آخری حصہ
آخری قسط
(آخری حصہ)
از قلم
کُچھ دِن بعد....
شفق خاتون صحت یاب ہوکر گھر واپس آگئی تھیں اُن لوگوں کی عید تو ہسپتال میں ہوئی...
"مُجھے لگا تھا کہ میں نے اپنی ماں کو پھر سے کھودیا ابھی تو آپ مُجھے ملی تھیں.."
نور شفق خاتون کے سینے سے لگی کر مسکرا کر بولی تھی...
"کُچھ نہیں ہونا تھا مُجھے میں اپنے بچوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھی کہیں.."
اُنہوں نے باری باری سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا...
"میں نہیں جارہا آپکو چھوڑ کر نا ہی گھر چھوڑ کر آپکے ساتھ ہی رہوں گا.."
علی نے بچوں کی طرح کہا تو شفق خاتون نے بے اختیار سبحان صاحب کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر مصرف مسکراہٹ تھی وُہ جان چُکے تھے وہ کیا کہنا چاہتی تھیں...
"میں جو کہنے والی ہوں اُس کے یہ مطلب مت نکالنا علی کے میں تُم سے محبت نہیں کرتی میں اپنے سب بچوں سے بہت محبت کرتی ہوں اِس لیے کسی بھی غلط فہمی کو دل میں جگہ مت دینا.."
وُہ تمہید باندھ رہی تھیں...
"کبھی نہیں سوچوں گا امی وعدہ کرتا ہوں آپ سے..."
علی نے اُن کا ہاتھ تھام کر مضبوط لہجے میں کہا...
"میں اور تمہارے ابو دونوں چاہتے ہیں کہ تُم نور کو لے کر الگ گھر میں شفٹ ہوجاؤ..."
ہموار لہجے میں کہتے ہوئے اُنہوں نے علی اور نور کو چونکنے پر مجبور کردیا...
"پر کیوں امی..؟"
نور نے فوراً پوچھا...
"علی تُو سب جانتا ہے میرے بارے میں کہ کیوں میں ایسی تھی مُجھے سبحان صاحب سب بتا چُکے ہیں کہ تُجھے سب بتا چُکے ہیں وُہ..."
اُنہوں نے نرم لہجے میں کہا..
"امی وُہ بات میرے لیے اہمیت نہیں رکھتی.."
وُہ صاف کترا رہا تھا...
"میرے لیے رکھتی ہے آج بھی اور میں نہیں چاہتی کہ میں پھر سے ویسی ہوجاؤں آخر کو اِنسان ہی ہوں ناں میں.."
وُہ اُسے سمجھانے لگیں..
"سب کُچھ ٹھیک ہوگیا ہے امی اب اِس کی ضرورت تو نہیں.."
علی نے سوال کیا۔۔۔
"کب تک ٹھیک رہے گا کل کو دانیال کی پھر شادی ہوگی ہم تو نہیں جانتے آنے والی کیسی ہوگی مگر اب میں اِس بچی کے ساتھ مزید زیادتی نہیں ہونے دے سکتی.."
شفق خاتون نے نور کو ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا...
"امی ایسا کُچھ نہیں ہوگا.."
نور نے نرمی سے کہا..
"کیا ضمانت ہے اِس کی..؟ میں جانتی ہوں میرا بیٹا کیسا ہے وہ تُجھے سچ میں نمرہ اور فرح کی طرح عزیز رکھتا ہے علی جانتا ہے یہ بات تُو اُسے اپنا بڑا بھائی ہی مانتی ہے ہم سب جانتے ہیں مگر تانیہ نے جو اِلزام تُم دونوں کے رشتے پر لگائے ہیں اب وُہ اس چار دیواری تک محدود نہیں رہے... بیٹا دُنیا احساس اور جذبات نہیں دیکھتی وُہ آپکی اچھائی نہیں دیکھتی وُہ ہمیشہ آپکو کسی منفی نظر سے ہی دیکھے گی...دیوار بھابھی کا رشتہ بہت خوبصورت رشتہ ہے "بھابھی" کو ماں کہا جاتا ہے مگر بہت نازک بھی ہے یہ شک کی ایک نظر سے بھی پاش پاش ہوجاتا ہے یہ آگ کا رشتہ ہے جو روشنی دیتی ہے تو جلاتی بھی ہے..."
وُہ مدبرانہ انداز میں بولیں...
"کسی کو کُچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں امی.."
اب کی بار دانیال بولا...
"دُنیا میں رہتے ہیں تُو فکر کرنی پڑے گی اور تُجھے فرق نہیں پڑے گا فرق اِسے پڑے گا مردوں کو کُچھ نہیں کہتے لوگ صرف لڑکی کی غلطی ڈھونڈھتے ہیں لوگ..."
وُہ متانت سے بولیں..."
"جب تک نہیں مِل جاتا گھر تُم لوگ یہی رہو یہ گھر تُم دونوں کا بھی ہے میں صرف جگہ بدلنے کا کہہ رہی ہوں چھوڑنے کا نہیں سمجھ رہا ہے ناں علی..؟"
اپنی بات مکمل کرتے ہوئے اُنہوں نے علی سے پوچھا..
"میں سمجھ رہا ہوں آپکی بات اور آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مُجھے اپنے بھائی اور بیوی دونوں پر پورا بھروسہ ہے مگر میں یہ بھی نہیں چاہتا کوئی اِن کے رشتے کو غلط نگاہ سے دیکھے میں گھر جگہ تبدیل کرلوں گا امی چھوڑوں گا نہیں.."
اُس نے جاندار مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"امی خالہ پورے خاندان میں مُجھے اور بھابھی کو بدنام کر رہی ہیں کل ہی ولید ماموں کی کال آئی تھی پوچھ رہے تھے کیا ہے یہ سب.."
دانیال نے گہری سانس لے کر کہا...
"اِن سب کو بولنے کا موقع میری ڈھیل نے دیا ہے سب کے منہ بھی میں ہی توڑوں گی میرے لیے اب میرے بچوں سے بڑھ کر کوئی نہیں.."
شفق خاتون نے مستحکم انداز میں کہا..
"اب ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بھائی امی از بیک اِن ایکشن دیکھا نہیں منہ توڑنے کی باتیں کر رہی ہیں.."
نمرہ نے شرارت سے کہا تو سب ہنس دیے...
_________________________________________
" علی آپ امی کو سمجھاتے تو وُہ مان جاتیں ہمیں گھر چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت ہے وُہ بھی لوگوں کے ڈر کی وجہ سے صرف..."
نور نے افسوس سے کہا...
"میرے لیے تمہاری عزت سب سے اہم ہے نور کوئی تُمہیں ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھے یہ مُجھے برداشت نہیں امی نے وُہ سوچا ہے جو ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا اور میں اُن کی بات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں کیا ہے کیا نہیں یہ صرف ہم لوگ جانتے ہیں لوگ تو نہیں ناں..."
علی نے نرمی سے کہا...
"پر.."
"مُجھے مزید اِس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی اور ہم اِس بار ناراض ہوکر نہیں جائیں گے گھر سے سب کی دعاؤں کے ساتھ اپنا ایک اور گھر بسائیں گے جیسا کہ امی نے کہا جگہ تبدیل کر رہے ہیں بس..."
علی نے اُسّے مزید کُچھ کہنے سے روک دیا...
"اب سب ٹھیک ہوگا نور فکر مت کرو.."
علی نے غیر محسوس سے انداز میں اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا...
"انشاءاللہ..."
وُہ مسکرا کر بولی...
"اُس دِن جب میں نے تین بیٹیوں کا کہا تو فون کیوں بند کردیا تھا.."
وُہ دھیما تبسم ہونٹوں میں چھپائے بولا...
"علی.." وُہ بس اتنا کہہ کر رہ گئی...
"مُجھے بیٹے چاہیے بیٹیاں نہیں.."
کُچھ توقف کے بعد وُہ بولی...
"لیکن ہوگی لڑکی ہی دیکھ لینا تُم."
علی نے قطعیت سے کہا...
"نہیں بیٹا ہوگا میں نے تو نام بھی سوچ لیا ہے ہمارے بیٹے کا "عثمان".."
وُہ مسکراتے ہوئے بولی...
"اور میری بیٹی کا نام ہوگا "ہانیہ"...."
علی کے ہونٹ خودبخود مسکرا رہے تھے...
"کب وقت گزرے گا یار ابھی پورے آٹھ مہینے باقی ہیں افّفف..."
وُہ کوفت سے بولا تو نور کی ہنسی نکل گئی...
"اللہ جو بھی دے بیٹا یا بیٹی صحت مند ہو بس آمین.."
نور نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"آمین ثم آمین.."
علی نے بھی صدقِ دل سے کہا....
_________________________________________
"کیا سچ کہہ رہا ہے تُو..."
علی نے حیرت سے پوچھا..
"ہاں بلکل سچ.."
عمر نے مسکرا کر کہا...
"میں بہت بہت خوش ہوں عُمر تیرے لیے.."
علی واقعی خبر سُن کر بہت خوش تھا...
"بس اللہ کر اِس بار سب خیریت سے ہوجائے ایک صحت مند بچہ میری گود میں آئے.."
آواز میں نمی نمایاں تھی...
"انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا آپ سب کُچھ ٹھیک ہوگا بس تُو اللّٰہ پر بھروسہ رکھ.."
علی نے اُسکے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے ہمت دی...
"اچھا چل گھر چل آج میرے ساتھ ابو اور تُجھے بڑا یاد کر رہے ہیں مُجھ سے زیادہ تو تُو میرے بھائی اور باپ کا دوست بن گیا ہے.."
علی نے چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا...
"یہ ہنر صرف مُجھے آتا ہے میری جان لوگوں کے دِل موہ لینے کا..."
وُہ اترا کے بولا تو علی ہنس دیا...
"کوئی شک نہیں اِس بات میں تُجھے خوب گُر آتے ہیں دلوں میں گھر کرنے کے چند ملاقاتوں میں سب کا چہیتا ہوگیا ہے تُو پھر چاہے میری ماں ہو بھائی یا باپ.."
"اچھا جیلس مت ہو اب ہر کوئی تیری طرح سڑو نہیں ہوتا جو اپنے کام سے کام رکھے بھئی
میری طرح بن تھوڑا ہر ایک کی دِل کی دھڑکن..."
وُہ فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولا....
"اب چل نوٹنکی کہیں کے..."
علی نے اُسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا...
پارکنگ ایریا سے اپنی اپنی بائک پر سوار گھر جانے لگے۔۔
کُچھ دور ہی چلے تھے ایک جگہ اُنہیں بہت بھیڑ دکھائی دی...
"لگتا ہے کسی کا ایکسڈنٹ ہوا ہے.."
علی نے عُمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پھر دونوں نے اپنی بائک سائڈ میں روکی اور بھیڑ میں گھس گئے...
کار کی حالت بہت خراب تھی تھوڑا آگے جاکر اُن دونوں نے دیکھا تو زخمی اِنسان کو دیکھ کر حیران رہ گئے...
"علی یہ تو وہی آدمی ہے جس کی وجہ سے ہمیں جاب سے نکالا گیا تھا..."
عمر نے علی سے کہا..
"ہاں وہی ہے.."
" کوئی اسے ہاسپٹل کیوں نہیں لے کر جارہا سب کھڑے بس دیکھ رہے ہیں.."
عُمر نے تماشہ دیکھتے لوگوں سے کہا..
"گولی چلی ہے اِس پر پولیس کیس ہے ایمبولنس کو کال کردی ہے آنے والی ہوگی خود سے لے کر گئے تُو پولیس نے ہمارے بھی گلے ہوجانا..."
ایک نوجوان لڑکے نے سفاکی سے کہا....
"تو ایمبولنس کے انتظار میں بھلے بندہ اپنی جان سے جائے کیسے لوگ ہیں آپ سامنے اِنسان کو مرتے دیکھنا منظور ہے مدد نہیں کرنی لیکن تماشہ دیکھنا ہے کھڑے ہوکر موت کا ..."
عُمر نے تاسف سے کہا..
اتنے میں علی ٹیکسی روک چُکا تھا...
"عُمر جلدی اُٹھا اِسے.."
علی نے ٹیکسی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ایک اور اِنسان کی غیرت نے انگڑائی لی وُہ زخمی آدمی کے ساتھ پیچھے بیٹھ گیا علی اور عمر دونوں اپنی اپنی بائک پر ہاسپٹل کی طرف بڑھنے لگے....
___________________________________
ایک ہفتے بعد......
علی اور عمر تقریباً روز اُس آدمی سے ملنے آتے تھے مگر آج تین دن کے وقفے کے بعد آئے تھے اور تین دن پہلے ہی اُسے ہوش آیا تھا اور اُس نے اپنے محسنوں سے ملنے کی خواہش کی تھی جبکہ علی اُس کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا عمر کے ضد کرنے پر وُہ اُسکے کے ساتھ چلا آیا تھا...
"اسلام علیکم.."
وُہ آنکھیں بند کیے لیٹے تھے جب علی اور عمر کمرے میں داخل ہوئے آواز پر اُنہوں نے آنکھیں وا کیں سامنے علی اور عمر کو دیکھ کر آنکھوں میں شناسائی کے رنگ اُبھرے آنکھیں تحیر سے پھیلتی چلی گئیں بے ساختہ منہ سے نکلا..
"تُم دونوں..."آواز میں کسی قسم کی رعونت نہیں تھی مگر حیرت عود کر آئی تھی...
"میری جان آپ لوگوں نے بچائی؟..."
اُسکے سوال پر علی نے ایک نظر عمر پر ڈالی اور مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔۔
"ہماری کیا بساط جان لینا یا دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہاں اگر یہ جاننے چاہتے ہیں کہ آپکو ہاسپٹل لے کر کون آیا تو ہاں یہ نیکی اللہ نے ہمارے حصّے میں لکھی تھی آپ سب باتیں چھوڑیں یہ بتائیں آپکی طبعیت کیسی ہے اب کریمی صاحب.."
علی نے نرمی سے کہتے ہوئے اُن کے پہلو میں نشست سنبھالی جبکہ عمر قریب آکر کھڑا رہا...
"یہ جانتے ہوئے کہ میں کون ہوں۔۔؟آہ میرے خیال میں تُم لوگ مجھے پہچانتے نہیں ورنہ کبھی یہ مہربانی نہیں کرتے..."
وُہ اپنی ہی بولے جارہے تھے...
"ہم جانتے ہیں آپ کون ہیں کریمی صاحب مگر وُہ بات کیا کسی اِنسان کی جان سے بڑھ کر تھی آپ نے قطعی ایسا کُچھ نہیں کیا جس کی بناء پر ہم آپکو مرتا دیکھ کر آگے بڑھ جاتے.."
اب کی بار عمر نے کہا تو وہ رُک کر اُن دونوں کو دیکھنے لگے...
"میرے الفاظ سارے گم ہیں نہیں جانتا کن لفظوں میں شکریہ ادا کروں مگر معافی کا خواستگار ہوں میرا رویہ اُس دن آپ دونوں کے ساتھ ہرگز بھی برادرانہ نہ تھا مگر یقین جانیے میں اِنسان بُرا نہیں ہوں بس کچھ مسئلوں میں گھرا ہوا تھا شدید ذہنی اذیت کا شکار تھا اور پھر نا خوشگوار واقعہ پیش آیا وُہ آپ دونوں بھی جانتے ہیں..."
وُہ واقع منفعل تھے اپنی حرکت پر...
"مُجھے پتا ہے کریمی صاحب کوئی بھی اِنسان بُرا نہیں ہوتا وقت اور حالات خراب ہوتے ہیں کسی ایک واقعے کی بنیاد پر اِنسان کو اچھا یا بُرا قرار دینا میرے نزدیک تو کم عقلی سے زیادہ کُچھ نہیں.."
علی نے متانت سے کہتے ہوئے اُن کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...
"آپکی فیملی کو انفارم نہیں کرسکے ہم کیونکہ موبائل آپکا نہیں مل سکا ہمیں.."
"پاکستان میں میرا کوئی نہیں ہے بیوی کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے ایک بیٹی اور بیٹا ہیں دونوں انگلینڈ میں مقیم ہیں مجھ پر مسلسل زور دیتے ہیں اُن کے پاس آکر رہوں مگر میں اپنے ملک سے دور نہیں جانا چاہتا تھا مگر اب حالات کو دیکھ کر باہر جانا ہی بہتر لگتا ہے..."
"آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا کون لوگ ہیں جو آپکی جان لینے کے در پر ہیں..؟"
عمر نے تشویش ناک انداز میں پوچھا...
"آپ دونوں نے عباسی سوفٹ ویئر ہاؤس کا نام سنا ہے؟؟"
"جی سنا ہے کافی مشہور سوفٹ ویئر ہاؤس ہے .."
"میں اونر ہوں اُس کا کُچھ لوگ کافی عرصے سے میرے پیچھے پڑے ہیں وہ لوگ کوئی غیر قانونی کام کروانا چاہتے ہیں اور میرے انکار کا نتیجہ آپ لوگ دیکھ چکے ہیں مگر مُجھے کل ہی پتا چلا ہے کہ پولیس نے اُنہیں پکڑ لیا ہے..."
کریمی صاحب نے تفصیل سے ساری بات اُنہیں بتائی...
"میرے خیال سے آپکا باہر چلے جانا ٹھیک رہے گا بھلے بظاھر ابھی خطرہ ٹل گیا ہے مگر وُہ لوگ واپس بھی آسکتے ہیں.."
عمر نے معقول بات کی...
"ہاں مگر جانے سے پہلے اپنی دن رات محنت سے کھڑی کی گئی اِس کمپنی کو محفوظ ہاتھوں میں سونپنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اِس کا پورا خیال رکھے اور نئی بلندیوں پر لے جائے...."
وُہ کہہ کر خاموش ہوگئے اتنے میں علی کا موبائل بج اُٹھا اور وُہ معذرت کرتا ہوا باہر نکل گیا....
"اِن محترم کی تعلیم کتنی ہے..؟"
اُنہوں نے عمر سے پوچھا...
"آپکے مطلب کا ہی بندہ ہے جی سافٹ ویئر انجیئر.."
عمر نے مسکرا کر کہا..
"واہ واقعی اور آپ.."
"الیکٹریکل انجیئر..."
عمر نے مختصر جواب دیا..
اُن کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی علی دوبارہ کمرے میں داخل ہوا...
"معذرت چاہتا ہوں کریمی صاحب ہمیں ابھی چلنا ہوگا انشاءاللہ پھر ملاقات ہوگی اجازت درکار ہے.."
علی نے خوش اخلاقی سے کہا کہ بُرا بھی نہ لگے۔۔
"ضرور پھر ملاقات ہوگی ایک بار پھر سے بہت شکریہ نمبر لکھ لیجئے آپ میرا اور اپنا بھی بتا دیں..."
علی نے نا سمجھ آنے والے انداز میں اُنہیں دیکھا پھر نمبر لکھ کر اُنہیں دے دیا۔۔
عمر کُچھ کُچھ سمجھ چُکا تھا...
"اب ہم چلتے ہیں اللہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا.."
علی نے مسکراتے ہوئے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا...
"سنیں..."
اُنہوں نے پیچھے سے پُکارا...
"جی.."
"میں کال کروں گا آپ کو اور دونوں نے میرے آفس آنا ہے اور اپنی پوری فیملی کے ساتھ پھر گھر بھی.."
"جی.."
علی نے حیرت سے اُنہیں دیکھا...
"اماں...سوال بہت پوچھتے ہو بیٹا تُم..."
وُہ خالص دلی والے لہجے میں بولے تو علی اور عمر دونوں بے ساختہ ہنس دیے.....
___________________________________
تین سال بعد.......
"کہاں بھاگی جارہی ہے یہ لڑکی توبہ ہے پوری شیطان کی خالہ ہے مجال ہے کبھی سیدھے طریقے سے کھا لے ایک میرا بچہ عثمان ہے کبھی تنگ نہیں کرتا مُجھے اور ایک یہ جب تک پورے گھر کے دس چکر نہ لگوا دے تب تک ایک نوالہ نہیں کھاتی..."
نور مُسلسل ہانیہ کے پیچھے بھاگتے ہوئے بول رہی تھی مگر وُہ اور ہاتھ آجائے آہاں....
علی نے نور کی دہائیوں پر ایک نظر ادھر اُدھر بھاگتی ماں بیٹی کو دیکھا اور ہنستے ہوئے دوبارہ عثمان کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگیا..
"آپی نے تو آپکی مما کو بلکل تھکا دیا ہے.."
وُہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے عثمان کے نچلے ہونٹ کو ہلکا سا کھینچتے ہوئے بولا تو اُس نے قلقاریاں مارتے ہوئے علی کے ہاتھ میں پہنی گھڑی کھینچنی شروع کردی..
"ہانی مما تھک گئی ہیں بیٹا شاباش باقی کی ایکسرسائز کل کروانا مما کی.."
نور کی خراب حالت کو دیکھ کر آخر علی کو ترس آ ہی گیا...
علی کے بولنے کی دیر تھی بس پھر ہانیہ نے ساری مستی چھوڑ کر بھاگ کر علی کی گود میں چھلانگ لگادی...
"اِسے تو میں آج نہیں چھوڑوں گی نہیں میں کوئی پاگل ہوں کب سے پیچھے بھاگ رہی ہوں مگر نواب زادی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور باپ نے ایک دفعہ بولا بس اور جا پڑی گود میں.."
نور جارحانہ تیور لیے ہانیہ کی جانب بڑھی تو اُس نے علی کے سینے میں سر چھپا لیا..
"دور رہو مارنے کے ارادے سے میری گڑیا کے قریب آنے کا سوچنا بھی مت۔۔"
بچوں میں میں تو علی کی جان تھی...
"اب اتنے پیار سے گھورنا بند کرو نورِ علی سب آنے والے ہوں گے یار تیار ہوجاؤ.."
علی نے شوخ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تو ہانیہ ہنس دی..
"پاگل ہیں دونوں باپ بیٹی اِدھر دیں میرے بیٹے کو اپنے جیسا بنا دیں گے اِسے.."
اُس نے اپنی جانب ہمکتے عثمان کو گود میں لیا اور اندر چلی گئی...
"بیٹا اتنا تنگ نہیں کیا کرو مما کو.."
اب وُہ اُسے سمجھا رہا تھا..
علی کی بات پر اُس نے معصومیت سے سر ہلایا تو علی کو اُس پر جی بھر کے پیار آیا اور اُسکے گال چوم لیے...
"پاپا آپکی داڑھی چبھ رہی ہے.."
ہانیہ نے اپنے سرخ گال سہلاتے ہوئے کہا اور اُسکی گود سے اُتر کر اپنی مما کے پاس بھاگ گئی...
علی نے مسکرا کر اپنی پیٹھ صوفے کے پشت سے ٹکادی...
آج گھر پر دعوت تھی اُن دونوں کی شادی کے خوشگوار چار سال پورے ہونے کی خوشی میں...
"میں علی ہوں ہاں جی علی اِس کہانی کا کردار اپنی نور کا علی الوداع لینے سے پہلے کُچھ کہنا چاہتا ہوں...
"نور میری زندگی ہے میرا سب کُچھ اِس میں کوئی دو رائے نہیں چار سال کب گزرے پتا ہی نہیں چلا یوں لگتا تھا کل کی ہی بات ہے جب نور میری زندگی میں آئی تھی تھوڑی ڈری تھوڑی سہمی سی چُپ چاپ سی یقین ہی نہیں آتا نورِ علی کے ہماری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں مُجھے تو اب بھی سب نیا نیا سا لگتا ہے یا شاید یہ میری محبت کی شدت ہے مُجھے نور کے ساتھ گزارا ہر وقت کم لگتا ہے جب شادی کی رات پہلی بار اُسے اپنے قریب دیکھا تھا بے حد قریب اُسی دن ہارگیا تھا میں مگر ماننے میں بہت وقت لگا خیر ہے لیکن...یوں اچھا بھی ہے ایسے بہتر جان سکا اُسے اور میری محبت بھی شدت پکڑتی گئی
اصل میں محبت ہمارے ایمان کا پھول ہے۔ یہ دل کی ایسی ریاست ہے جو کبھی ادھر ادھر نہیں ہو تی اللہ کائنات کومحبت کی کھڈی پر ایک تار کی طرح چلاتا ہے سب سے زیادہ سحر انگیز اور دلچسپ موسیقی جو موجودات کے سینے پر پیدا ہو تی ہے وہ ٘محبت ہی ہے۔ اس کا ہر جزو دوسرے جزو کے ساتھ مل کر اسکی تائید کرتا ہے۔
محبت کا تبادلہ اپنی مرضی سے ماوراء ہوتا ہے اس لئے کہ منشاء ایزدی ان پر مکمل طور پر محیط ہوتی ہے۔
کہنے کو محبت اک نعمت ہے جن کو ملے اُن کے لیے غنیمت ہے محبت روح کا سکون ہے محبت بے لوس ہو تو عبادت بھی ہے جیسی مجھے اپنی نور سے ہے خوبصورت زندگی ہے تاریکی میں امید کا چراغ بھی ہے
محبت زینت ہے دنیائے عشق کی محبت چاہتوں کا میلہ ہے محبت یہ کہ محبوب کے ساتھ ایسا تعلق خاطر ہو کہ انسان محبوب کا فرمانبردار ہو اس کے اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو اور محبوب کا سراپا صرف شعور نہیں بلکہ لاشعور میں اس طرح نقش ہو جائے کہ انسان لاشعوری طور پر محبوب کی ایک ایک ادا کو اختیار کرے
محبت جیسے سرکش اور منہ زور جذبے کو لگام دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
محبت کا سودا ایک بار سر میں سما جائے تو انسان عقل وخرد سے بے گانہ ہوجاتا ہے،
محبت ریاضی کے اصولوں کی پیروکار ہوتی ہے۔ پہلے جمع یعنی یکجا یا متحد کرتی ہے اور پھر حاصل جمع کو ضرب دیتی چلی جاتی ہے اور یوں ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز ہوجاتا ہے جسے فنا نہیں۔ اس میں تقسیم سے مراد بانٹنا اور نفی سے مراد محبوب کے سامنے اپنی انا اور خود داری کو ختم کرکے اس کی رضا میں ڈھل جانا۔
جیسے میں پوری طرح سے اپنی نور کے مطابق ڈھل چُکا ہوں اسی طرح وُہ میرے مطابق یہ کوشش یک طرف نہیں دو طرفہ ہے..."
"علی زبیر بھائی کی کال آئی تھی وُہ اور نادیہ آپی بس پہنچنے والے ہیں آپ ایسے ہی بیٹھے ہیں کپڑے بدلیں جاکر توبہ ہے بچوں سے بھی بڑے بچے ہیں آپ.."
نور نے اُس کا بازو ہلاتے ہوئے کہا تو اُس نے آنکھیں کھول کر محبت بھری نظروں سے اپنے سامنے کھڑی نور کو دیکھا جو اپنے دوپٹے سے نبردآزما تھی علی کی شوخ نظریں دیکھ کر رکی اِس سے پہلے وُہ کوئی شرارت کرتا وہاں سے کھسک لی اُسکی اِس حرکت پر علی کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ آ ٹہری تھی ...
"ارے روکیے کہاں چلے ہر پریشانی میں میرے ساتھ رہے اب خوشی میں شریک نہیں ہوں گے میں تو جاتا ہوں تیار ہونے ورنہ آپ سب کی چہیتی نور نے مجھے نہیں چھوڑنا لیکن واپس آتا ہوں کُچھ باتیں رہتی ہیں..."
تھوڑی ہی دیر میں علی کپڑے چینج کرکے باہر آگیا باقی سب بھی آ گئے تھے..
" زندگی میں کُچھ نئے کردار بھی شامل ہوگئے ہیں جیسے کہ شعیب عرف شوبی میرا پیارا سا بھانجا فرح اور فارس کی جان..
ثنا میری بھانجی بھی اور بھتیجی بھی یہ معاملہ ابھی تک زیرِ بحث ہے میرے واحد سالے زبیر اور تیسری بہن نادیہ کی چُلبلی سے بیٹی کہتی مُجھے چاچو ہے میری گڑ کی ڈلی... نمرہ اور عباس شادی کو تین مہینے ہی ہوئے ہیں ابھی میرے محسن کریمی صاحب کے فرزند ہیں ایک سُلجھا ہوا اور نیک اِنسان...
دانیال اور عائلہ اِن کی شادی کو بھی تین ہی مہینے ہوئے ہیں ابھی عائلہ خوبصورت کے ساتھ ساتھ ایک خوب سیرت لڑکی ہے سراسر نور کی پسند ہے کیونکہ نور کے دانیال بھائی نے اِس بار فیصلہ نور پر چھوڑا تھا تو میری جان ڈھونڈھ کر لائی بلکل اپنے جیسی لڑکی دانیال بھی بہت خوش ہے چاچو بننے والا ہوں... آپ لوگ تانیہ کا سوچ رہے ہوں گے شاید میں بتادوں لڑکی وُہ بری نہیں تھی مگر وہ کہتے ہیں ناں کُچھ لوگ آپ کی زندگی میں جانے کے لئے ہی آتے ہیں یہی تانیہ کی کہانی تھی اُسے ایک چاہنے والا جیون ساتھی مِل گیا اب وُہ اپنے شوہر کے ساتھ سوئزر لینڈ مقیم ہے اور ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہے میں اتنا اِس لیے جانتا ہوں کیونکہ اُس کا شوہر میرا بہت اچھا دوست ہے اب یہ ایک لمبی کہانی ہے کیسے...یقیناً آپ لوگ میرے جگر میرے عمر کو یاد کر رہے ہیں وُہ بھی آگیا..."
"اِسے تو مجھے دیں آپ عمر بھی میری شہزادی..."
نور نے عمر کی اُنگلی پکڑے کھڑی گول مٹول کنچی آنکھوں والی ردا کو گود میں اُٹھاتے ہوئے اُس کے بھرے بھرے گال چوم لیے...
"ردا.."عمر اور بشریٰ کی بیٹی میری جان ہانی کی ہم عمر بڑی دوستی ہے دونوں میں ایک دوسرے میں جان بستی اب یہ میری اور عمر کی دوڑ لگتی ہے روز اُنہیں ایک دوسرے سے ملوانے کی وُہ تو صد شکر اب عمر میرے برابر والے فلیٹ میں ہی شفٹ ہوگیا ہے زندگی کی اِس راہ گزر پر کئی مسافتیں طے کرکے آج اِس مقام پر پہنچے ہیں ہم سب زندگی کی گاڑی خوشیوں اور مسرت بھرے راستے پر رواں دواں ہے.... اچھا ایک منٹ رکیے بس آیا.."
"دادی میری خرچی دیں.."
ہانیہ فوراً جاکر شفق خاتون کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تو شفق خاتون نے اپنے لختِ جگر کو اپنی گود میں اُٹھا لیا..
"دادی کی جان میری بچی.."
اُنہوں نے اُس کے ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ رکھتے ہوئے کہا...
"آئی لو یو دادی.."
ہانی نے شفق خاتون کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا... یوں تو سب بچوں سے محبت تھی مگر ہانیہ سے ہر کسی کو کچھ زیادہ ہی محبت تھی کیونکہ وُہ پہلی اولاد تھی اور شفق خاتون سمیت پورے گھر بھر کی لاڈلی اسی وجہ سے کچھ ضدی بھی تھی...
" آج کی تقریب کی دو وجوہات ہیں ایک تو آپ سب جانتے ہیں دوسری بتانے لگا ہوں دوسری یہ کہ نور نے اپنا سیکنڈ ایئر اے ون گریڈ کے ساتھ پاس کیا ہے..."
علی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا نور خود بھی چونکی تھی سب باتوں میں وُہ یہ تو بھول ہی گئی تھی آج اُس کا رزلٹ آنا تھا مگر علی کے ہوتے ہوئے اُسے فکر کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی...
سب نور کو مبارک باد دینے لگے۔۔
"کیک کٹنگ کا وقت ہوگیا ہے بھابھی.."
عائلہ نے پُر جوش ہوکر کہا۔۔۔
"میں کیک لے کر آتی ہوں.."
نور نے مسکرا کر کہا اور چلی گئی علی بھی غیر محسوس سے انداز میں وہاں سے ہٹ گیا...
"آپ یہاں کیا کرنے آگئے ہیں۔۔؟" نور نے اُسے کچن میں داخل ہوتا دیکھ کر کہا ارادہ وُہ بھانپ چُکی تھی...
"علی باہر سب ہیں کُچھ لحاظ برتیں آج تو.."
نور نے اُس کی نظریں پڑھ لی تھیں...
"تو کس نے کہا تھا اتنی خوبصورت لگو اب میں کتنا سنبھالوں خود کو.."
وُہ قدم قدم چلتا اُس کے قریب آتے ہوئے بولا...
"علی باہر سب لوگ ہیں.."
"تو میں کیا کروں.."
علی کا یہ جواب نور کو مزید تپا گیا اِن گزرے سالوں میں وُہ اگر کسی چیز سے ڈرتی تھی تو وُہ علی کی شدت پسند محبت سے اور اوپر سے یہ شانِ بے نیازی ...
"قریب مت آئیں ورنہ.."
"ورنہ کیا.."
وُہ اُس کی حالت سے حظ لیتے ہوئے بولا...
"ورنہ میں مار دوں گی.."
اُس نے کانپتے ہاتھوں سے چھری اُس کے سامنے کرتے ہوئے کہا..
"تُم مچھر مار لو بہت ہے۔۔"
علی نے تمسخر اُڑایا نور کی خود اپنی حماقت کا احساس ہوا اِس لیے فوراً چُھری پھینک دی علی اب بلکل اُس کے سر پر آچکا تھا...
"بھئی کیا ہے۔۔"
وُہ جھنجھلا کر بولی اور سائڈ سے نکلنا چاہا مگر اُس نے ارد گرد ہاتھ رکھ کر اُسے محبوس کردیا...
"محبت ہے اور کیا ہے..؟"
وُہ خُمار آلود لہجے میں بولا...
"عمر دیکھیں اپنی دو بچوں کے ہیں اور آپکا رومانس ہی ختم نہیں ہوتا.."
نور نے اُس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا مگر وُہ اُس کے انداز میں کوئی فرق نہ آیا...
"کیا عمر ہے میری.."
"بتیس سال کے ہوگئے ہیں..؟"
وُہ اُسے زچ کرنے پر تُلی ہوئی تھی...
"تُم مجھے بڈھا کہہ رہی ہو بتیس سال کا مرد کب سے بڈھا ہوگیا نورِ علی شرم کرو اتنے ہینڈسم شوہر کی تمہیں کوئی قدر نہیں لڑکیاں مُجھے بڑے غور سے دیکھتی ہیں.."
وُہ کافی حد تک چڑ گیا تھا اب نور کو تپانا تھا..
"کون دیکھتی ہے نام بتائیں اُس کا.."
اور حسبِ توقع نور تپ کر بولی..
"کوئی ایک ہو تو بتاؤں نجانے کتنی ہیں.. ٹینا،مایا،مونا.."
علی مزید اُسے چڑاتا اگر نور کی نے اپنا پیر اُس کے پیر پر زور سے مارا نہ ہوتا...
"اور کون چڑیلیں ہیں.."
وُہ علی کے کندھے میں اپنے ناخن گاڑتے ہوئے بولی..
"خُدا کی پناہ مذاق کر رہا تھا نور یار توبہ کتنی بے رحم ہو تُم ہائے میرا پیر..."
وُہ مصنوئی آہ بھر کے بولا...
"مذاق ہی ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔یاد رہے آپ صرف میرے ہیں اور مُجھے ہی دیکھنا ہے ورنہ یہ چھُری دکھ رہی ہے اِسے رکھوں گی چولہے پر خوب گرم کرکے آپکی آنکھیں نکال لوں گی پھر دیکھتے رہیے گا.."
وُہ سخت نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی...
"توبہ ہے میرا ایک مذاق اور تُم کہاں پہنچ گئی یار نہیں دیکھتا تمہارے علاوہ کسی کو اِن آنکھوں میں تو صرف تُم بسی ہو نورِ علی.."
وُہ پھر پٹری سے اُترا...
"علی.."
"جی علی کی جان.."
وُہ دلنشین انداز میں کہتا ہوا مزید قریب ہوا اور اُس کی پیشانی کا بوسہ لے لیا...
"پیچھے دیکھیں..."
"اُونہوں.. میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والا.."
وُہ نور کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مخمور لہجے میں بولا...
"علی ہانی..."
نور کی سرگوشی پر وُہ خود بھی چونکا تھا پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا نور کو لمحہ لگا اُس کی گرفت سے نکلنے میں اور اُسے انگوٹھا دکھاتی باہر چلی گئی...
"پاگل لڑکی مگر صرف میری.."
علی بھی ہنستا ہوا اُسکے پیچھے چل دیا...
"محبت ایثار میں پوشیدہ اک ایسا سر بستہ راز ہے کہ جس کو سمجھتے تو بہت ہیں مگر عملی مظاہرہ کرنے کا ظرف کسی کسی میں ہی ہوتا ہے۔ نور اور علی نے اس جذبے کو سمجھا تھا اور جیا تھا۔ محبت ہوجانا کمال نہیں محبت میں ایثار کرنا کمال ہے۔
محبت ہو تو سب کو جاتی ہے مگر ایثار بہت کم کر پاتے ہیں اور جو اس راز کو پالیتے ہیں حقیقی مسرت انہی کا مقدر بنتی ہے۔.."
"اب الوداع کا وقت آگیا ہے دل نہیں چاہتا ساتھ چھوٹے مگر وُہ کہتے ہیں ناں زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے اور جمود موت ہے تو اجازت درکار ہے ... نور اور علی کی طرف سے خُدا حافظ...."
(فقط نور کا علی)
(تمہت بالخیر)
NOTE: sorry for delay meri ami ki tabyat khrab thi isi waja se nhi likh saka..
chalo ab tum logo ki jaan choti moje karo :p jokes apart finally novel complete hogya to is part par har reader ko apna review dena hai plzz silent readers ko bhi.....
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro