”سایہ“
کام چور۔ نیند سے بوجھل آنکھوں کو زبردستی کھولے رکھنے کی کوشش کرتا ہوا وہ خود کلامی کے سے انداز میں بڑ بڑایا ۔
اٹھ اور کالونی کا ایک چکر لگا کر آ ۔ پھر دیکھ یہ نیند کیسے بھاگتی ہے۔ اپنے آپ سے کہتا ہوا وہ کرسی سے اٹھا۔ دو چار قدم چل کر وہ پانی پینے کے خیال سے واپس پلٹا۔ گیٹ کے باہربنی اینٹوں کوٹھڑی کے باہر جہاں اس کی کرسی تھی۔ اس کے ساتھ رکھے لکڑی کے اسٹول پر نیلے رنگ کا کولر اور اسٹیل کا گلاس رکھے رہتے تھے۔ اس نے گلاس اٹھا کر پانی بھرا اور ایک سانس میں آدھے سے زیادہ پی گیا۔ ۔ پھر جھک کر نیند سے بوجھل آنکھوں پر بچے ہوٸے پانی کے چھپاکے مارے اور سیدھا کھڑا ہوگیا۔
”گندے اور پرانے ہو رہے ہیں یہ بھی“ ۔ اس نے گلاس اور کولر کو بلب کی مدھم زرد روشنی میں غور سے دیکھتے ہوٸے کہا۔ کل کہتا ہوں صاحب والوں کو۔ ...لیکن۔۔۔ پہلے بھی تو کتنی بار کہا ہے۔۔۔ وہ جیسے خود کو کچھ یاد کرواتے ہوٸے بولا۔۔۔بھول گٸے ہونگے ۔اس نے اپنے ہی منفی خیالات کی نفی کرنے کی کوشش کی ۔
گلاس واپس کولر کے اوپر رکھتے ہوٸے اس کی نظر کرسی کے ساتھ رکھی اپنی بندوق پر پڑی ۔
واہ بھٸی چوکیدار! تیری عقل بھی گھاس چرنے گٸی ہوٸی ہے ۔ بغیر ہتھیار کے ہی چل پڑا تھا ! اس نے پیشانی پر ہاتھ مارا اور اپنی بے وقوفی پر ہنس کر، بندوق اٹھاٸی اورکالونی کا پہرا دینے چل پڑا۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا ۔ اپنے آپ سے باتیں کرتا۔ اپنی بے وقوفیوں پر ہنستا اور خود کو ہی لعنت ملامت کرتا .
بچے نہ جانے اس وقت کیا کر رہے ہونگے۔۔!؟ کالونی کی پہلی گلی میں داخل ہوکر اس نے ایک تجربہ کار چوکیدار کی طرح اطراف پر نظر دوڑاٸی مگر خود کلامی اس کی اب بھی جاری تھی ۔
لو بھلا۔ آدھی رات کو بچوں نے آخر کرنا کیا ہے ! سو ہی رہے ہونگے نا۔ اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوٸے وہ دھیرے سے ہنس دیا.
ٹھیک کہتی ہے وہ بھی ۔ راتوں کو جاگ جاگ کر دماغ خراب ہوتا جا رہا ہے میرا ۔ اسے اپنی بیوی کی غصے میں کٸی بار کہی ہوٸی بات یاد آٸی تو زیرِ لب مسکرا دیا۔
سیاہ راتوں کے سناٹے اور اکیلے پن کے احساس سے چھٹکارہ پانے کا اس نے یہی مشغلہ اپنایا تھا ۔ ساری رات خود کو جگاٸے رکھنے کے لیٸیے وہ خود کلامی کرتا رہتا۔
مگر آج نیند آٸی بھی ہوگی بچوں کو !؟ پر سوچ انداز میں اس کی خود کلامی جاری تھی۔ پنکھا بھی تو خراب تھا ۔۔ اور آج حبس بھی تو کتنی ہے ۔۔ اس نے لمحہ بھر کو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔
یا مالک! ہوا کو بھی آج ہی بند ہونا تھا۔۔۔ اس کے لہجہ میں کچھ رب سے شکوہ کچھ اپنی غربت کی تلخی شامل ہوگٸی۔ شاید اولاد سے محبت چیز ہی ایسی ہے۔۔۔؟
پھرجیسے اپنے ہی شکوے پروہ نادم سا ہوا۔” بس کچھ ہی گھنٹوں کی تو بات ہے ۔ “
”آج کی رات تو جیسےتیسے کٹ ہی جاٸے گی۔ صبح تنخواہ میں سے کچھ روپے لیتا ہوا جاٶں گا۔ اور جاتے ہی سب سے پہلے پنکھا ٹھیک کرواٶں گا۔ “۔ اس نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی ۔
اطراف پر نظر دوڑاتا ، اچھی طرح جاٸزہ لیتا وہ آگے بڑھتا رہا۔ تیسری گلی میں داخل ہوکر اس نے ایک بار اوپر نیچے،حسب معمول ایک سرسری سی نظر دوڑاٸی۔ لمحہ بھر کو جیسے اس کے قدم رک سے گٸے۔ گلی کے آخری سرے پر بنے بنگلوں میں سے کسی ایک بنگلے پر اسے ایک سایہ سا نظر آیا تھا۔
عجیب بات ہے۔۔ رات کے اس پہر یہ کون صاحب جاگ رہے ہیں۔۔۔؟ اس کی بڑبڑاہٹ میں قدرے حیرانگی در آٸی۔
فاصلا زیادہ تھا اور اس کی نظربھی کمزور،رات کی تاریکی میں اندازہ لگانا اس کے لیٸیے مشکل ہوگیا کہ وہ سایہ کون سے بنگلے کی چھت پر ہوسکتا ہے۔ ۔ اس نے کسی خیال کے تحت اپنے قدم اس سمت بڑھا دٸیے۔
چلتے چلتے ایک بار پھر اس نے نظراٹھاٸی۔ ۔
ساٸے میں ایک پل کو خفیف سی حرکت ہوٸی اور وہ پھراپنی جگہ ساکن ہوگیا۔ اس پل چوکیدار کو اس کے آگے کھڑے کسی اور کی جھلک سی نظر آٸی۔۔
اس نے اپنے اٹھتے قدموں کی رفتار پہلے سے تیز تر کر دی۔۔۔
اس کے کچھ قریب پہنچتے ہی چھت پر کھڑے ساٸے جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹے ۔ شاید انہیں خطرے کا احساس ہوچکا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ مزید قریب پہنچتا، ساٸے احتیاط سے دوسری طرف بڑھ گٸے۔۔۔۔۔ شاید انہیں ڈر تھا کہ دوڑنے سے قدموں کی آواز پربنگلے کے مکین جاگ نہ جاٸیں۔
چور۔۔۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔ لیکن مجھ سے بچ کر کہاں جاٸیں گے۔ سخت لہجے میں کہہ کر وہ بھی اسی سمت دوڑا جس طرف سایہ جاتے دکھا ۔
دوڑتے ہوٸے اس نے دو ایک بار ”چور ، چور“ بھی پکارا۔ لیکن بند کمروں میں میٹھی نیند کے مزے لینے والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا ۔جوں ہی وہ دوسری طرف پہنچا۔ دور سے ہی اسے ایک سایا سا بنگلے کی چھت سے ، پاٸپ کے سہارے اترتا دکھاٸی دیا۔ اس نے دوسرے کی تلاش میں بھی ادھر ادھر نظریں دوڑاٸیں۔ ٹھیک سے نظر نہ آیا مگر اسے چھت پر لگی بوگن ویلیا بیل کے پیچھے کسی کے چھپے ہونے کا گمان ہوا۔
ہممم ۔ ساتھ نہ پکڑے جاٸیں اس لیٸیے ایک وہیں رک گیا ہے۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں بھاگ کے جاتے کہاں ہیں۔ اس نے سوچتے ساتھ ہی اپنے دوڑنے کی رفتار مزید تیز کردی۔ جیسے جذبہ فرض شناسی نے اس میں برقی روح پھونک دی ہو۔۔
تم جاٶ۔۔ اگر ساتھ پکڑے گٸے تو بہت برا ہوگا۔۔ پاٸپ سے اترتے ساٸے نے چھت پر کھڑے ساتھی کو مخاطب کیا ۔
بوگن ویلیا کے پیچھے چھپے ساٸے میں کچھ بے چین ہلچل سی ہوٸی ۔ لیکن وہ وہیں کھڑا رہا۔۔ مصیبت میں ساتھی کو تنہا چھوڑ کر جانا اسے مشکل لگ رہا تھا ۔
چوکیدار قریب پہنچ چکا تھا ۔ اس نے پاٸپ سے اترتے شخص کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کا چہرہ مکمل طور پر سیاہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔
بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔۔ چوکیدار نے سخت لہجہ میں کہا۔ پاٸپ سے اترتے شخص نے سنی ان سنی کرتے ہوٸے اپنے اترنے کی رفتار تیز کردی۔
چوکیدار نے جب دیکھا میری دھمکی کا اثر نہیں ہورہا تو اس نے کاندھے سے بندوق اتاری اور پاٸپ کے سہارے اترتے شخص کی داہنی ٹانگ کا نشانہ لے ٹرگر دبا دیا۔۔۔
اس سارے عمل میں بندوق کی محض ہلکی سی آواز آٸی۔ پاٸپ سے اترتا شخص اپنی جگہ ساکن ہوگیا۔ بوگن ویلیا کے پیچھے بھی مکمل سکوت چھا گیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا شاید کہ چوکیدار کے پاس بندوق ہے اور وہ چلانے میں دیربھی نہیں کرے گا۔
چوکیدار نے پل بھر کو حیرانگی سے بندوق پر نظر ڈالی۔ گولی نہیں چلی تھی۔
اس نے بغیر توقف کٸیےایک بار پھر کوشش کی لیکن ندارد۔۔۔ کبھی چلانے کی نوبت ہی نہیں آٸی تھی نہ معلوم کب سے بندوق جام تھی ۔۔۔
پاٸپ کے سہارے اترنے والے نے چوکیدار کی صورتحال کا اندازہ لگالیا تھا۔ جیسے اس کی جان میں جان واپس آگٸی اور اس نے پہلے سے بھی زیادہ برق رفتاری سے اترنا شروع کردیا ۔
چوکیدارنے دانت بھینچ کر بندوق پر لعنت بھیجی ۔ جھلاہٹ میں اسے نیچے پٹخا ۔
اتنی دیر میں برق رفتاری سے اترتا وہ شخص زمیں کے کچھ قریب پہنچ چکا تھا ۔ اس نے وہیں سے چھلانگ لگاٸی ۔ جب تک وہ زمیں سے سیدھا کھڑا ہوتا، چوکیدار نے موقعہ غنیمت جانا اور اس کو کمر سے دبوچ لیا ۔ مگر وہ چوکیدار کی توقع سے زیادہ پھرتیلا نکلا۔ اگلے ہی پل وہ شخص اس کی گرفت سے خود کو چھڑانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ چوکیدار ہار ماننے کو تیار نہ ہوا۔۔ اس نے ایک بار پھر پکڑنے کی کوشش کی ۔ پھولی ہوٸی سانس کے باوجود وہ چور چور بھی پکارتا رہا۔ لیکن آتا کون ؟ شدید گرمی اور حبس سے بچنے کے لیٸیے کالونی کا ہر شخص یخ بستہ کمرے میں سکون سے سویا ہوا تھا ۔ البتہ بوگن ویلیا کی اوٹ میں چھپے وجود کی بیچنی اس کے چور چور چلانے سے بڑھتی جا رہی تھی۔
چند لمحوں میں اس کی یہ پکار بند ہوگٸی، اس شخص نے اپنا آپ چوکیدار کی گرفت سے آزاد کر کے، پلٹ کر پوری قوت سے دھکا دیا تھا۔ دھکا لگنے سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور لڑکھڑا کر منہ کے بل دیوار سے ٹکرایا۔
آہ ۔۔۔ بے اختیار اس کی زباں سے ایک درد بھری آہ نکلی ، اس کی پیشانی اور ناک سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔
کراہ سن کر بوگن ویلیا کی اوٹ میں چھپا سایا بے چین سا ہوکر باہر نکلا تھا۔
چوکیدار کو لگی ہے۔ ۔ نیچے کھڑے شخص نے چھت پر کھڑے ساتھی کو مخاطب کیا۔۔
اوہ۔۔۔ اب کیا ہوگا۔۔!؟ اندھیری چھت پر کھڑے وجود کی نسوانی آواز چوکیدار کی سماعتوں سے ٹکراٸی ۔۔
چوکیدار نے نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔۔ ادھیڑ عمر چوکیدار کے لیٸیے اب صورتحال سمجھنا مشکل نہیں تھا۔۔۔۔
پتا نہیں ۔میں تو جا رہا ہوں۔۔۔ نیچے کھڑے شخص نے جواب دیا تھا۔۔۔ لیکن اگر اس نے منہ کھولا اور میرا نام آیا۔۔ تو۔۔ تمہارے ساتھ بھی اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ عجیب سے لہجہ میں کہہ کر بغیر کسی توقف کے وہ شخص دوڑتا ہوا کالونی کی دیوار پھلانگ گیا۔۔۔
چوکیدار نے جیب سے رومال نکال کر ناک سے بہتا خون صاف کیا، پیشانی کی چوٹ پر وہی رومال باندھ کر کچھ دیر پھولی ہوٸی سانس کے ساتھ وہیں گم سم سا بیٹھا رہا۔ پھر دیوار کا سہارا لے کر اٹھا ۔ ایک بار پھر اس نے نظر اٹھا کر چھت کی کی طرف دیکھا اور سر جھکاٸے گیٹ کے باہر بنی کوٹھڑی کی طرف چل دیا۔۔
تاریک چھت پر کھڑا نسوانی وجود ، کتنی ہی دیر حیرت کا مجسمہ بنا اس راستے کو تکتا رہا جس طرف وہ شخص گیا تھا۔۔
اس کے لیٸیے ، وہ الفاظ۔ ۔۔۔ وہ لہجہ ۔۔۔ کتنے اجنبی سے تھے۔۔۔
دھمکی، نفرت، بے رخی، اجنبیت، تلخی۔۔ کیا نہیں تھا اس آخری جملے میں؟
کچھ دیر قبل بھی چھت پر ساتھ نبھانے کے وعدے کرنے والے، محبت کے دعوے کرنے والے کی حقیقت چند لمحوں کی مصیبت میں عیاں ہوگٸی۔۔۔ بس یہی تھی اس کی محبت۔۔۔؟
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro