Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۹

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۹
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"میں نے تُم سے کہا تھا ناں کہ میں کبھی حالات کے آگے ہار نہیں مانوں گا مُجھ پر بھروسہ رکھنا بس اب دیکھو تمہارے بھروسہ نے ہم دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک کردیا.."
احسن نے دُلہن بنی بیٹھی عائشہ کی تھوڑی کو اُونچا کرتے ہوئے اُس کا چہرہ اپنے سامنے کیا...
"مگر ہم نے اِس محبت کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے ہم نے اپنے اپنوں کو کھو دیاہے شاید ہمیشہ کے لیے.."
عائشہ نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دُکھ سے کہا..
"کیسے اپنے جنہیں ہماری خوشی ہی نہیں دکھائی دیتی تھی نہ وُہ یہ دیکھ سکے کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا نہ وُہ تمہارے دِل کی تڑپ محسوس کرسکے ہم نے کُچھ غلط نہیں میری جان اگر ہم اُن کی بات مان کر اِس محبت سے دستبردار ہو بھی جاتے تو کسی اور کے ساتھ بھی خوش نہیں رہ پاتے دائمی خوشیوں کے لیے وقتی ناراضگی برداشت کرسکتا ہوں میں اور اگر کو وُہ کبھی نہ بھی مانے تو بھی مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا یہ ہمارا حق تھا جو اللہ نے بھی دیا ہے ہمیں لہذا اِن باتوں کو سوچ کر خود کو ہلکان مت کرو..."
احسن نے اُس کی پیشانی پر اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کی تو عائشہ نے طمانیت سے آنکھیں موند لیں...
بیڈ کےکنارے سے لگی بیٹھی عائشہ کو فون کی آواز نے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تھا اُس نے ایک نظر پُر سکون سوتے اپنے بچوں پر نظر ڈالی اور اُٹھ کر ہال میں آگئی جہاں فون بج بج کر بند ہوچکا تھا واپس جانے کے بجائے وُہ قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی ٹھیک پندرہ منٹ بعد فون دوبارہ بجنے لگا...
"اسلام علیکم.." اُس نے ریسیور کان سے لگاتے ہوئے کہا...
"وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو..؟"
ثروت باجی میں محبت سے پوچھا..
"بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوں میں باجی بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوں..."
ہمدرد پاکر عائشہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی اور روتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں...
"ہوا کیا ہے؟ عائشہ پلیز رونا بند کرو کُچھ تو بتاؤ دیکھو میرا دِل بیٹھا جارہا ہے بچے تو ٹھیک ہیں ناں..؟"
دوسری آواز فریحہ کی تھی فون یقیناً اسپیکر پر تھا..
عائشہ نے روتے ہوئے رات گزری قیامت من و عن سنادی...
فریحہ اور ثروت باجی کی حیرت کی انتہا نہیں رہی دونوں بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے...
"عائشہ میری بہن رونا بند کرو سب سے پہلے پلیز رونا بند کرو..." فریحہ نے بہت محبت سے اُسے کہا...
" وُہ لوگ ایسا کیسے کرسکتے ہیں اتنے سفاک اتنے ظالم لوگ بھی ہیں اُس دُنیا میں تُم تو خیر تھی ہی پرائی مگر اپنے خون کے لیے بھی اُن کا دِل نہیں پسیجا کیسے گوارہ کرلیا اُن لوگوں کے ضمیر نے ایک جوان جہان لڑکی کو دو چھوٹے بچوں سمیت رات کو دھکے دے کر نکلنا.."
ثروت باجی کا لہجہ بھیگا ہوا تھا وُہ بھی رو رہیں تھیں...
"عائشہ میری بچی بلکل بھی گھبرانے کے ضرورت نہیں ہے تُم اپنے گھر میں وُہ تمہارا بھی گھر ہے سکون سے رہو بلکل بس جو وُہ فرعون صفت لوگ کرسکتے تھے کرچکے تُم سب اللہ کے پر چھوڑ دو وُہ بہتر اِنصاف کرے گا میں کل ہی تمہارے پاس آرہی ہوں خود کو اکیلا مت سمجھنا تمہاری ثروت باجی ہے تمہارے ساتھ ٹھیک ہے اب رونا مت بس آرام کرو.."
اُنہوں نے ہر طور تسلی دی...
"نہیں باجی میری وجہ سے آپ فریحہ کو مت چھوڑ کر آئیں اُسے آپ کی ضرورت ہے اور آپ بھی اِس لیے وہاں گئی ہیں یہ اللہ کا احسان ہی ہے مُجھ پر کہ آپ جاتے ہوئے چابیاں مُجھے دے گئیں تھیں ورنہ میں تو سوچ کر بھی کانپ جاتی ہوں کہ آخر جاتی تو کہاں جاتی اپنے بچوں کو لے کر..."
عائشہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے متشکر انداز میں کہا..
"اللہ جو کرتا ہے یا کرواتا ہے اُس میں ضرور کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے..."
اُنہوں نے فوراً کہا...
"باجی اب بس ایک کام کردیں میرا امان بھائی سے پوچھ کر میرے لائق کوئی جاب کا پتا کروادیں چاہے جیسی بھی ہو پھر میں رحمت چاچا کے پاس رکھے پیسوں سے کوئی دو کمروں کا فلیٹ کرائے پر لے کر وہاں شفٹ ہوجاؤں گی..."
عائشہ نے متانت سے کہا..
"مگر عائشہ..."
اُنہوں نے کُچھ کہنا چاہا مگر عائشہ نے بیچ میں ہی اُن۔ بات کاٹتے ہوئے کہا...
"میں جانتی ہوں باجی آپ اِس فیصلے سے خوش نہیں ہیں مگر خُدا کی قسم اگر گھر میں صرف آپ ہوتیں تو میں کہیں نہیں جاتی مگر آپکے ساتھ احمد بھی ہے اور سلمان بھائی بھی آتے رہتے ہیں اُن کی موجودگی میں ایک ہی گھر میں رہنا مطلب لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع خود دینا میں جانتی ہوں احمد اور سلمان بھائی مُجھے فریحہ سے ہرگز کم نہیں سمجھتے میرے لیے بھی دونوں میرے بھائیوں کی جگہ ہیں مگر وُہ دونوں جوان ہیں اور نامحرم بھی اِس لیے ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتی یہ بات آپ بھی سمجھتی ہیں میرے پاس صرف عزت ہی باقی ہے اگر کل کو کسی نے اُس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا تو میرے پاس کیا رہ جائے گا...."
اُس نے اپنے فیصلے کے پیچھے کی وجہ اُنہیں صاف بتادی...
"ٹھیک ہے میں امان اور سلمان دونوں سے کہتی ہوں جیسے ہی کُچھ ہوتا ہے میں تُجھے بتادوں گی اور ہاں بس میرے آنے سے پہلے کہیں مت چلی جانا ورنہ میں تُجھ سے بات نہیں کروں گی..."
واضح تھا کے وُہ عائشہ کے فیصلے سے خوش نہیں تھیں مگر عائشہ جانتی تھیں کہ وُہ بھی اگر اِس بات کو سوچیں گی جان جائیں گے کہ اُس نے یہ فیصلہ بلکل ٹھیک کیا تھا....

___________________________________________

"کیا ہوا چہرے پر بارے کیوں بج رہے ہیں دونوں کے.؟؟"
منیرہ نے جنید اور جبار کے اُترے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا...
"اتنی اچھی پارٹی ہاتھ سے نکل گئی امی پورے پچاس لاکھ دے رہے تھے وُہ گھر کے مگر پتا نہیں اچانک کیا ہوا سب کُچھ طے ہوجانے کے بعد جب آج قانونی کاروائی کرکے ایڈوانس لینا تھا تو اسٹیٹ ایجنٹ کال کرکے کہتا ہے کے اُن لوگوں نے گھر خریدنے سے انکار کردیا ہے.."
جنید نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا...
"تو کیا ہوا وُہ اکیلا تھوڑی ہوگا کوئی اور لے لے گا گھر کو اِس میں پریشانی والی کیا بات ہے..."
اطمینان سے کہا گیا...
"امی مگر ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے گھر بکنے میں کم سے کم مہینہ تو لگے گا اور یہاں گزرتا ہر دن کاروبار کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ورکرز کی بھی دو مہینے کی سیلری نہیں دی آرڈر پورا کرنے کے لئے بھی مال نہیں ہے کافی اور اگر ایسے میں ملازمین نے کام کرنے اسے انکار کردیا تو اِس گھر کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جو نقصان ہوگا وُہ اگر ہم دونوں گھر بھی بیچ دیں تب بھی پورا نہیں ہوسکے گا..."
جبار نے تاسف سے کہا...
"ہے تو پریشانی والی ہی بات مگر کُچھ نہ کُچھ تو کرنا۔ہوگا ناں.."
منیرہ نے پُر سوچ انداز میں کہا...
"میں دیکھتا ہوں کیا ہوسکتا ہے..."
جنید نے فون پر کسی کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے باہر نکل گیا جبکہ منیرہ کے چہرے پر فکروں کا جال تھا۔۔

____________________________________

دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔ وُہ ریلنگ سے کے پاس کھڑی کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اسی روح پرور نظاری سے محظوظ ہو رہی تھی وُہ اور احسن اکثر اسی طرح شام کی چائے چھت پر کھڑے غروبِ آفتاب کے حسین نظارے کو دیکھتے ہوئے پیتے تھے..
احسن اکثر ایک غزل اُسے سنایا کرتا تھا جو موقع کی مناسبت سے ہوتی تھی اور اُس کی پسندیدہ بھی اُس کے چہار سو ابھی بھی میٹھی میٹھی آواز بکھرنے لگی تھی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے احسن کی دلفریب آواز...

(محسن نقوی)
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

وُہ ہمیشہ مسکرا کر احسن سے کہتی تھی کس کے ہجر کی شام ہے آپ کی زندگی میں جس کی صبح ہی نہیں ہورہی..
"ارے بھئی ضروری تو نہیں انسان دِل جلا ہو تو ہی ایسی غزلیں سنتا ہو شوق تو کسی چیز کا بھی ہوسکتا ہے..."
وُہ اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہتا...

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

"مُجھے کیا پتا تھا یہ وقت مُجھ پر بھی آنا تھا میری زندگی آپ کے بغیر نامکمل ہے احسن میں آپ کے بغیر کُچھ نہیں میں صرف قابلِ رحم ہوں میں صرف ترس کھائے جانے کی حالت میں ہوں آپ کے بغیر میری کوئی حیثیت نہیں میں بے آسرا ہوں اور دربدر بھی کاش آپ نہیں جاتے میں کسی کو کُچھ نہیں کہہ سکتی مگر خود سے تو کہتی ہوں مُجھے بہت ضرورت ہے آپ کی آپ کے ساتھ کی آپ کے پیار کی مُجھے آپ کی بھوری آنکھوں میں پھر سے خود کا دیکھنا ہے مُجھے آپ کے ہونٹوں سے اپنا نام سننا ہے آپ کے لمس کو محسوس کرنا ہے آپ کی مسکراہٹ دیکھنی ہے، آپ کے چہرے کا اطمینان اپنے اندر اُتارنا ہے، کتنا عرصہ ہوا آپ نے میری تعریف نہیں کی مجھے اپنی تعریف سننے کی طمع ہے،، مگر میں جانتی ہوں اب یہ ممکن نہیں مگر میں کیا کروں میں تھکنے لگی ہوں میں ہار جاؤں اِس سے پہلے سنبھال لیں مُجھے خیالوں خوابوں میں ہو سہی پھر..."
اُس نے دِل گرفتگی سے خود سے کہا احسن اُس میں ہی تو زندہ تھا....

جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
___________________________________________

(جاری ہے)
نوٹ: اگلی قسط انشاللہ پرسوں آجائے گی  آدھی لکھی ہوئی ہے تھوڑی سی رہتی ہے۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro