Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

آخری قسط (حصہ دوم)

#محبت_ہوگئی_آخر
آخری قسط
(حصہ دوم)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"اِس بیہودہ لڑکی کی وجہ سے تمہارے اور علی کے بیچ لڑائی ہوئی تھی نور.."
شفق خاتون اور وُہ کمرے میں داخل ہوئے تو پوچھا...
"غلط فہمی ہوگئی تھی امی میری عقل پر پتھر پڑ گئے تھے مُجھے دکھا ہی نہیں کُچھ بھی ذہن ماؤف ہوگیا تھا بلکل..."
اُس نے برقعے کے بٹن کھولتے ہوئے کہا...
"جس سے محبت ہوتی ہے اُسے لے کر اِنسان اتنا ہی جنونی ہوتا ہے ہونا بھی چاہیے اپنے حق کے لئے بولنا چاہئے.."
شفق خاتون نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"ہر رشتے کی اساس اعتبار ہے محبت کو اگر اعتبار کا آب نہ ملے تو وہ مر جاتی ہے
محبت کو بار بار تذلیل ملے تو وہ مرجاتی ہے
نور جسے آپ چاہتے ہوں اُس پر بھروسہ پورا رکھنا چاہیے یہ سوچے بغیر وفا ملے گی یا دغا ہمیں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں رکھنی چاہئے ہر شخص‌ کے نزدیک محبت کی تعریف مختلف ہوتی ہے۔۔۔ جب ہم محبت کو 'رشتوں' سے جوڑتے ہیں تو میرے خیال میں محبت کی بجائے 'خلوص' کو بنیاد کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔جس پر محبت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔۔۔۔
کسی بھی رشتے کے جڑنے میں 'خلوص' بنیاد ہے تو 'تحمل، برداشت ، باہمی تعاون اور سمجھداری' اس کی کامیابی کے ضامن۔۔۔ اور یہی محبت کی عمارت میں اینٹ گارے کا کام دیتے ہیں۔۔۔ اور رشتوں کو برقرار رکھتے ہیں۔۔۔
بے جا انانیت پسندی اور ضد مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈالتے ہیں۔۔"
اُنہوں نے نور کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا...
"میں نے غلطی کی تھی امی مُجھے اعتراف ہے میں ابھی تک شرمندہ ہوں خود سے انہوں نے تو مُجھے معافی مانگنے کا موقع تک دیے بغیر معاف کردیا مگر میں بہت شرمندہ ہوں خود سے جب بھی میں اپنے الفاظ یاد کرتی ہوں مُجھے مرنے کو دِل کرتا ہے مگر انہوں نے مُجھ سے کوئی شکایت نہیں کی زبان بھی حرف تک نہیں لائے اور یہ بات مُجھے اذیت دے رہی ہے..."
نور نے بہتے آنسوؤں کو روکا نہیں...
"میرا علی ایسا ہی ہے جن سے وُہ محبت کرتا ہو اگر وُہ اُسے مار بھی دے تب بھی کُچھ نہیں کہے گا اُس نے صرف محبت کرنا سیکھا ہے نفرت اُسے کبھی نہیں کرنی آئی وُہ کر ہی نہیں سکتا کسی سے نفرت..."
شفق خاتون کے ہونٹ کانپ رہے تھے چہرہ بھیگا ہوا تھا نور حیرت سے اُنہیں دیکھ رہی تھی...
"میں نے جتنی نفرت اُس سے کی ہے اور اُسے ظاہر بھی کیا ہے وُہ میری شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں ہوتا مگر میری ہر زیادتی پر وُہ چُپ رہا کبھی میرے احترام میں کمی نہیں آنے دی میرے سب بچوں میں سب سے زیادہ محبت اور عزت وہی کرتا ہے میری میں جانتی ہوں یہ بات مگر پھر بھی جب جب میں اُسے دیکھتی ہوں مُجھے..."
اُن کے ہاتھ کانپ رہے تھے نور نے اپنے جواں ہاتھوں میں اُن ضعیف احساسات کو نرمی سے تھام لیا...
"میں نے سوچا تھا علی کی تمہارے ساتھ شادی کروا کر میں اپنی ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لے لوں گی اُس سے یہ مت پوچھنا کون سی زیادتی سالوں کی نفرت چند دن پہلے چھوڑ چُکی ہوں پھر یاد نہیں کرنا چاہتی یہ سوال بھی مت کرنا میں ماں ہوکر کیسے نفرت کرسکتی ہوں مُجھ سے کُچھ مت پوچھنا بس مُجھے سننا آج صرف مُجھے سننا تُم میرے جیسی ہو بلکل دانستہ میں تُمہیں تکلیف دے کر سترہ سالہ شفق کو سکون پہنچاتی تھی مگر یہ شفق ہر لمحہ اذیت میں رہی ہے میں نے تُم سے نفرت کی کیونکہ مُجھے خود سے نفرت تھی میں نے اپنی تسکین کے لیے تُمہیں بہت دُکھ دیے بیٹا...."
آخری لفظ پر وُہ رُکی تھیں پُر اُمید نظروں سے نور کو دیکھا وُہ جانتی تھیں نور علی کی محبت ہے اُسی کے جیسی معافی مانگنے کا موقع اُس نے بھی نہیں دیا بس اُن کے سینے سے لگ کر بُری طرح رونے لگی....
"پھر سے بولیں..."
نور نے روتے ہوئے فرمائش کی..
"بیٹا.." بس اتنا کہہ کر اُنہوں نے بھی سختی سے نور کو اپنے سینے سے بھینچ لیا....
"میں بُری نہیں ہوں نہ ہی پتھر دِل ہوں نہ ظالم ہوں نہ جابر نہ سفاک نہ بے رحم میں ایک عورت ہوں پھر میں ماں ہوں میرے اندر کی عورت ہمیشہ میری مامتا پر حاوی رہی ہے وُہ رہے گی..."
"میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا مگر ہمیشہ آپ میں اپنی ماں ڈھونڈی ہے آپ نے میرے ساتھ بھلے جو کیا میں آپ سے کبھی بدظن نہیں ہوئی پتا ہے کیوں؟؟ کیونکہ میں آپکو سمجھ چُکی تھی آپ وہ نہیں ہیں جو آپ ظاہر کرتی ہیں اور اِس بات کا یقین مُجھے تب ہوا تھا جب میں آپ سے نادیہ آپی کے گھر جانے کی اجازت لینے آئی تھی میں نے آپکو روتے ہوئے دیکھ لیا تھا خود کو کوستے ہوئے بھی سُن لیا تھا اِس میں چاہ کر بھی آپ سے بدگمان نہیں ہوسکی امی.."
نور نے اُن کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا تو اُن کے آنسوؤں میں مزید روانی آتی گئی...
"ہو ناں میرے علی کی محبت نہ وُہ معاف کرنے میں دیر لگاتا ہے نہ تُم نے لمحہ بھر سوچا..."
اُنہوں نے ہلکے سے مسکرا کر کہا...
"علی کو سمجھنے کا صرف ایک طریقہ ہے اسکے لہجے سمجھ لو وہ اپنی ذات میں گم انسان ہے اپنی ذات سے باہر نکل کر وہ صرف اس کے ساتھ بات کرتا ہے جو اسے سمجھ لے اسکے ساتھ رہنے والے کو اپنی ایک الگ دنیا بنانی پڑتی ہے تاکہ وہ تنہا نہ پڑے علی ایک احساس ہے خوبصورت احساس مگر کل وقتی ساتھ نہیں
ایک اور بات ہے اسمیں وہ بہت بہت شدت پسند ہے مگر ظاہر نہیں کرتا وہ چاہتا ہے کہ جو اسکا ہے اس پہ کسی کہ نظر نہ پڑے مگر یہ بات وہ کہے گا کبھی نہیں بس یہ چاہے گا کہ سامنے والا سمجھ جائے..."
شفق خاتون نے سنجیدگی سے کہا...
"ٹھیک کہا آپ نے اپنی ذات سے نکل کر وُہ صرف خود کو سمجھنے والے سے بات کرتے ہیں اپنی شدت پسندی بھی اُسی پر ظاہر کرتے ہیں غیر محسوس انداز میں.."
نور نے دِل میں کہا...
"امی ایک بات بولوں.."
اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا...
"بولو بیٹا اب تُمہیں مُجھ سے کُچھ بھی کہنے کے لیے جھجھکنے کی ضرورت نہیں ہے.."
"آپ اِنہیں بھی اسی طرح اپنے سینے سے لگالیں ایک بار بس وُہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں آپ ماں ہیں اُن کی اُس دُنیا میں سب سے زیادہ محبت وُہ آپ سے کرتے ہیں مُجھ سے بھی زیادہ میں گواہ ہوں اُن کی آنکھوں کی اُس چمک کو جو آپ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں اُبھرتی ہے وُہ آپ ہی کے بیٹے ہیں پہل نہیں کریں گے کبھی بس اُمید رکھیں گے کہ سامنے والا سمجھ جائے.. "
نور نے ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھ کر کہا..
شفق خاتون نے آہستہ سے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے....
"نمرہ آگئی ہوگی میں دیکھتی ہوں نیچے جاکر دوائیاں بھی ختم ہوگئی ہیں کُچھ دانیال کو کال کردوں گی آتے ہوئے لے آئے گا..."
واپسی جانے کے لئے کھڑے ہوکر بولیں...
"میری بات پر ضرور غور کیجئے گا امی..."
نور نے اُن کا گریز صاف محسوس کیا تھا..
"خیال رکھنا اپنا..."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چلی گئیں...
اُن کے جانے کے بعد نور نے ایک گہری سانس لے کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگالیا اُس کا سر درد کر رہا تھا اتنے میں ہی اُسکا فون بجنے لگا اُس نے بغیر دیکھے کال یس کرکے موبائل کان سے لگالیا....
"ہیلو کون.."
"کون.. توبہ استغفار تم نے کیا غصّے میں میرا نمبر بھی ڈیلیٹ کردیا تھا..."
علی کی حیرانی سے بھرپور آواز سُن کر وُہ بھی چونک گئی...
"علی آپ..؟"
"جی "میں" جس کا موبائل آپ قبضے میں لیے بیٹھی ہیں اور تینتیس دس استعمال کر رہا .."
وُہ "میں" پر زور دیتے ہوئے بولا...
"وُہ میں نے دیکھا نہیں تھا کس کی کال ہے ایسے ہی اُٹھا لی آپ بتائیں کیسے کال کی...؟"
"تُمہیں کال کرنے کے لئے وجہ کی ضرورت ہے مُجھے...؟"
دوسری طرف سے سوال کیا گیا...
"نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا بس ایسے ہی پوچھ لیا..."
"کُچھ ہوا ہے کیا نور.."
علی نے اب کی بار سنجیدگی سے پوچھا...
"نہیں کُچھ نہیں ہوا میں سونے ہی لگی تھی بس اور آپکی کال آگئی اِس وجہ سے شاید..."
"اچھا.. ٹھیک ہے تُم آرام کرو شام کو گھر پر بات ہوتی ہے اپنا خیال رکھنا اور میری بیٹی کا بھی..."
علی نے شوخ لہجے میں کہا...
"بیٹی..؟" نور نے نا سمجھی سے کہا..
"ہاں ہماری ہونے والی بیٹی..."
علی نے نرمی سے کہا...
"آپکو کیسے پتا بیٹی ہوگی..."
"کیونکہ مُجھے اپنی پہلی اولاد بیٹی چاہئے بلکہ چار پانچ بیٹیاں ہی چاہیے بیٹیوں کے بعد بیٹا ہوجائے تو ٹھیک..."
علی نے ہنستے ہوئے کہا...
"افف حد کرتے ہیں آپ علی خُدا حافظ..."
"ارے نورِ علی بات تو سنو..."
نور نے اُس کی بات سنے بغیر فون رکھ دیا...
"پاگل لڑکی..."
وُہ مسکرا کر خود سے بولا اور کام میں مصروف ہوگیا...
_________________________________________

انا پرستی اور خود پسندی ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس کا مقصد اپنی ہی ذات کے گرد گھومنا ہے ،ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ہی عمل درست ہے اور باقی سب غلط ہے ،
انا میں لوگ اپنے سگے رشتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے جبکہ آپکے لیے اپنے رشتے اپنی انا سے کئی زیادہ اہمیت رکھنے چاہئے، روٹھے ہوئے لوگوں کو منانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہاں کون کتنا غلط تھا اور معافی مانگنا کس پر فرض ہے، بس اپنے بکھرتے رشتوں کو بچانے کا ہنر آنا چاہیے...
اناؤں، نفرتوں، خود غرضیوں کے گہرے پانی میں محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں..شفق خاتون ہر ایک سے معافی مانگ چُکی تھی مگر جس کی وہ اصل گنہگار تھیں اُسّے محبت سے پکارنے میں بھی انکی انا دیوار بن کر کھڑی تھی..
وُہ سوچوں میں ہی گُم بیٹھی تھیں کہ دانیال اندر داخل ہوا..
"امی یہ لیں بھابھی کی دوائیاں..."
اُس نے شاپر اُنکے سامنے رکھتے ہوئے کہا..
"میں دے آتی ہوں ویسے بھی اُسکی دوائی کا وقت بھی ہوگیا ہے.."
اُنہوں نے بدقت کھڑے ہوتے ہوئے کہا اُن کا پاؤں بُری طرح دُکھ رہا تھا...
"آپ رہنے دیں میں دے آتا ہوں آپ کہاں سیڑھیاں چڑھیں گی..."
اُس نے۔شاپر اُٹھاتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا..
"بھابھی میں اندر آجاؤں.."
دروازے پر پہنچ کر اُس نے اجازت طلب کی..
"جی بھائی آجائیں آپ پوچھ کیوں رہے ہیں..؟"
اُس نے دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے کہا..
"وُہ مُجھے لگا کہیں آپ سو نا رہی ہوں یہ لیں آپکی دوائیاں..."
اُس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیسی طبیعت ہے آپکی..؟"
"بلکل ٹھیک ہوں میں سب بار بار یہی پوچھے جارہے ہیں امی ،نمرہ ابو آپکے بھائی.."
وُہ اُکتاہٹ سے بولی...
"آپکی وی آئی پی پروٹوکول تو ملے گا ہی آفٹر آل ہمارے گھر پہلا بچہ آنے والا ہے وُہ بھی بھائی کا..."
دانیال نے اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"پرسوں عید ہے اِس گھر میں پہلی عید آپکی دیکھیں کیسی.."
دانیال نے افسوس کے ساتھ کہا...
"چھوڑیں اِن باتوں کو آپ یہ بتائیں تانیہ اور آپکے مسئلے ختم ہوئے.."
"میری بہت بڑی غلطی ہے اُس سے شادی کرنا مُجھے شدت سے احساس ہورہاہے اِس بات کا..."
دانیال نے نخوت سے کہا...
"میری برائیاں کر رہے ہیں اپنی محبوبہ کے ساتھ بیٹھ کر ..."
تانیہ اوپر چھت سے کپڑے اُتارنے آئی تھی تو اندر سے آتی اُن دونوں کی آوازیں سُن کر رُک گئی...
"ایسے نہیں کہتے بھائی کوئی بھی اِنسان بُرا نہیں ہوتا حالات اُسے بُرا بناتے ہیں..."
نور نے متانت سے کہا۔۔۔
"چھوڑیں بھابھی یہ لمبی بحث ہے میں چلتا ہوں پھر کبھی بات ہوگی..."
وُہ جانے کے لیے کھڑا ہوگیا...
"جیسی آپکی مرضی..."
نور بھی کھڑی ہوگئی...
ایکدم سے کھڑے ہونے کے باعث اُسے بہت زور سے چکر آئی اگر دانیال نے بروقت نہ سنبھالا ہوتا تو وُہ فرش پر جا گرتی...
"ڈرامے بازی دیکھو اِس کی آج سب کو اِس کا اصلی چہرہ دکھاؤں گی پھر دیکھتی ہوں کیسے ٹکتی ہے اِس گھر میں اُس نے آدھ کھلا دروازہ آہستہ سے بند کرکے باہر سے لاک کردیا...
"بھابھی آپ ٹھیک ہیں بیٹھیں آرام سے میں امی کو بلاتا ہوں..."
دانیال نے اُسے سنبھالتے ہوئے کہا اور نرمی سے بیڈ پر بٹھایا اور جانے لگا...
"یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے..؟"
اُس نے ناب گھماتے ہوئے کہا مگر دروازہ باہر سے بند تھا...
"خالہ خالو دیکھ لیں آکر کیسے یہ حرافہ میرے شوہر کو پھانسنے کی کوششیں کر رہی ہے.."
باہر سے آتی تانیہ کی آواز نے نور کے ساتھ ساتھ دانیال کی سماعتوں پر بھی بم گرایا وُہ یکدم اُٹھ کھڑی ہوئی دونوں ایک دوسرے کی طرف حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے...
"بھائی یہ کیا..؟"
سراسیمہ سی محض وُہ اتنا کہہ سکی...
"کُچھ نہیں ہوگا بھابھی آپ کیوں گھبرا رہی ہیں.."
دانیال نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا مگر حالات کی سنگینی کا اندازہ اُسے بھی تھا..
اگلے ہی لمحے دروازہ کُھلا اور تانیہ سامنے کھڑی تھی شفق خاتون اور سبحان صاحب سیڑھیاں چڑھتے دکھائی دیے...
"دِن کے اِس پہر یہ دونوں دروازہ بند کرکے کیا کر رہے تھے کیسی مزاج پُرسیاں ہورہی تھی مُجھ سے میرا شوہر چھین رہی ہے یہ حرافہ..."
"بکواس بند کرو تانیہ میں تو بس بھابھی کی دوائیاں دینے آیا تھا امی آپ نے ہی بولا تھا ناں..؟"
اُسے بلکل بھی نہیں سمجھ آرہا تھا وُہ کیا بولے صورتحال کو مسخ کرکے پیش کیا گیا تھا...
"تانیہ اپنا بند کر شرم آنی چاہیے اتنا گھٹیا اِلزام لگاتے ہوئے..."
شفق خاتون نے اُسے بُری طرح ڈپٹ دیا..
"میں تو پہلے ہی کہتی تھی یہ ایک بدکردار لڑکی ہے بڑی بھائی کے ساتھ شادی چھوٹے بھائی کے ساتھ مزے پتا نہیں..."
وُہ اُن کی بات نظرانداز کرتے ہوئے زہر خنداں بولی...
"میں جان سے مار دوں گا تُمہیں اپنا منہ بند کرو...."
دانیال نے اُس کا گلا دبوچتے ہوئے کہا نور کا سر اب تک چکرا رہا تھا وہ سر تھام کر بیٹھ گئی..
"آگئے آپ بھی خود دیکھیں اپنی بیوی کے کرتوت کمرہ بند کرکے کون سے کام ہورہے تھے..."
تانیہ نے دانیال کے ہاتھ ہٹا کر اندر داخل ہوتے علی سے کہا...
"علی..."
اُسے دیکھتے ہی نور نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا مگر علی نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا...
"کیا مسئلہ ہے؟.."
وُہ اب تانیہ کے سامنے تن کر کھڑا تھا..
"اپنی بیوی سے پوچھیں جسے رمضان تک كا خیال نہیں اپنی گندی حرکتوں..."
"تانیہ میں تمہارا بہت لحاظ کر رہا ہوں کیونکہ تُم ایک لڑکی ہو دوسرا میرے بھائی کی بیوی ہو مگر اپنی بیوی کے خلاف اب میں مزید کُچھ نہ سنوں اپنی گندی سوچ اپنے حد تک رکھو ورنہ اس سب لحاظ بھول جاؤں گا اور میں یہ صرف اِس لیے نہیں کہہ رہا کہ مُجھے نور پر بھروسہ ہے بلکہ مُجھے اپنے بھائی اور اپنی ماں کی تربیت پر بھی پورا بھروسہ ہے میرے ہاتھوں میں بڑا ہوا ہے اپنے بھائی کو اچھے سے جانتا ہوں میں..."
علی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا...
"بڑے بے غیرت ہیں آپ کوئی غیرتمند مرد ہو تو کھڑے کھڑے طلاق دے اِسے بلکہ آپ کے تو خود کے معاشقے چل رہے تھے سب جانتے ہیں اور یہ بھی تو آپ ہی کا بھائی ہے آپ ہی کی.."
تانیہ کا جملہ ادھورا رہ گیا کمرے میں چٹاخ کی زوردار آواز گونجی...
"میرے بیٹوں اور بہو کے کردار پر کیچڑ اُچھالنے سے پہلے اپنا گندہ ذہن صاف کر بہت بڑی غلطی کی تُمہیں اِس گھر میں لاکر زندگی برباد کردی اپنے بیٹے کی میں نے اندھی ہوگئی تھی بہن کی محبت میں.."
شفق خاتون نے اُسے دونوں شانوں سے تھام کر جھنجوڑ ڈالا...
"پورا گھر ہی بے غیرت ہے بے شرم گھٹیا ارے آپ کیا میں پچھتا رہی ہوں کیوں شادی کی آپکے بیٹے سے جسے اپنی بھابھی کی آغوش..".
"تانیہ میں تُمہیں اپنے پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں.. طلاق دیتا ہوں...طلاق دیتا ہوں..."
سب کُچھ اتنی جلدی ہوا کوئی کُچھ کر ہی نہیں سکا وُہ جو کسی اور کا گھر برباد کرنے کی خواہش رکھتی تھی خود اپنا گھر جلا بیٹھی تھی...
"دانیال..."
سبحان صاحب نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ جھٹکتا ہوا شفق خاتون کے سامنے جا کھڑا ہوا...
"آپ نے میری زندگی برباد کردی ہے آپ جیسی ماں ہونے سے اچھا اِنسان بن ماں کے رہے..."
وُہ بُری طرح چیختے ہوئے بولا۔۔۔
"مُجھے واپس آنے پر یہ گھٹیا عورت اِس گھر میں نہیں دکھے بھیج دیں اِسے اپنی ماں کے گھر عذاب.."
تانیہ کو دھکا دیتا ہوا وُہ باہر نکل گیا...
"میں ابھی اور اِسی وقت یہ گھر چھوڑ کر جارہا ہوں مزید بے عزتی میں اپنی بیوی کی نہیں کرواسکتا اور اِس بار مُجھے کسی کی قسم یا جڑے ہاتھ نہیں روک سکیں گے میری طرف سے بھاڑ میں جائے سب ..."
وُہ شفق خاتون اور سبحان صاحب پر تیکھی نگاہ ڈالتے ہوئے بولا...
"فوراً نیچے آؤ کوئی بکواس نہ سنو میں تمہارے منہ سے اب.."
وُہ کہتے ہوئے باہر نکلنے لگا...
"رہیں اپنی خود پرستی کے ساتھ آپ نے سب کی زندگیاں برباد کردی امی صحیح کہہ کر گیا ہے دانیال اِس سے اچھا تو بن ماں کے ہوتے.."
تنفر سےکہہ کر وُہ چلا گیا...
"نور فوراً آؤ.."
وُہ نیچے سے چیخا...
"امی سب ٹھیک ہوجائے گا آپ پریشان نہیں ہونا سب ٹھیک ہوجائے گا..سب ٹھیک ہوجائے گا.."
اُس نے شفق خاتون کو گلے لگاتے ہوئے کہا....
"میرے علی کو کبھی مت چھوڑنا بہت محبت کرتا ہے تُم سے تمہارے بغیر نہیں جی سکتا..."
اُنہوں نے نور کی پیشانی چومتے ہوئے کہا پورا جسم ٹھنڈا برف ہورہا تھا....
"وُہ آپ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ابھی غصّہ ہیں صرف .."
"تُم جاؤ.."
اُنہوں نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا...
"تُم جاؤ نور.."
وُہ دوبارہ بولیں تو نا چاہتے ہوئے بھی وُہ سیڑھیاں اُترنے لگی...
بائک چلنے اور آواز ختم ہونے تک وُہ اُسی حالت میں کھڑی رہیں...
"میرے بچے میرے بغیر خوش رہیں گے میرے زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں سبحان صاحب کسی کو میری ضرورت نہیں..."
اُن کے سینے میں شدید درد اُٹھا تھا...
"شفق شفق مُجھے ضرورت ہے تمہاری.."
سبحان نے اُنہیں سنبھالا مگر وُہ آنکھیں بند کرچکی تھیں...

(جاری ہے)

نوٹ: آخری حصہ جلد آئے گا اِس پارٹ پر بھرپور رسپانس دیں اب تو ویسے بھی ختم ہورہی صرف ایک حصہ رہتا ہے تو کنجوسی نہیں کریں شاباش 😂😂😂 اچھے بُرے سب کمنٹس کرنا...

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro