Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

آخری قسط (حصہ اول)

#محبت_ہوگئی_آخر
آخری قسط
(حصہ اول)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا۔

"تمہارا چوہیا جتنا دِل ہے پھر کیسے کہہ دیا تھا کہ دوسری شادی کرلو مُجھے حیرانی نہیں ہوتی اگر تُم میری دوسری بیوی کا قتل کردیتی..."
علی نے اُسے چڑانے کی خاطر کہا...
"حیرانی تو ہوتی آپکو مگر میں اُس بیچاری کو کیوں ماروں آپ ہی مار دیتی قصہ ہی ختم نہ ہوں گے نہ کسی اور کے بارے میں سوچیں گے کیسا..."
نور نے بھی اُسے چھیڑا...
"توبہ توبہ کتنے خطرناک ارادے ہیں تمہارے  پاگل ہو پوری..."
وُہ واقعی جی بھر کر حیران ہوا تھا...
"میرے نہیں تو کسی کے نہیں یاد رہے یہ بات..."
نور نے قطعیت سے کہا...
"آپکو بڑا شوق ہورہاہے دوسری شادی کا۔۔"
اُس نے تند لہجے میں کہا...
"اللہ کو مانو کس کافر کو مرنے کا شوق ہے.."
اُس نے اپنے کانوں سے ہاتھ لگا کر کہا تو وُہ بے ساختہ ہنس دی...
"ویسے فرض کریں اگر میں کُچھ نہ کہوں تو کیا آپ کرلیں گے دوسری شادی؟..."
وُہ نجانے کیا جاننا  چاہ رہی تھی...
"سچ بولوں..."
علی نے سنجیدگی سے کہا تو اُس کے دِل کو عجیب احساس نے چھوا تھا نجانے وُہ کیا سچ کہنے والا تھا...
"ہاں سچ ہی کہیں..." اُس کی آواز بہت مدھم تھی علی نے اُسکی حالت سے حظ لیا...
"ہاں کرلیتا کون مرد نہیں چاہے گا اُس کی دو بیویاں ہوں پیاری پیاری..."
اُس نے رُک کر نور کے چہرے کے تاثرات جانچے تو بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی...
"مگر دوسری شادی کے لیے انصاف شرط ہے اور وُہ میں نہیں کر پاتا سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ بات۔۔"
علی نے قصداً دوبارہ اپنی بات ادھُوری چھوڑی..
"ظاہر ہے ہر مرد کو دوسری اور نئی بیوی ہی زیادہ بھائے گی تو کہاں سے پہلے والی سے انصاف کر پائے گا..."
اُس نے جل کر کہا...
علی نے اپنا منہ اُس کے کان کے پاس لے جاکر دھیمی آواز میں سرگوشی کی...
"مُجھے تُم سے فرصت ملے گی تو اُسے دیکھوں گا ناں کیونکہ اِن آنکھوں میں اور دِل میں صرف تمہاری تصویر ہے یہ کسی اور کو دیکھ ہی نہیں سکتیں ..."
نور کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی گردن گھما کر چہرہ اُس کی جانب کیا تو وُہ بھی مسکرا رہا تھا...
"یونہی مسکراتی رہا کرو میں تمہیں ہمیشہ ایسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں چندا.."
علی نے اُس کا سر تھپکتے ہوئے محبت سے کہا..
"آپ بہت اچھے ہیں علی بہت اچھے اور آپ صرف میرے ہیں میرا ہی رہنا ہے.."
"ہمیشہ ہمیشہ صرف اور صرف اپنی نور کا..."
علی نے اُس کا سر اپنے کندھے سے ٹكاتے ہوئے کہا...
_________________________________________

"بڑا خوش دکھائی دے رہا ہے..؟"
عمر نے کُرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا..
"تُو کب آیا..؟"
علی نے حیرانگی سے پوچھا...
"جب تو بھابھی کے خیالوں میں گُم تھا۔۔"
علی اُسکی بات پر مسکرا دیا...
"سب ٹھیک ہوگیا بھابھی اور تیرے بیچ.."
عُمر فوراً اُس کے خوشگوار موڈ کو دیکھ کر اِس نتیجے پر پہنچا...
"تو کیا نہیں ہوتا..؟"
اُس نے اُلٹا سوال کیا...
"بہت اچھی بات ہے یہ  تو پھر.."
عمر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا....
"پہلی بار میں خود کو اتنا پُر سکون محسوس کر رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے سب کُچھ مِل گیا ہے سب کُچھ..."
علی نے طمانیت بھرے انداز میں کہا...
"واقعی آج تو بہت مختلف لگ رہا ہے..."
عُمر نے واضح طور پر محسوس کیا تھا...
" زندگی جب امتحان لیتی ہے تو نہ عمر دیکھتی ہے نہ بساط اور بعض اوقات ہماری ساری زندگی ہی مشکلات اور کٹھن آزمائشوں کی نذر ہو جاتی ہے۔"
علی نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے کہا...
"جب مایوسیوں کے سائے زندگی میں گھٹا گھوراندھیرے بڑھا دیتے ہیں تو کوئی کیا کرے  زندگی فطرت کا تحفہ ہے، یہ خوبصورت ضرور ہے مگراس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آنے والا لمحہ کیا لے کر آتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ خوشیاں کب دکھوں میں تبدیل ہو جائیں یا غم کے بادل کب چھٹ جائیں ان سب کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ کبھی غم تو کبھی خوشی والی کیفیت ہے جس کسی نے بھی کہا تھا کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں… سچ کہا تھا۔
پاس اور آس کے درمیانی وقفے میں ہی زندگی کے چار دن ختم ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ زندگی امتحان ہے جس کا جواب صبر کرکے دیا جاسکتا ہے۔"
عُمر نے غم اندوہ لہجے میں کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا..
"میں منتظر ہوں مُجھے کب میرے صبر کا صلہ ملتا ہے مانتا ہوں میں کُچھ وقت کے لئے گمراہ ضرور ہوگیا تھا اُس کی رحمت پر سوال اٹھاتا تھا مگر جب سے تو مِلا ہے مُجھے پھر سے ایک اُمید ملی ہے پتا ہے میں نے آج سے نماز دوبارہ شروع کی ہے اور اب روز پڑھوں گا اُس سے مانگوں گا بار بار مانگوں گا وہی دینے والا ہے اور وہی دے گا بھی..."
عُمر نے ایک عزم کے ساتھ کہا...
"بیشک.." علی نے برجستہ کہا...
"عُمر میرے یار زندگی میں ایسا موقعے ضرور آتے ہیں جہاں ہم سب بے بس ہو جاتے ہیں اور کسی غیبی مدد کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ غیبی مدد فطرت کی طرف سے متوقع ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر سوائے بے بسی کے کچھ بھی پاس نہیں ہوتا کسی پیارے کی موت..."
علی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا..
عُمر نے اپنا رُخ بدلا...
"کہتے ہیں موت ہمیشہ آپ کا تعاقب کرتی ہے اور آخر ایک دن اپنے شکنجے میں کس ہی لیتی ہے۔ یہ زندگی کا سب سے دردناک لمحہ ہوتا ہے جب کوئی پیارا آپ کے سامنے دم توڑ جاتا ہے ..."
"میرے انس میرے ہاتھوں  میں جان دی تھی علی جن ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ تھاما تھا مُجھے آج بھی وُہ لمحہ یاد ہے جب سانس لیتے لیتے اُس کا وجود یکدم ساکن ہوگیا تھا بشریٰ اور میں نے اُسے بہت ہلایا بہت ہلایا بہت مگر وُہ نہیں..."
عُمر سے مزید نہیں بولا گیا علی اُس کی حالت سمجھ سکتا تھا....
کُچھ دیر خاموشی رہی ارد گرد کی ٹیبلوں پر بیٹھے لوگوں کی آوازیں گونجتی رہی...
"اُس موقع پر زندگی کی حقیقت سمجھ ا
آگئی تھی ایک لمحہ آتا ہے جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جانے والی کے بغیر زندگی کیسے کٹے گی ہم دونوں کو بھی یہی لگتا تھا انس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکیں گے مگر وقت ہی مرہم بنتا ہے ۔ کتنی ہی صورتیں پنہاں ہو جاتی ہیں اور ہم پھر سے زندگی کے میلے میں گم ہو جاتے ہیں۔ کسی پیارے کے چلے جانے پر صرف اور صرف اپنے آپ کو حوصلہ دینے سے ہی صورتحال کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔"
عُمر نے دِلگیر لہجے میں کہا..
"تعلقات کا ختم ہو جانا کسی کی محبت میں گرفتار ہونا اور پھر اس محبت کے بندھن سے نکل جانا زندگی کا حصہ ہے۔ مگرجس تیزی سے محبت ہوتی ہے اتنی ہی برق رفتاری سے اس کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے۔ کسی کی ایک مسکان اگر محبت کا باعث بنتی ہے تو اس وقت کوئی دوسرا پہلو نظر ہی نہیں آتا اور پھر معیار اور امنگوں پر پورا نہ اترنا یا بیوفائی کرنے سے دل ٹوٹتا ہے اور محبت کا انجام ہو جاتا ہے۔ اس وقت محبت کرنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی ہی ختم ہوگئی ہو۔ اس کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں اور دنیا جہنم ہوگئی ہے۔ محبوب کے ساتھ گزرا ہر لمحہ یاد آتا ہے اور آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔مگر مُجھے ایسا کُچھ محسوس نہیں ہوا ہاں تکلیف ہوئی تھی میں اُسّے بچپن سے پسند کرتا تھا مگر وہ تکلیف بھی دیرپا نہیں رہی نور نے آتے ہی اُس تکلیف کو ختم کردیا تب ہی تو میں نے جانا مُجھے زونیہ سے کبھی محبت تھی ہی نہیں محض وابستگی تھی اِس سے زیادہ کُچھ نہیں..."
علی نے چائے والے کو دو چائے لانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا...
"ناکامیاں کسی مقصد کیلئے جدوجہد کرنا لیکن اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں آنا بھی زندگی کا تلخ دور ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جہاں خواب بکھرتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔  ناکامیوں کی اس گھڑی میں سیکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن سیکھتا کوئی کوئی ہی ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں کوئی امید بھی نہیں ہوتی۔ یہ ناکامی کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے جیسے امتحان میں فیل ہو جانا، کسی کاروبار میں گھاٹا کھا لینا، انٹرویومیں ناکام ہو جانا، ایسی صورت میں صرف اور صرف حوصلہ بڑھائے رکھنا اور زندگی کو مثبت انداز میں دیکھنا ہی کام آتا ہے۔ یہ سوچ لیا جائے کہ اس ناکامی میں کہیں کامیابی چھپی ہوئی ہے اس سے نکلنا ہوگا تو زندگی سہل ہو سکتی ہے میرے ساتھ یہ سب کُچھ ہوا مگر آج دیکھی میں تمہارے سامنے پُر اُمید زندگی سے بھرپور کیونکہ میں نے ناکامیوں سیکھا ہے اُس پر رونے نہیں بیٹھ گیا اور یہ بات میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اگر میرے ساتھ نور نہ ہوتی تو آج میں اتنا خوش اور مطمئن ہرگز نہیں ہوتا..."
علی نے لہجے میں نور کے لئے عزت و احترام سموئے قطعیت سے کہا...
"معذور ہونا ایک ایسا دکھ ہے جس کا مداوا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معذور شخص ہمیشہ کیلئے دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے جب میرا ایکسیڈینٹ ہوا تھا تو ایک مہینہ میں نے چُپ رہ کر سب کے بدلتے رویے دیکھے تھے اُن بھائی بہنوں کو خود سے بیزار ہوتے دیکھا جو میرے آگے پیچھے بھائی بھائی کرتے پھرتے تھے مگر جب میں اُن کے کام کا نہ رہا تو کوئی بھولے بھٹکے بھی میرے کمرے میں جھانکتا نہیں تھا صرف ایک فرح تھی جس نے ہمیشہ مُجھے اپنا بھائی سمجھا بہن تھی تو بن کر بھی دکھایا اُسے مُجھ سے کوئی غرض نہیں تھا نور کے بعد فرح ہے جسے میں اپنا کہہ سکتا ہوں ۔"
اُس نے محبت سے کہا...
"آج واقعی بہت کُچھ نیا ہے.."
عُمر نے چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے کہا..
"آج میں بہت مطمئن ہوں اپنی زندگی سے ایسا لگ رہا ہے مکمل ہوگیا ہوں سب کُچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب ہونے کا احساس ہے مُجھے زندگی سے کوئی شکایت نہیں بس میں بہت بہت خوش ہوں..."
علی کا چہرہ اُس کی اندرونی کیفیت صاف ظاہر کر رہا تھا...
"اور مُجھے بھی بہت خوشی ہورہی ہے تُجھے خوش دیکھ کر..."
عُمر نے متانت سے کہا...
"بس اب گھر ڈھونڈھ کر شفٹ ہونا ہے میں نے نور کے ساتھ..."
"تُو اب بھی گھر چھوڑنا چاہتا ہے..؟"
عمر نے حیرت سے پوچھا...
"کیوں اب ایسا کیا ہوگیا..؟"
علی نے اُسی کے انداز میں کہا..
"کُچھ نہیں..."
عُمر خود چُپ ہوگیا...
"چائے پی ٹھنڈی ہورہی ہے..."
علی نے مسکرا کر کہا اور اپنی پيالی اُٹھا لی....

_________________________________________

"یہ کیا عجیب سی شرٹ پہن لی ہے آپ نے.."
نور نے نا پسندیدگی سے کہا...
"کیا برائی ہے اِس میں اتنی اچھی تو ہے.."
علی نے کالر سیٹ کرتے ہوئے کہا...
"میں نے جو نکالی تھی وُہ پہنیں اُتاریں اسے.."
وُہ اُس کی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے بولی...
"یار تُم تو چُن چُن کر بلیک شرٹس نکالتی ہو اب روز تو میں بلیک نہیں پہن سکتا ناں چھوڑو اِسے.."
علی نے اُس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا...
"تو آپ سے کہا کس نے ہے اپنی مرضی کیا کریں میں نے جو نکال دی فرمابردار شوہروں کی طرح پہن کر چلے جائیں۔"
نور نے ہنس کر کہا...
"مُجھے نہیں پہننی بلیک شرٹ آج.."
وُہ جھنجلا کر بولا۔۔۔
"ایسے کیسے نہیں پہنیں گے مُجھے زہر لگتا یہ سفید رنگ آپ پر اور آپ بلیک شرٹ ہی پہنیں گے کیونکہ اُس میں آپ مُجھے بہت اچھے لگتے ہیں.."
وُہ ضدی انداز میں بولی...
"میں بھی آج یہی شرٹ پہن کر آفس جاؤں گا چاہے کُچھ بھی ہوجائے.."
علی ہٹیلے انداز میں بولا...
"میری بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں آپکی نظر میں ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی آئندہ کوئی فرمائش نہیں کروں گی آپ سے کرتی بھی کس سے ہوں آپکے علاوہ..."
وُہ رونی صورت بناکر بولی...
"تمہارے ڈرامے بازی نہیں چلے گی میری جان پُرانے ہوئے یہ حربے..."
علی نے اُسے چڑاتے ہوئے کہا حسبِ توقع اُداس صورت بناکر بیٹھی نور واپس اپنے جگی اسٹائل میں آگئی...
"جب کہہ دیا نہیں پہن کر جائیں گے تو نہیں پہن کر جائیں گے..."
نور نے قطعیت سے کہا...
"کرلو جو کرنا ہے بلیک تو میں آج نہیں پہنوں گا..."
"اچھا ناں بات سنیں مت پہنیں ..."
وُہ یکدم اُس کے قریب ہوکردونوں ہاتھ اُسکے سینے پر رکھتے ہوئے بولی...
علی نے حیرت سے اُسے دیکھا...
"تو آج بھی فیکٹری نہ جاؤں میں.."
وُہ شرارت سے بولا اتنے میں نور اوپری بٹن کے پاس سے پوری قوت لگاکر شرٹ کو بیچ میں سے کھینچا جس سے سارے بٹن اُدھڑتے چلے گئے اور فخریہ انداز میں مسکراتی ہوئی اُس سے دور ہوکر بولی...
"مت پہنیں میں یہ بھی پہن کر جانے نہیں دوں گی..."
"نور یہ کیا کِیا تُم نے..."
وُہ بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے بولا وُہ ہرگز بھی اُس پر چیخنا نہیں چاہتا تھا مگر حرکت ہی ایسی تھی...
"سیدھی طرح سے بات مان لیتے میری تو یہ نہ ہوتا.."
وُہ ڈھیٹ ہوئی...
"میں پہن کر بلیک بھی نہیں جاؤں گا جو کرنا ہے کرلو..."
وُہ چیلنج کرتے ہوئے بولا....
نور کو اُس سے ہرگز بھی اتنی ضد کی اُمید نہ تھی...
"کیا چلا جائے گا اگر میری بات مان لیں گے آپ کتنی چھوٹی سی تو بات ہے..."
وُہ ہار کر بولی...
"لائیں اُتار کر دیں شرٹ میں بٹن ٹانک دیتی ہوں سارے  ابھی ویسے بھی ٹائم ہے آپکے پاس.."
اُس نے بیچارگی سے کہا...
"اِدھر دیکھو.."
علی نے سنجیدگی سے کہا...
"آپ شرٹ دے دیں میں..."
"کہا ناں میری طرف دیکھو..."
علی نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔
"بھئی کیا ہے.."
وُہ خفگی سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی...
"ایک شرٹ صرف ایک شرٹ کے لیے اتنا ڈرامہ.."
وُہ دھیما تبسم ہونٹوں پر سجائے بولا...
"تُم جانتی ہو میں بلا کی ضدی ہوں اپنی مرضی کے خلاف کُچھ نہیں کرتا..."
وُہ اُسے باور کروا رہا تھا...
"مگر میرے سامنے آپکی ضد نہیں چلتی یہ بات میں جانتی ہوں..."
وُہ پورے مان سے بولی...
"آدھی پاگل ہو تُم لاؤ دو اپنی بلیک شرٹ.."
وُہ کیسے اُس کا مان توڑ دیتا جبکہ یہ مان دیا بھی اُس نے ہی تھا...
"یہ ہوئی ناں بات میرے علی والی.."
وُہ ہنستے ہوئے بولی تو علی بھی دِل سے مسکرا دیا....
"اچھا بس زیادہ مت اُچھلو آج پہن لی ہے صرف روز تمہاری نہیں چلے گا.."
وُہ اُس کے ہاتھ سے شرٹ لیتے ہوئے بولا...
"روز کی روز دیکھی جائے گی..."
وُہ اُس کی بات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی...
وُہ اُس کے چہرے پر پھیلی خوشی دیکھ کر ہی نہال ہورہا تھا وُہ واقعی پاگل تھی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر خوش ہونے والی اب تک اُس نے بے فیض لوگوں کی خوشی کے لئے خود کو ہر طرح خوار کیا تھا مگر آج اُسے خوشی کے اصل معنی سمجھ آئے تھے واقعی مادیت سے متمائز ہے خوشی اور ایسی خوشیاں تو اُس نے حاصل کرنی تھی ایسی بے غرض خوشیاں تو اُس نے نور کو دینی تھی وُہ واقعی پاگل تھی ساتھ اُس جیسے بندے کو بھی کرچکی تھی وُہ جیسی بھی تھی یہ احساس بہت سکون دیتا تھا وُہ صرف اُسکی تھی صرف اُسکی اولین چاہت، محبت کی حد، عشق کا آغاز، محور زیست، صرف وہی تھی  وُہ نورِ علی، تھی نورِ حیات.... وُہ صرف اُسکی تھی.....

_________________________________________

علی کے چلے جانے کے بعد وُہ بھی جانے کی تیاری کرنے لگی علی اُسکے کہنے پر موبائل گھر چھوڑ کر گیا تھا مگر سخت تاکید کرکے گیا تھا کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے وہ خود تکلیف میں آجائے وُہ کیا کرنے والی تھی علی نے بارہا پوچھا مگر نور نے نہیں بتایا صرف اتنا کہا مج" پر بھروسہ رکھیں" اور بھروسہ تو اُسے خود سے بھی زیادہ نور پر ...
"کہاں جارہی ہو نور.."
شفق خاتون نے سوپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے نور سے کہا جو برقع پہن رہی تھی...
"امی میں بس آدھے گھنٹے میں آرہی ہوں.."
اُس نے نقاب لگاتے ہوئے شفق خاتون سے کہا...
"جا کہاں رہی ہو اِس حالت میں وُہ بھی اکیلی میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ..."
اُنہوں نے بھی دوپٹہ سر پر صحیح جماتے ہوئے کہا..
"امی میں بس آدھے گھنٹے میں آجاؤں گی آپ کہاں پریشان ہوں گی میرے ساتھ..."
"میں تمہیں اِس حالت میں اکیلے باہر نہیں جانے دوں گی..."
شفق خاتون نے قطعی انداز میں کہا..
"ٹھیک چلیں آپ میرے ساتھ.."
وُہ جانا کا ارادہ ترک کسی صورت نہیں کرسکتی تھی نہ اُنہیں ناراض اِس ایک حادثے کے بعد سے تو اُس نے شفق خاتون کا شفقت بھرا انداز دیکھا تھا وُہ کسی صورت اُنہیں پھر سے کھونا نہیں چاہتی تھیں...
"ہم جا کہاں رہے ہیں ویسے.."
گلے میں چلتے ہوئے اُنہوں نے پوچھا...
"ایک ناہنجار کے گھر جس نے میرا گھر برباد کرنے کی ناکام کوشش کی ذرا اُس کی دُنیا بھی ہلا کر آتی ہوں میں.."
وُہ زہر خنداں بولی....
شفق خاتون تو اُس کے پر اعتماد لہجے میں گُم تھی اور پہلے کی خاموش ڈری سہمی نور اور ابھی کی با اعتماد نور کا موازنہ کر رہی تھیں واقعی بہت کُچھ بدل چُکا تھا...
"یہاں کیا کرنے آئے ہیں.."
نور حامد صاحب کے گھر کے آگے رُکی تو شفق خاتون نے بے طرح چونک کر کہا۔
"اِسے اِس کی اوقات بتانے.."
اُس نےتنفر سے کہتے ہوئے بیل بجادی...
دروازہ کسی ملازمہ نے کھولا جو اندر سے اجازت ملنے کے بعد اُنہیں ڈرائنگ روم میں لے آئی جہاں ثمینہ اُن کی منتظر تھی...
"آئیے شفق بہن بیٹھئے.."
اُنہوں نے خوش اخلاقی سے کہا جبکہ شفق خاتون کو پچھلی ملاقات کے بعد اِس رویے کی اُمید نہ تھی...
"آپ غالباً نور ہیں علی کی بیوی..."
اُن کے کہنے پر نور نے سر ہلاتے ہوئے اپنا نقاب اُتارا...
"آنٹی انکل اور آپکے بیٹے گھر پر ہیں.."
وُہ فوراً مدعے پر آئی...
"جی ہیں.."
"پلیز آپ اُنہیں بلا لیں مُجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔"
اُس نے مضبوط لہجے میں کہا شفق خاتون حیران پریشان بس اُسے اور اُسکے پُر اعتماد انداز کو دیکھ رہی تھیں...
"میں بلا لیتی ہیں مگر بات کیا ہے؟؟"
"آپ اُنہیں بلوالیں میں سب کے سامنے بتاؤں گی.."
نور نے متانت سے کہا..
"وریشہ جاؤ دونوں بھائی اور صاحب کو ڈرائنگ روم میں بلاؤ اور چائے وغیرہ بھی لے کر آؤ..."
اُنہوں نے ملازمہ سے کہا...
تھوڑی ہی دیر میں حامد صاحب اورجنید احسن بمع اپنی بیویوں  کے وہاں موجود تھے...
"جی بیٹا کہیں کیا بات کرنی ہے آپکو.."
حامد صاحب نے نرمی سے کہا تو اُس کا دِل کیا نہ کہے وُہ صرف سوچ کر رہ گئی اتنے فرشتہ صفت لوگوں کے گھر زونیہ جیسی گند کیسے پیدا ہوگئی...
"لیجئے پہلے چائے وغیرہ کُچھ لیں.."
جنید کی بیوی نے ملازمہ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا..
"نہیں شکریہ بھابھی میں آپ لوگوں کا زیادہ وقت نہیں لوں گی.."
اُس نے سہولت سے انکار کیا...
"انکل آپ مُجھے جانتے ہیں میرے ابو آپکے بہت اچھے دوست رہ چُکے ہیں میں نے بچپن سے آپکو دیکھا ہے میں ہرگز بھی یہاں نہ آتی اگر بات اتنی بڑی نہ ہوتی..."
وُہ تمہید باندھتے ہوئے بولی...
"جی بیٹا ظہیر میرا بہت اچھا دوست رہا ہے اِس میں کوئی شک نہیں بات کیا ہے آپ بغیر ہچکچاہٹ کے کہیں.."
اُنہوں نے نور کی مشکل آسان کرنی چاہی..
"بات آپکی بیٹی زونیہ کے بارے میں ہے..."
اُس نے محض اتنا کہہ کر سب کے تاثرات جانچے تو سب کے چہرے پر اُلجھن تھی سوائے ثمینہ کے اُن کے چہرے پر ڈر تھا وہ ماں تھیں کیسے انجان رہی ہوں گی زونیہ کی حرکتوں سے...
"جی بولیں.."
اب کی بار احسن نے کہا...
"حامد میں آپکو بتانے ہی والی تھی سب مگر.."
"ایک منٹ ثمینہ مُجھے پہلے بات ختم کرنے دیں آپ کہیں کیا بات ہے بیٹا کوئی غلطی ہوئی ہے کیا میری بیٹی سے.."
حامد صاحب نے ثمینہ کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا...
"اُس نے غلطی نہیں میرا گھر برباد کرنے کی کوشش کی ہے.."
نور نے ہمت کرکے کہہ دیا...
"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟؟"
جنید کا لہجہ تند ہوا تھا...
"میں بات کر رہا ہوں تُم چُپ رہو.."
حامد صاحب نے اُسے بھی بولنے سے منع کردیا۔۔
"بیٹا آپ کُھل کر بات کریں.."
نور نے من و عن ساری بات اُن کے سامنے کہہ سنائی جسے سن کر شفق خاتون سمیت دونوں بھابیوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے...
"آپ اتنا بڑا الزام نہیں لگا سکتی میری بیٹی پر.."
حامد صاحب کے لہجے میں پہلی بار سختی در آئی...
"مُجھے پتا تھا آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے اِس لیے میں ثبوت بھی لے کر آئی ہوں..."
نور نے کہتے ہوئے علی کا موبائل حامد صاحب کے سامنے کردیا جہاں زونیہ کی بے غیرتی صاف تھی حامد صاحب کی نظریں جُھک گئی تھیں...
"میں نے اُسے سمجھانا بھی چاہا تھا مگر وُہ پھر بھی نہیں سمجھی یہ وائس ریکارڈنگ بھی سنیں آپ..."
نور نے اپنے اور زونیہ کے درمیان ہونے والی بات جو ریکارڈ تھی اُن سب کے سامنے پلےکردی شرمندگی کے باعث کوئی ایک بھی کُچھ نہ کہہ سکا...
"علی اُس کی کال تک نہیں اُٹھاتے تھے نمبر تک بلاک کرچکے تھے اور کل اُس نے ببانگِ دہل اِس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اگر علی نے اُس سے شادی نہیں کی تو وُہ اُسے بدنام کردے گی اس جیسا کہ آپ اِن میسجز میں بھی پڑھ سکتے ہیں میرے شوہر کا اُس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ بات بھی آپ پر صاف ہے میری صرف اتنی درخواست ہے آپ اُسے روک لیں میں جانتی ہوں آپ لوگوں کو بہت تکلیف ہورہی ہے جان کر مگر میں بھی چُپ نہیں رہ سکتی تھی..."
نور نے ہمدردانہ انداز میں کہا...
"میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا آپکی بیٹی کا چکر تھا جسے اُس نے آپکے سامنے ماننے سے صاف انکار کردیا تھے جب میں علی کا رشتہ لے کر آئی تھی اور آپ کی بیٹی میری کتنی بے عزتی کی تھی یہاں تک کہ میرے بیٹے کو قماش آوارہ کیا کیا نہیں کہا تھا..."
شفق خاتون کی اِس بات پر نور نے بھی حیرانگی سے اُنہیں دیکھا یہ بات اُسکے لیے بلکل نئی تھی...
"کیا یہ پہلے بھی آچکی ہیں..."
حامد صاحب نے مدھم آواز میں کہا تو ثمینہ نے سر ہلادیا،۔۔۔
"اتنا سب کُچھ ہوگیا اور آپ نے مُجھے بتانا تک گوارہ نہیں کیا ثمینہ.."
اُنہوں نے بمشکل خود کو چیخنے سے روکا...
"کون آیا ہوا ہے وریشہ..؟"
باہر سے آتی زونیہ کی کھنکتی آواز نے نور کو سلگا دیا کُچھ ہی لمحوں میں وہ اندر داخل ہوئی تیاری سے لگ رہا تھا وہ کہیں باہر سے آئی تھی سامنے نور اور شفق خاتون کو دیکھ کر حقیقتاً اُسے اپنے پیروں تلے زمین نکلتی محسوس ہونے لگی مگر پھر بھی خود کو سنبھالا۔۔۔
"تُم یہاں کیا کر رہی ہو.."
زونیہ نے نفرت بھرے انداز میں اُس کا بازو دبوچ کر کہا...
"ہاتھ چھوڑ میرا.."
نور نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا...
"زونیہ ابھی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ میں نہیں جانتا میں کیا کر گزروں گا.."
جنید نے اُسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر باہر دھکیلا...
"آپ اِس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے اپنی بہن کو.."
زونیہ کے سارے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے حامد صاحب کے اُٹھے ہاتھ نے اُسے اپنی جگہ ساکت کردیا تھا...
"یہ تھپڑ بہت پہلے مار دینا چاہیے تھا مُجھے شاید تُم اتنی خود سر اور بے حیا نہ ہوتی آج.."
غصے اور اہانت کے احساس نے زونیہ کے حواس سلب کرلیے...
"میں شرمندہ ہوں آپ سے.."
ثمینہ نے آگے بڑھ کر افسوس کے ساتھ کہا...
"میں کبھی یہاں نہیں آتی آنٹی مگر بات حد سے بڑھ چکی تھی آپ بھی ایک بیوی ہیں مُجھے سمجھ سکتی ہیں اللہ عیبوں پر پردہ ڈالنے کا حکم دیتا ہے مگر جس اِنسان کو خود اپنی عزت کی فکر نہ ہو اُس کے لیے کوئی کُچھ نہیں کرسکتا.."
نور نے اُن کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا...
"تمہاری اتنی اوقات جو میرے بارے میں تُم.."
زونیہ نے اُسے مارنا چاہا مگر نور نے اُس کا ہاتھ بیچ میں ہی تھام لیا اور اپنا بایاں ہاتھ گھما کر اُسے تھپڑ رسید کیا...
وُہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے اپنے سب گھروالوں کو دیکھ رہی تھی اُمید کر رہی تھی کوئی نور کو کُچھ کہے مگر کسی نے ایک لفظ نہ کہا...
"تُم نے مُجھے بہت ہلکا لے لیا تھا زونیہ کیا سوچا تھا میں روتی بسورتی تُم سے بھیک مانگنے آؤں گی کہ میرے شوہر کا پیچھا چھوڑ دو.."
نور نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا...
"میں بہت شریف ہوں مگر جہاں بات میرے شوہر کی آئے گی مُجھ سے بڑھ کر سر پھری لڑکی تُمہیں کہیں نہیں ملے گی تُم اپنی اوقات دیکھو ایک گند ہو تُم  نجاست کہ ڈھیر ہو تُم صرف ..."
نور نے شعلہ بار آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"آپکے سامنے یہ دو ٹکے کی لڑکی آپکی بیٹی کو تھپڑ مار رہی ہے اور آپ چُپ ہیں..."
زونیہ نے حامد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے چیخ کر کہا...
"تُم نے کُچھ بھی کہنے کے قابل کہاں چھوڑا ہے ہم سب کو..."
حامد صاحب نے اُسے دھکا دیتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئے اور ایک ایک کرکے سب چلے گئے صرف ثمینہ اور زونیہ رہ گئیں...
"منع کیا تھا میں نے تجھے منع کیا تھا دیکھ آج تیری وجہ سے کیا ہوا کتنے مان سے رکھا ہوا تھا تیرے بھائیوں نے تُجھے اب اُن کی نفرت برداشت کر کسی اور کا گھر برباد کرنا چاہا تھا خود کو ہی آگ لگا لی میں اِسی دِن سے ڈرتی تھی منع کرتی تھی یہ اللہ کا انصاف ہے زونيہ اب تو سنبھل جا بیٹا جب وقت تیرے ہاتھ میں تھا تب تُو نے محبت کو ذلیل کیا آج محبت نے تُجھے رسوا کردیا سب ختم حساب برابر ہوگیا..."
ثمینہ نے آگے بڑھ کر اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تو گم سم سی کھڑی وُہ اُن کے گلے لگ کر بُری طرح رودی....
ایک مرد کی محبت عورت کو کیسے مضبوط بناتی ہے اِس بات کا احساس شفق خاتون کو آج ہوا تھا نور کو دیکھ کر وہ اب بلکل بھی پہلے جیسی نہیں تھی وُہ واقعی بدل چُکی تھی بہت زیادہ جس کا ذمے دار صرف علی تھا اُسکی توجہ اُسکی محبت اُسکا یقین ایک مضبوط مرد ہی اپنی بیوی کو مضبوط بنا سکتا ہے جیسے نور کو علی نے بنادیا تھا...

(جاری ہے)

نوٹ: اختتام ہے دوستوں لکھنے میں ٹائم تو لگے گا کہیں کوئی ابہام نہ رہ جائے..
کمنٹس چاہئے مُجھے سب کے..... 😍
آپکی کیا رائے ہے اِس بارے میں...
" ایک مضبوط مرد ہی اپنی بیوی کو مضبوط بنا سکتا ہے.."

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro