰ نے ہمدردی سے کہا...
"نہیں میں ٹھیک ہوں بالکل بھابھی آپ پریشان مت ہوں آپ گھر جاکر آرام کریں ویسے بھی اللہ نہ کرے کوئی ایمرجنسی وغیرہ ہوگئی تو آپ کہاں بھاگ دوڑ کریں گی اِس لیے میرا رُکنا ضروری ہے..."
علی نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے متانت سے کہا...
"ٹھیک کہہ رہی ہے بشریٰ کوئی ایمرجنسی نہیں ہوگی میں ٹھیک ہوں بلکل آپ اِنہیں لے کر گھر چلے جائیں عُمر بھائی.."
اُس نے علی کی طرف دیکھے بغیر عُمر سے کہا علی نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں...
"تُم تو چلو کل آجائیں گے ناں جہاں بیٹھ جاؤ تو اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتی.."
عُمر نے جھنجھلا کر بشریٰ سے کہا..
"عُمر بھائی رُکنے..."
"تُم اپنا منہ بند کرکے بیٹھو میں رُک رہا ہوں یہ بات طے ہے اب ایک لفظ نہ سنوں تمہارے منہ سے.."
اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تنبیہی لہجے میں نور سے گویا ہوا...
"علی آرام سے .."
عمر نے ہلکی آواز میں سرزنش کی...
"میرے خیال میں تُم ٹھیک کہہ رہے ہو عُمر ہمیں چلنا چاہیے ٹھیک ہے نور میں صبح آؤں گی اپنا بہت خیال رکھنا..."
بشریٰ نے عُمر کی آنکھ کے اشارے کو سمجھ کر فوراً کہا..
چار نا چار نور کو چُپ ہونا پڑا...
"چل ٹھیک ہے علی ہم نکلتے ہیں ٹھیک ہے بھابھی خیال رکھنے کا نہیں بولوں گا وُہ تو یہ ا لمبو اچھے سے رکھ لے گا آپکا.."
عُمر نے علی کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ دبائی..
"اور ہاں ذرا نرمی سے غلطی تیری ہے بھابھی کی نہیں جو چوڑا بھی تُو خود ہورہاہے..."
عمر نے باہر نکلتے نکلتے نصیحت کی جس پر علی نے طنزیہ دانت نکوسے...
"کیا ضرورت تھی تُمہیں بیچ میں بولنے کی میں رُک جاتی ناں نور کے پاس..."
بشریٰ نے غصّے سے کہا...
"کیوں کوئی تمغہ ملنا تھا تُمہیں.."
عُمر نے اُسے تپانے کی خاطر کہا...
"مگر میں رُکنا چاہتی تھی عُمر..."
"کوئی ضرورت نہیں بھابھی کا شوہر ہے اُن کے ساتھ اور میرا نہیں خیال کہ اُس سے بہتر کوئی اور دیکھ بھال کرسکتا ہے اُن کی کُچھ ناراضگی بھی ہے دونوں میں اسی لیے میں نے تُمہیں ساتھ چلنے پر زور دیا ورنہ ہمارے سامنے کیا بات کرتے دونوں  پاگل لڑکی.."
عُمر نے ہلکی سی چپت اُس کے سر پر لگاتے ہوئے کہا تو اُس نے ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے سے انداز میں سکیڑ کر "اُوه" کہا...
"پہلے بتاتے ناں پھر تُم میں بلاوجہ کباب میں ہڈی بننے پر تُلی ہوئی تھی..."
بشریٰ نے اُس کا بازو پکڑ کر چلتے ہوئے کہا...
"عُمر ہمارے زندگی میں بھی خوشیاں پھر آئیں گی ناں؟ پتا ہے جب میں نے سنا کہ نور کے بچے کو بھی خطرہ ہے میری آنکھوں کے سامنے انس کا چہرہ گھوم رہا تھا میں نہیں چاہتی کسی ماں کی کوکھ اُجڑے کیونکہ میں اِس درد سے تین بار گزر چُکی ہوں ایک بات گود اُجڑی دو بار کوکھ اب میں ڈرتی ہوں..."
بشریٰ کی آواز میں کپکپاہٹ واضح تھی عُمر نے پارکنگ ایریا میں رُک کر اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا..
"تُم مُجھے یقین دلاتی ہو اللہ سب ٹھیک کرے گا حالانکہ میں نہیں مانتا تھا مگر اب میں ماننا چاہتا ہوں میں یہ یقین کرنا چاہتا ہوں ہماری زندگی میں بہت جلد خوشیاں آئیں گی وُہ ہمیں ہمارے صبر کا صلہ ضرور دے گا بس غم نہ کرو خوش رہو.."
عمر نے نرمی سے اُس کی آنکھیں صاف کیں..
"اب گھر چلو یہ پاکستان ہے میری جان یہاں کھلم کھلا ایسے سین ممنوع ہے.."
عُمر کے شرارتی انداز پر وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرادی...
"تمہارا کوئی حال نہیں.."
بشریٰ نے اُس کے پیچھے بیٹھتے ہوئے کہا...
"شکریہ مادام..." اُس نے حق سے تعریف وصول کی...

_________________________________________

"آگئے اپنی چہیتی کی مزاج پرسی کرکے ناٹک تو ایسے مچایا ہوا تھا جیسے اب مری تب مری..."
تانیہ نے دانیال کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر چیخ کر کہا...
"مُجھے صبر دے اللہ.."
اُس نے خود سے کہا  اور اُسے نظرانداز کرتا ہوا واشروم میں چلا گیا...
کچھ دیر بعد جب وہ باہر آیا تو وہ ابھی میں تک تیار بیٹھی تھی...
"اب میری بات کی جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے آپ.."
وُہ دوبارہ شروع ہوگئی...
"کوئی سمجھ آنے والی بات کرو تو جواب بھی دوں گا تمہاری اِن گھٹیا باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے.."
سخت لہجے میں کہتا ہوا وُہ باہر جانے لگا تب ہی دروازے پر دستک ہوئی..
"بھائی سحری کرلیں آکر.."
دروازے پر نمرہ تھی...
"مُجھے بھوک نہیں ہے بیٹا.."
اُس نے سہولت سے انکار کیا...
"ابھی کیسے نمبر بڑھوانے آگئی ورنہ تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی.."
تانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے نمرہ کو گھورا...
"تُم جاؤ امی کو بول دو مُجھے بھوک نہیں ہے.."
اُس نے نمرہ کی ناگواری دیکھتے ہوئے کہا وُہ نہیں چاہتا تھا کوئی بدمزگی ہو...
"تانیہ میرا صبر مت آزماؤ ورنہ تُم اپنا نقصان کر بیٹھو گی اور میں یہ نہیں چاہتا..."
دانیال نے اُسے نرمی سے سمجھانا چاہا مگر ناکام رہا...
"آپ کیا چاہتے ہیں میں اچھے سے جانتی ہوں شرم تو نہیں آتی آپکو اپنی ہی بھابھی کے ساتھ..."
وُہ بدتمیزی کی حد کرتے ہوئے بولی...
"منہ بند کرو اپنا.."دانیال نے اُس کا جبڑا اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں لے کر تنفر سے کہا...
"کیا دیکھ لیا ہے تُم نے ایسا جو مسلسل مُجھ پر اور اُن پر اِلزام لگا رہی ہو بتا ہی دو مُجھے آج تُم..."
"کیا کرنے جاتے تھے اُس کے شوہر کی غیر موجودگی میں اُوپر کیوں پیسے دے رہے تھے اُس کو ہر چیز میں اُس کی حمایت وُہ کوئی خُدا ہے جس کی شان میں گستاخی ہوگئی تو معافی مانگنے چلے گئے تھے.. اُس کی وجہ سے مُجھ پر ہاتھ اٹھایا آپ نے پتا نہیں کیا جادو کیا ہے اُس..."
تانیہ کی زبان مسلسل زہر اُگل رہی تھی....
دانیال نے جھٹکے سے اُسے چھوڑا اور غصّے میں کمرے سے باہر نکل گیا...
"کیا عذاب میرے گلے ڈال دیا ہے آپ نے اتنی گندی زبان ہے اِس کی مُجھے خود سے شرم آتی ہے .."
لاؤنج میں داخل ہوکر وُہ شفق خاتون پر برسا...
"کہنے کو آپ علی بھائی سے نفرت کرتی ہیں مگر صحیح نفرت تو مُجھ سے نبھائی اِس لڑکی کو میری زندگی میں لاکر.."
دانیال چیختے ہوئے بولا...
"آہستہ بات کرو دانیال ماں ہے تمہاری..."
سبحان صاحب نے اُسے ٹوکا...
"زندگی برباد کرکے رکھ دی ہے میری انہوں نے یہ تانیہ ایسی ہڈی ہے اُسے نہ نگلا جاسکتا ہے نا اُگلہ جاسکتا ہے امی کو اپنی  بہن کی جو فکر ہے ساری عمر انہوں نے ہمیں اپنی اُنگلیوں پر نچایا ہے پتا نہیں کس بات کی بھڑاس نکالتی رہی ہیں ہم پر... آپکی اولاد ہونے کی بہت بڑی قیمت چُکا رہا ہوں میں امی لاکھ کہتا رہا مُجھے نہیں کرنی اِس سے شادی مگر آپ نے تب قسمیں دیں اپنی اِموشنل بلیک میلنگ اب دیکھیں اپنی ضد کا نتیجہ یہ رشتہ کسی بھی وقت ٹوٹ جائے گا کیونکہ میں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا ایسی لڑکی کو مگر آپ خوش رہیں ہم سب کو برباد کرکے خوش ہی تو ہیں آپ..."
وُہ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے زہر خنداں لہجے میں بولا..
"ساری تمیز لحاظ سب بھول گئے ہو ایسے بات کرتے ہیں ماں سے..."
سبحان صاحب نے اُسے پیچھے دھکا دیا ورنہ وُہ اُن کے سر کو آرہا تھا...
"ماں ایسی خود غرض ہستی کا نام نہیں ہے جس کے لیے صرف اپنی ذات اہم ہو جو صرف اپنے بارے میں سوچتی ہوں انہوں نے پہلی آپکی زندگی کو اپنی مرضی سے چلایا ابو اب ہماری زندگیوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں اِنہیں بس اپنی پڑی ہے مگر ایک بات میری سُن لیں اِس بار نہ تو میں خالہ کا لحاظ کروں گا نہ آپکا
طلاق دے کر اُسے گھر سے نکالوں گا کیونکہ میں بھائی نہیں ہوں جو آپکے ہر اچھے بُرے فیصلے کو آپکی خوشی کی خاطر نبھائے وُہ تو اُن کی قسمت اچھی تھی جو اُنہیں نور بھابھی جیسی بیوی مِل گئی ورنہ آپ نے تو کسر باقی نہیں رکھی تھی اُنہیں ساری عمر کے لئے عذاب میں رکھنے کی یاد ہے ناں آپکو کیا کہتی تھیں آپ "بھائی کبھی نور کو وُہ عزت نہیں دے گا کیونکہ وُہ زونیہ کی محبت کے اسیر ہیں اور نور حالات کی ستائی ہوئی اتنے کو ہی پورا جان لے گی یوں وُہ دونوں ایک ان چاہی زندگی گزاریں گے اور آپکا بیٹا آپکے ہاتھوں میں رہے گا مگر دیکھیں جس بیٹے کے لئے آپ نے اپنی تئیں میں خسارے کا انتخاب کیا تھا وُہ بہت خوش ہے اور میں...."
دانیال کا انداز متاسفانہ تھا ایک سُلگتی نگاہ اُن پر ڈال کر وُہ گھر سے باہر نکل گیا شفق خاتون چُپ کھڑی اُس کے منہ سے نکلے شعلوں کی زد میں تھی وُہ بُری طرح جل رہی تھیں اپنی ہی آگ میں چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھیں وُہ دانیال سے کہ اُس کے لیے اُنہوں نے ہمیشہ سب سے اچھا سوچا بے غرض ہوکر سوچا مگر الفاظ زبان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام تھے اُنہیں آج کسی اور نے نہیں اُن کی ہی چہیتی اولاد نے توڑا تھا سماعتوں سے ایک بازگشت اعادہ تھی...
"علی کبھی نور کو وُہ عزت نہیں دے گا کیونکہ وُہ زونیہ کی محبت کا اسیر ہے اور نور حالات کی ستائی ہوئی اتنے کو ہی پورا جان لے گی یوں وُہ دونوں ایک ان چاہی زندگی گزاریں گے..."
جبکہ علی کے جُملے اُنہیں اپنا مضحکہ اُڑاتے محسوس ہونے لگے...
"میں نور کے بغیر نہیں رہ سکتا میں اُسے نہیں کھوسکتا اُس کے علاوہ کوئی نہیں ہے میرا۔۔"
سبحان صاحب نے کُچھ بھی کہے بغیر بس اُن کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...

نوٹ: حصہ سوم رات تک پوسٹ ہوجائے گا انشاءاللہ میں لکھ رہا ہوں ابھی جب تک اِس حصے پر بھرپور رسپانس دیں....

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro